Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: The rows for a funeral prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1319.
حضرت شعبی سی روایت ہے، انھوں نے کہا:مجھے اس شخص نے خبردی جو نبی ﷺ کے پاس موجود تھا کہ آپ ایک الگ تھلگ قبر پر تشریف لائے اور صحابہ ؓ کی صف بندی فرمائی۔ آپ نے چار تکبیریں کہیں۔ شیبانی کہتے ہیں:میں نے دریافت کیا:اے ابو عمروشعبی !تم سے کس نے بیان کیا؟ تو انھوں نے کہا:حضرت ابن عباس ؓ نے(یہ حدیث بیان کی تھی)
تشریح:
(1) پہلے عنوان میں یہ صراحت نہ تھی کہ دو صفوں سے زیادہ صفیں بھی بنائی جا سکتی ہیں، اس بنا پر وضاحت سے اس عنوان میں بتایا گیا ہے کہ دو صفوں سے زیادہ صفیں بنانا بھی جائز ہے، نیز عطاء ؒ کا موقف ہے کہ جنازے کے لیے صف بندی کی سرے سے ضرورت ہی نہیں، جیسا کہ مصنف عبدالرزاق میں اس کی تفصیل ہے۔ حضرت ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء سے دریافت کیا کہ جنازہ کے لیے نماز کی طرح صف بندی کرنا ضروری ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: اس کے لیے صف بندی کی ضرورت نہیں، بلکہ تکبیریں کہہ کر میت کے لیے دعائیں کرنا ہی کافی ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: امام بخاری ؒ نے عنوان میں لفظ صفوف لا کر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جنازے کے لیے تین صفیں بنانا مستحب ہے۔ اس کے لیے ایک صریح حدیث بھی ہے کہ جس جنازے میں کم از کم تین صفیں ہوں اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔ (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3166) ایک روایت میں ہے کہ اس میت کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ (فتح الباري: 239/3) لیکن حافظ ابن حجر ؒ نے جو حدیث پیش کی ہے اس میں محمد بن اسحاق نامی ایک راوی مدلس ہے، اس نے کسی روایت میں بھی تصریح سماع نہیں کی۔ اس بنا پر ایسی ضعیف روایت سے استحباب ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ (2) امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ احادیث میں مطابقت واضح نہیں، کیونکہ عنوان میں میت کے لیے جنازہ پڑھتے وقت صفیں باندھنے کا ذکر ہے، لیکن احادیث میں قبر پر یا غائبانہ جنازہ پڑھنے کا ذکر ہے۔ اس کا جواب علامہ کرمانی ؒ نے دیا ہے کہ جنازے سے مراد میت ہے، وہ مدفون ہو یا غیر مدفون، نیز جب غائبانہ نماز جنازہ کے لیے صفیں باندھی جاتی ہیں تو حاضر میت کے لیے بطریق اولیٰ صفیں باندھنا ہوں گی۔ وهو المقصود۔ اس لیے عنوان اور احادیث میں کوئی منافات نہیں۔ (فتح الباري: 239/3) (3) ان احادیث سے غائبانہ نماز جنازہ بھی ثابت ہوتا ہے، اگرچہ امام بخاری ؒ نے اس کے لیے الگ عنوان بندی نہیں کی۔ اسی طرح حضرت عمران بن حصین ؓ سے مروی ایک حدیث میں بھی اس کا ذکر ہے۔ (مسند أحمد: 431/4) بعض حضرات غائبانہ نمازِ جنازہ کو ناجائز قرار دیتے ہیں اور نجاشی کا جنازہ غائبانہ پڑھنا رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت کہتے ہیں کیونکہ بعض روایات میں ہے کہ نماز جنازہ پڑھتے وقت رسول اللہ ﷺ کے لیے زمین کے تمام پردے ہٹا دیے گئے تھے اور نجاشی کی میت آپ کے سامنے تھی، لیکن یہ روایت محض اوہام و خیالات میں سے ہے۔ اس کی کچھ حقیقت نہیں۔ (المجموع: 253/5) (4) بعض حضرات کا خیال ہے کہ اگر غائب شخص ایسے شہر میں فوت ہوا ہو جہاں اس کی نماز جنازہ نہ ادا کی گئی ہو تو پھر اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے، لیکن احادیث میں اس کی کوئی صراحت نہیں کہ نجاشی کی نماز جنازہ اس کے شہر میں نہیں پڑھی گئی تھی۔ (فتح الباري: 241/3) ہمارے نزدیک غائبانہ نماز جنازہ ہر ایک کے لیے مشروع نہیں۔ اگر کسی کی سیاسی، مذہبی، علمی یا سماجی خدمات ہوں تو اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے نجاشی کے علاوہ کسی اور صحابی کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا، حالانکہ متعدد صحابہ کرام ؓ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں مدینہ سے باہر فوت ہوئے ہیں۔ اس کی مزید وضاحت ہم شہید کی نماز جنازہ کے بیان میں کریں گے۔ إن شاءالله۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1283
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1319
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1319
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1319
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت شعبی سی روایت ہے، انھوں نے کہا:مجھے اس شخص نے خبردی جو نبی ﷺ کے پاس موجود تھا کہ آپ ایک الگ تھلگ قبر پر تشریف لائے اور صحابہ ؓ کی صف بندی فرمائی۔ آپ نے چار تکبیریں کہیں۔ شیبانی کہتے ہیں:میں نے دریافت کیا:اے ابو عمروشعبی !تم سے کس نے بیان کیا؟ تو انھوں نے کہا:حضرت ابن عباس ؓ نے(یہ حدیث بیان کی تھی)
حدیث حاشیہ:
(1) پہلے عنوان میں یہ صراحت نہ تھی کہ دو صفوں سے زیادہ صفیں بھی بنائی جا سکتی ہیں، اس بنا پر وضاحت سے اس عنوان میں بتایا گیا ہے کہ دو صفوں سے زیادہ صفیں بنانا بھی جائز ہے، نیز عطاء ؒ کا موقف ہے کہ جنازے کے لیے صف بندی کی سرے سے ضرورت ہی نہیں، جیسا کہ مصنف عبدالرزاق میں اس کی تفصیل ہے۔ حضرت ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء سے دریافت کیا کہ جنازہ کے لیے نماز کی طرح صف بندی کرنا ضروری ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: اس کے لیے صف بندی کی ضرورت نہیں، بلکہ تکبیریں کہہ کر میت کے لیے دعائیں کرنا ہی کافی ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: امام بخاری ؒ نے عنوان میں لفظ صفوف لا کر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جنازے کے لیے تین صفیں بنانا مستحب ہے۔ اس کے لیے ایک صریح حدیث بھی ہے کہ جس جنازے میں کم از کم تین صفیں ہوں اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔ (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3166) ایک روایت میں ہے کہ اس میت کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ (فتح الباري: 239/3) لیکن حافظ ابن حجر ؒ نے جو حدیث پیش کی ہے اس میں محمد بن اسحاق نامی ایک راوی مدلس ہے، اس نے کسی روایت میں بھی تصریح سماع نہیں کی۔ اس بنا پر ایسی ضعیف روایت سے استحباب ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ (2) امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ احادیث میں مطابقت واضح نہیں، کیونکہ عنوان میں میت کے لیے جنازہ پڑھتے وقت صفیں باندھنے کا ذکر ہے، لیکن احادیث میں قبر پر یا غائبانہ جنازہ پڑھنے کا ذکر ہے۔ اس کا جواب علامہ کرمانی ؒ نے دیا ہے کہ جنازے سے مراد میت ہے، وہ مدفون ہو یا غیر مدفون، نیز جب غائبانہ نماز جنازہ کے لیے صفیں باندھی جاتی ہیں تو حاضر میت کے لیے بطریق اولیٰ صفیں باندھنا ہوں گی۔ وهو المقصود۔ اس لیے عنوان اور احادیث میں کوئی منافات نہیں۔ (فتح الباري: 239/3) (3) ان احادیث سے غائبانہ نماز جنازہ بھی ثابت ہوتا ہے، اگرچہ امام بخاری ؒ نے اس کے لیے الگ عنوان بندی نہیں کی۔ اسی طرح حضرت عمران بن حصین ؓ سے مروی ایک حدیث میں بھی اس کا ذکر ہے۔ (مسند أحمد: 431/4) بعض حضرات غائبانہ نمازِ جنازہ کو ناجائز قرار دیتے ہیں اور نجاشی کا جنازہ غائبانہ پڑھنا رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت کہتے ہیں کیونکہ بعض روایات میں ہے کہ نماز جنازہ پڑھتے وقت رسول اللہ ﷺ کے لیے زمین کے تمام پردے ہٹا دیے گئے تھے اور نجاشی کی میت آپ کے سامنے تھی، لیکن یہ روایت محض اوہام و خیالات میں سے ہے۔ اس کی کچھ حقیقت نہیں۔ (المجموع: 253/5) (4) بعض حضرات کا خیال ہے کہ اگر غائب شخص ایسے شہر میں فوت ہوا ہو جہاں اس کی نماز جنازہ نہ ادا کی گئی ہو تو پھر اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے، لیکن احادیث میں اس کی کوئی صراحت نہیں کہ نجاشی کی نماز جنازہ اس کے شہر میں نہیں پڑھی گئی تھی۔ (فتح الباري: 241/3) ہمارے نزدیک غائبانہ نماز جنازہ ہر ایک کے لیے مشروع نہیں۔ اگر کسی کی سیاسی، مذہبی، علمی یا سماجی خدمات ہوں تو اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے نجاشی کے علاوہ کسی اور صحابی کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا، حالانکہ متعدد صحابہ کرام ؓ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں مدینہ سے باہر فوت ہوئے ہیں۔ اس کی مزید وضاحت ہم شہید کی نماز جنازہ کے بیان میں کریں گے۔ إن شاءالله۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے شیبانی نے‘ ان سے شعبی نے بیان کیا کہ مجھے نبی کریم ﷺ کے ایک صحابی نے خبر دی کہ آنحضور ﷺ ایک قبر پر آئے جو اور قبروں سے الگ تھلگ تھی۔ صحابہ نے صف بندی کی اور آپ ﷺ نے چار تکبیریں کہیں۔ میں نے پوچھا کہ یہ حدیث آپ سے کس نے بیان کی ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ابن عباس ؓ نے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ash-Shaibani (RA): Ash Sha'bi said, "I was informed by a man who had seen the Prophet (ﷺ) going to a grave that was separate from the other graves and he aligned the people in rows and said four Takbir." I said, "O Abu 'Amr! who narrated (that) to you"? He said, " Ibn Abbas (RA) . "