Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: What is disliked of establishing places of worship (mosques) over the graves,)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور جب حسن بن حسن بن علی ؓ فوت ہوئے تو ان کی بیوی (فاطمہ بنت حسین) نے ایک سال تک قبر پر خیمہ لگائے رکھا۔ آخر خیمہ اٹھایا گیا تو لوگوں نے ایک آواز سنی ”کیا ان لوگوں نے جن کو کھویا تھا ‘ ان کو پایا؟ دوسرے نے جواب دیا نہیں بلکہ ناامید ہو کر لوٹ گئے“۔
1330.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے اپنی مرض وفات میں فرمایا:’’اللہ تعالیٰ یہودو نصاری پر لعنت کرے کہ انھوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں :اگر یہ ڈر نہ ہوتا تو آپ کی قبر مبارک کو بالکل ظاہر کردیا جا تا مگر مجھے اندیشہ ہے کہ مبادا اسے بھی سجدہ گاہ بنا لیا جائے۔
تشریح:
اس حدیث کا تقاضا ہے کہ قبر کو سجدہ گاہ بنانا منع ہے جبکہ عنوان کا حاصل یہ ہے کہ قبر پر مسجد بنانا حرام ہے۔ ان دونوں کے درمیان تغایر ہے، لیکن یہ دونوں مفہوم لازم و ملزوم ہیں، اس لیے ان میں تغایر کی کوئی حیثیت نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ میری قبر کو عید مت بنانا۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:2042) عید بنانے سے مراد یہ ہے کہ معین اوقات اور معروف موسموں میں عبادت کے لیے قبر کے پاس جانا اور وہاں جشن کا سا سماں پیدا کرنا۔ اس خطرے کے پیش نظر رسول اللہ ﷺ کو حضرت عائشہ ؓ کے گھر میں دفن کیا گیا ہے اور آپ کی قبر کو کھلا نہیں رکھا گیا۔ جب مسجد کی توسیع کی گئی اور حجرہ شریف کو مسجد میں شامل کر دیا گیا تو حجرہ شریف کو مثلث، یعنی تکونی شکل میں بنا دیا گیا تاکہ استقبال کی صورت میں قبر کی طرف سجدہ نہ ہو۔ چونکہ رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک روئے زمین کی تمام قبروں سے افضل ہے، جب اسے عید بنانے سے منع کر دیا گیا ہے تو دوسری کسی بھی قبر کو عید بنانا بالاولی ممنوع ہوا، لیکن افسوس کہ آج کا نام نہاد مسلمان اس فرمان نبوی کی کھل کر مخالفت کر رہا ہے۔ أعاذنا الله منه۔ اللہ کا شکر ہے کہ حکومت سعودیہ نے ابھی تک اس پر کنٹرول کر رکھا ہے۔ زادها الله عزا و شرفا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1293
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1330
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1330
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1330
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
تمہید باب
فوت ہونے والے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے بیٹے تھے۔ ان کا نام بھی حسن تھا۔ ان کی بیوی کا نام فاطمہ بنت حسین ہے جو ان کے چچا کی بیٹی تھی۔ اس نے اپنے شوہر نامدار کی وفات کے بعد ان کی قبر پر ایک سال تک خیمہ لگائے رکھا تاکہ اپنے بے قرار دل کو تسلی دے سکے لیکن کچھ حاصل نہ ہوا جیسا کہ ہاتف غیب سے آنے والی آواز سے معلوم ہوتا ہے۔ اس اثر کی مناسبت اس طرح ہے کہ خیمے میں مقیم وہاں نماز تو پڑھتی ہو گی جسے مستحسن قرار نہیں دیا گیا۔ اسے امام بخاری رحمہ اللہ نے دلیل کے طور پر نہیں پیش کیا بلکہ شرعی دلائل کے مطابق ہونے کی وجہ سے اسے ذکر کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ آواز دینے والے فرشتے یا اہل ایمان جن تھے۔ (فتح الباری:3/255)والله أعلم
اور جب حسن بن حسن بن علی ؓ فوت ہوئے تو ان کی بیوی (فاطمہ بنت حسین) نے ایک سال تک قبر پر خیمہ لگائے رکھا۔ آخر خیمہ اٹھایا گیا تو لوگوں نے ایک آواز سنی ”کیا ان لوگوں نے جن کو کھویا تھا ‘ ان کو پایا؟ دوسرے نے جواب دیا نہیں بلکہ ناامید ہو کر لوٹ گئے“۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے اپنی مرض وفات میں فرمایا:’’اللہ تعالیٰ یہودو نصاری پر لعنت کرے کہ انھوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں :اگر یہ ڈر نہ ہوتا تو آپ کی قبر مبارک کو بالکل ظاہر کردیا جا تا مگر مجھے اندیشہ ہے کہ مبادا اسے بھی سجدہ گاہ بنا لیا جائے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کا تقاضا ہے کہ قبر کو سجدہ گاہ بنانا منع ہے جبکہ عنوان کا حاصل یہ ہے کہ قبر پر مسجد بنانا حرام ہے۔ ان دونوں کے درمیان تغایر ہے، لیکن یہ دونوں مفہوم لازم و ملزوم ہیں، اس لیے ان میں تغایر کی کوئی حیثیت نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ میری قبر کو عید مت بنانا۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:2042) عید بنانے سے مراد یہ ہے کہ معین اوقات اور معروف موسموں میں عبادت کے لیے قبر کے پاس جانا اور وہاں جشن کا سا سماں پیدا کرنا۔ اس خطرے کے پیش نظر رسول اللہ ﷺ کو حضرت عائشہ ؓ کے گھر میں دفن کیا گیا ہے اور آپ کی قبر کو کھلا نہیں رکھا گیا۔ جب مسجد کی توسیع کی گئی اور حجرہ شریف کو مسجد میں شامل کر دیا گیا تو حجرہ شریف کو مثلث، یعنی تکونی شکل میں بنا دیا گیا تاکہ استقبال کی صورت میں قبر کی طرف سجدہ نہ ہو۔ چونکہ رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک روئے زمین کی تمام قبروں سے افضل ہے، جب اسے عید بنانے سے منع کر دیا گیا ہے تو دوسری کسی بھی قبر کو عید بنانا بالاولی ممنوع ہوا، لیکن افسوس کہ آج کا نام نہاد مسلمان اس فرمان نبوی کی کھل کر مخالفت کر رہا ہے۔ أعاذنا الله منه۔ اللہ کا شکر ہے کہ حکومت سعودیہ نے ابھی تک اس پر کنٹرول کر رکھا ہے۔ زادها الله عزا و شرفا۔
ترجمۃ الباب:
جب حضرت علیؓ کے پوتے حضرت حسن بن حسن فوت ہوئے تو ان کی بیوی نے ایک سال ان کی قبر پر خیمہ لگائے رکھا۔ جب اسے اٹھا لیا گیا تو لوگوں نے ہاتف غیب سے یہ آواز سنی: کیا انھوں نے اپنی گم شدہ چیز کو پالیا؟ایک دوسری آواز سنائی : نہیں بلکہ مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا‘ ان سے شیبان نے‘ ان سے ہلال وزان نے‘ ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے مرض وفات میں فرمایا کہ یہود اور نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہوکہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنالیا۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ اگر ایسا ڈر نہ ہوتا تو آپ کی قبر کھلی رہتی ( اور حجرہ میں نہ ہوتی ) کیونکہ مجھے ڈر اس کا ہے کہ کہیں آپ کی قبر بھی مسجد نہ بنالی جائے۔
حدیث حاشیہ:
یعنی خود قبروں کو پوجنے لگے یا قبروں پر مسجد اور گرجا بناکر وہاں خدا کی عبادت کرنے لگے۔ توباب کی مطابقت حاصل ہوگئی۔ امام ابن قیم نے کہا جو لوگ قبروں پر وقت معین میں جمع ہوتے ہیں وہ بھی گویا قبر کو مسجد بناتے ہیں۔ دوسری حدیث میں ہے میری قبر کو عید نہ کرلینا، یعنی عید کی طرح وہاں میلہ اور مجمع نہ کرنا۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ بھی ان یہودیوں اور نصرانیوں کے پیرو ہیں جن پر آنحضرت ﷺ نے لعنت فرمائی۔ افسوس! ہمارے زمانے میں گور پرستی ایسی شائع ہورہی ہے کہ یہ نام کے مسلمان خدا اور رسول سے ذرا بھی نہیں شرماتے‘ قبروں کو اس قدر پختہ شاندار بناتے ہیں کہ ان کی عمارات کو دیکھ کر مساجد کا شبہ ہوتا ہے۔ حالانکہ آنحضرت ﷺ نے سختی کے ساتھ قبروں پر ایسی تعمیرات کے لیے منع فرمایا ہے۔ حضرت علی ؓ نے ابوہیاج اسدی کو کہا تھا: أبعثك علی ما بعثني علیه رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم لا تدع تمثالا إلا طمسته ولا قبرا مشرفا إلاسویته۔رواہ الجماعة إلا البخاري وابن ماجة۔یعنی کیا میں تم کو اس خدمت کے لیے نہ بھیجوں جس کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا۔ وہ یہ کہ کوئی مورت ایسی نہ چھوڑ جسے تو مٹا نہ دے اور کوئی اونچی قبر نہ رہے جسے تو برابر نہ کردے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قبروں کا حد سے زیادہ اونچا اور بلند کرنا بھی شارع کو ناپسند ہے۔ علامہ شوکانی ؒ فرماتے ہیں۔ فیه أن السنة أن القبر لا یرفع رفعا کثیرا من غیر فرق بین من کان فاضلا ومن کان غیر فاضل والظاهر أن رفع القبور زیادة علی القدر المأذون حرام۔ یعنی سنت یہی ہے کہ قبر کو حد شرعی سے زیادہ بلندنہ بنایا جائے خواہ وہ کسی فاضل عالم صوفی کی ہویا کسی غیر فاضل کی اور ظاہر ہے کہ شرعی اجازت سے زیادہ قبروں کو اونچا کرنا حرام ہے۔ آگے علامہ فرماتے ہیں: وَمِنْ رَفْعِ الْقُبُورِ الدَّاخِلِ تَحْتَ الْحَدِيثِ دُخُولًا أَوَّلِيَّا الْقُبَبُ وَالْمَشَاهِدُ الْمَعْمُورَةُ عَلَى الْقُبُورِ، وَأَيْضًا هُوَ مِنْ اتِّخَاذِ الْقُبُورِ مَسَاجِدَ، وَقَدْ لَعَنَ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَاعِلَ ذَلِكَ كَمَا سَيَأْتِي، وَكَمْ قَدْ سَرَى عَنْ تَشْيِيدِ أَبْنِيَةِ الْقُبُورِ وَتَحْسِينِهَا مِنْ مَفَاسِدَ يَبْكِي لَهَا الْإِسْلَامُ، مِنْهَا اعْتِقَادُ الْجَهَلَةِ لَهَا كَاعْتِقَادِ الْكُفَّارِ لِلْأَصْنَامِ: وَعَظُمَ ذَلِكَ فَظَنُّوا أَنَّهَا قَادِرَةٌ عَلَى جَلْبِ النَّفْعِ وَدَفْعِ الضَّرَرِ فَجَعَلُوهَا مَقْصِدًا لِطَلَبِ قَضَاءِ الْحَوَائِجِ وَمَلْجَأً لِنَجَاحِ الْمَطَالِبِ وَسَأَلُوا مِنْهَا مَا يَسْأَلُهُ الْعِبَادُ مِنْ رَبِّهِمْ، وَشَدُّوا إلَيْهَا الرِّحَالَ وَتَمَسَّحُوا بِهَا وَاسْتَغَاثُوا وَبِالْجُمْلَةِ إنَّهُمْ لَمْ يَدَعُوا شَيْئًا مِمَّا كَانَتْ الْجَاهِلِيَّةُ تَفْعَلُهُ بِالْأَصْنَامِ إلَّا فَعَلُوهُ، فَإِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إلَيْهِ رَاجِعُونَ. وَمَعَ هَذَا الْمُنْكَرِ الشَّنِيعِ وَالْكُفْرِ الْفَظِيعِ لَا تَجِدُ مَنْ يَغْضَبُ لِلَّهِ وَيَغَارُ حَمِيَّةً لِلدِّينِ الْحَنِيفِ لَا عَالِمًا وَلَا مُتَعَلِّمًا وَلَا أَمِيرًا وَلَا وَزِيرًا وَلَا مَلِكًا، وَقَدْ تَوَارَدَ إلَيْنَا مِنْ الْأَخْبَارِ مَا لَا يُشَكُّ مَعَهُ أَنَّ كَثِيرًا مِنْ هَؤُلَاءِ الْمَقْبُورِينَ أَوْ أَكْثَرِهِمْ إذَا تَوَجَّهَتْ عَلَيْهِ يَمِينٌ مِنْ جِهَةِ خَصْمِهِ حَلَفَ بِاَللَّهِ فَاجِرًا، فَإِذَا قِيلَ لَهُ بَعْدَ ذَلِكَ: احْلِفْ بِشَيْخِك وَمُعْتَقَدِكَ الْوَلِيِّ الْفُلَانِيِّ تَلَعْثَمَ وَتَلَكَّأَ وَأَبَى وَاعْتَرَفَ بِالْحَقِّ. وَهَذَا مِنْ أَبْيَنِ الْأَدِلَّةِ الدَّالَّةِ عَلَى أَنَّ شِرْكَهُمْ قَدْ بَلَغَ فَوْقَ شِرْكِ مَنْ قَالَ: إنَّهُ تَعَالَى ثَانِيَ اثْنَيْنِ أَوْ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ، فَيَا عُلَمَاءَ الدِّينِ وَيَا مُلُوكَ الْمُسْلِمِينَ، أَيُّ رُزْءٍ لِلْإِسْلَامِ أَشَدُّ مِنْ الْكُفْرِ، وَأَيُّ بَلَاءٍ لِهَذَا الدِّينِ أَضَرُّ عَلَيْهِ مِنْ عِبَادَةِ غَيْرِ اللَّهِ؟ وَأَيُّ مُصِيبَةٍ يُصَابُ بِهَا الْمُسْلِمُونَ تَعْدِلُ هَذِهِ الْمُصِيبَةَ؟ وَأَيُّ مُنْكَرٍ يَجِبُ إنْكَارُهُ إنْ لَمْ يَكُنْ إنْكَارُ هَذَا الشِّرْكِ الْبَيِّنِ وَاجِبًا: لَقَدْ أَسْمَعْت لَوْ نَادَيْتَ حَيًّا ... وَلَكِنْ لَا حَيَاةَ لِمَنْ تُنَادِي وَلَوْ نَارًا نَفَخْت بِهَا أَضَاءَتْ ... وَلَكِنْ أَنْتَ تَنْفُخُ فِي رَمَادِ.(نیل الأوطار، ج:4ص: 90)
یعنی بزرگوں کی قبروں پر بنائی ہوئی عمارات، قبے اور زیارت گاہیں یہ سب اس حدیث کے تحت داخل ہونے کی وجہ سے قطعاً ناجائز ہیں۔ یہی قبروں کو مساجد بنانا ہے جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے اور ان قبور کے پختہ بنانے اور ان پر عمارات کو مزین کرنے سے اس قدر مفاسد پیدا ہورہے ہیں کہ آج ان پر اسلام رو رہا ہے۔ ان میں سے مثلاً یہ کہ ایسے مزاروں کے بارے میں جاہل لوگ وہی اعتقادات رکھتے ہیں جو کفار بتوں کے بارے میں رکھتے ہیں بلکہ ان سے بھی بڑھ کر۔ ایسے جاہل ان قبور والوں کو نفع دینے والے اور نقصان دور کرنے والے تصور کرتے ہیں۔ اس لیے ان سے حاجات طلب کرتے ہیں۔ اپنی مرادیں ان کے سامنے رکھتے ہیں اور ان سے ایسے ہی دعائیں کرتے ہیں جیسے بندگان خدا کو خدا سے دعائیں کرنی چاہئیں۔ ان مزرات کی طرف کجاوے باندھ باندھ کر سفر کرتے ہیں اور وہاں جاکر ان قبروں کو مسح کرتے ہیں اور ان سے فریاد رسی چاہتے ہیں۔ مختصر یہ کہ جاہلیت میں جو کچھ بتوں کے ساتھ کیا جاتا تھا وہ سب کچھ ان قبروں کے ساتھ ہورہا ہے۔ إنا للہ وإناإلیه راجعون۔ اور اس کھلے ہوئے بدترین کفر ہونے کے باوجود ہم کسی بھی اللہ کے بندے کو نہیں پاتے جو اللہ کے لیے اس پر غصہ کرے اور دین حنیف کی کچھ غیرت اس کو آئے۔ عالم ہوں یا متعلم‘ امیرہوں یا وزیر یا بادشاہ‘ اس بارے میں سب خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ سنا گیا ہے کہ یہ قبرپرست دشمن کے سامنے اللہ کی جھوٹی قسم کھاجاتے ہیں۔ مگر اپنے پیروں مشائخ کی جھوٹی قسموں کے وقت ان کی زبانیں لڑکھڑانے لگ جاتی ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ ان کا شرک ان لوگوں سے بھی آگے بڑھا ہوا ہے جو وہ خدا یا تین خدا مانتے ہیں۔ پس اے دین کے عالمو! اور مسلمانوں کے بادشاہو! اسلام کے لیے ایسے کفر سے بڑھ کر اور مصیبت کیا ہوگی اور غیر اللہ کی پرستش سے بڑھ کر دین اسلام کے لیے اور نقصان کی چیز کیا ہوگی اور مسلمان اس سے بھی بڑھ کر اور کس مصیبت کا شکار ہوں گے اور اگر اس کھلے ہوئے شرک کے خلاف ہی آواز انکار بلند نہ کی جاسکی تو اور کونسا گناہ ہوگا جس کے لیے زبانیں کھل سکیں گی۔ کسی شاعر نے سچ کہا ہے۔ ’’اگر تو زندوں کو پکارتا تو سنا سکتا تھا۔ مگر جن ( مردوں ) کو تو پکار رہا ہے وہ تو زندگی سے قطعاً محروم ہیں۔ اگر تم آگ میں پھونک مارتے تو وہ روشن ہوتی لیکن تم راکھ میں پھونک مار رہے ہو جو کبھی بھی روشن نہیں ہوسکتی۔‘‘ خلاصہ یہ کہ ایسی قبور اور ایسے مزارات اور ان پر یہ عرس‘ قوالیاں‘ میلے ٹھیلے‘ گانے بجانے قطعاً حرام اور شرک اور کفر ہیں۔ اللہ ہر مسلمان کو شرک جلی اور خفی سے بچائے۔ آمین حدیث علی ؓ کے ذیل میں حجتہ الہند حضرت شاہ ولی اللہ مرحوم فرماتے ہیں: ونهي أن یجصص القبر وأن یبنی علیه وأن یقعد علیه وقال لا تصلوا إلیها لأن ذلك ذریعة أن یتخذها الناس معبودا وأن یفرطوا في تعظمها بما لیس بحق فیحرفوا دینهم کما فعل أهل الکتاب وهو قوله صلی اللہ علیه وسلم لعن اللہ الیھود والنصاریٰ اتخذوا قبور أنبیاءهم مساجد الخ۔(حجة اللہ البالغة، ج: 2ص:126 کراتشي)اور قبر کو پختہ کرنے اور اس پر عمارت بنانے اور اس پر بیٹھنے سے منع فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ قبروں کی طرف نماز نہ پڑھو، کیونکہ یہ اس بات کا ذریعہ ہے کہ لوگ قبروں کی پرستش کرنے لگیں اور لوگ ان قبروں کی اتنی زیادہ تعظیم کرنے لگیں جس کی وہ مستحق نہیں ہیں۔ پس لوگ اپنے دین میں تحریف کرڈالیں، جیسا کہ اہل کتاب نے کیا۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہود اور نصاریٰ پر خدا کی لعنت ہو۔ انہوں نے اپنے انبیاءکی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔ پس حق یہ ہے کہ توسط اختیار کرے۔ نہ تو مردہ کی اس قدر تعظیم کرے کہ وہ شرک ہوجائے اور نہ اس کی اہانت اور اس کے ساتھ عداوت کرے کہ مرنے کے بعد اب یہ سارے معاملات ختم کرکے مرنے والا اللہ کے حوالہ ہوچکا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Urwa (RA): Aisha said, "The Prophet (ﷺ) in his fatal illness said, 'Allah cursed the Jews and the Christians because they took the graves of their Prophets as places for praying."' Aisha (RA) added, "Had it not been for that the grave of the Prophet (ﷺ) would have been made prominent but I am afraid it might be taken (as a) place for praying. ________