باب: ایک بچہ اسلام لایا پھر اس کا انتقال ہو گیا، تو کیا اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی؟ اور کیا بچے کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی جا سکتی ہے؟
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: If a boy becomes a Muslim and then dies, should a funeral prayer be offered for him? Should Islam be explained to a boy?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حسن ‘ شریح ‘ ابراہیم اور قتادہ رحمہم اللہ نے کہا کہ والدین میں سے جب کوئی اسلام لائے تو ان کا بچہ بھی مسلمان سمجھا جائے گا۔ ابن عباسؓ بھی اپنی والدہ کے ساتھ (مسلمان سمجھے گئے تھے اور مکہ کے) کمزور مسلمانوں میں سے تھے۔ آپ اپنے والد کے ساتھ نہیں تھے جو ابھی تک اپنی قوم کے دین پر قائم تھے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اسلام غالب رہتا ہے مغلوب نہیں ہو سکتا۔حسن ‘ شریح ‘ ابراہیم اور قتادہ نے کہا کہ والدین میں سے جب کوئی اسلام لائے تو ان کا بچہ بھی مسلمان سمجھا جائے گا۔ ابن عباس ؓ بھی اپنی والدہ کے ساتھ (مسلمان سمجھے گئے تھے اور مکہ کے) کمزور مسلمانوں میں سے تھے۔ آپ اپنے والد کے ساتھ نہیں تھے جو ابھی تک اپنی قوم کے دین پر قائم تھے۔ نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے کہ اسلام غالب رہتا ہے مغلوب نہیں ہو سکتا۔
1354.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نبی کریم ﷺ کے ساتھ دیگر چند لوگوں کی معیت میں ابن صیاد کے پاس گئے، یہاں تک کہ انھوں نے اسے بنو مغالہ کی گڑھیوں کے قریب کچھ لڑکوں کے ساتھ کھیلتا ہوا پایا۔ ابن صیاد اس وقت قریب البلوغ تھا۔ اسے نبی ﷺ کی آمد کا علم نہ ہواحتیٰ کہ آپ نے اپنے دست مبارک سے اسے مارا، پھر ابن صیاد سے فرمایا:’’کیا تو اس بات کی گواہ دیتا ہے کہ میں اللہ کارسول( ﷺ ) ہوں؟‘‘ اس نے آپ کو دیکھاتو کہنے لگا:میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ان پڑھ لوگوں کے رسول ( ﷺ ) ہیں۔ پھر ابن صیاد نے نبی کریم ﷺ سے کہا:آپ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ میں بھی اللہ کا فرستادہ ہوں؟آپ یہ بات سن کر اس سے الگ ہوگئے اور فرمایا:’’میں اللہ اور اسکے رسولوں پر ایمان لاتا ہوں۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے اس سے پوچھا کہ تو کیادیکھتا ہے؟ابن صیاد بولا:میرے پاس سچی جھوٹی دونوں خبریں آتی ہیں۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’تجھ پر معاملہ مشتبہ کردیا گیاہے۔‘‘ پھر نبی کریم ﷺ نے اسے فرمایا:’’میں نے تیرے لیے ایک بات اپنے دل میں سوچی ہے(بتا وہ کیا ہے؟)‘‘ ابن صیاد بولا:وہ "دخ" ہے۔ آپ نے فرمایا:’’تو دفع ہوجا، اپنی بساط سے کبھی آگے نہیں بڑھ سکے گا۔‘‘ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا اللہ کے رسول ﷺ !مجھے اجازت دیں، میں اس کی گردن اڑا دوں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’اگر یہ وہی (دجال) ہے تو تم اس پر قابو نہیں پاسکتے اور اگر وہ نہیں تو پھر اس کے قتل کرنے میں کوئی فائدہ نہیں۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1317
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1354
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1354
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1354
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
تمہید باب
اس عنوان کے دو جز ہیں: (1) کیا بچے کا اسلام لانا صحیح ہے اور اس کا اعتبار ہو گا یا نہیں؟ اگر صحیح ہے تو اس کا جنازہ پڑھنا بھی صحیح ہے۔ اگر اس کے اسلام کا اعتبار نہیں تو اس کی نماز جنازہ بھی صحیح نہیں ہو گی۔ ٭ کیا اسے دعوت اسلام دینا صحیح ہے؟ اس مقام پر دوسرا جز خبر و استفہام کے انداز سے ہے جبکہ کتاب الجہاد میں ایک عنوان بایں الفاظ ہے کہ بچے پر اسلام کیسے پیش کیا جائے؟ (صحیح البخاری،الجھادوالسیر،باب:178) گویا اسے دعوت اسلام دی جا سکتی ہے لیکن طریقہ کار کے متعلق وضاحت کی گئی ہے۔ (فتح الباری:3/279) ہمارے نزدیک بچے کا اسلام معتبر ہے جیسا کہ حضرت علی اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم بچپن ہی میں مسلمان ہو گئے تھے۔ لیکن بچے کے ارتداد کا اعتبار نہیں ہو گا۔ اس کے اسلام کے متعلق اعتبار یا عدم اعتبار اس صورت میں ہے جب اس کے والدین کافر ہوں۔ اگر وہ دونوں مسلمان ہیں تو اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ واضح رہے کہ غزوہ خندق سے پہلے احکام اسلام اچھے اور برے کی تمیز پر لاگو ہوتے تھے، اس کے بعد احکام اسلام کا دارومدار اس کے بلوغ کو قرار دیا گیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ بچے کا اسلام صحیح ہے اور اس کا اعتبار کیا جائے گا جیسا کہ پیش کردہ آثار و احادیث سے معلوم ہوتا ہے، البتہ امام شافعی کا مسلک اس کے خلاف ہے۔ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کے اثر کو امام بیہقی نے، ابراہیم نخعی کے اثر کو امام عبدالرزاق نے، قاضی شریح کے اثر کو بھی امام بیہقی نے اور قتادہ کے اثر کو امام عبدالرزاق نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباری:3/279) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے متعلق معلق روایت کو خود امام بخاری رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے کہ میں اور میری والدہ حضرت لبابہ بنت حارث ہلالیہ مُستضعفين سے تھے۔ (صحیح البخاری،الجنائز،حدیث:1357) بعض کا خیال ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ ہجرت سے پہلے مسلمان ہو چکے تھے لیکن مسلمانوں کی خیرخواہی کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مکہ ہی میں رہنے کا حکم دیا تھا۔ یہ بات صحیح نہیں کیونکہ غزوہ بدر میں انہیں قیدی بنایا گیا تھا اور انہوں نے اپنا فدیہ بھی ادا کیا تھا۔ اسلام غالب رہتا ہے، مغلوب نہیں ہوتا، ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہو۔ دونوں قسم کی روایات کتب حدیث میں مروی ہیں۔ اسلام کے متعلق یہ دعویٰ کہ وہ بلند ہو کر ہی رہے گا کبھی نیچا نہیں ہو گا، تشریع کے اعتبار سے ایسا ہی ہے کہ شریعت اسلام تمام دیگر شرائع پر فوقیت رکھتی ہے، البتہ امر واقع اور تکوینی لحاظ سے اس میں تفصیل ہے کہ بعض اوقات مغلوب ہو جاتا ہے لیکن انجام کار کے اعتبار سے پھر اسے سربلندی ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر تم ایمان و اسلام کے تمام تقاضوں کو پورا کرو گے تو تم ہی سربلند ہو گے۔ (آل عمران:139:3) اب امام بخاری رحمہ اللہ اپنے مسلک کو ثابت کرنے کے لیے وہ احادیث پیش کرتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ نابالغ کا اسلام قبول ہے اور اسے دعوت اسلام بھی پیش کی جا سکتی ہے۔
حسن ‘ شریح ‘ ابراہیم اور قتادہ رحمہم اللہ نے کہا کہ والدین میں سے جب کوئی اسلام لائے تو ان کا بچہ بھی مسلمان سمجھا جائے گا۔ ابن عباسؓ بھی اپنی والدہ کے ساتھ (مسلمان سمجھے گئے تھے اور مکہ کے) کمزور مسلمانوں میں سے تھے۔ آپ اپنے والد کے ساتھ نہیں تھے جو ابھی تک اپنی قوم کے دین پر قائم تھے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اسلام غالب رہتا ہے مغلوب نہیں ہو سکتا۔حسن ‘ شریح ‘ ابراہیم اور قتادہ نے کہا کہ والدین میں سے جب کوئی اسلام لائے تو ان کا بچہ بھی مسلمان سمجھا جائے گا۔ ابن عباس ؓ بھی اپنی والدہ کے ساتھ (مسلمان سمجھے گئے تھے اور مکہ کے) کمزور مسلمانوں میں سے تھے۔ آپ اپنے والد کے ساتھ نہیں تھے جو ابھی تک اپنی قوم کے دین پر قائم تھے۔ نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے کہ اسلام غالب رہتا ہے مغلوب نہیں ہو سکتا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نبی کریم ﷺ کے ساتھ دیگر چند لوگوں کی معیت میں ابن صیاد کے پاس گئے، یہاں تک کہ انھوں نے اسے بنو مغالہ کی گڑھیوں کے قریب کچھ لڑکوں کے ساتھ کھیلتا ہوا پایا۔ ابن صیاد اس وقت قریب البلوغ تھا۔ اسے نبی ﷺ کی آمد کا علم نہ ہواحتیٰ کہ آپ نے اپنے دست مبارک سے اسے مارا، پھر ابن صیاد سے فرمایا:’’کیا تو اس بات کی گواہ دیتا ہے کہ میں اللہ کارسول( ﷺ ) ہوں؟‘‘ اس نے آپ کو دیکھاتو کہنے لگا:میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ان پڑھ لوگوں کے رسول ( ﷺ ) ہیں۔ پھر ابن صیاد نے نبی کریم ﷺ سے کہا:آپ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ میں بھی اللہ کا فرستادہ ہوں؟آپ یہ بات سن کر اس سے الگ ہوگئے اور فرمایا:’’میں اللہ اور اسکے رسولوں پر ایمان لاتا ہوں۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے اس سے پوچھا کہ تو کیادیکھتا ہے؟ابن صیاد بولا:میرے پاس سچی جھوٹی دونوں خبریں آتی ہیں۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’تجھ پر معاملہ مشتبہ کردیا گیاہے۔‘‘ پھر نبی کریم ﷺ نے اسے فرمایا:’’میں نے تیرے لیے ایک بات اپنے دل میں سوچی ہے(بتا وہ کیا ہے؟)‘‘ ابن صیاد بولا:وہ "دخ" ہے۔ آپ نے فرمایا:’’تو دفع ہوجا، اپنی بساط سے کبھی آگے نہیں بڑھ سکے گا۔‘‘ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا اللہ کے رسول ﷺ !مجھے اجازت دیں، میں اس کی گردن اڑا دوں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’اگر یہ وہی (دجال) ہے تو تم اس پر قابو نہیں پاسکتے اور اگر وہ نہیں تو پھر اس کے قتل کرنے میں کوئی فائدہ نہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حسن بصری، قاضی شریح، ابراہیم نخعی اور حضرت قتادہ نے کہا: جب والدین میں سے کوئی ایک مسلمان ہو جائے تو بچہ مسلمان کے ساتھ ہوگا۔ حضرت ابن عباس ؓ اپنی والدہ کےہمراہ مُسْتَضْعَفِينَ ناتوانوں میں سے تھے اور اپنے والد کےہمراہ اپنی قوم کے دین پر نہیں تھے، نیز فرمایا کہ اسلام غالب رہتا ہے مغلوب نہیں ہوتا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدان نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی انہیں یونس نے‘ انہیں زہری نے‘ کہا کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی کہ انہیں ابن عمر ؓ نے خبر دی کہ عمر ؓ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کچھ دوسرے اصحاب کی معیت میں ابن صیاد کے پاس گئے۔ آپ کو وہ بنو مغالہ کے مکانوں کے پاس بچوں کے ساتھ کھیلتا ہوا ملا۔ ان دنوں ابن صیاد جوانی کے قریب تھا۔ اسے آنحضور ﷺ کے آنے کی کوئی خبر ہی نہیں ہوئی۔ لیکن آپ ﷺ نے اس پر اپنا ہاتھ رکھا تو اسے معلوم ہوا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا اے ابن صیاد! کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ ابن صیاد رسول اللہ ﷺ کی طرف دیکھ کر بولا ہاں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ان پڑھوں کے رسول ہیں۔ پھر اس نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا۔ کیا آپ اس کی گواہی دیتے ہیں کہ میں بھی اللہ کا رسول ہوں؟ یہ بات سن کر رسول اللہ ﷺ نے اسے چھوڑ دیا اور فرمایا میں اللہ اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لایا۔ پھر آپ ﷺ نے اس سے پوچھا کہ تجھے کیا دکھائی دیتا ہے؟ ابن صیاد بولا کہ میرے پاس سچی اور جھوٹی دونوں خبریں آتی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا پھر تو تیرا سب کام گڈمڈ ہوگیا۔ پھر آپ ﷺ نے ( اللہ تعالیٰ کے لیے ) اس سے فرمایا اچھا میں نے ایک بات دل میں رکھی ہے وہ بتلا۔ ( آپ نے سورہ دخان کی آیت کا تصور کیا۔ ﴿فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ﴾ ابن صیاد نے کہا وہ دخ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا چل دور ہو تو اپنی بساط سے آگے کبھی نہ بڑھ سکے گا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا یا رسول اللہ! مجھ کو چھوڑ دیجئے میں اس کی گردن ماردیتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر یہ دجال ہے تو تو اس پر غالب نہ ہوگا اور اگر دجال نہیں ہے تو اس کا مارڈالنا تیرے لیے بہتر نہ ہوگا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): 'Umar set out along with the Prophet (ﷺ) with a group of people to Ibn Saiyad till they saw him playing with the boys near the hillocks of Bani Mughala. Ibn Saiyad at that time was nearing his puberty and did not notice (us) until the Prophet (ﷺ) stroked him with his hand and said to him, "Do you testify that I am Allah's Apostle?" Ibn Saiyad looked at him and said, "I testify that you are the Messenger of illiterates." Then Ibn Saiyad asked the Prophet (ﷺ) , "Do you testify that I am Allah's Apostle?" The Prophet (ﷺ) refuted it and said, "I believe in Allah and His Apostles." Then he said (to Ibn Saiyad), "What do you think?" Ibn Saiyad answered, "True people and liars visit me." The Prophet (ﷺ) said, "You have been confused as to this matter." Then the Prophet (ﷺ) said to him, "I have kept something (in my mind) for you, (can you tell me that?)" Ibn Saiyad said, "It is Al-Dukh (the smoke)." (2) The Prophet (ﷺ) said, "Let you be in ignominy. You cannot cross your limits." On that 'Umar, said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Allow me to chop his head off." The Prophet (ﷺ) said, "If he is he (i.e. Dajjal), then you cannot over-power him, and if he is not, then there is no use of murdering him."