باب: نبی کریم ﷺ اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی قبروں کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: The graves of the Prophet (pbuh), Abu Bakr, and Umar Radiyallahu Anhu)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور سورۃ عبس میں جو آیا ہے «فأقبره» تو عرب لوگ کہتے ہیں «أقبرت الرجل» «اقبره» یعنی میں نے اس کے لیے قبر بنائی اور «قبرته» کے معنی میں نے اسے دفن کیا اور سورۃ المرسلات میں جو «كفاتا» کا لفظ ہے زندگی بھی زمین ہی پر گزارو گے اور مرنے کے بعد بھی اسی میں دفن ہوں گے۔
1389.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ اپنی مرض وفات میں بار بار اظہار خیال فرماتے:’’میں آج کہاں ہوں؟کل کہاں ہوں گا؟‘‘ ایساعائشہ کی باری کو بہت دور خیال کرنے کیوجہ سے کرتے تھے۔ بالآخر جب میرا دن آیاتو اللہ تعالیٰ نے آپ کو میرے پہلو اورسینے کے درمیان قبض کیا اور آپ میرے گھر ہی میں دفن ہوئے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1350
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1389
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1389
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1389
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان کی مناسبت سے قرآن میں آنے والے لفظ قبر کی لغوی تشریح کی ہے کہ اگر مزید فیہ استعمال ہو تو اس کے معنی قبر تیار کرنا اور اگر مجرد ہو تو اس کے معنی دفن کرنا ہیں۔ پھر ایک دوسرا لفظ جو اس معنی میں استعمال ہوتا ہے اس کی تشریح کی ہے۔ (فتح الباری:3/325)
اور سورۃ عبس میں جو آیا ہے «فأقبره» تو عرب لوگ کہتے ہیں «أقبرت الرجل» «اقبره» یعنی میں نے اس کے لیے قبر بنائی اور «قبرته» کے معنی میں نے اسے دفن کیا اور سورۃ المرسلات میں جو «كفاتا» کا لفظ ہے زندگی بھی زمین ہی پر گزارو گے اور مرنے کے بعد بھی اسی میں دفن ہوں گے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ اپنی مرض وفات میں بار بار اظہار خیال فرماتے:’’میں آج کہاں ہوں؟کل کہاں ہوں گا؟‘‘ ایساعائشہ کی باری کو بہت دور خیال کرنے کیوجہ سے کرتے تھے۔ بالآخر جب میرا دن آیاتو اللہ تعالیٰ نے آپ کو میرے پہلو اورسینے کے درمیان قبض کیا اور آپ میرے گھر ہی میں دفن ہوئے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اس نے اسے قبر میں رکھا۔ "عربی میں اقبرت الرجل کے معنی ہیں: میں نے آدمی کی قبر تیارکی۔ اورقبرته کے معنی ہیں: میں نے اسے دفن کیا۔ (ارشاد باری تعالیٰ ہے: کیا ہم نے زمین کو)"سمیٹ کر رکھنے والی"(نہیں بنایا؟) اس کا مطلب ہے کہ اس زمین میں لوگ زندگی بسر کریں گے اور مرنے کے بعد اس میں دفن کیے جائیں گے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا‘ کہا کہ مجھ سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا اور ان سے ہشام بن عروہ نے ( دوسری سند۔ امام بخاری نے کہا ) اور مجھ سے محمد بن حرب نے بیان کیا‘ کہا ہم سے ابو مروان یحیٰی بن ابی زکریا نے بیان کیا‘ ان سے ہشام بن عروہ نے‘ ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے مرض الوفات میں گویا اجازت لینا چاہتے تھے ( دریافت فرماتے ) آج میری باری کن کے یہاں ہے۔ کل کن کے یہاں ہوگی؟ عائشہ ؓ کی باری کے دن کے متعلق خیال فرماتے تھے کہ بہت دن بعد آئے گی۔ چنانچہ جب میری باری آئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح اس حال میں قبض کی کہ آپ میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے اور میرے ہی گھر میں آپ دفن کئے گئے۔
حدیث حاشیہ:
29 صفر 11 ھ کا دن تھا کہ رسول پاک ﷺ کو تکلیف شروع ہوئی اور ابوسعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ جو رومال حضور کے سر مبارک پر تھا اور بخار کی وجہ سے ایسا گرم تھا کہ میرے ہاتھ کو برداشت نہ ہوسکی۔ آپ 13 دن یا 14 دن بیمار رہے۔ آخری ہفتہ آپ نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے گھر پر ہی پورا فرمایا۔ ان ایام میں بیشتر آپ مسجد میں جاکر نماز بھی پڑھاتے رہے، مگر چار روز قبل حالت بہت دگر گوں ہوگئی۔ آخر 12 ربیع الاول 11 ھ یوم دو شنبہ بوقت چاشت آپ دنیائے فانی سے منہ موڑ کر ملاء اعلیٰ سے جاملے۔ عمر مبارک 63 سال قمری پر چار دن تھی اللهم صل علی محمد وعلی آل محمد۔ وفات پر صحابہ کرام نے آپ کے دفن کے متعلق سوچا تو آخری رائے یہی قرار پائی کہ حجرہ مبارکہ میں آپ کو دفن کیا جائے، کیونکہ انبیاءجہاں انتقال کرتے ہیں اس جگہ دفن کئے جاتے ہیں۔ یہی حجرہ مبارکہ ہے جو آج گنبد خضراء کے نام سے دنیا کے کروڑہا انسانوں کا مرجع عقیدت ہے۔ حضرت امام بخاری ؓ نے حضور ﷺ کی قبر شریف کی نشان دہی کرتے ہوئے یہ ثابت فرمایا کہ مرنے والے کو اگر اس کے گھر ہی میں دفن کردیا جائے تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ آپ کے اخلاق حسنہ میں سے ہے کہ آپ ایام بیماری میں دوسری بیویوں سے حضرت عائشہ ؓ کے گھر میں جانے کے لیے معذرت فرماتے رہے۔ یہاں تک کہ جملہ ازواج مطہرات نے آپ کو حجرہ عائشہ صدیقہ ؓ کے لیے اجازت دے دی اور آخری ایام آپ نے وہیں بسر کئے۔ اس سے حضرت عائشہ ؓ کی بھی کمال فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ تف ہے ان نام نہاد مسلمانوں پر جو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ جیسی مایہ ناز اسلامی خاتون کی فضیلت کا انکار کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت عطا فرمائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): During his sickness, Allah's Apostle (ﷺ) was asking repeatedly, "Where am I today? Where will I be tomorrow?" And I was waiting for the day of my turn (impatiently). Then, when my turn came, Allah took his soul away (in my lap) between my chest and arms and he was buried in my house.