Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: The punishment in the grave)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ اور اے پیغمبر! کاش تو اس وقت کو دیکھے جب ظالم کافر موت کی سختیوں میں گرفتار ہوتے ہیں اور فرشتے اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے کہتے جاتے ہیں کہ اپنی جانیں نکالو آج تمہاری سزا میں تم کو رسوائی کا عذاب (یعنی قبر کا عذاب) ہونا ہے۔ امام بخاری نے کہا کہ لفظ «هون» قرآن میں «هوان» کے معنے میں ہے یعنی ذلت اور رسوائی اور ہون کا معنی نرمی اور ملائمت ہے۔ اور اللہ نے سورۃ التوبہ میں فرمایا کہ ہم ان کو دو بار عذاب دیں گے۔ (یعنی دنیا میں اور قبر میں) پھر بڑے عذاب میں لوٹائے جائیں گے۔ اور سورۃ مومن میں فرمایا فرعون والوں کو برے عذاب نے گھیر لیا، صبح اور شام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں اور قیامت کے دن تو فرعون والوں کے لیے کہا جائے گا ان کو سخت عذاب میں لے جاؤ۔امام بخاری نے ان آیتوں سے قبر کا عذاب ثابت کیا ہے۔ اس کے سوا اور آیتیں بھی ہیں ۔ آیت «يثبت الله الذين آمنوابالقول الثابت»(ابراہیم:27) آخر تک یہ بالاتفاق سوال قبر کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ جیسا کہ آگے مذکور ہے۔
1373.
حضرت اسماء ؓ بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ خطبے کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ نے قبر کے فتنے کا ذکر کیا جس میں آدمی مبتلا ہوتا ہے۔جب آپ نے یہ ذکر کیا تو مسلمان چیخیں مار کر رونے لگے۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اس روایت کو انتہائی اختصار سے روایت کیا ہے۔ سنن نسائی میں تفصیل ہے کہ مسلمانوں کی آہ و بکا اور گریہ کی وجہ سے میں رسول اللہ ﷺ کا خطبہ نہ سمجھ سکی، چنانچہ جب وہ خاموش ہوئے تو میں نے پاس بیٹھے ہوئے ایک آدمی سے کہا: اللہ تعالیٰ آپ کو خیروبرکت سے نوازے! رسول اللہ ﷺ نے اپنے خطبے کے آخر میں کیا فرمایا تھا؟ اس نے کہا: آپ نے فرمایا: ’’میری طرف وحی کی گئی کہ تم اپنی قبروں میں فتنہ دجال کی طرح آزمائش و امتحان سے دوچار ہو گے۔‘‘(سنن النسائي، الجنائز، حدیث:2064) (2) عذاب قبر کے متعلق ایک اور روایت بھی بہت واضح ہے جسے حضرت زید بن حارثہ ؓ کی بیوی ام مبشر ؓ نے بیان کیا ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس آئے جبکہ میں بنو نجار کے باغ میں اپنے کام کاج میں مصروف تھی۔ اس باغ میں قبل از اسلام مرے ہوئے لوگوں کی قبریں تھیں۔ آپ نے عذاب کی وجہ سے ان کی چیخ پکار سنی تو یہ فرماتے ہوئے وہاں سے نکلے: ’’عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگو۔‘‘ میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا انہیں قبروں میں عذاب ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، ایسا عذاب ہوتا ہے کہ ان کی چیخ پکار حیوانات ہی سنتے ہیں‘‘(مسندأحمد:362/6)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1334
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1373
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1373
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1373
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
تمہید باب
پہلی آیت میں ہے کہ جب فرشتے کافروں کو اللہ کے عذاب کی خبر دیتے ہیں تو ان کی روحیں جسم میں پھیل جاتی ہیں اور باہر نکلنے سے انکار کرتی ہیں، اس لیے فرشتے انہیں مارتے ہوئے کہتے ہیں: تم روحوں کو نکالو اور ہمارے حوالے کرو۔ یہ ذلت کا عذاب قیامت سے پہلے ہو گا اور اسی کو عذاب قبر کہتے ہیں۔ اگرچہ عنوان میں عذاب قبر کا ذکر ہے لیکن مذکورہ آیت میں ذلت کا عذاب دفن سے پہلے بیان ہوا ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ مذکورہ عذاب، قیامت سے پہلے ہو گا۔ قبر کی طرف عذاب کی نسبت اس لیے ہے کہ اکثر مردوں کو قبر میں عذاب ہوتا ہے، البتہ کافر کے لیے تو موت کے بعد ہی عذاب کا آغاز کر دیا جاتا ہے اگرچہ اسے دفن نہ کیا جائے مگر یہ عذاب مخلوق سے پوشیدہ ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اسے عذاب برزخ کہا جاتا ہے۔ ہاتھ پھیلانے سے مراد ان کے چہروں اور کمروں کو مارنا ہے جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر اس کی صراحت ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: (فَكَيْفَ إِذَا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ ﴿٢٧﴾) (محمد27:47) "ان کافروں کی اس وقت کیا حالت ہو گی جب فرشتے ان کے چہروں اور کمروں کو مارتے ہوئے انہیں فوت کریں گے۔" بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عذاب قبر صرف خبر واحد سے ثابت ہے، اس لیے قابل اعتنا نہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات سے اس کا ثبوت مہیا کر کے ان کی تردید کی ہے۔ (فتح الباری:3/296) دوسری آیت میں دو مرتبہ عذاب سے مراد ایک دنیا کی ذلت و رسوائی اور دوسرا عذاب قبر ہے۔ یہ دونوں عذاب منافقین کو قیامت کے دن بڑے عذاب سے پہلے بھگتنا ہوں گے۔ بہرحال انہیں قیامت سے پہلے دو قسم کے عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا، ان میں یقینا ایک عذاب قبر ہے۔ (فتح الباری:3/297) ارشاد باری تعالیٰ: (وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ) میں فرعون اور قوم فرعون کی ذلت و رسوائی کا بیان ہے۔ سمندر میں غرق ہونے والوں میں سے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی عبرت کے لیے صرف فرعون کی لاش کو بچا لیا۔ باقی سب لوگوں کی لاشیں سمندر میں آبی جانوروں کی خوراک بن گئیں یا سمندر کی تہہ میں چلی گئیں۔ اب ان غرق ہونے والوں کی لاشیں خواہ سمندر کی تہہ میں ہوں یا آبی جانوروں کے پیٹ میں یا فرعون کی لاش قاہرہ کے عجائب گھر میں پڑی ہو، ان سب کی روحیں غرق ہوتے ہی اللہ کے قبضے میں چلی گئی تھیں۔ غرق ہونے کے دن سے لے کر قیامت تک ان روحوں کو صبح و شام اس دوزخ پر لاکھڑا کیا جاتا ہے جس میں وہ قیامت کے دن اپنے جسموں سمیت داخل ہونے والے ہیں۔ ان کی موت سے لے کر قیامت تک کے عرصے میں جسے اصطلاحی زبان میں عالم برزخ کہا جاتا ہے صرف آگ پر پیش ہوتی ہیں۔ اس اعتبار سے عالم برزخ کا عذاب قیامت کے عذاب سے بہت ہلکا ہے۔ جمہور اہل علم کا یہی موقف ہے کہ یہ پیشی عالم برزخ میں ہے اور اسی کو عذاب قبر کہتے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں عذاب قبر کے متعلق صراحت موجود ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت کریمہ سے عذاب قبر کو ثابت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے متعلق کوئی بات نہیں کی کہ عذاب قبر صرف روح کو ہوتا ہے یا روح اور جسم دونوں اس سے دوچار ہوتے ہیں۔ چونکہ اس کے متعلق متکلمین میں بہت اختلاف ہے، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے دانستہ اس بحث کو چھوڑ دیا ہے، صرف عذاب قبر کے وجود کو ثابت کیا ہے۔ خوارج اور کچھ معتزلہ اس کا انکار کرتے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عذاب قبر صرف کافروں کو ہو گا، اہل ایمان اس سے محفوظ رہیں گے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے ذریعے سے ان تمام لوگوں کی تردید کی ہے۔ دور حاضر میں بعض حضرات نے زمینی قبر کے بجائے برزخی قبر کا شوشہ چھوڑا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ تمام مرنے والوں کو قبر نہیں ملتی بلکہ ڈوبنے والا، جل کر مرنے والا اور جانور کے پیٹ میں جانے والا اس طرح دیگر بے شمار انسان ہیں جنہیں دفن نہیں کیا جاتا، حالانکہ ان سب کو عذاب و ثواب ہوتا ہے اور ان سے سوال و جواب بھی ہوتے ہیں، لہذا قبر سے مراد زمینی گڑھا نہیں بلکہ برزخی قبر ہے۔ اس کے متعلق ضروری تفصیل حسب ذیل ہے: ارشاد باری تعالیٰ ہے: (قُتِلَ الْإِنسَانُ مَا أَكْفَرَهُ ﴿١٧﴾ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ﴿١٨﴾ مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ ﴿١٩﴾ ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ ﴿٢٠﴾ ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ ﴿٢١﴾ ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنشَرَهُ ﴿٢٢﴾) (عبس17:80۔22) "مارا جائے انسان وہ کیسا منکر حق ہے؟ اللہ نے اسے کس چیز سے پیدا کیا؟نطفے سے اللہ نے اسے پیدا کیا، پھر اس کی تقدیر مقرر کی، پھر اس کے لیے راستہ آسان کیا، پھر اسے موت دی اور قبر میں رکھا، پھر وہ جب چاہے گا اسے دوبارہ اٹھا کھڑا کرے گا۔" ان آیات سے معلوم ہوا کہ ہر مرنے والے کو قبر ملتی ہے۔ دراصل قبر سے مراد وہ گڑھا ہے جس میں میت کو دفن کیا جاتا ہے۔ چونکہ مرنے کے بعد بیشتر افراد کو زمینی گڑھا مل جاتا ہے، اس لیے عام طور پر قبر کا اطلاق اسی پر ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں کئی ایک مقام پر یہ لفظ زمینی قبر پر استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِ) (التوبۃ84:9) "آپ ان میں سے کسی مرنے والے کی نماز جنازہ نہ پڑھیں اور نہ ان کی قبر ہی پر کھڑے ہوں۔" اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی قبر ہے جس پر کھڑے ہو کر دعا کرنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منع کیا گیا ہے؟ ظاہر ہے کہ اسی زمینی قبر کے متعلق یہ حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ ﴿١﴾ حَتَّىٰ زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ﴿٢﴾) (التکاثر1:102،2) "تمہیں کثرت مال کی طلب نے غافل کر رکھا ہے حتی کہ تم لب گور پہنچ گئے۔" اس آیت کریمہ میں مقابر سے مراد یہی قبرستان ہے جسے ہم اپنے مردوں کو دفن کرنے کے لیے بناتے ہیں، نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَإِذَا الْقُبُورُ بُعْثِرَتْ ﴿٤﴾) (الانفطار4:82) "اور جب قبروں کو زیروزبر کر دیا جائے گا۔" اس آیت کریمہ میں لفظ قبور، قبر کی جمع ہے۔ اس سے مراد یہی زمینی گڑھا ہے۔ ان قبروں کو اکھاڑ کر ان سے مردوں کو برآمد کیا جائے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (أَفَلَا يَعْلَمُ إِذَا بُعْثِرَ مَا فِي الْقُبُورِ ﴿٩﴾) (العٰدیات9:100) "کیا پھر وہ نہیں جانتا جب نکال باہر کیا جائے گا جو کچھ قبروں میں ہے۔" اس آیت کریمہ کے معنی یہ ہیں کہ قرب قیامت کے وقت قبروں سے مردوں کو نکال باہر کیا جائے گا۔ اس آیت میں قبروں سے مراد بھی زمینی گڑھے ہیں۔ بنیادی طور پر دنیاوی قبر کا تعلق برزخ سے ہے اور برزخ اس رکاوٹ کا نام ہے جو دو چیزوں کے درمیان حائل ہوتی ہے۔ شرعی اصطلاح میں دنیا و آخرت کے درمیان اٹکاؤ کے زمانے کو برزخ کہا جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ ﴿١٠٠﴾) (المؤمنون100:23) "اور ان کے درمیان دوبارہ زندہ ہونے کے دن تک ایک آڑ حائل ہے۔۔" برزخ میں انسان اہل دنیا اور اہل عقبیٰ دونوں سے اوٹ میں ہوتا ہے۔ گویا قبر دنیاوی زندگی کے اختتام پر اور اخروی زندگی سے قبل جزا و سزا کا پہلا گھر ہے، پھر قیامت کے دن اس کا پورا پورا بدلہ جنت یا دوزخ کی شکل میں دیا جائے گا۔ برزخ کے عذاب و ثواب کو قبر کی طرف اس لیے منسوب کیا جاتا ہے کہ مرنے کے بعد انسان اس میں داخل ہوتا ہے۔ جن لوگوں کو قبر مل جاتی ہے انہیں عذاب و ثواب کا احساس اس دنیاوی قبر میں ہو گا اور جو شخص پانی میں غرق ہو کر ختم ہو جائے یا اسے درندہ کھا جائے یا جل کر راکھ ہو جائے تو اس کی وہی قبر ہے جہاں اس کے اجزاء پڑے ہیں اور ان اجزاء کو اسی جگہ ثواب و عذاب سے دوچار کیا جائے گا اور قبر کے سوال و جواب بھی اسی جگہ ہوں گے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے متعدد آیات سے اسی برزخی عذاب کو ثابت کیا ہے جسے دوسرے الفاظ میں عذاب قبر کہتے ہیں اور یہ برحق ہے جس پر جملہ اہل اسلام کا اجماع ہے۔ اور اس کے متعلق اس قدر تواتر کے ساتھ احادیث مروی ہیں کہ اگر ان کا انکار کر دیا جائے تو پھر دین کے کسی معاملے کو صحیح قرار نہیں دیا جا سکتا۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے قبر کا مفہوم وسیع معنوں میں لیا ہے، فرماتے ہیں کہ قبر اس جگہ کا نام ہے جہاں میت کا زمین میں مستقر ہو اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مرنے کے بعد انسان کا آخری مکان زمین ہی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ كِفَاتًا ﴿٢٥﴾ أَحْيَاءً وَأَمْوَاتًا ﴿٢٦﴾) (المرسلات25:77،26) "کیا ہم نے زمین کو سمیٹ کر رکھنے والی نہیں بنا دیا؟ زندوں کو بھی اور مردوں کو بھی۔" یعنی زمین زندوں اور مردوں سب کو سمیٹ لیتی ہے، اس لیے میت ڈوبنے والے کی ہو یا جلنے والے کی، خواہ وہ درندوں کے پیٹ میں جائے یا پرندوں کے شکم میں یا دریا میں مچھلیاں اسے نگل لیں، سب کا نتیجہ مٹی ہونا اور زمین ہی میں ملنا ہے۔ قارئین کرام کو ہم ایک اور حقیقت سے بھی آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ قبر میں میت سے سوال و جواب کے وقت اس کی روح کا اعادہ بھی کیا جاتا ہے جیسا کہ حدیث میں اس کا ثبوت ہے۔ (مسنداحمد:4/287) لیکن اس اعادہ روح کے باوجود دنیا والے میت کے حالات سے بالکل بے خبر ہوتے ہیں اور دنیا کے اعتبار سے اس میت میں زندگی کے کوئی ظاہری آثار بھی نظر نہیں آتے بلکہ وہ مردوں ہی میں شمار ہوتا ہے کیونکہ یہ اعادہ روح دنیا کے اعادے کی طرح نہیں۔ امام طحاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: روح کا جسم میں واپس آنا اس طرح کا نہیں جس طرح دنیا میں معروف ہے بلکہ قبر میں روح کا اعادہ اس اعادے سے مختلف ہے جس سے ہم دنیا کے اعتبار سے مانوس ہیں۔ (شرح عقیدۃ الطحاویۃ،ص:348) دنیا میں جب انسان سوتا ہے تو قرآنی نص کے مطابق اس کی روح قبض ہو جاتی ہے اور جب بیدار ہوتا ہے تو اسے لوٹا دیا جاتا ہے لیکن اس طرح روح کے بار بار آنے اور جانے کے باوجود دو زندگیوں اور دو موتوں کے عقیدے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اسی طرح مرنے کے بعد میت کی طرف اعادہ روح سے بھی دو زندگیوں کا عقیدہ متاثر نہیں ہوتا۔ قرآنی تصریح کے مطابق مرنے کے بعد روحیں اللہ کے ہاں روکی ہوتی ہیں، انہیں راحت و آرام اور عذاب و عتاب اللہ کی مشیت کے تحت پہنچتا رہتا ہے۔ چونکہ انسانی جسم روح کا آلہ کار ہوتا ہے، اس لیے اسے بھی جزا و سزا کا احساس ہو گا۔ یہ بات کہ روحیں اللہ کے ہاں روکی ہوتی ہیں، اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: (اللَّـهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ) (الزمر42:39) "اللہ ہی ہے جو موت کے وقت روحیں قبض کر لیتا ہے اور جو مرا نہ ہو اس کی روح نیند کی حالت میں قبض کر لیتا ہے، پھر جس کی موت کا فیصلہ ہو چکا ہو اس کی روح کو روک لیتا ہے اور دوسری روحیں ایک مقررہ وقت تک کے لیے واپس بھیج دیتا ہے۔" ایک حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے جس کے الفاظ بطور دعا یہ ہیں: "اور اگر اسے آزاد کر دے تو اس کی حفاظت فرما۔" (صحیح البخاری،الدعوات،حدیث:6320) الغرض عذاب قبر کا مسئلہ کتاب و سنت کی بے شمار نصوص سے ثابت ہے اور اس کی کیفیت ایک برزخی معاملہ ہے جس کا دنیا میں فیصلہ کرنا انسانی استطاعت سے باہر ہے۔ اکٹھے سوئے ہوئے دو آدمی بحالت خواب مختلف قسم کے مناظر دیکھتے ہیں۔ ایک ہنستا ہے اور دوسرا روتا ہے، دوسرے لوگوں کو حتی کہ ان میں سے کسی کو دوسرے کی حالت کا شعور یا ادراک نہیں ہوتا، حالانکہ وہ ایک ہی جگہ سوئے ہوتے ہیں۔ برزخ کا معاملہ تو بہت وسیع ہے جس کا ادراک انسانی دائرہ اختیار میں نہیں۔ اس پر ایمان لانے ہی میں عافیت ہے۔ روح قبض ہوتے ہی اس کی حقیقت سے پردہ اٹھا دیا جائے گا، البتہ اس وقفے میں ثواب و عتاب اسی زمینی قبر میں ہو گا، جیسا کہ درج ذیل واقعے سے معلوم ہوتا ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ سفر میں جاتے ہوئے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے دریافت کیا کہ یہ دو نئی قبریں کن لوگوں کی ہیں جبکہ انہیں عذاب دیا جا رہا تھا۔ لوگوں کی نشاندہی کے بعد آپ نے کھجور کی ایک چھڑی لے کر اس کے دو حصے کیے اور دونوں قبروں پر ایک ایک حصہ گاڑ دیا، پھر فرمایا کہ شاید ان کے خشک ہونے تک ان کے عذاب میں کمی کر دی جائے۔ (صحیح البخاری،الجنائز،حدیث:1361) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان زمینی قبروں پر کھجور کی تازہ چھڑیوں کو گاڑنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ان دونوں کو اسی زمینی قبر میں عذاب دیا جا رہا تھا۔ برزخی قبر کی دریافت ایجاد بندہ ہے جس کا قرآن و حدیث سے ثبوت نہیں ملتا۔
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ اور اے پیغمبر! کاش تو اس وقت کو دیکھے جب ظالم کافر موت کی سختیوں میں گرفتار ہوتے ہیں اور فرشتے اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے کہتے جاتے ہیں کہ اپنی جانیں نکالو آج تمہاری سزا میں تم کو رسوائی کا عذاب (یعنی قبر کا عذاب) ہونا ہے۔ امام بخاری نے کہا کہ لفظ «هون» قرآن میں «هوان» کے معنے میں ہے یعنی ذلت اور رسوائی اور ہون کا معنی نرمی اور ملائمت ہے۔ اور اللہ نے سورۃ التوبہ میں فرمایا کہ ہم ان کو دو بار عذاب دیں گے۔ (یعنی دنیا میں اور قبر میں) پھر بڑے عذاب میں لوٹائے جائیں گے۔ اور سورۃ مومن میں فرمایا فرعون والوں کو برے عذاب نے گھیر لیا، صبح اور شام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں اور قیامت کے دن تو فرعون والوں کے لیے کہا جائے گا ان کو سخت عذاب میں لے جاؤ۔امام بخاری نے ان آیتوں سے قبر کا عذاب ثابت کیا ہے۔ اس کے سوا اور آیتیں بھی ہیں ۔ آیت «يثبت الله الذين آمنوابالقول الثابت»(ابراہیم:27) آخر تک یہ بالاتفاق سوال قبر کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ جیسا کہ آگے مذکور ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت اسماء ؓ بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ خطبے کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ نے قبر کے فتنے کا ذکر کیا جس میں آدمی مبتلا ہوتا ہے۔جب آپ نے یہ ذکر کیا تو مسلمان چیخیں مار کر رونے لگے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے اس روایت کو انتہائی اختصار سے روایت کیا ہے۔ سنن نسائی میں تفصیل ہے کہ مسلمانوں کی آہ و بکا اور گریہ کی وجہ سے میں رسول اللہ ﷺ کا خطبہ نہ سمجھ سکی، چنانچہ جب وہ خاموش ہوئے تو میں نے پاس بیٹھے ہوئے ایک آدمی سے کہا: اللہ تعالیٰ آپ کو خیروبرکت سے نوازے! رسول اللہ ﷺ نے اپنے خطبے کے آخر میں کیا فرمایا تھا؟ اس نے کہا: آپ نے فرمایا: ’’میری طرف وحی کی گئی کہ تم اپنی قبروں میں فتنہ دجال کی طرح آزمائش و امتحان سے دوچار ہو گے۔‘‘(سنن النسائي، الجنائز، حدیث:2064) (2) عذاب قبر کے متعلق ایک اور روایت بھی بہت واضح ہے جسے حضرت زید بن حارثہ ؓ کی بیوی ام مبشر ؓ نے بیان کیا ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس آئے جبکہ میں بنو نجار کے باغ میں اپنے کام کاج میں مصروف تھی۔ اس باغ میں قبل از اسلام مرے ہوئے لوگوں کی قبریں تھیں۔ آپ نے عذاب کی وجہ سے ان کی چیخ پکار سنی تو یہ فرماتے ہوئے وہاں سے نکلے: ’’عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگو۔‘‘ میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا انہیں قبروں میں عذاب ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، ایسا عذاب ہوتا ہے کہ ان کی چیخ پکار حیوانات ہی سنتے ہیں‘‘(مسندأحمد:362/6)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور اگر آپ دیکھیں جبکہ ظلم پیشہ لوگ موت کی سختیوں میں ہوں گے اور فرشتے اپنے ہاتھ پھیلا کران سے کہیں گے: نکالو اپنی جانیں۔ آج تمھیں ذلت کے عذاب سے دوچار کیاجائے گا۔
ابو عبداللہ (امام بخاری) فرماتے ہیں هُون کے معنی هَوَان یعنی رسوائی کے ہیں اور هَون نرمی کو کہتے ہیں۔ اللہ جل شانہ کاارشاد ہے: "جلد ہی ہم انھیں دو مرتبہ سزا دیں گے، پھر وہ بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ "نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور آل فرعون کو بُرے عذاب نے گھیر لیا، جو آگ ہے وہ صبح شام اس پر پیش کیے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہوگی(تو حکم ہوگا کہ) آل فرعون کو سخت ترین عذاب میں داخل کردو۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحیٰی بن سلیمان نے بیان کیا انہوں نے کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ مجھے یونس نے ابن شہاب سے خبر دی ‘ انہوں نے کہا مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی ‘ انہوں نے سسما بنت ابی بکر ؓ سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ ﷺ نے قبر کے امتحان کا ذکر کیا جہاں انسان جانچا جاتا ہے۔ جب حضور اکرم ﷺ اس کا ذکر کررہے تھے تو مسلمانوں کی ہچکیاں بندھ گئیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Asma' bint Abi Bakr : Allah's Apostle (ﷺ) once stood up delivering a sermon and mentioned the trial which people will face in the grave. When he mentioned that, the Muslims started shouting loudly.