Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: The praising of a deceased by the people)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1368.
حضرت ابو الاسود سے روایت ہے ،انھوں نے فرمایا:میں ایک دفعہ مدینہ طیبہ آیا جبکہ وہاں وبا پھیلی ہوئی تھی۔ میں سیدنا عمر ؓ کے پا بیٹھ گیا۔ ان کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو اس کی میت کی اچھی تعریف کی گئی۔ اس پر حضرت عمر ؓ نے فرمایا: واجب ہوگئی۔ پھر دوسرا جنازہ گزرا تو اس کی بھی تعریف کی گئی، تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا:واجب ہوگئی۔ پھر تیسرا جنازہ گزرا تو اس کی بُرائی بیان کی گئی اس پر آپ نے فرمایا واجب ہوگئی۔ ابوالاسود کہتے ہیں:میں نے کہا:امیرالمومنین! کیا واجب ہوگئی؟انھوں نے فرمایا:میں نے وہی کہا ہے جو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’جس مسلمان کے لیے چار آدمی اچھی گواہی دیں تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔‘‘ ہم نے عرض کیا:اگر تین آدمی گواہی دیں تو؟آپ ؓ نے فرمایا:’’تین بھی۔‘‘ پھر ہم نے عرض کیا :دو آدمی بھی؟آپ نے فرمایا:’’دو آدمی بھی۔‘‘ پھر ہم نے ایک شخص کی گواہی کے متعلق سوال نہیں کیا۔
تشریح:
(1) ایک آدمی کی گواہی کے متعلق اس لیے سوال نہ کیا گیا کہ گواہی کا نصاب کم از کم دو آدمی ہیں، چنانچہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے گواہی کا نصاب بھی ثابت کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الشھادات، حدیث:2643) واضح رہے کہ میت کے متعلق ان لوگوں کی گواہی کا اعتبار ہو گا جو دیندار اور دیانت دار ہوں کیونکہ بدکردار اور فسق و فجور میں مبتلا تو اپنے جیسے ہی کی تعریف کریں گے۔ اور ان لوگوں کی گواہی بھی معتبر نہیں ہو گی جنہیں میت کے ساتھ دشمنی یا حسد ہو، کیونکہ دشمن کی گواہی کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ (2) ایک حدیث میں ہے کہ جب کوئی آدمی فوت ہوتا ہے اور اس کے چار قریبی پڑوسی اس کے متعلق گواہی دیں کہ ہمیں اس میں خیر کے علاوہ کوئی چیز معلوم نہیں ہوئی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے تمہاری بات کو مان لیا اور جو عیب اور گناہ تمہیں معلوم نہیں تھے میں نے ان سے درگزر کر دیا۔ (مسندأحمد:242/3) اس میں کوئی شک نہیں کہ میت کے لیے لوگوں کی تعریف ایک اچھی علامت ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ضرورت کے وقت کسی کی اچھائی یا برائی بیان کی جا سکتی ہے اور ایسا کرنا ممنوعہ غیبت میں سے نہیں۔ (فتح الباري:294/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1329
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1368
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1368
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1368
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
تمہید باب
میت کی مطلق طور پر تعریف جائز اور مشروع ہے لیکن زندہ آدمی کی تعریف کرنا مشروط طور پر جائز ہے، یعنی شرط یہ ہے کہ اس تعریف میں مبالغہ آمیزی نہ ہو اور جس کی تعریف کی جا رہی ہے اس کے کبروغرور میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔
حضرت ابو الاسود سے روایت ہے ،انھوں نے فرمایا:میں ایک دفعہ مدینہ طیبہ آیا جبکہ وہاں وبا پھیلی ہوئی تھی۔ میں سیدنا عمر ؓ کے پا بیٹھ گیا۔ ان کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو اس کی میت کی اچھی تعریف کی گئی۔ اس پر حضرت عمر ؓ نے فرمایا: واجب ہوگئی۔ پھر دوسرا جنازہ گزرا تو اس کی بھی تعریف کی گئی، تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا:واجب ہوگئی۔ پھر تیسرا جنازہ گزرا تو اس کی بُرائی بیان کی گئی اس پر آپ نے فرمایا واجب ہوگئی۔ ابوالاسود کہتے ہیں:میں نے کہا:امیرالمومنین! کیا واجب ہوگئی؟انھوں نے فرمایا:میں نے وہی کہا ہے جو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’جس مسلمان کے لیے چار آدمی اچھی گواہی دیں تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔‘‘ ہم نے عرض کیا:اگر تین آدمی گواہی دیں تو؟آپ ؓ نے فرمایا:’’تین بھی۔‘‘ پھر ہم نے عرض کیا :دو آدمی بھی؟آپ نے فرمایا:’’دو آدمی بھی۔‘‘ پھر ہم نے ایک شخص کی گواہی کے متعلق سوال نہیں کیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک آدمی کی گواہی کے متعلق اس لیے سوال نہ کیا گیا کہ گواہی کا نصاب کم از کم دو آدمی ہیں، چنانچہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے گواہی کا نصاب بھی ثابت کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الشھادات، حدیث:2643) واضح رہے کہ میت کے متعلق ان لوگوں کی گواہی کا اعتبار ہو گا جو دیندار اور دیانت دار ہوں کیونکہ بدکردار اور فسق و فجور میں مبتلا تو اپنے جیسے ہی کی تعریف کریں گے۔ اور ان لوگوں کی گواہی بھی معتبر نہیں ہو گی جنہیں میت کے ساتھ دشمنی یا حسد ہو، کیونکہ دشمن کی گواہی کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ (2) ایک حدیث میں ہے کہ جب کوئی آدمی فوت ہوتا ہے اور اس کے چار قریبی پڑوسی اس کے متعلق گواہی دیں کہ ہمیں اس میں خیر کے علاوہ کوئی چیز معلوم نہیں ہوئی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے تمہاری بات کو مان لیا اور جو عیب اور گناہ تمہیں معلوم نہیں تھے میں نے ان سے درگزر کر دیا۔ (مسندأحمد:242/3) اس میں کوئی شک نہیں کہ میت کے لیے لوگوں کی تعریف ایک اچھی علامت ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ضرورت کے وقت کسی کی اچھائی یا برائی بیان کی جا سکتی ہے اور ایسا کرنا ممنوعہ غیبت میں سے نہیں۔ (فتح الباري:294/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عفان بن مسلم صفار نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے داؤد بن ابی الفرات نے‘ ان سے عبداللہ بن بریدہ نے‘ ان سے ابوالاسود دئلی نے کہ میں مدینہ حاضر ہوا۔ ان دنوں وہاں ایک بیماری پھیل رہی تھی۔ میں حضرت عمر بن خطاب ؓ کی خدمت میں تھا کہ ایک جنازہ سامنے سے گزرا۔ لوگ اس میت کی تعریف کرنے لگے تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ واجب ہوگئی، پھر ایک اور جنازہ گزرا، لوگ اس کی بھی تعریف کرنے لگے۔ اس مرتبہ بھی آپ نے ایسا ہی فرمایا کہ واجب ہوگئی۔ پھر تیسرا جنازہ نکلا‘ لوگ اس کی برائی کرنے لگے‘ اور اس مرتبہ بھی آپ نے یہی فرمایا کہ واجب ہوگئی۔ ابوالاسود دئلی نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا کہ امیرالمؤمنین کیا چیز واجب ہوگئی؟ آپ نے فرمایا کہ میں نے اس وقت وہی کہا جو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ جس مسلمان کی اچھائی پر چار شخص گواہی دے دیں اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا۔ ہم نے کہا اور اگر تین گواہی دیں؟ آپ نے فرمایا کہ تین پر بھی‘ پھر ہم نے پوچھا اور اگر دو مسلمان گواہی دیں؟ آپ نے فرمایا کہ دو پر بھی۔ پھر ہم نے یہ نہیں پوچھا کہ اگر ایک مسلمان گواہی دے تو کیا؟
حدیث حاشیہ:
باب کا مقصد یہ ہے کہ مرنے والوں نیکیوں کا ذکر خیر کرنا اور اسے نیک لفظوں سے یاد کرنا بہتر ہے۔ علامہ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: فِي رِوَايَةِ الِنَضْرِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَبِيهِ عِنْدَ الْحَاكِمِ كُنْتُ قَاعِدًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمُرَّ بِجِنَازَةٍ فَقَالَ مَا هَذِهِ الْجِنَازَةُ قَالُوا جِنَازَةُ فُلَانٍ الْفُلَانِيِّ كَانَ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَعْمَلُ بِطَاعَةِ اللَّهِ وَيَسْعَى فِيهَا وَقَالَ ضِدَّ ذَلِكَ فِي الَّتِي أَثْنَوْا عَلَيْهَا شَرًّا فَفِيهِ تَفْسِيرُ مَا أُبْهِمَ مِنَ الْخَيْرِ وَالشَّرِّ فِي رِوَايَةِ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَلِلْحَاكِمِ أَيْضًا مِنْ حَدِيثِ جَابِرٍ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لَنِعْمَ الْمَرْءُ لَقَدْ كَانَ عَفِيفًا مُسْلِمًا وَفِيهِ أَيْضًا فَقَالَ بَعْضُهُمْ بِئْسَ الْمَرْءُ كَانَ إِنْ كَانَ لَفَظًّا غَلِيظًا۔(فتح الباري)یعنی مسند حاکم میں نضربن انس عن ابیہ کی روایت میں یوں ہے کہ میں حضور ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک جنازہ وہاں سے گزارا گیا۔ آپ ﷺ نے پوچھا کہ یہ کس کا جنازہ ہے؟ لوگوں نے کہا کہ فلان بن فلان کا ہے جو اللہ اور رسول سے محبت رکھتا اور طاعت الٰہی میں عمل کرتا اور کوشاں رہتا تھا اور جس پر برائی کی گئی اس کا ذکر اس کے برعکس کیا گیا۔ پس اس روایت میں ابہام خیرو شر کی تفصیل مذکور ہے اور حاکم میں حدیث جابر بھی یوں ہے کہ بعض لوگوں نے کہا کہ یہ شخص بہت اچھا پاک دامن مسلمان تھا اور دوسرے کے لیے کہا گیا کہ وہ برا آدمی اور بداخلاق سخت کلامی کرنے والا تھا۔ خلاصہ یہ کہ مرنے والے کے متعلق اہل ایمان نیک لوگوں کی شہادت جس طور بھی ہو وہ بڑا وزن رکھتی ہے لفظ أنتُم شهداءُاللہِ في الأرضِ۔ میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔ خود قرآن مجید میں بھی یہ مضمون ان لفظوں میں مذکور ہے: ﴿وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ﴾ ( البقرة) ہم نے تم کو درمیانی امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بن جاؤ۔ شہادت کی ایک صورت یہ بھی ہے جو یہاں حدیث میں مذکور ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Al-Aswad (RA): I came to Madinah when an epidemic had broken out. While I was sitting with 'Umar bin Al-Khattab (RA) a funeral procession passed by and the people praised the deceased. 'Umar said, "It has been affirmed to him." And another funeral procession passed by and the people praised the deceased. 'Umar said, "It has been affirmed to him." A third (funeral procession) passed by and the people spoke badly of the deceased. He said, "It has been affirmed to him." I (Abu Al-Aswad) asked, "O chief of the believers! What has been affirmed?" He replied, "I said the same as the Prophet (ﷺ) had said, that is: if four persons testify the piety of a Muslim, Allah will grant him Paradise." We asked, "If three persons testify his piety?" He (the Prophet) replied, "Even three." Then we asked, "If two?" He replied, "Even two." We did not ask him regarding one witness. ________