باب: ایک بچہ اسلام لایا پھر اس کا انتقال ہو گیا، تو کیا اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی؟ اور کیا بچے کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی جا سکتی ہے؟
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: If a boy becomes a Muslim and then dies, should a funeral prayer be offered for him? Should Islam be explained to a boy?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حسن ‘ شریح ‘ ابراہیم اور قتادہ رحمہم اللہ نے کہا کہ والدین میں سے جب کوئی اسلام لائے تو ان کا بچہ بھی مسلمان سمجھا جائے گا۔ ابن عباسؓ بھی اپنی والدہ کے ساتھ (مسلمان سمجھے گئے تھے اور مکہ کے) کمزور مسلمانوں میں سے تھے۔ آپ اپنے والد کے ساتھ نہیں تھے جو ابھی تک اپنی قوم کے دین پر قائم تھے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اسلام غالب رہتا ہے مغلوب نہیں ہو سکتا۔حسن ‘ شریح ‘ ابراہیم اور قتادہ نے کہا کہ والدین میں سے جب کوئی اسلام لائے تو ان کا بچہ بھی مسلمان سمجھا جائے گا۔ ابن عباس ؓ بھی اپنی والدہ کے ساتھ (مسلمان سمجھے گئے تھے اور مکہ کے) کمزور مسلمانوں میں سے تھے۔ آپ اپنے والد کے ساتھ نہیں تھے جو ابھی تک اپنی قوم کے دین پر قائم تھے۔ نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے کہ اسلام غالب رہتا ہے مغلوب نہیں ہو سکتا۔
1355.
حضرت عبداللہ بن عمرؓ ہی سے روایت ہے،انھوں نےفرمایا:اس کے بعد پھر ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ اورحضرت ابی ابن کعب ؓ کھجوروں کے اس باغ میں گئے جس میں ابن صیاد تھا۔ آپ چاہتے تھے کہ اس سے کچھ باتیں سنیں قبل اس کے کہ وہ آپ کو دیکھے چنانچہ نبی کریم ﷺ نے اسے بایں حالت دیکھا کہ وہ ایک چادر اوڑھے کچھ گنگنارہا تھا۔ آپ کھجور کے درختوں کی آڑ میں چل رہے تھے کہ ابن صیاد کی ماں نے آپ ﷺ کو دیکھ لیا اور اسے آواز دی:اےصاف!۔۔۔ یہ ابن صیاد کا نام ہے۔۔۔ یہ محمد ﷺ آگئے ہیں۔ یہ سن کر ابن صیاد اٹھ بیٹھا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’اگر وہ عورت اسے (اس کے حال پر) چھوڑ دیتی تو وہ اپنا معاملہ کچھ واضح کردیتا۔‘‘ شعیب کی روایت میں زمزمة کے الفاظ میں اوررفضه کی جگہ رفصه ہے۔ اسحق کلبی اور عقیل کی روایت میں رمرمة اور معمر کی روایت میں رمزه کے الفاظ ہیں۔ (ان تمام الفاظ کے معنی ہیں:اس کی ایک ایسی خفی آواز تھی جو سمجھ میں نہیں آتی تھی۔)
تشریح:
(1) ابن صیاد ایک یہودی لڑکا تھا جو مدینہ منورہ میں دجل و فریب کی باتیں کر کے لوگوں کو گمراہ کرتا تھا۔ آپ نے اس کے جھوٹ کا پول کھول کر اس کے دعوائے رسالت کو غلط ثابت کیا، پھر اس پر اسلام پیش کیا۔ اگر بچے کا اسلام صحیح نہ ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس پر اسلام پیش نہ کرتے۔ اس سے امام بخاری ﷺ کا دعویٰ ثابت ہوا کہ بچے کا اسلام قبول کرنا صحیح ہے اور اس پر دعوت اسلام پیش کرنا بھی جائز ہے۔ (2) حضرت عمر ؓ ابن صیاد کو قتل کرنا چاہتے تھے، کیونکہ انہیں شبہ تھا کہ یہ دجال اکبر ہے، لیکن رسول اللہ ﷺ نے انہیں منع کر دیا، کیونکہ وہ اس وقت نابالغ تھا اور نابالغ کو کسی وجہ سے بھی قتل کرنا جائز نہیں۔ اس کے علاوہ اس وقت یہود مدینہ سے معاہدہ بھی تھا۔ ابتدائی زمانے میں اس کے احوال مشتبہ تھے۔ اس بنا پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر ؓ سے فرمایا تھا کہ اگر وہ دجال اکبر ہے تو اسے حضرت عیسیٰ ؑ قتل کریں گے۔ آئندہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں تصریح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عیسیٰ ؑ کے متعلق خبر دی تھی کہ وہ دجال اکبر کو قتل کریں گے تو کیسے موزوں ہوتا کہ آپ ہی کے اشارے یا اجازت سے دوسرا آدمی اسے قتل کر دے۔ ابن صیاد اور دجال اکبر کے متعلق دیگر مباحث آئندہ پیش کیے جائیں گے۔ بإذن الله۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1317.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1355
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1355
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1355
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
تمہید باب
اس عنوان کے دو جز ہیں: (1) کیا بچے کا اسلام لانا صحیح ہے اور اس کا اعتبار ہو گا یا نہیں؟ اگر صحیح ہے تو اس کا جنازہ پڑھنا بھی صحیح ہے۔ اگر اس کے اسلام کا اعتبار نہیں تو اس کی نماز جنازہ بھی صحیح نہیں ہو گی۔ ٭ کیا اسے دعوت اسلام دینا صحیح ہے؟ اس مقام پر دوسرا جز خبر و استفہام کے انداز سے ہے جبکہ کتاب الجہاد میں ایک عنوان بایں الفاظ ہے کہ بچے پر اسلام کیسے پیش کیا جائے؟ (صحیح البخاری،الجھادوالسیر،باب:178) گویا اسے دعوت اسلام دی جا سکتی ہے لیکن طریقہ کار کے متعلق وضاحت کی گئی ہے۔ (فتح الباری:3/279) ہمارے نزدیک بچے کا اسلام معتبر ہے جیسا کہ حضرت علی اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم بچپن ہی میں مسلمان ہو گئے تھے۔ لیکن بچے کے ارتداد کا اعتبار نہیں ہو گا۔ اس کے اسلام کے متعلق اعتبار یا عدم اعتبار اس صورت میں ہے جب اس کے والدین کافر ہوں۔ اگر وہ دونوں مسلمان ہیں تو اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ واضح رہے کہ غزوہ خندق سے پہلے احکام اسلام اچھے اور برے کی تمیز پر لاگو ہوتے تھے، اس کے بعد احکام اسلام کا دارومدار اس کے بلوغ کو قرار دیا گیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ بچے کا اسلام صحیح ہے اور اس کا اعتبار کیا جائے گا جیسا کہ پیش کردہ آثار و احادیث سے معلوم ہوتا ہے، البتہ امام شافعی کا مسلک اس کے خلاف ہے۔ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کے اثر کو امام بیہقی نے، ابراہیم نخعی کے اثر کو امام عبدالرزاق نے، قاضی شریح کے اثر کو بھی امام بیہقی نے اور قتادہ کے اثر کو امام عبدالرزاق نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباری:3/279) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے متعلق معلق روایت کو خود امام بخاری رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے کہ میں اور میری والدہ حضرت لبابہ بنت حارث ہلالیہ مُستضعفين سے تھے۔ (صحیح البخاری،الجنائز،حدیث:1357) بعض کا خیال ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ ہجرت سے پہلے مسلمان ہو چکے تھے لیکن مسلمانوں کی خیرخواہی کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مکہ ہی میں رہنے کا حکم دیا تھا۔ یہ بات صحیح نہیں کیونکہ غزوہ بدر میں انہیں قیدی بنایا گیا تھا اور انہوں نے اپنا فدیہ بھی ادا کیا تھا۔ اسلام غالب رہتا ہے، مغلوب نہیں ہوتا، ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہو۔ دونوں قسم کی روایات کتب حدیث میں مروی ہیں۔ اسلام کے متعلق یہ دعویٰ کہ وہ بلند ہو کر ہی رہے گا کبھی نیچا نہیں ہو گا، تشریع کے اعتبار سے ایسا ہی ہے کہ شریعت اسلام تمام دیگر شرائع پر فوقیت رکھتی ہے، البتہ امر واقع اور تکوینی لحاظ سے اس میں تفصیل ہے کہ بعض اوقات مغلوب ہو جاتا ہے لیکن انجام کار کے اعتبار سے پھر اسے سربلندی ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر تم ایمان و اسلام کے تمام تقاضوں کو پورا کرو گے تو تم ہی سربلند ہو گے۔ (آل عمران:139:3) اب امام بخاری رحمہ اللہ اپنے مسلک کو ثابت کرنے کے لیے وہ احادیث پیش کرتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ نابالغ کا اسلام قبول ہے اور اسے دعوت اسلام بھی پیش کی جا سکتی ہے۔
حسن ‘ شریح ‘ ابراہیم اور قتادہ رحمہم اللہ نے کہا کہ والدین میں سے جب کوئی اسلام لائے تو ان کا بچہ بھی مسلمان سمجھا جائے گا۔ ابن عباسؓ بھی اپنی والدہ کے ساتھ (مسلمان سمجھے گئے تھے اور مکہ کے) کمزور مسلمانوں میں سے تھے۔ آپ اپنے والد کے ساتھ نہیں تھے جو ابھی تک اپنی قوم کے دین پر قائم تھے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اسلام غالب رہتا ہے مغلوب نہیں ہو سکتا۔حسن ‘ شریح ‘ ابراہیم اور قتادہ نے کہا کہ والدین میں سے جب کوئی اسلام لائے تو ان کا بچہ بھی مسلمان سمجھا جائے گا۔ ابن عباس ؓ بھی اپنی والدہ کے ساتھ (مسلمان سمجھے گئے تھے اور مکہ کے) کمزور مسلمانوں میں سے تھے۔ آپ اپنے والد کے ساتھ نہیں تھے جو ابھی تک اپنی قوم کے دین پر قائم تھے۔ نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے کہ اسلام غالب رہتا ہے مغلوب نہیں ہو سکتا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمرؓ ہی سے روایت ہے،انھوں نےفرمایا:اس کے بعد پھر ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ اورحضرت ابی ابن کعب ؓ کھجوروں کے اس باغ میں گئے جس میں ابن صیاد تھا۔ آپ چاہتے تھے کہ اس سے کچھ باتیں سنیں قبل اس کے کہ وہ آپ کو دیکھے چنانچہ نبی کریم ﷺ نے اسے بایں حالت دیکھا کہ وہ ایک چادر اوڑھے کچھ گنگنارہا تھا۔ آپ کھجور کے درختوں کی آڑ میں چل رہے تھے کہ ابن صیاد کی ماں نے آپ ﷺ کو دیکھ لیا اور اسے آواز دی:اےصاف!۔۔۔ یہ ابن صیاد کا نام ہے۔۔۔ یہ محمد ﷺ آگئے ہیں۔ یہ سن کر ابن صیاد اٹھ بیٹھا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’اگر وہ عورت اسے (اس کے حال پر) چھوڑ دیتی تو وہ اپنا معاملہ کچھ واضح کردیتا۔‘‘ شعیب کی روایت میں زمزمة کے الفاظ میں اوررفضه کی جگہ رفصه ہے۔ اسحق کلبی اور عقیل کی روایت میں رمرمة اور معمر کی روایت میں رمزه کے الفاظ ہیں۔ (ان تمام الفاظ کے معنی ہیں:اس کی ایک ایسی خفی آواز تھی جو سمجھ میں نہیں آتی تھی۔)
حدیث حاشیہ:
(1) ابن صیاد ایک یہودی لڑکا تھا جو مدینہ منورہ میں دجل و فریب کی باتیں کر کے لوگوں کو گمراہ کرتا تھا۔ آپ نے اس کے جھوٹ کا پول کھول کر اس کے دعوائے رسالت کو غلط ثابت کیا، پھر اس پر اسلام پیش کیا۔ اگر بچے کا اسلام صحیح نہ ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس پر اسلام پیش نہ کرتے۔ اس سے امام بخاری ﷺ کا دعویٰ ثابت ہوا کہ بچے کا اسلام قبول کرنا صحیح ہے اور اس پر دعوت اسلام پیش کرنا بھی جائز ہے۔ (2) حضرت عمر ؓ ابن صیاد کو قتل کرنا چاہتے تھے، کیونکہ انہیں شبہ تھا کہ یہ دجال اکبر ہے، لیکن رسول اللہ ﷺ نے انہیں منع کر دیا، کیونکہ وہ اس وقت نابالغ تھا اور نابالغ کو کسی وجہ سے بھی قتل کرنا جائز نہیں۔ اس کے علاوہ اس وقت یہود مدینہ سے معاہدہ بھی تھا۔ ابتدائی زمانے میں اس کے احوال مشتبہ تھے۔ اس بنا پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر ؓ سے فرمایا تھا کہ اگر وہ دجال اکبر ہے تو اسے حضرت عیسیٰ ؑ قتل کریں گے۔ آئندہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں تصریح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عیسیٰ ؑ کے متعلق خبر دی تھی کہ وہ دجال اکبر کو قتل کریں گے تو کیسے موزوں ہوتا کہ آپ ہی کے اشارے یا اجازت سے دوسرا آدمی اسے قتل کر دے۔ ابن صیاد اور دجال اکبر کے متعلق دیگر مباحث آئندہ پیش کیے جائیں گے۔ بإذن الله۔
ترجمۃ الباب:
حسن بصری، قاضی شریح، ابراہیم نخعی اور حضرت قتادہ نے کہا: جب والدین میں سے کوئی ایک مسلمان ہو جائے تو بچہ مسلمان کے ساتھ ہوگا۔ حضرت ابن عباس ؓ اپنی والدہ کےہمراہ مُسْتَضْعَفِينَ ناتوانوں میں سے تھے اور اپنے والد کےہمراہ اپنی قوم کے دین پر نہیں تھے، نیز فرمایا کہ اسلام غالب رہتا ہے مغلوب نہیں ہوتا۔
حدیث ترجمہ:
اور سالم نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن عمر ؓ سے سنا وہ کہتے تھے پھر ایک دن آنحضرت ﷺ اور ابی بن کعب ؓ دونوں مل کر ان کھجور کے درختوں میں گئے۔ جہاں ابن صیاد تھا ( آپ ﷺ چاہتے تھے کہ ابن صیاد آپ کو نہ دیکھے اور ) اس سے پہلے کہ وہ آپ کو دیکھے آپ ﷺ غفلت میں اس سے کچھ باتیں سن لیں۔ آخر آنحضرت ﷺ نے اس کو دیکھ پایا۔ وہ ایک چادر اوڑھے پڑا تھا۔ کچھ گن گن یا پھن پھن کر رہا تھا۔ لیکن مشکل یہ ہوئی کہ ابن صیاد کی ماں نے دور ہی سے آنحضرت ﷺ کو دیکھ پایا۔ آپ ﷺ کھجور کے تنوں میں چھپ چھپ کر جارہے تھے۔ اس نے پکار کر ابن صیاد سے کہہ دیا صاف! یہ نام ابن صیاد کا تھا۔ دیکھو محمد آن پہنچے۔ یہ سنتے ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کاش اس کی ماں ابن صیاد کو باتیں کرنے دیتی تو وہ اپنا حال کھولتا۔ شعیب نے اپنی روایت میں زمزمةفرفصه اور عقیل رمرمة نقل کیا ہے اور معمر نے رمزة کہا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ابن صیاد ایک یہودی لڑکا تھا جو مدینہ میں دجل وفریب کی باتیں کرکرکے عوام کو بہکایا کرتا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے اس پر اسلام پیش فرمایا۔ اس وقت وہ نابالغ تھا۔ اسی سے امام بخاری ؓ کا مقصد باب ثابت ہوا۔ آپ ﷺ اس کی طرف سے مایوس ہوگئے کہ وہ ایمان لانے والا نہیں یا آپ ﷺ نے جواب میں اس کو چھوڑ دیا، یعنی اس کی نسبت لاونعم کچھ نہیں کہا صرف اتنا فرمادیا کہ میں اللہ کے سب پیغمبروں پر ایمان لایا۔ بعض روایتوں میں فرفصه صاد مہملہ سے ہے کہ یعنی ایک لات اس کو جمائی۔ بعضوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے اسے دبا کر بھینچا آپ ﷺ نے جو کچھ اس سے پوچھا، اس سے آپ کی غرض محض یہ تھی کہ اس کا جھوٹ کھل جائے اور اس کا پیغمبری کا دعویٰ غلط ہو۔ ابن صیاد نے جواب میں کہا کہ میں کبھی سچا کبھی جھوٹا خواب دیکھتا ہوں‘ یہ شخص کاہن تھا، اس کو جھوٹی سچی خبریں شیطان دیا کرتے تھے۔ دخان کی جگہ صرف لفظ دخ کہا۔ شیطانوں کی اتنی ہی طاقت ہوتی ہے کہ ایک آدھ کلمہ اچک لیتے ہیں‘ اسی میں جھوٹ ملاکر مشہور کرتے ہیں (خلاصہ وحیدی) مزید تفصیل دوسری جگہ آئے گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
(Ibn 'Umar (RA) added): Later on Allah's Apostle (ﷺ) once again went along with Ubai bin Ka'b (RA) to the date-palm trees (garden) where Ibn Saiyad was staying. The Prophet (ﷺ) wanted to hear something from Ibn Saiyad before Ibn Saiyad could see him, and the Prophet (ﷺ) saw him lying covered with a sheet and from where his murmurs were heard. Ibn Saiyad's mother saw Allah's Apostle (ﷺ) while he was hiding himself behind the trunks of the date-palm trees. She addressed Ibn Saiyad, "O Saf ! (and this was the name of Ibn Saiyad) Here is Muhammad." And with that Ibn Saiyad got up. The Prophet (ﷺ) said, "Had this woman left him (Had she not disturbed him), then Ibn Saiyad would have revealed the reality of his case.