Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: Punishment in the grave because of back-biting and soiling one's clothes with urine)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1378.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کا گزر دو قبروں کے پاس سے ہواتو آپ نے فرمایا:’’ان دونوں کو عذاب ہورہاہے اور کسی بڑے گناہ کی پاداش میں انھیں سزا نہیں دی جارہی۔‘‘ پھر فرمایا:’’کیوں نہیں!ایک ان میں سے چغلی کھاتا پھرتا تھا اور دوسرا اپنے پیشاب (کے چھینٹوں) سے پرہیز نہیں کرتا تھا۔‘‘ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: پھر آپ نے (کھجور کی) ایک تازہ شاخ لی اور اسکے دو ٹکڑے کیے، پھر ہر ایک کو قبر پر گاڑ کر فرمایا:’’جب تک یہ خشک نہ ہوں گے امید ہے کہ ان کے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے گی۔‘‘
تشریح:
(1) اگرچہ اس حدیث میں غیبت کا ذکر نہیں، لیکن غیبت اور چغلی قریب قریب ایک ہی قسم کے گناہ ہیں، اس لیے دونوں عذاب قبر کے اسباب میں سے ہیں، تاہم اس حدیث کے بعض طرق میں لفظ غیبت آیا بھی ہے۔ (2) حافظ ابن حجرؒ نے زین بن منیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس عنوان میں صرف دو چیزوں کا ذکر ان کی اہمیت کے پیش نظر کیا گیا ہے، ان کے علاوہ دوسرے گناہوں کی نفی نہیں ہے، یعنی ان کے ذکر سے یہ لازم نہیں آتا کہ عذاب قبر صرف ان دو گناہوں پر منحصر ہے۔ اس مقام پر صرف ان کا ذکر کرنا، اس لیے ہے کہ ان کے ارتکاب پر عذاب قبر کا ہونا زیادہ ممکن ہے کیونکہ یہ دونوں کام عوامی نوعیت کے ہیں۔ کتب حدیث میں حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ پیشاب سے پرہیز کیا کرو، کیونکہ عام طور پر عذاب قبر اس سے بدپرہیزی کی بنا پر ہوتا ہے۔ (سنن دارقطني:127/1، و فتح الباري:308/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1339
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1378
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1378
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1378
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کا گزر دو قبروں کے پاس سے ہواتو آپ نے فرمایا:’’ان دونوں کو عذاب ہورہاہے اور کسی بڑے گناہ کی پاداش میں انھیں سزا نہیں دی جارہی۔‘‘ پھر فرمایا:’’کیوں نہیں!ایک ان میں سے چغلی کھاتا پھرتا تھا اور دوسرا اپنے پیشاب (کے چھینٹوں) سے پرہیز نہیں کرتا تھا۔‘‘ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: پھر آپ نے (کھجور کی) ایک تازہ شاخ لی اور اسکے دو ٹکڑے کیے، پھر ہر ایک کو قبر پر گاڑ کر فرمایا:’’جب تک یہ خشک نہ ہوں گے امید ہے کہ ان کے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے گی۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اگرچہ اس حدیث میں غیبت کا ذکر نہیں، لیکن غیبت اور چغلی قریب قریب ایک ہی قسم کے گناہ ہیں، اس لیے دونوں عذاب قبر کے اسباب میں سے ہیں، تاہم اس حدیث کے بعض طرق میں لفظ غیبت آیا بھی ہے۔ (2) حافظ ابن حجرؒ نے زین بن منیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس عنوان میں صرف دو چیزوں کا ذکر ان کی اہمیت کے پیش نظر کیا گیا ہے، ان کے علاوہ دوسرے گناہوں کی نفی نہیں ہے، یعنی ان کے ذکر سے یہ لازم نہیں آتا کہ عذاب قبر صرف ان دو گناہوں پر منحصر ہے۔ اس مقام پر صرف ان کا ذکر کرنا، اس لیے ہے کہ ان کے ارتکاب پر عذاب قبر کا ہونا زیادہ ممکن ہے کیونکہ یہ دونوں کام عوامی نوعیت کے ہیں۔ کتب حدیث میں حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ پیشاب سے پرہیز کیا کرو، کیونکہ عام طور پر عذاب قبر اس سے بدپرہیزی کی بنا پر ہوتا ہے۔ (سنن دارقطني:127/1، و فتح الباري:308/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا کہا ہم سے جریر نے بیان کیا ان سے اعمش نے‘ ان سے مجاہد نے‘ ان سے طاؤس نے کہ ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کا گزر دو قبروں پر ہوا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان دونوں کے مردوں پر عذاب ہورہا ہے اور یہ بھی نہیں کہ کسی بڑی اہم بات پر ہورہا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں! ان میں ایک شخص تو چغل خوری کیا کرتا تھا اور دوسرا پیشاب سے بچنے کے لیے احتیاط نہیں کرتا تھا۔ ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ پھر آپ ﷺ نے ایک ہری ٹہنی لی اور اس کے دو ٹکڑے کرکے دونوں کی قبروں پر گاڑدیا اور فرمایا کہ شاید جب تک یہ خشک نہ ہوں ان کا عذاب کم ہوجائے۔
حدیث حاشیہ:
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: قَالَ الزَّيْنُ بْنُ الْمُنِيرِ الْمُرَادُ بِتَخْصِيصِ هَذَيْنِ الْأَمْرَيْنِ بِالذِّكْرِ تَعْظِيمُ أَمْرِهِمَا لَا نَفْيُ الْحُكْمِ عَمَّا عَدَاهُمَا فَعَلَى هَذَا لَا يَلْزَمُ مِنْ ذِكْرِهِمَا حَصْرُ عَذَابِ الْقَبْرِ فِيهِمَا لَكِنِ الظَّاهِرُ مِنَ الِاقْتِصَارِ عَلَى ذِكْرِهِمَا أَنَّهُمَا أَمْكَنُ فِي ذَلِكَ مِنْ غَيْرِهِمَا وَقَدْ رَوَى أَصْحَابُ السُّنَنِ مِنْ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ اسْتَنْزِهُوا مِنَ الْبَوْلِ فَإِنَّ عَامَّةَ عَذَابِ الْقَبْرِ مِنْهُ ثُمَّ أَوْرَدَ المُصَنّف حَدِيث بن عَبَّاسٍ فِي قِصَّةِ الْقَبْرَيْنِ وَلَيْسَ فِيهِ لِلْغِيبَةِ ذِكْرٌ وَإِنَّمَا وَرَدَ بِلَفْظِ النَّمِيمَةِ وَقَدْ تَقَدَّمَ الْكَلَامُ عَلَيْهِ مُسْتَوْفًى فِي الطَّهَارَةِ(فتح الباري)یعنی زین بن منیر نے کہا کہ باب میں صرف دو چیزوں کا ذکر ان کی اہمیت کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ دوسرے گناہوں کی نفی مراد نہیں۔ پس ان کے ذکر سے یہ لازم نہیں آتا کہ عذاب قبر ان ہی دو گناہوں پر منحصر ہے۔ یہاں ان کے ذکر پر کفایت کرنا اشارہ ہے کہ ان کے ارتکاب کرنے پر عذاب قبر کا ہونا زیادہ ممکن ہے۔ حدیث ابوہریرہ ؓ کے لفظ یہ ہیں کہ پیشاب سے پاکی حاصل کرو، کیونکہ عام طور پر عذاب قبراسی سے ہوتا ہے۔ باب کے بعد مصنف ؒ نے یہاں حدیث ابن عباس ؓ سے دو قبروں کا قصہ نقل فرمایا۔ اس میں غیبت کا لفظ نہیں ہے بلکہ چغل خور کا لفظ وارد ہوا ہے مزید وضاحت کتاب الطہارۃ میں گزر چکی ہے۔ غیبت اور چغلی قریب قریب ایک ہی قسم کے گناہ ہیں اس لیے ہر دو عذاب قبر کے اسباب ہیں
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA): The Prophet (ﷺ) once passed by two graves and said, "They (the deceased persons in those graves) are being tortured not for a great thing to avoid." And then added, "Yes, (they are being punished for a big sin), for one of them used to go about with calumnies while the other never saved himself from being soiled with his urine." ( Ibn Abbas (RA) added): Then he took a green leaf of a date-palm) and split it into two pieces and fixed one piece on each grave and said, "May their punishment be abated till these (two pieces) get dry." ________