باب: نبی کریم ﷺ کا فرمانا کہ اے ابراہیم! ہم تمہاری جدائی پر غمگین ہیں۔
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: The saying of the Prophet (pbuh): " Indeed we are grieved by your separation.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
´ابن عمر ؓ نے نبی کریم ﷺ سے نقل کیا کہ` (آپ ﷺنے فرمایا) آنکھ آنسو بہاتی ہیں اور دل غم سے نڈھال ہے۔
1303.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا:ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ابو سیف لوہار ؓ کے ہاں گئے جو حضرت ابراہیم ؓ کا رضاعی باپ تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابراہیم کو لے کر بوسہ دیا اور اس کےاوپر اپنا منہ رکھا۔ اس کے بعد ہم دوبارہ ابو سیف کے ہاں گئے تو حضرت ابراہیم ؓ حالت نزع میں تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی آنکھیں اشکبار ہوئیں۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول اللہ ﷺ !آپ بھی روتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’اے ابن عوف ؓ !یہ تو ایک رحمت ہے۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے روتے ہوئے فرمایا:’’آنکھ اشکبار اور دل غمزدہ ہے، لیکن ہم کو زبان سے وہی کہنا ہے جس سے ہمارا مالک راضی ہو۔ اے ابراہیم! ہم تیری جدائی سے یقیناً غمگین ہیں ۔‘‘ اس روایت کو موسیٰ نے سلیمان بن مغیرہ سے بھی بیان کیا ہے۔
تشریح:
(1) ابو سیف کا نام براء بن اوس انصاری ہے۔ ان کی بیوی ام بردہ خولہ بنت منذر نے حضرت ابراہیم ؓ کو دودھ پلایا۔ ان کی وفات 10 ربیع الاول 10 ہجری کو ہوئی جبکہ ان کی پیدائش ماہ ذوالحجہ 8 ہجری ہے، اس طرح وہ ڈیڑھ سال زندہ رہے۔ ان کی وفات پر رسول اللہ ﷺ کا آبدیدہ ہونا شفقت و رحمت کی وجہ سے تھا، جزع و فزع اس کی قطعا بنیاد نہ تھی۔ (2) اس سے معلوم ہوا کہ محض رونے میں کوئی حرج نہیں، جبکہ اس کے ساتھ واویلا نہ ہو، چنانچہ ایک روایت میں اس کی وضاحت ہے کہ مجھے دو آوازوں سے منع کیا گیا: ایک تو لہو و لعب اور موسیقی کے ساتھ گاتے ہوئے آواز نکالنا اور دوسرے مصیبت کے وقت رونا دھونا، منہ نوچنا اور گریبان پھاڑنا۔ رہا مصیبت کے وقت آبدیدہ ہونا تو یہ اللہ کی رحمت ہے۔ جو شخص ایسے حالات میں کسی پر رحم کا اظہار نہیں کرتا، اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ (فتح الباري: 222/3) موسیٰ بن اسماعیل تبوذ کی روایت کو امام بیہقی ؒ نے اپنی کتاب دلائل النبوۃ میں متصل سند سے بیان کیا ہے، لیکن اس کے الفاظ میں معمولی سا اختلاف ہے۔ (فتح الباري: 223/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1268
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1303
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1303
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1303
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
تمہید باب
اس سے مراد وہ حدیث ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے آئندہ باب میں بیان کیا ہے لیکن اس کے الفاظ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ آنکھوں سے آنسو بہانے اور دل کے پریشان ہونے سے عذاب نہیں دے گا، البتہ مذکورہ الفاظ اسی عنوان کے تحت پیش کردہ حدیث کے ہیں جسے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے۔ (فتح الباری: 3/221)
´ابن عمر ؓ نے نبی کریم ﷺ سے نقل کیا کہ` (آپ ﷺنے فرمایا) آنکھ آنسو بہاتی ہیں اور دل غم سے نڈھال ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا:ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ابو سیف لوہار ؓ کے ہاں گئے جو حضرت ابراہیم ؓ کا رضاعی باپ تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابراہیم کو لے کر بوسہ دیا اور اس کےاوپر اپنا منہ رکھا۔ اس کے بعد ہم دوبارہ ابو سیف کے ہاں گئے تو حضرت ابراہیم ؓ حالت نزع میں تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی آنکھیں اشکبار ہوئیں۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول اللہ ﷺ !آپ بھی روتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’اے ابن عوف ؓ !یہ تو ایک رحمت ہے۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے روتے ہوئے فرمایا:’’آنکھ اشکبار اور دل غمزدہ ہے، لیکن ہم کو زبان سے وہی کہنا ہے جس سے ہمارا مالک راضی ہو۔ اے ابراہیم! ہم تیری جدائی سے یقیناً غمگین ہیں ۔‘‘ اس روایت کو موسیٰ نے سلیمان بن مغیرہ سے بھی بیان کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ابو سیف کا نام براء بن اوس انصاری ہے۔ ان کی بیوی ام بردہ خولہ بنت منذر نے حضرت ابراہیم ؓ کو دودھ پلایا۔ ان کی وفات 10 ربیع الاول 10 ہجری کو ہوئی جبکہ ان کی پیدائش ماہ ذوالحجہ 8 ہجری ہے، اس طرح وہ ڈیڑھ سال زندہ رہے۔ ان کی وفات پر رسول اللہ ﷺ کا آبدیدہ ہونا شفقت و رحمت کی وجہ سے تھا، جزع و فزع اس کی قطعا بنیاد نہ تھی۔ (2) اس سے معلوم ہوا کہ محض رونے میں کوئی حرج نہیں، جبکہ اس کے ساتھ واویلا نہ ہو، چنانچہ ایک روایت میں اس کی وضاحت ہے کہ مجھے دو آوازوں سے منع کیا گیا: ایک تو لہو و لعب اور موسیقی کے ساتھ گاتے ہوئے آواز نکالنا اور دوسرے مصیبت کے وقت رونا دھونا، منہ نوچنا اور گریبان پھاڑنا۔ رہا مصیبت کے وقت آبدیدہ ہونا تو یہ اللہ کی رحمت ہے۔ جو شخص ایسے حالات میں کسی پر رحم کا اظہار نہیں کرتا، اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ (فتح الباري: 222/3) موسیٰ بن اسماعیل تبوذ کی روایت کو امام بیہقی ؒ نے اپنی کتاب دلائل النبوۃ میں متصل سند سے بیان کیا ہے، لیکن اس کے الفاظ میں معمولی سا اختلاف ہے۔ (فتح الباري: 223/3)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عمر ؓنے نبی ﷺسے بیا ن کیا کہ آپ نے فرمایا: "آنکھ اشکبار اور دل غمزدہ ہے۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے حسن بن عبد العزیز نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے یحیٰ بن حسان نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے قریش نے جو حیان کے بیٹے ہیں‘ نے بیان کیا‘ ان سے ثابت نے اور اور ان سے انس بن مالکؓ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ ابو سیف لوہار کے یہاں گئے۔ یہ ابراہیم (رسول اللہﷺ کے صاحبزادے ؓ ) کو دودھ پلانے والی انا کے خاوند تھے۔ آنحضورﷺ نے ابراہیمؓ کو گود میں لیا اور پیا کیا اور سونگھا۔ پھر اس کے بعد ہم ان کے یہاں پھر گئے۔ دیکھا کہ اس وقت ابراہیمؓ دم توڑ رہے ہیں۔ رسول اللہﷺ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں تو عبد الرحمن بن عوفؓ بول پڑے کہ یارسول اللہﷺ اور آپ بھی لوگوں کی طرح بے صبری کرنے لگے؟ حضور اکرمﷺ نے فرمایا‘ ابن عوف! یہ بے صبری نہیں یہ تو رحمت ہے۔ پھر آپﷺ دوبارہ روئے اور فرمایا۔ آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اور دل غم سے نڈھال ہے پر زبان سے ہم کہیں گے وہی جو ہمارے پروردگار کو پسند ہے اور اے ابراہیم! ہم تمہاری جدائی سے غمگین ہیں۔ اسی حدیث کو موسیٰ بن اسماعیل نے سلیمان بن مغیرہ سے‘ ان سے ثابت نے اور ان سے انسؓ نے نبی کریمﷺ سے روایت کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری ؒ یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ اس طرح سے آنکھوں سے آنسو نکل آئیں اور دل غمگین ہو اور زبان سے کوئی لفظ اللہ کی ناراضی کا نہ نکلے تو ایسا رونا بے صبری نہیں، بلکہ یہ آنسو رحمت ہیں اور یہ بھی ثابت ہوا کہ مرنے والے کو محبت آمیز لفظوں سے مخاطب کر کے اس کے حق میں کلمہ خیر کہنا درست ہے۔ آنحضرتﷺ کے یہ صاحبزادے ماریہ قبطیہؓ کے بطن سے پیدا ہوئے تھے جو مشیت ایزدی کے تحت حالت شیر خوارگی ہی میں انتقال کر گئے۔ رضي اللہ عنه وأرضاہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): We went with Allah's Apostle (ﷺ) to the blacksmith Abu Saif, and he was the husband of the wet-nurse of Ibrahim (the son of the Prophet). Allah's Apostle (ﷺ) took Ibrahim and kissed him and smelled him and later we entered Abu Saif's house and at that time Ibrahim was in his last breaths, and the eyes of Allah's Apostle (ﷺ) started shedding tears. 'Abdur Rahman bin 'Auf said, "O Allah's Apostle, even you are weeping!" He said, "O Ibn 'Auf, this is mercy." Then he wept more and said, "The eyes are shedding tears and the heart is grieved, and we will not say except what pleases our Lord, O Ibrahim ! Indeed we are grieved by your separation." ________