باب: نبی کریم ﷺ اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی قبروں کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: The graves of the Prophet (pbuh), Abu Bakr, and Umar Radiyallahu Anhu)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور سورۃ عبس میں جو آیا ہے «فأقبره» تو عرب لوگ کہتے ہیں «أقبرت الرجل» «اقبره» یعنی میں نے اس کے لیے قبر بنائی اور «قبرته» کے معنی میں نے اسے دفن کیا اور سورۃ المرسلات میں جو «كفاتا» کا لفظ ہے زندگی بھی زمین ہی پر گزارو گے اور مرنے کے بعد بھی اسی میں دفن ہوں گے۔
1390.
حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے ،انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے اپنی اس مرض میں جس سے آپ صحت یاب نہ ہوئے تھے،فرمایا:’’اللہ تعالیٰ یہود ونصاریٰ پر لعنت کرے، انھوں نے اپنے انبیاء ؑ کی قبروں کو مساجد بنالیا۔‘‘ اگر آپ کی قبر کو مسجد بنالینے کا اندیشہ نہ ہوتا تو اسے ضرور ظاہر کردیاجاتا۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا اس عنوان اور پیش کردہ احادیث سے مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک کے متعلق معلومات مہیا کی جائیں کہ وہ مسنم، یعنی زمین پر کوہان شتر کی طرح ابھری ہوئی تھی یا مسطح، یعنی زمین کے برابر تھی، اسی طرح وہ نمایاں تھی یا غیر نمایاں، نیز گھر میں قبر بنانا کیسا ہے؟ اس سلسلے میں چند اصولی باتیں حسب ذیل ہیں: مسلمانوں میں سے جو فوت ہو جائیں انہیں قبرستان میں دفن کیا جائے تاکہ زائرین کی دعاؤں سے انہیں فائدہ پہنچے، گھروں میں دفن کرنا شریعت کے ہاں پسندیدہ نہیں، کیونکہ گھروں میں نوافل وغیرہ پڑھنے کا حکم ہے جبکہ قبروں کے مقامات پر نماز پڑھنے کی ممانعت ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو جو گھر میں دفن کیا گیا یہ آپ کی خصوصیت تھی، کیونکہ یہ قاعدہ ہے کہ نبی جہاں فوت ہو وہیں دفن ہوتا ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو آپ کے دفن کے متعلق اختلاف ہوا۔ کسی نے مشورہ دیا کہ آپ کو مسجد میں دفن کیا جائے۔ کسی نے کہا کہ مسلمانوں کے قبرستان میں آپ کو دفن کیا جائے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ نبی جہاں فوت ہو وہیں دفن ہوتا ہے، پھر آپ کے بستر کی جگہ پر دفن کیا گیا۔ (سنن ابن ماجة، الجنائز، حدیث:1628) ترمذی کی روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو اسی جگہ فوت کرتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ کو اس کا دفن کرنا منظور ہوتا ہے۔ (جامع الترمذي، الجنائز، حدیث:1018) چنانچہ امام بخاری ؒ نے پہلی حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے دفن ہونے کی جگہ کا تعین کیا ہے۔ دوسری حدیث میں اس اندیشے کی وضاحت کی ہے جس کے پیش نظر آپ کو گھر کی چار دیواری میں دفن کیا گیا اور آپ کی قبر مبارک کو برسرعام نہیں بنایا گیا۔ وہ اندیشہ یہ تھا کہ مبادا یہودونصاریٰ کی طرح اہل اسلام بھی آپ کی قبر مبارک کو عبادت گاہ بنا لیں۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ میری قبر کو عید مت بنانا۔ (مسندأحمد:367/2) عید سے مراد یہ ہے کہ معین اوقات اور معروف موسموں میں عبادت کے لیے قبر کے پاس جانا۔ ان خطرات کے سدباب کے لیے رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک کو گھر کی چار دیواری کے اندر بنایا گیا۔ دوسری حدیث میں اس اندیشے کی وضاحت مقصود ہے۔ تیسری حدیث میں آپ کی قبر کے متعلق وضاحت ہے کہ وہ کوہان نما تھی، زمین پر بچھی ہوئی نہ تھی۔ ایک اور روایت میں امام قاسم فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ، حضرت ابوبکر اور عمر ؓ کی قبروں کو دیکھا وہ نہ بلند تھیں اور نہ زمین کے ساتھ ہی ملی ہوئی تھیں۔ (المستدرك للحاکم:369/1) رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک زمین سے ایک بالشت اونچی بنائی گئی تھی، (السنن الکبریٰ للبیھقي:410/3) اس لیے قبر سے جتنی مٹی نکلے وہی قبر پر ڈال دی جائے، اضافی مٹی ڈالنے سے قبر اونچی ہو جائے گی، چنانچہ حدیث میں بھی اس کی ممانعت ہے۔ (السنن النسائي، الجنائز، حدیث:2030) (2) حافظ ابن حجر ؒ نے دیوار گرنے کا سبب بیان کیا ہے کہ اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک نے 88 ہجری میں مسجد نبوی کی توسیع کا پروگرام بنایا۔ اس سلسلے میں انہوں نے امہات المومنین کے حجروں کو خریدا تاکہ انہیں مسجد میں شامل کر دیا جائے، چنانچہ انہوں نے اپنے گورنر مدینہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کو لکھا کہ ان حجروں کو گرا کر مسجد کو وسیع کر دیا جائے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ نے اپنی نگرانی میں انہیں گرانے کا حکم دیا۔ جب حضرت عائشہ ؓ کے حجرے کے اردگرد عمارت مکمل ہو گئی تو انہوں نے حضرت عائشہ ؓ کے حجرے کو گرانے کا حکم دیا جس میں رسول اللہ ﷺ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ مدفون تھے۔ حجرہ گرنے کے بعد قبریں نمایاں ہو گئیں اور ان پر جو کنکریاں اور ریت ڈالی گئی تھی وہ ایک طرف ہو گئی۔ اس دوران میں پاؤں ننگے ہونے کا واقعہ پیش آیا جس کا مذکورہ حدیث میں ذکر ہے۔ آپ نے اپنے غلام حضرت مزاحم کو قبریں درست کرنے کا حکم دیا۔ رجاء بن حیوہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پہلو میں حضرت ابوبکر اور حضرت ابوبکر کے پہلو میں حضرت عمر ؓ کی قبر ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ رسول اللہ ﷺ کے دائیں جانب اور حضرت عمر ؓ آپ کے بائیں جانب ہیں۔ اس روایت کی سند انتہائی کمزور ہے۔ اس کی تاویل تو کی جا سکتی ہے لیکن یہ بات صحیح نہیں۔ (فتح الباري:326/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1351
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1390
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1390
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1390
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان کی مناسبت سے قرآن میں آنے والے لفظ قبر کی لغوی تشریح کی ہے کہ اگر مزید فیہ استعمال ہو تو اس کے معنی قبر تیار کرنا اور اگر مجرد ہو تو اس کے معنی دفن کرنا ہیں۔ پھر ایک دوسرا لفظ جو اس معنی میں استعمال ہوتا ہے اس کی تشریح کی ہے۔ (فتح الباری:3/325)
اور سورۃ عبس میں جو آیا ہے «فأقبره» تو عرب لوگ کہتے ہیں «أقبرت الرجل» «اقبره» یعنی میں نے اس کے لیے قبر بنائی اور «قبرته» کے معنی میں نے اسے دفن کیا اور سورۃ المرسلات میں جو «كفاتا» کا لفظ ہے زندگی بھی زمین ہی پر گزارو گے اور مرنے کے بعد بھی اسی میں دفن ہوں گے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے ،انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے اپنی اس مرض میں جس سے آپ صحت یاب نہ ہوئے تھے،فرمایا:’’اللہ تعالیٰ یہود ونصاریٰ پر لعنت کرے، انھوں نے اپنے انبیاء ؑ کی قبروں کو مساجد بنالیا۔‘‘ اگر آپ کی قبر کو مسجد بنالینے کا اندیشہ نہ ہوتا تو اسے ضرور ظاہر کردیاجاتا۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ کا اس عنوان اور پیش کردہ احادیث سے مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک کے متعلق معلومات مہیا کی جائیں کہ وہ مسنم، یعنی زمین پر کوہان شتر کی طرح ابھری ہوئی تھی یا مسطح، یعنی زمین کے برابر تھی، اسی طرح وہ نمایاں تھی یا غیر نمایاں، نیز گھر میں قبر بنانا کیسا ہے؟ اس سلسلے میں چند اصولی باتیں حسب ذیل ہیں: مسلمانوں میں سے جو فوت ہو جائیں انہیں قبرستان میں دفن کیا جائے تاکہ زائرین کی دعاؤں سے انہیں فائدہ پہنچے، گھروں میں دفن کرنا شریعت کے ہاں پسندیدہ نہیں، کیونکہ گھروں میں نوافل وغیرہ پڑھنے کا حکم ہے جبکہ قبروں کے مقامات پر نماز پڑھنے کی ممانعت ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو جو گھر میں دفن کیا گیا یہ آپ کی خصوصیت تھی، کیونکہ یہ قاعدہ ہے کہ نبی جہاں فوت ہو وہیں دفن ہوتا ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو آپ کے دفن کے متعلق اختلاف ہوا۔ کسی نے مشورہ دیا کہ آپ کو مسجد میں دفن کیا جائے۔ کسی نے کہا کہ مسلمانوں کے قبرستان میں آپ کو دفن کیا جائے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ نبی جہاں فوت ہو وہیں دفن ہوتا ہے، پھر آپ کے بستر کی جگہ پر دفن کیا گیا۔ (سنن ابن ماجة، الجنائز، حدیث:1628) ترمذی کی روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو اسی جگہ فوت کرتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ کو اس کا دفن کرنا منظور ہوتا ہے۔ (جامع الترمذي، الجنائز، حدیث:1018) چنانچہ امام بخاری ؒ نے پہلی حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے دفن ہونے کی جگہ کا تعین کیا ہے۔ دوسری حدیث میں اس اندیشے کی وضاحت کی ہے جس کے پیش نظر آپ کو گھر کی چار دیواری میں دفن کیا گیا اور آپ کی قبر مبارک کو برسرعام نہیں بنایا گیا۔ وہ اندیشہ یہ تھا کہ مبادا یہودونصاریٰ کی طرح اہل اسلام بھی آپ کی قبر مبارک کو عبادت گاہ بنا لیں۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ میری قبر کو عید مت بنانا۔ (مسندأحمد:367/2) عید سے مراد یہ ہے کہ معین اوقات اور معروف موسموں میں عبادت کے لیے قبر کے پاس جانا۔ ان خطرات کے سدباب کے لیے رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک کو گھر کی چار دیواری کے اندر بنایا گیا۔ دوسری حدیث میں اس اندیشے کی وضاحت مقصود ہے۔ تیسری حدیث میں آپ کی قبر کے متعلق وضاحت ہے کہ وہ کوہان نما تھی، زمین پر بچھی ہوئی نہ تھی۔ ایک اور روایت میں امام قاسم فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ، حضرت ابوبکر اور عمر ؓ کی قبروں کو دیکھا وہ نہ بلند تھیں اور نہ زمین کے ساتھ ہی ملی ہوئی تھیں۔ (المستدرك للحاکم:369/1) رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک زمین سے ایک بالشت اونچی بنائی گئی تھی، (السنن الکبریٰ للبیھقي:410/3) اس لیے قبر سے جتنی مٹی نکلے وہی قبر پر ڈال دی جائے، اضافی مٹی ڈالنے سے قبر اونچی ہو جائے گی، چنانچہ حدیث میں بھی اس کی ممانعت ہے۔ (السنن النسائي، الجنائز، حدیث:2030) (2) حافظ ابن حجر ؒ نے دیوار گرنے کا سبب بیان کیا ہے کہ اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک نے 88 ہجری میں مسجد نبوی کی توسیع کا پروگرام بنایا۔ اس سلسلے میں انہوں نے امہات المومنین کے حجروں کو خریدا تاکہ انہیں مسجد میں شامل کر دیا جائے، چنانچہ انہوں نے اپنے گورنر مدینہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کو لکھا کہ ان حجروں کو گرا کر مسجد کو وسیع کر دیا جائے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ نے اپنی نگرانی میں انہیں گرانے کا حکم دیا۔ جب حضرت عائشہ ؓ کے حجرے کے اردگرد عمارت مکمل ہو گئی تو انہوں نے حضرت عائشہ ؓ کے حجرے کو گرانے کا حکم دیا جس میں رسول اللہ ﷺ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ مدفون تھے۔ حجرہ گرنے کے بعد قبریں نمایاں ہو گئیں اور ان پر جو کنکریاں اور ریت ڈالی گئی تھی وہ ایک طرف ہو گئی۔ اس دوران میں پاؤں ننگے ہونے کا واقعہ پیش آیا جس کا مذکورہ حدیث میں ذکر ہے۔ آپ نے اپنے غلام حضرت مزاحم کو قبریں درست کرنے کا حکم دیا۔ رجاء بن حیوہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پہلو میں حضرت ابوبکر اور حضرت ابوبکر کے پہلو میں حضرت عمر ؓ کی قبر ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ رسول اللہ ﷺ کے دائیں جانب اور حضرت عمر ؓ آپ کے بائیں جانب ہیں۔ اس روایت کی سند انتہائی کمزور ہے۔ اس کی تاویل تو کی جا سکتی ہے لیکن یہ بات صحیح نہیں۔ (فتح الباري:326/3)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اس نے اسے قبر میں رکھا۔ "عربی میں اقبرت الرجل کے معنی ہیں: میں نے آدمی کی قبر تیارکی۔ اورقبرته کے معنی ہیں: میں نے اسے دفن کیا۔ (ارشاد باری تعالیٰ ہے: کیا ہم نے زمین کو)"سمیٹ کر رکھنے والی"(نہیں بنایا؟) اس کا مطلب ہے کہ اس زمین میں لوگ زندگی بسر کریں گے اور مرنے کے بعد اس میں دفن کیے جائیں گے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا‘ ان سے ہلال بن حمیدنے‘ ان سے عروہ نے اور ان سے ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے اس مرض کے موقع پر فرمایا تھا جس سے آپ جانبرنہ ہوسکے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی یہود ونصاریٰ پر لعنت ہو۔ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنالیا۔ اگر یہ ڈرنہ ہوتاتو آپ کی قبر بھی کھلی رہنے دی جاتی۔ لیکن ڈر اس کا ہے کہ کہیں اسے بھی لوگ سجدہ گاہ نہ بنالیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): Allah's Apostle (ﷺ) in his fatal illness said, "Allah cursed the Jews and the Christians, for they built the places of worship at the graves of their prophets." And if that had not been the case, then the Prophet's grave would have been made prominent before the people. So (the Prophet) was afraid, or the people were afraid that his grave might be taken as a place for worship.