Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: Placing a leaf of a date palm over the grave)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور بریدہ اسلمی صحابی رضی اللہ عنہ نے وصیت کی تھی کہ ان کی قبر پر دو شاخیں لگا دی جائیں اور عبداللہ بن عمر ؓ نے عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی قبر پر ایک خیمہ تنا ہوا دیکھا تو کہنے لگے کہ اے غلام! اسے اکھاڑ ڈال اب ان پر ان کا عمل سایہ کرے گا اور خارجہ بن زید نے کہا کہ عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں میں جوان تھا اور چھلانگ لگانے میں سب سے زیادہ سمجھا جاتا جو عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی قبر پر چھلانگ لگا کر اس پار کود جاتا اور عثمان بن حکیم نے بیان کیا کہ خارجہ بن زید نے میرا ہاتھ پکڑ کر ایک قبر پر مجھ کو بٹھایا اور اپنے چچا یزید بن ثابت سے روایت کیا کہ قبر پر بیٹھنا اس کو منع ہے جو پیشاب یا پاخانہ کے لیے اس پر بیٹھے۔ اور نافع نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر ؓ قبروں پر بیٹھا کرتے تھے۔
1361.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ ایک دفعہ دو قبروں کے پاس سے گزرے جن (میں مدفون مردوں) کو عذاب دیاجارہا تھا۔آپ نے فرمایا:’’ان دونوں کوعذاب دیاجارہا ہے۔ لیکن یہ عذاب کسی مشکل بات کیوجہ سے نہیں۔ ان میں سے ایک پیشاب سے پرہیز نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغلی کھاتا تھا۔‘‘ اس کے بعد آپ نے کھجور کی تازہ شاخ لی اور اسے چیر کر دو حصے کردیے، پھر ہر ایک قبر پر ایک ایک گاڑ دی۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا:اللہ کے رسول ﷺ !آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟آپ نے فرمایا:’’امید ہے کہ جب تک یہ دونوں ٹکڑے خشک نہ ہوں گے ان کے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے گی۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قبر پر کھجور کی تازہ شاخ رکھنا مسنون عمل ہے، کیونکہ ایسا کرنا صرف رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خاص تھا، دوسروں کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں، کیونکہ قبر پر پھول یا تازہ شاخ رکھنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ (2) واضح رہے کہ اہل قبر کو عذاب میں تخفیف رسول اللہ ﷺ کی دعا اور سفارش کی بنا پر تھی، اس میں شاخوں کی تازگی کو کوئی دخل نہیں جیسا کہ حضرت جابر ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں دو قبروں کے پاس سے گزرا، مجھے معلوم ہوا کہ اس میں مدفون مردوں کو عذاب ہو رہا ہے، اس لیے میں نے پسند کیا کہ میری سفارش سے جب تک یہ ٹہنیاں تازہ رہیں ان سے عذاب کو دور کر دیا جائے۔‘‘(صحیح مسلم، الزھد، حدیث:7518(3012)) یہ حدیث اس بات پر صراحت کے ساتھ دلالت کرتی ہے کہ ان سے عذاب کا دور ہونا رسول اللہ ﷺ کی دعا اور سفارش کی وجہ سے تھا، اس میں کھجور کی شاخ اور اس کی تازگی کو کوئی دخل نہیں۔ اگر ان کی تازگی تخفیف کا سبب ہو تو جو لوگ گھنے باغات میں مدفون ہیں، انہیں سرے سے عذاب ہی نہیں ہونا چاہیے، حالانکہ یہ مفروضہ عقلا نقلا صحیح نہیں۔ پھر اگر اس کی تازگی ہی تخفیف عذاب کا باعث تھی تو کھجور کی شاخ کو چیر کر دو حصے کرنے کی ضرورت نہ تھی، بلکہ اسے توڑ کر دو حصے کر لیے جاتے تاکہ دیر تک عذاب میں تخفیف رہتی، لیکن ایسا نہیں کیا گیا، تو اس کا واضح مطلب ہے کہ تخفیف عذاب صرف آپ کی دعا اور سفارش کی وجہ سے تھی۔ اگر شاخوں کی تازگی تخفیف عذاب کا باعث ہوتی تو دیگر اہل قبور کے ساتھ بھی یہ معاملہ کیا جاتا اور آپ کے بعد آپ کے صحابہ کرام ؓ بکثرت اس پر عمل پیرا ہوتے۔ اگر ایسا ہوتا تو نقل تواتر سے یہ عمل ہم تک پہنچتا۔ جب ایسا ثابت نہیں تو اس کا واضح مطلب ہے کہ سرے سے یہ عمل ہی غیر مشروع ہے۔ حضرت بریدہ اسلمی ؓ کی وصیت کے متعلق ہم اپنی گزارشات پہلے بیان کر آئے ہیں۔ علامہ البانی ؒ لکھتے ہیں کہ اکاس بیل یا دوسرے پھول وغیرہ قبروں پر رکھنا جائز نہیں، کیونکہ ایسا کرنا اسلاف سے ثابت نہیں۔ اگر یہ کام بہتر ہوتا تو وہ ہم سے سبقت لے جاتے۔ (أحکام الجنائز، ص:258، مسئلة:124)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1323
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1361
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1361
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1361
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
تمہید باب
ضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ کی وصیت کو ابن سعد نے طبقات (7/117) میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ اس وصیت میں دو احتمال ہیں: ٭ کھجور کی تازہ شاخیں قبر کے اوپر رکھی جائیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر کھجور کی تازہ شاخیں رکھی تھیں۔ ٭ کھجور کی چھڑیاں قبر کے اندر حصول برکت کے لیے رکھی جائیں۔ پہلا احتمال زیادہ واضح ہے۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مبارک کا عام رکھا اور دو قبر والوں کے ساتھ خاص خیال نہیں کیا، لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دو قبروں پر چھڑیاں گاڑنے والا عمل ان ہی کے ساتھ خاص تھا کیونکہ یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اور قبر پر یہ عمل کیا ہو۔ اگر یہ عمل سنت ہوتا تو آپ تمام مرنے والوں کی قبروں پر ایسا کرتے اور اس کے بعد خلفائے راشدین اور کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس سنت پر عمل کرتے لیکن ایسا کرنا منقول نہیں۔ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کا اپنا اجتہاد ہے، جس میں غلطی اور درستی کے دونوں پہلو ہوتے ہیں۔ قبر پر کھجور کی ٹہنیاں رکھنے کے متعلق درست موقف یہی ہے کہ اس سے اجتناب کیا جائے بلکہ اس کے اوپر پھول وغیرہ ڈالنا بھی درست نہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس اثر کو یہ بتانے کے لیے پیش کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبر پر کھجور کی دو شاخیں رکھنا آپ کی خصوصیت ہے۔ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کا اسے عموم پر محمول کرنا صحیح نہیں۔ والله أعلم (فتح الباری:3/284) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے عمل کو طبقات ابن سعد میں متصل بیان کیا گیا ہے۔ خارجہ بن زید کے اثر کو امام بخاری رحمہ اللہ نے تاریخ صغیر میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ میت کو اس کے نیک عمل ہی فائدہ دے سکتے ہیں، اس پر عمارت کھڑی کرنا یا خیمہ لگانا اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا جس طرح میت کی قبر پر بیٹھنے یا چھلانگیں لگانے سے اسے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ والله أعلم (فتح الباری:3/284) عثمان بن حکیم کے اثر کو امام مسدد نے اپنی مسند الکبیر میں متصل سند سے بیان کیا ہے اور وہاں اس کا سبب بھی بیان کیا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ فرمایا کہ مجھے قبر پر بیٹھنے کی بجائے انگاروں پر بیٹھنا زیادہ پسند ہے۔ میں نے اس کا ذکر حضرت خارجہ سے کیا تو انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر قبر پر بٹھا دیا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے عمل کو امام طحاوی رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباری:3/285) ہمارے نزدیک قبر پر بیٹھنا، خواہ کسی غرض سے ہو سخت منع ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث میں اس کی صراحت ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔ (مسنداحمد3/295) ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ قبروں پر مت بیٹھو۔ (صحیح مسلم،الجنائز،حدیث:2250(972)) ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو روندنے سے منع فرمایا ہے۔ (جامع الترمذی،الجنائز،حدیث:1052) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے کوئی شخص انگارے پر بیٹھے اور وہ اس کے کپڑوں کو جلا کر جلد تک پہنچ جائے یہ اس کے لیے قبر پر بیٹھنے سے زیادہ بہتر ہے۔" (السنن الکبریٰ للبیھقی:4/79) ان روایات کا تقاضا ہے کہ قبر پر بیٹھنا سخت منع ہے۔ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا اثر جو امام بخاری رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے اس سے مراد قبر پر تکیہ لگانا ہے، اس پر بیٹھنا مراد نہیں۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا خارجہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کو ممانعت کا علم نہیں ہو سکا۔ والله أعلم
اور بریدہ اسلمی صحابی رضی اللہ عنہ نے وصیت کی تھی کہ ان کی قبر پر دو شاخیں لگا دی جائیں اور عبداللہ بن عمر ؓ نے عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی قبر پر ایک خیمہ تنا ہوا دیکھا تو کہنے لگے کہ اے غلام! اسے اکھاڑ ڈال اب ان پر ان کا عمل سایہ کرے گا اور خارجہ بن زید نے کہا کہ عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں میں جوان تھا اور چھلانگ لگانے میں سب سے زیادہ سمجھا جاتا جو عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی قبر پر چھلانگ لگا کر اس پار کود جاتا اور عثمان بن حکیم نے بیان کیا کہ خارجہ بن زید نے میرا ہاتھ پکڑ کر ایک قبر پر مجھ کو بٹھایا اور اپنے چچا یزید بن ثابت سے روایت کیا کہ قبر پر بیٹھنا اس کو منع ہے جو پیشاب یا پاخانہ کے لیے اس پر بیٹھے۔ اور نافع نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر ؓ قبروں پر بیٹھا کرتے تھے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ ایک دفعہ دو قبروں کے پاس سے گزرے جن (میں مدفون مردوں) کو عذاب دیاجارہا تھا۔آپ نے فرمایا:’’ان دونوں کوعذاب دیاجارہا ہے۔ لیکن یہ عذاب کسی مشکل بات کیوجہ سے نہیں۔ ان میں سے ایک پیشاب سے پرہیز نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغلی کھاتا تھا۔‘‘ اس کے بعد آپ نے کھجور کی تازہ شاخ لی اور اسے چیر کر دو حصے کردیے، پھر ہر ایک قبر پر ایک ایک گاڑ دی۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا:اللہ کے رسول ﷺ !آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟آپ نے فرمایا:’’امید ہے کہ جب تک یہ دونوں ٹکڑے خشک نہ ہوں گے ان کے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے گی۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قبر پر کھجور کی تازہ شاخ رکھنا مسنون عمل ہے، کیونکہ ایسا کرنا صرف رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خاص تھا، دوسروں کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں، کیونکہ قبر پر پھول یا تازہ شاخ رکھنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ (2) واضح رہے کہ اہل قبر کو عذاب میں تخفیف رسول اللہ ﷺ کی دعا اور سفارش کی بنا پر تھی، اس میں شاخوں کی تازگی کو کوئی دخل نہیں جیسا کہ حضرت جابر ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں دو قبروں کے پاس سے گزرا، مجھے معلوم ہوا کہ اس میں مدفون مردوں کو عذاب ہو رہا ہے، اس لیے میں نے پسند کیا کہ میری سفارش سے جب تک یہ ٹہنیاں تازہ رہیں ان سے عذاب کو دور کر دیا جائے۔‘‘(صحیح مسلم، الزھد، حدیث:7518(3012)) یہ حدیث اس بات پر صراحت کے ساتھ دلالت کرتی ہے کہ ان سے عذاب کا دور ہونا رسول اللہ ﷺ کی دعا اور سفارش کی وجہ سے تھا، اس میں کھجور کی شاخ اور اس کی تازگی کو کوئی دخل نہیں۔ اگر ان کی تازگی تخفیف کا سبب ہو تو جو لوگ گھنے باغات میں مدفون ہیں، انہیں سرے سے عذاب ہی نہیں ہونا چاہیے، حالانکہ یہ مفروضہ عقلا نقلا صحیح نہیں۔ پھر اگر اس کی تازگی ہی تخفیف عذاب کا باعث تھی تو کھجور کی شاخ کو چیر کر دو حصے کرنے کی ضرورت نہ تھی، بلکہ اسے توڑ کر دو حصے کر لیے جاتے تاکہ دیر تک عذاب میں تخفیف رہتی، لیکن ایسا نہیں کیا گیا، تو اس کا واضح مطلب ہے کہ تخفیف عذاب صرف آپ کی دعا اور سفارش کی وجہ سے تھی۔ اگر شاخوں کی تازگی تخفیف عذاب کا باعث ہوتی تو دیگر اہل قبور کے ساتھ بھی یہ معاملہ کیا جاتا اور آپ کے بعد آپ کے صحابہ کرام ؓ بکثرت اس پر عمل پیرا ہوتے۔ اگر ایسا ہوتا تو نقل تواتر سے یہ عمل ہم تک پہنچتا۔ جب ایسا ثابت نہیں تو اس کا واضح مطلب ہے کہ سرے سے یہ عمل ہی غیر مشروع ہے۔ حضرت بریدہ اسلمی ؓ کی وصیت کے متعلق ہم اپنی گزارشات پہلے بیان کر آئے ہیں۔ علامہ البانی ؒ لکھتے ہیں کہ اکاس بیل یا دوسرے پھول وغیرہ قبروں پر رکھنا جائز نہیں، کیونکہ ایسا کرنا اسلاف سے ثابت نہیں۔ اگر یہ کام بہتر ہوتا تو وہ ہم سے سبقت لے جاتے۔ (أحکام الجنائز، ص:258، مسئلة:124)
ترجمۃ الباب:
حضرت بریرہ اسلمی ؓ نے وصیت کی تھی کہ ان کی قبر میں کھجور کی دو شاخیں رکھی جائیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے حضرت عبدالرحمان کی قبر پر خیمہ دیکھا تو فرمایا: اے غلام! اسے اکھاڑ دو، اس کا عمل اس پر سایہ کررہا ہے۔ حضرت خارجہ بن زید نے کہا: جب ہم حضرت عثمانؓ کے دور خلافت میں نوجوان تھے تو میں نے اپنے آپ کو اس حالت میں دیکھا کہ ہم میں سب سے بڑی چھلانگ لگانے والا وہ ہوتا تھا جو حضرت عثمان بن مظعون ؓ کی قبر کو چھلانک لگاکر عبور کرجاتا تھا۔ عثمان بن حکیم نے کہا کہ خارجہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے ایک قبر پر بٹھا دیا۔ پھر انہوں نے اپنے چچا یزید بن ثابت کے حوالے سے بتایا کہ قبر پر بیٹھنا اس شخص کے لیے مکروہ ہے جو اس پر بول وبراز کرے۔ حضرت نافع نےکہا: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قبروں پر بیٹھ جایاکرتے تھے۔
وضاحت: ۔
امام بخاری کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دو قبروں پر چھڑیاں گاڑنے والا عمل ان ہی کے ساتھ خاص تھا۔ کیونکہ یہ ثابت نہیں ہوسکا۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اور قبر پر یہ عمل کیا ہو۔ اگر یہ عمل سنت ہوتا تو آپ تمام مرنے والوں کی قبروں پر ایسا کرتے اور اس کےبعدخلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین اور کبار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اس سنت پر عمل کرتے لیکن ایسا کرنا منقول نہیں۔ حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اپنا اجتہاد ہے۔ جس میں غلطی اور درستی کے دونوں پہلو ہوتے ہیں، قبر پر کھجور کی ٹہنیاں رکھنے کےمتعلق درست موقف یہی ہے کہ اس سے اجتناب کیا جائے بلکہ اس کے اوپر پھول وغیرہ ڈالنا بھی درست نہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس اثر کو یہ بتانے کے لیے پیش کیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبر پر کھجور کی دوشاخیں رکھنا آپ کی خصوصیت ہے۔ حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اسے عموم پر محمول کرنا صحیح نہیں۔ واللہ اعلم۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحیٰی بن جعفر بیکندی نے بیان کیا‘ کہا ہم سے ابو معاویہ نے بیان کیا‘ ان سے اعمش نے‘ ان سے مجاہد نے‘ ان سے طاؤس نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ کا گزر ایسی دو قبروں پر ہوا جن پر عذاب ہورہا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان پر عذاب کسی بہت بڑی بات پر نہیں ہورہا ہے صرف یہ کہ ان میں ایک شخص پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا شخص چغل خوری کیا کرتا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے کھجور کی ایک ہری ڈالی لی اور اس کے دو ٹکڑے کرکے دونوں قبر پر ایک ایک ٹکڑا گاڑدیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ( ﷺ )! آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ شاید اس وقت تک کے لیے ان پر عذاب کچھ ہلکا ہوجائے جب تک یہ خشک نہ ہوں۔
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ نے ایک قبر پر کھجور کی ڈالیاں لگادی تھیں۔ بعضوں نے یہ سمجھا کہ یہ مسنون ہے۔ بعضے کہتے ہیں کہ یہ آنخضرت ﷺ کا خاصہ تھا اور کسی کو ڈالیاں لگانے میں کوئی فائدہ نہیں۔ چنانچہ امام بخاری ؒ ابن عمر ؓ کا اثر اسی بات کو ثابت کرنے کے لیے لائے۔ ابن عمر اور بریدہ ؓ کے اثر کو ابن سعد نے وصل کیا۔ خارجہ بن زید کے اثر کو امام بخاری ؒ نے تاریخ صغیر میں وصل کیا۔ اس اثر اور اس کے بعد کے اثر کو بیان کرنے سے امام بخاری ؒ کی غرض یہ ہے کہ قبروالے کو اس کے عمل ہی فائدہ دیتے ہیں۔ اونچی چیز لگانا جیسے شاخیں وغیرہ یا قبر کی عمارت اونچی بنانا یا قبر پر بیٹھنا یہ چیزیں ظاہر میں کوئی فائدہ یا نقصان دینے والی نہیں ہیں۔ یہ خارجہ بن زید اہل مدینہ کے سات فقہاءمیں سے ہیں۔ انہوں نے اپنے چچا یزید بن ثابت سے نقل کیا کہ قبر پر بیٹھنا اس کو مکروہ ہے جو اس پر پاخانہ یا پیشاب کرے۔ (وحیدي) علامہ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: قال ابن رشید ویظهر من تصرف البخاري أن ذلك خاص بهما فلذلك عقبه بقول ابن عمر إنما یظله عمله۔(فتح الباري)یعنی ابن رشید نے کہا کہ امام بخاری ؒ کے تصرف سے یہی ظاہر ہے کہ شاخوں کے گاڑنے کا عمل ان ہی دونوں قبروں کے ساتھ خاص تھا۔ اس لیے امام بخاری ؒ اس ذکر کے بعد ہی حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا قول لائے ہیں کہ اس مرنے والے کا عمل ہی اس کو سایہ کرسکے گا۔ جن کی قبر پر خیمہ دیکھا گیا تھا وہ عبدالرحمن بن ابوبکر صدیق ؓ تھے اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے یہ خیمہ دور کرادیا تھا۔ قبروں پر بیٹھنے کے بارے میں جمہور کا قول یہی ہے کہ ناجائز ہے۔ اس بارے میں کئی ایک احادیث بھی وارد ہیں، چند حدیث ملاحظہ ہوں۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَأَنْ يَجْلِسَ أَحَدُكُمْ عَلَى جَمْرَةٍ فَتُحْرِقَ ثِيَابَهُ، فَتَخْلُصَ إِلَى جِلْدِهِ، خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَجْلِسَ عَلَى قَبْرٍ»رواہ الجماعة إلا البخاري والترمذي۔یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی اگر کسی انگارے پر بیٹھے کہ وہ اس کے کپڑے اور جسم کو جلادے تو اس سے بہتر ہے کہ قبر پر بیٹھے۔ دوسری حدیث عمروبن حزم سے مروی ہے کہ رَآنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَّكَأً عَلَى قَبْرٍ، فَقَالَ: " لَا تُؤْذِ صَاحِبَ هَذَا الْقَبْرِ - أَوْ لَا تُؤْذِهِ - "رواہ أحمد۔یعنی مجھے آنحضرت ﷺ نے ایک قبر پر تکیہ لگائے ہوئے دیکھا تو آپ نے فرمایا کہ اس قبر والے کو تکلیف نہ دے۔ ان ہی احادیث کی بناپر قبروں پر بیٹھنا منع ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا فعل جو مذکور ہوا کہ آپ قبروں پر بیٹھا کرتے تھے۔ سو شاید ان کا خیال یہ ہوکہ بیٹھنا اس کے لیے منع ہے جو اس پر پاخانہ پیشاب کرے۔ مگر دیگر احادیث کی بناپر مطلق بیٹھنا بھی منع ہے، جیسا کہ مذکور ہوا یا ان کا قبر پر بیٹھنے سے مراد صرف ٹیک لگانا ہے نہ کہ اوپر بیٹھنا۔ حدیث مذکور سے قبر کا عذاب بھی ثابت ہوا جو برحق ہے جو کئی آیات قرآنی واحادیث نبوی سے ثابت ہے۔ جو لوگ عذاب قبر کا انکار کرتے اور اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں۔ وہ قرآن وحدیث سے بے بہرہ اور گمراہ ہیں۔ هداهم اللہ۔ آمین
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA): The Prophet (ﷺ) once passed by two graves, and those two persons (in the graves) were being tortured. He said, "They are being tortured not for a great thing (to avoid). One of them never saved himself from being soiled with his urine, while the other was going about with calumnies (to make enmity between friends). He then took a green leaf of a date-palm tree split it into two pieces and fixed one on each grave. The people said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Why have you done so?" He replied, "I hope that their punishment may be lessened till they (the leaf) become dry." ________