باب: جو شخص جنازہ کے ساتھ ہو وہ اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک جنازہ لوگوں کے کاندھوں سے اتار کر زمین پر نہ رکھ دیا جائے اور اگر پہلے بیٹھ جائے تو اس سے کھڑا ہونے کے لیے کہا جائے
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: Whoever accompanies a funeral procession should not sit till the coffin is put down)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1310.
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:’’جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جاؤاور جو شخص اس کے ہمراہ جا رہا ہو وہ نہ بیٹھے تاآنکہ اسے زمین پر رکھ دیا جائے۔‘‘
تشریح:
(1) جنازے کے لیے قیام کی یہ دوسری قسم ہے جسے امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں بیان کیا ہے کہ جنازے کے ہمراہ جانے والوں کے لیے کیا حکم ہے؟ امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں حدیث پیش کی ہے کہ جو جنازے میں شرکت کرے وہ اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک کہ جنازہ رکھ نہ دیا جائے۔ عنوان میں جنازہ رکھنے کو مقید کیا ہے کہ اسے لوگوں کے کندھوں سے اتار کر رکھ دیا جائے۔ گویا امام ؒ نے سنن ابی داود کی روایت کو ترجیح دی ہے جس کے الفاظ ہیں کہ جب تم جنازے کے پیچھے چلو تو اس وقت تک نہ بیٹھو تاآنکہ اسے زمین پر رکھ دیا جائے۔ (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3173) اگرچہ بعض روایات میں قبر میں رکھنے کا بھی ذکر ہے، لیکن امام ابو داود ؒ نے اس روایت کو مرجوح قرار دیا ہے، نیز راوی حدیث سہیل بن ابی صالح کا عمل بایں الفاظ بیان ہوا ہے کہ وہ اس وقت تک نہ بیٹھتے تھے جب تک جنازہ کندھوں سے اتار نہ دیا جاتا، یعنی اسے زمین پر رکھ دیا جاتا۔ دیگر روایات سے بھی اس موقف کی تائید ہوتی ہے۔ حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ہم نے کبھی رسول اللہ ﷺ کو نہیں دیکھا کہ آپ کسی جنازے میں شریک ہوں اور جنازہ رکھے جانے سے قبل بیٹھ گئے ہوں۔ (سنن النسائي، الجنائز، ص: 1919) (2) ہمارے نزدیک جنازے کے لیے قیام کی یہ دوسری قسم بھی منسوخ ہے، کیونکہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جنازوں کے ساتھ کھڑے رہتے جب تک انہیں رکھ نہ دیا جاتا اور آپ کے ساتھ لوگ بھی کھڑے رہتے، پھر اس کے بعد آپ نے بیٹھنا شروع کر دیا اور لوگوں کو بھی بیٹھنے کا حکم دیا۔ (السنن الکبریٰ للبیيقي: 27/4) اس کی وضاحت ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس وقت تک کھڑے رہتے جب تک جنازے کو لحد میں نہ رکھ دیا جاتا، پھر ایک یہودی عالم کا گزر ہوا تو اس نے کہا کہ اس طرح تو ہم کرتے ہیں، تب نبی ﷺ نے بیٹھنا شروع کر دیا اور فرمایا کہ تم بھی بیٹھا کرو اور ان کی مخالفت کرو۔ (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3167) علامہ البانی ؒ نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔ (أحکام الجنائز، حدیث: 77، 78)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1275
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1310
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1310
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1310
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:’’جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جاؤاور جو شخص اس کے ہمراہ جا رہا ہو وہ نہ بیٹھے تاآنکہ اسے زمین پر رکھ دیا جائے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) جنازے کے لیے قیام کی یہ دوسری قسم ہے جسے امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں بیان کیا ہے کہ جنازے کے ہمراہ جانے والوں کے لیے کیا حکم ہے؟ امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں حدیث پیش کی ہے کہ جو جنازے میں شرکت کرے وہ اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک کہ جنازہ رکھ نہ دیا جائے۔ عنوان میں جنازہ رکھنے کو مقید کیا ہے کہ اسے لوگوں کے کندھوں سے اتار کر رکھ دیا جائے۔ گویا امام ؒ نے سنن ابی داود کی روایت کو ترجیح دی ہے جس کے الفاظ ہیں کہ جب تم جنازے کے پیچھے چلو تو اس وقت تک نہ بیٹھو تاآنکہ اسے زمین پر رکھ دیا جائے۔ (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3173) اگرچہ بعض روایات میں قبر میں رکھنے کا بھی ذکر ہے، لیکن امام ابو داود ؒ نے اس روایت کو مرجوح قرار دیا ہے، نیز راوی حدیث سہیل بن ابی صالح کا عمل بایں الفاظ بیان ہوا ہے کہ وہ اس وقت تک نہ بیٹھتے تھے جب تک جنازہ کندھوں سے اتار نہ دیا جاتا، یعنی اسے زمین پر رکھ دیا جاتا۔ دیگر روایات سے بھی اس موقف کی تائید ہوتی ہے۔ حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ہم نے کبھی رسول اللہ ﷺ کو نہیں دیکھا کہ آپ کسی جنازے میں شریک ہوں اور جنازہ رکھے جانے سے قبل بیٹھ گئے ہوں۔ (سنن النسائي، الجنائز، ص: 1919) (2) ہمارے نزدیک جنازے کے لیے قیام کی یہ دوسری قسم بھی منسوخ ہے، کیونکہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جنازوں کے ساتھ کھڑے رہتے جب تک انہیں رکھ نہ دیا جاتا اور آپ کے ساتھ لوگ بھی کھڑے رہتے، پھر اس کے بعد آپ نے بیٹھنا شروع کر دیا اور لوگوں کو بھی بیٹھنے کا حکم دیا۔ (السنن الکبریٰ للبیيقي: 27/4) اس کی وضاحت ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس وقت تک کھڑے رہتے جب تک جنازے کو لحد میں نہ رکھ دیا جاتا، پھر ایک یہودی عالم کا گزر ہوا تو اس نے کہا کہ اس طرح تو ہم کرتے ہیں، تب نبی ﷺ نے بیٹھنا شروع کر دیا اور فرمایا کہ تم بھی بیٹھا کرو اور ان کی مخالفت کرو۔ (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3167) علامہ البانی ؒ نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔ (أحکام الجنائز، حدیث: 77، 78)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا‘ ان سے یحیٰی بن ابی کثیر نے‘ ان سے ابو سلمہ اور ان سے ابوسعید خدری ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب تم لوگ جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجاؤ اور جو شخص جنازہ کے ساتھ چل رہا ہو وہ اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک جنازہ رکھ نہ دیا جائے۔
حدیث حاشیہ:
اس بارے میں بہت کچھ بحث وتمحیص کے بعد شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ صاحب ؒ فرماتے ہیں: والقول الراجح عندي هو ما ذهب إليه الجمهور من أنه يستحب أن لا يجلس التابع والمشيع للجنازة حتى توضع بالأرض. وأن النهي في قوله: فلا يقعد، محمول على التنزيه. والله تعالى أعلم. ويدل على استحباب القيام إلى أن توضع ما رواه البيهقي۔(ص: 27ج:4)من طريق أبي حازم قال: مشيت مع أبي هريرة وابن عمر وابن الزبير والحسن بن علي أمام الجنازة حتى انتهينا إلى المقبرة، فقاموا حتى وضعت ثم جلسوا، فقلت لبعضهم، فقال: إن القائم مثل الحامل يعني في الأجر.(مرعاة‘ جلد: 2 ص: 471) یعنی میرے نزدیک قول راجح وہی ہے جدھر جمہور گئے ہیں اور وہ یہ کہ جنازہ کے ساتھ چلنے والوں اور اس کے رخصت کرنے والوں کے لیے مستحب ہے کہ وہ جب تک جنازہ زمین پر نہ رکھ دیا جائے نہ بیٹھیں اور حدیث میں نہ بیٹھنے کی نہی تنزیہی ہے اور اس قیام کے استحباب پر بیہقی کی وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جسے انہوں نے ابوحازم کی سند سے روایت کیا ہے کہ ہم حضرت ابوہریرہ اور عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر اور حسن بن علی ؓ کے ساتھ ایک جنازہ کے ہمراہ گئے۔ پس یہ جملہ حضرات کھڑے ہی رہے جب تک وہ جنازہ زمین پر نہ رکھ دیا گیا۔ اس کے بعد وہ سب بھی بیٹھ گئے۔ میں نے ان میں سے بعض سے مسئلہ پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ کھڑا رہنے والا بھی اسی کے مثل ہے جو خود جنازہ کو اٹھا رہا ہے یعنی ثواب میں یہ دونوں برابر ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id Al-Khudri(RA) The Prophet (ﷺ) said, "When you see a funeral procession, you should stand up, and whoever accompanies it should not sit till the coffin is put down."