Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: The burial of two or three men in one grave)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1345.
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ شہدائے اُحد کے دودوآدمیوں کو جمع کرتے تھے۔
تشریح:
(1) دو آدمیوں کو جمع کرنا قبر میں ہے یا کفن میں، اگر کفن میں جمع کرنا ہے تو اس سے لازم ہے کہ قبر میں اکٹھے دفن ہوں۔ حدیث میں دو آدمیوں کو جمع کرنے کا ذکر ہے جبکہ عنوان میں تین آدمیوں کا بھی ذکر ہے، چنانچہ امام بخاری ؒ نے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ دو اور تین آدمیوں کو ایک ہی قبر میں دفن کرتے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ اُحد کے دن انصار رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ ہم تو زخموں سے چور ہیں اور بہت مشقت ہو رہی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’قبروں کو گہرا اور وسیع کرو پھر دو یا تین آدمی ایک قبر میں دفن کرو۔‘‘(سنن أبي داود، الجنائز، حدیث:3215) (2) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ بوقت ضرورت دو عورتوں کو بھی ایک قبر میں جمع کیا جا سکتا ہے، اسی طرح مرد اور عورت کو بھی ایک ساتھ دفن کیا جا سکتا ہے، اس صورت میں آدمی کو آگے اور عورت کو اس کے پیچھے رکھا جائے، نیز درمیان میں مٹی وغیرہ سے رکاوٹ کھڑی کر دی جائے، خصوصا جبکہ مرد اور عورت باہم اجنبی ہوں۔ (فتح الباري:270/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1308
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1345
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1345
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1345
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ شہدائے اُحد کے دودوآدمیوں کو جمع کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) دو آدمیوں کو جمع کرنا قبر میں ہے یا کفن میں، اگر کفن میں جمع کرنا ہے تو اس سے لازم ہے کہ قبر میں اکٹھے دفن ہوں۔ حدیث میں دو آدمیوں کو جمع کرنے کا ذکر ہے جبکہ عنوان میں تین آدمیوں کا بھی ذکر ہے، چنانچہ امام بخاری ؒ نے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ دو اور تین آدمیوں کو ایک ہی قبر میں دفن کرتے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ اُحد کے دن انصار رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ ہم تو زخموں سے چور ہیں اور بہت مشقت ہو رہی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’قبروں کو گہرا اور وسیع کرو پھر دو یا تین آدمی ایک قبر میں دفن کرو۔‘‘(سنن أبي داود، الجنائز، حدیث:3215) (2) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ بوقت ضرورت دو عورتوں کو بھی ایک قبر میں جمع کیا جا سکتا ہے، اسی طرح مرد اور عورت کو بھی ایک ساتھ دفن کیا جا سکتا ہے، اس صورت میں آدمی کو آگے اور عورت کو اس کے پیچھے رکھا جائے، نیز درمیان میں مٹی وغیرہ سے رکاوٹ کھڑی کر دی جائے، خصوصا جبکہ مرد اور عورت باہم اجنبی ہوں۔ (فتح الباري:270/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سعید بن سلیمان نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا۔ ان سے عبدالرحمن بن کعب نے کہ جابر بن عبداللہ ؓ نے انہیں خبر دی کہ نبی کریم ﷺ نے احد کے دو دو شہیدوں کو دفن کرنے میں ایک ساتھ جمع فرمایا تھا۔
حدیث حاشیہ:
حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin 'Abdullah : The Prophet (ﷺ) buried every two martyrs in of Uhud in one grave.