باب: نبی کریم ﷺ اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی قبروں کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: The graves of the Prophet (pbuh), Abu Bakr, and Umar Radiyallahu Anhu)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور سورۃ عبس میں جو آیا ہے «فأقبره» تو عرب لوگ کہتے ہیں «أقبرت الرجل» «اقبره» یعنی میں نے اس کے لیے قبر بنائی اور «قبرته» کے معنی میں نے اسے دفن کیا اور سورۃ المرسلات میں جو «كفاتا» کا لفظ ہے زندگی بھی زمین ہی پر گزارو گے اور مرنے کے بعد بھی اسی میں دفن ہوں گے۔
1392.
حضرت عمرو بن میمون اودی ؓ فرماتے ہیں: میں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کو دیکھا، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے فرمایا: اے عبداللہ! تم ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کے پاس جاؤ، ان سے کہو کہ عمر بن خطاب آپ کو سلام کہتے ہیں اور ان سے دریافت کرو کہ میں اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونا چاہتا ہوں۔ ام المومنین ؓ نے جواب دیا: میں اپنی ذات کے لیے اس جگہ کا ارادہ رکھتی تھی، لیکن آج میں ان کواپنی ذات پر ترجیح دیتی ہوں۔ جب حضرت عبداللہ بن عمر ؓ واپس آئے توانھوں نے پوچھا: کیا جواب لائے ہو؟ انھوں نے عرض کیا: امیرالمومنین ؓ ! ام المومنین ؓ نےآپ کو اجازت دے دی ہے، حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا: مجھے سب سے زیادہ فکر اسی خواب گاہ کی تھی۔ جب میں فوت ہوجاؤں تو مجھے اٹھا کر وہاں لے جانا، سلام کرنا پھر کہنا کہ عمر بن خطاب اجازت مانگتے ہیں۔ اگر وہ اجازت دے دیں تو مجھے وہاں فن کردینا، بصورت دیگر مجھے مسلمانوں کے قبرستان میں واپس لے جانا۔ میں خلافت کا مستحق ان لوگوں سے زیادہ کسی کو خیال نہیں کرتا جن سے رسول اللہ ﷺ خوش ہوکر فوت ہوئے ہیں۔ یہ لوگ میرے بعد جسے بھی خلیفہ بنا لیں وہی خلیفہ ہیں۔ اس کی بات سننا اوراطاعت کرنا، پھر آپ نے حضرت عثمانؓ، حضرت علی ؓ حضرت طلحہ ؓ حضرت زبیر ؓ حضرت عبدالرحمان بن عوف ؓ، اورحضرت سعد بن ابی وقاص ؓ ، کے نام ذکر کیے۔ دریں اثنا انصار کا ایک نوجوان آپ کے پاس آیا اور کہنےلگا: امیرالمومنین ؓ! آپ کو اللہ تعالیٰ کی بشارت سے خوش ہونا چاہیے، کیونکہ آپ کو اسلام میں قدامت کا شرف حاصل ہے جو آپ بھی اچھی طرح جانتے ہیں،علاوہ ازیں آپ خلیفہ منتخب ہوئےاور عدل وانصاف سے کام لیا، پھر ان سب کے بعد آپ نے شہادت پائی۔ حضرت عمر فاروق ؓ نےفرمایا: اےمیرے بھتیجے! کاش کے میں ان کی وجہ سے برابر برابر چھوٹ جاؤں۔ نہ مجھے کوئی عذاب ہو اور نہ کوئی ثواب ملے۔ میں اپنے بعد آنے والے خلیفہ کو مہاجرین اولین سے اچھے سلوک کی وصیت کرتا ہوں۔ وہ ان کے حقوق کو پہچانے اور ان کی عزت وحرمت کی نگہداشت کرے۔ اور انصار کے متعلق بھی خیر خواہی کی وصیت کرتا ہوں جنھوں نے مدینہ کو اپنا گھر بنایا اور(مہاجرین کے مدینہ آنے سے پہلے) ایمان لے آئے کہ ان میں سے محسن کا احسان قبول کیا جائے اور ان میں سے جو بُرا کام کرنے والے ہوں ان سے درگزر کیا جائے۔ میں ہونے والے خلیفہ کو وصیت کرتاہوں کہ وہ اس ذمہ داری کو پورا کرے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی ذمہ داری ہے، یعنی ان کے عہد وپیمان کو پورا کیا جائے اور ان کے آگے دشمن سے لڑا جائے اور طاقت سے زیادہ ان پر کوئی بوجھ نہ ڈالا جائے۔
تشریح:
(1) حضرت امام بخاری ؓ اس طویل حدیث سے حضرت عمر ؓ کی آخری آرام گاہ اور ان کے نزدیک اس کی اہمیت ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ اس حدیث میں آپ کے فن ہونے کا ذکر نہیں، تاہم امام بخاری ؒ نے ایک دوسرے مقام پر اسے بیان کیا ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر کی وفات ہو گئی تو ہم ان کا جنازہ لے کر مسجد نبوی کی طرف چلے۔ وہاں پہنچ کر میں نے حضرت عمر ؓ کا سلام پہنچایا اور حضرت عائشہ ؓ سے عرض کیا کہ عمر بن خطاب ؓ اجازت طلب کرتے ہیں۔ ان کے اجازت دینے کے بعد انہیں رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر ؓ کے ساتھ دفن کیا گیا۔ (صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم، حدیث:3700) (2) چونکہ آپ کی شہادت اچانک ہوئی تھی، اس لیے آپ کے نزدیک تین کام بہت اہم تھے: ٭ خلافت کا معاملہ۔ ٭ قرضوں کی ادائیگی۔ ٭ جوار رسول ﷺ میں دفن ہونے کی خواہش۔ ان میں مؤخر الذکر بہت زیادہ اہمیت کا حامل تھا، چنانچہ آپ نے فرمایا کہ میرے نزدیک اس خواب گاہ کے حصول سے زیادہ اور کوئی چیز اہم نہ تھی۔ سب سے زیادہ فکر، تمنا اور خواہش یہی تھی کہ وہ مبارک اور مقدس جگہ مجھے حاصل ہو جائے۔ اس کے حصول کے لیے آپ نے حضرت عائشہ ؓ کے حضور بڑی عاجزانہ درخواست پیش کی۔ اپنے لخت جگر سے کہا کہ امیر المومنین کہنے کے بجائے میرا نام لینا۔ الغرض پوری طرح حضرت عائشہ ؓ کو اطمینان دلایا تاکہ وہ اس کے متعلق کوئی گرانی یا دباؤ محسوس نہ کریں۔ (فتح الباري:85/7)سبحان اللہ! کیا مقام ہے؟ ہر سال لاکھوں مسلمان مدینہ طیبہ پہنچ کر رسول اللہ ﷺ پر درودوسلام پڑھتے ہیں، ساتھ ہی آپ کے جانثاروں حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق ؓ پر بھی انہیں سلام بھیجنے کا موقع مل جاتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1356
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1392
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1392
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1392
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان کی مناسبت سے قرآن میں آنے والے لفظ قبر کی لغوی تشریح کی ہے کہ اگر مزید فیہ استعمال ہو تو اس کے معنی قبر تیار کرنا اور اگر مجرد ہو تو اس کے معنی دفن کرنا ہیں۔ پھر ایک دوسرا لفظ جو اس معنی میں استعمال ہوتا ہے اس کی تشریح کی ہے۔ (فتح الباری:3/325)
اور سورۃ عبس میں جو آیا ہے «فأقبره» تو عرب لوگ کہتے ہیں «أقبرت الرجل» «اقبره» یعنی میں نے اس کے لیے قبر بنائی اور «قبرته» کے معنی میں نے اسے دفن کیا اور سورۃ المرسلات میں جو «كفاتا» کا لفظ ہے زندگی بھی زمین ہی پر گزارو گے اور مرنے کے بعد بھی اسی میں دفن ہوں گے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عمرو بن میمون اودی ؓ فرماتے ہیں: میں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کو دیکھا، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے فرمایا: اے عبداللہ! تم ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کے پاس جاؤ، ان سے کہو کہ عمر بن خطاب آپ کو سلام کہتے ہیں اور ان سے دریافت کرو کہ میں اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونا چاہتا ہوں۔ ام المومنین ؓ نے جواب دیا: میں اپنی ذات کے لیے اس جگہ کا ارادہ رکھتی تھی، لیکن آج میں ان کواپنی ذات پر ترجیح دیتی ہوں۔ جب حضرت عبداللہ بن عمر ؓ واپس آئے توانھوں نے پوچھا: کیا جواب لائے ہو؟ انھوں نے عرض کیا: امیرالمومنین ؓ ! ام المومنین ؓ نےآپ کو اجازت دے دی ہے، حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا: مجھے سب سے زیادہ فکر اسی خواب گاہ کی تھی۔ جب میں فوت ہوجاؤں تو مجھے اٹھا کر وہاں لے جانا، سلام کرنا پھر کہنا کہ عمر بن خطاب اجازت مانگتے ہیں۔ اگر وہ اجازت دے دیں تو مجھے وہاں فن کردینا، بصورت دیگر مجھے مسلمانوں کے قبرستان میں واپس لے جانا۔ میں خلافت کا مستحق ان لوگوں سے زیادہ کسی کو خیال نہیں کرتا جن سے رسول اللہ ﷺ خوش ہوکر فوت ہوئے ہیں۔ یہ لوگ میرے بعد جسے بھی خلیفہ بنا لیں وہی خلیفہ ہیں۔ اس کی بات سننا اوراطاعت کرنا، پھر آپ نے حضرت عثمانؓ، حضرت علی ؓ حضرت طلحہ ؓ حضرت زبیر ؓ حضرت عبدالرحمان بن عوف ؓ، اورحضرت سعد بن ابی وقاص ؓ ، کے نام ذکر کیے۔ دریں اثنا انصار کا ایک نوجوان آپ کے پاس آیا اور کہنےلگا: امیرالمومنین ؓ! آپ کو اللہ تعالیٰ کی بشارت سے خوش ہونا چاہیے، کیونکہ آپ کو اسلام میں قدامت کا شرف حاصل ہے جو آپ بھی اچھی طرح جانتے ہیں،علاوہ ازیں آپ خلیفہ منتخب ہوئےاور عدل وانصاف سے کام لیا، پھر ان سب کے بعد آپ نے شہادت پائی۔ حضرت عمر فاروق ؓ نےفرمایا: اےمیرے بھتیجے! کاش کے میں ان کی وجہ سے برابر برابر چھوٹ جاؤں۔ نہ مجھے کوئی عذاب ہو اور نہ کوئی ثواب ملے۔ میں اپنے بعد آنے والے خلیفہ کو مہاجرین اولین سے اچھے سلوک کی وصیت کرتا ہوں۔ وہ ان کے حقوق کو پہچانے اور ان کی عزت وحرمت کی نگہداشت کرے۔ اور انصار کے متعلق بھی خیر خواہی کی وصیت کرتا ہوں جنھوں نے مدینہ کو اپنا گھر بنایا اور(مہاجرین کے مدینہ آنے سے پہلے) ایمان لے آئے کہ ان میں سے محسن کا احسان قبول کیا جائے اور ان میں سے جو بُرا کام کرنے والے ہوں ان سے درگزر کیا جائے۔ میں ہونے والے خلیفہ کو وصیت کرتاہوں کہ وہ اس ذمہ داری کو پورا کرے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی ذمہ داری ہے، یعنی ان کے عہد وپیمان کو پورا کیا جائے اور ان کے آگے دشمن سے لڑا جائے اور طاقت سے زیادہ ان پر کوئی بوجھ نہ ڈالا جائے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت امام بخاری ؓ اس طویل حدیث سے حضرت عمر ؓ کی آخری آرام گاہ اور ان کے نزدیک اس کی اہمیت ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ اس حدیث میں آپ کے فن ہونے کا ذکر نہیں، تاہم امام بخاری ؒ نے ایک دوسرے مقام پر اسے بیان کیا ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر کی وفات ہو گئی تو ہم ان کا جنازہ لے کر مسجد نبوی کی طرف چلے۔ وہاں پہنچ کر میں نے حضرت عمر ؓ کا سلام پہنچایا اور حضرت عائشہ ؓ سے عرض کیا کہ عمر بن خطاب ؓ اجازت طلب کرتے ہیں۔ ان کے اجازت دینے کے بعد انہیں رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر ؓ کے ساتھ دفن کیا گیا۔ (صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم، حدیث:3700) (2) چونکہ آپ کی شہادت اچانک ہوئی تھی، اس لیے آپ کے نزدیک تین کام بہت اہم تھے: ٭ خلافت کا معاملہ۔ ٭ قرضوں کی ادائیگی۔ ٭ جوار رسول ﷺ میں دفن ہونے کی خواہش۔ ان میں مؤخر الذکر بہت زیادہ اہمیت کا حامل تھا، چنانچہ آپ نے فرمایا کہ میرے نزدیک اس خواب گاہ کے حصول سے زیادہ اور کوئی چیز اہم نہ تھی۔ سب سے زیادہ فکر، تمنا اور خواہش یہی تھی کہ وہ مبارک اور مقدس جگہ مجھے حاصل ہو جائے۔ اس کے حصول کے لیے آپ نے حضرت عائشہ ؓ کے حضور بڑی عاجزانہ درخواست پیش کی۔ اپنے لخت جگر سے کہا کہ امیر المومنین کہنے کے بجائے میرا نام لینا۔ الغرض پوری طرح حضرت عائشہ ؓ کو اطمینان دلایا تاکہ وہ اس کے متعلق کوئی گرانی یا دباؤ محسوس نہ کریں۔ (فتح الباري:85/7)سبحان اللہ! کیا مقام ہے؟ ہر سال لاکھوں مسلمان مدینہ طیبہ پہنچ کر رسول اللہ ﷺ پر درودوسلام پڑھتے ہیں، ساتھ ہی آپ کے جانثاروں حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق ؓ پر بھی انہیں سلام بھیجنے کا موقع مل جاتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اس نے اسے قبر میں رکھا۔ "عربی میں اقبرت الرجل کے معنی ہیں: میں نے آدمی کی قبر تیارکی۔ اورقبرته کے معنی ہیں: میں نے اسے دفن کیا۔ (ارشاد باری تعالیٰ ہے: کیا ہم نے زمین کو)"سمیٹ کر رکھنے والی"(نہیں بنایا؟) اس کا مطلب ہے کہ اس زمین میں لوگ زندگی بسر کریں گے اور مرنے کے بعد اس میں دفن کیے جائیں گے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے جریربن عبدالحمید نے بیان کیا کہا کہ ہم سے حصین بن عبدالرحمن نے بیان کیا‘ ان سے عمرو بن میمون اودی نے بیان کیا کہ میری موجودگی میں حضرت عمر بن خطاب ؓ نے عبداللہ بن عمر ؓ سے فرمایا کہ اے عبداللہ! ام المؤمنین عائشہ ؓ کی خدمت میں جا اور کہہ کہ عمر بن خطاب نے آپ کو سلام کہا ہے اور پھر ان سے معلوم کرنا کہ کیا مجھے میرے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی آپ کی طرف سے اجازت مل سکتی ہے؟ حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ میں نے اس جگہ کو اپنے لیے پسند کر رکھا تھا، لیکن آج میں اپنے پر عمر ؓ کو ترجیح دیتی ہوں۔ جب ابن عمر ؓ واپس آئے تو عمر ؓ نے دریافت کیا کہ کیا پیغام لائے ہو؟ کہا کہ امیرالمؤمنین انہوں نے آپ کو اجازت دے دی ہے۔ عمر ؓ یہ سن کر بولے کہ اس جگہ دفن ہونے سے زیادہ مجھے اور کوئی چیز عزیز نہیں تھی۔ لیکن جب میری روح قبض ہوجائے تو مجھے اٹھا کر لے جانا اور پھر دوبارہ عائشہ ؓ کو میرا سلام پہنچا کر ان سے کہنا کہ عمر نے آپ سے اجازت چاہی ہے۔ اگر اس وقت بھی وہ اجازت دے دیں تو مجھے وہیں دفن کردینا‘ ورنہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کردینا۔ میں اس امرخلافت کا ان چند صحابہ سے زیادہ اور کسی کو مستحق نہیں سمجھتا جن سے رسول اللہ ﷺ اپنی وفات کے وقت تک خوش اور راضی رہے۔ وہ حضرات میرے بعد جسے بھی خلیفہ بنائیں‘ خلیفہ وہی ہوگا اور تمہارے لیے ضروری ہے کہ تم اپنے خلیفہ کی باتیں توجہ سے سنو اور اس کی اطاعت کرو۔ آپ نے اس موقع پر حضرت عثمان‘ علی‘ طلحہ‘ زبیر‘ عبدالرحمن بن عوف اور سعد بن ابی وقاص ؓم کے نام لیے۔ اتنے میں ایک انصاری نوجوان داخل ہوا اور کہا کہ اے امیرالمؤمنین آپ کو بشارت ہو‘ اللہ عزوجل کی طرف سے‘ آپ کا اسلام میں پہلے داخل ہونے کی وجہ سے جو مرتبہ تھا وہ آپ کو معلوم ہے۔ پھر جب آپ خلیفہ ہوئے تو آپ نے انصاف کیا۔ پھر آپ نے شہادت پائی۔ حضرت عمر ؓ بولے میرے بھائی کے بیٹے! کاش ان کی وجہ سے میں برابر چھوٹ جاؤں۔ نہ مجھے کوئی عذاب ہو اور نہ کوئی ثواب۔ ہاں میں اپنے بعد آنے والے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ مہاجرین اولین کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھے‘ ان کے حقوق پہچانے اور ان کی عزت کی حفاظت کرے اور میں اسے انصار کے بارے میں بھی اچھا برتاؤ رکھنے کی وصیت کرتا ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایمان والوں کو اپنے گھروں میں جگہ دی۔ (میری وصیت ہے کہ) ان کے اچھے لوگوں کے ساتھ بھلائی کی جائے اور ان میں جو برے ہوں ان سے درگذر کیا جائے اور میں ہونے والے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی جو اللہ اور رسول کی ذمہ داری ہے (یعنی غیر مسلموں کی جو اسلامی حکومت کے تحت زندگی گذارتے ہیں) کہ ان سے کئے گئے وعدوں کو پورا کیا جائے۔ انہیں بچا کرلڑا جائے اور طاقت سے زیادہ ان پر کوئی بار نہ ڈالا جائے۔
حدیث حاشیہ:
سیدنا حضرت عمر بن خطاب ؓ کی کنیت ابوحفصہ ہے۔ عدوی قریشی ہیں۔ نبوت کے چھٹے سال اسلام میں داخل ہوئے بعضوں نے کہاں کہ پانچویں سال میں۔ ان سے پہلے چالیس مرد اور گیارہ عورتیں اسلام لاچکی تھیں اور کہا جاتا ہے کہ چالیسویں مرد حضرت عمر ؓ ہی تھے۔ ان کے اسلام قبول کرنے کے دن ہی سے اسلام نمایاں ہونا شروع ہوگیا۔ اسی وجہ سے ان کا لقب فاروق ہوا۔ حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر ؓ سے پوچھا تھا کہ آپ کا لقب فاروق کیسے ہوا؟ فرمایا کہ حضرت حمزہ ؓ میرے اسلام سے تین دن پہلے مسلمان ہوچکے تھے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لیے میرا سینہ بھی کھول دیا تو میں نے کہا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اسی کے لیے سب اچھے نام ہیں۔ اس کے بعد کوئی جان مجھ کو رسول اللہ ﷺ کی جان سے پیاری نہ تھی۔ اس کے بعد میں نے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کہاں تشریف فرما ہیں تو میری بہن نے مجھ کو بتلایا کہ آپ دار ارقم بن ابی ارقم میں جو کوہ صفا کے پاس ہے‘ تشریف رکھتے ہیں۔ میں ابو ارقم کے مکان پر حاضر ہوا جب کہ حضرت حمزہ ؓ بھی آپ کے صحابہ کے ساتھ مکان میں موجود تھے اور رسول اللہ ﷺ بھی گھر میں تشریف فرما تھے۔ میں نے دروازے کو پیٹا تو لوگوں نے نکلنا چاہا۔ حضرت حمزہ ؓ نے فرمایا کہ تم لوگوں کو کیاہوگیا؟ سب نے کہا کہ عمر بن خطاب ؓ آئے ہیں پھر آنحضرت ﷺ تشریف لائے اور مجھے کپڑوں سے پکڑلیا۔ پھر خوب زور سے مجھ کو اپنی طرف کھینچا کہ میں رک نہ سکااور گھٹنے کے بل گرگیا۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ عمر اس کفر سے کب تک باز نہیں آؤ گے؟ تو بے ساختہ میری زبان سے نکلا أشهدأن لا إله إلا اللہ وحدہ لا شریك له وأشهدأن محمدا عبدہ ورسوله۔ اس پر تمام دارارقم کے لوگوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا کہ جس کی آواز حرم شریف میں سنی گئی۔ اس کے بعد میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا ہم موت اور حیات میں دین حق پر نہیں ہیں؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم سب حق پر ہو‘ اپنی موت میں بھی اور حیات میں بھی۔ اس پر میں نے عرض کیاکہ پھر اس حق کو چھپانے کا کیا مطلب۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ہم ضرور حق کولے کر باہر نکلیں گے۔ چنانچہ ہم نے حضور ﷺ کو دو صفوں کے درمیان نکالا۔ ایک صف میں حضرت حمزہ ؓ اور دوسری صف میں میں تھا اور میرے اندر جوش ایمان کی وجہ سے ایک چکی جیسی گڑ گڑاہٹ تھی۔ یہاں تک کہ ہم مسجد حرام میں پہنچ گئے تو مجھ کو اور حضرت حمزہ ؓ کو قریش نے دیکھا اور ان کو اس قدر صدمہ پہنچا کہ ایسا صدمہ انہیں اس سے پہلے کبھی نہ پہنچا تھا۔ اسی دن آنحضرت ﷺ نے میرا نام فاروق رکھ دیا کہ اللہ نے میری وجہ سے حق اور باطل میں فرق کردیا۔ روایتوں میں ہے کہ آپ کے اسلام لانے پر حضرت جبرئیل امین ؑ تشریف لائے اور فرمایا کہ اے اللہ کے رسول! آج عمرؓ کے اسلام لانے سے تمام آسمانوں والے بے حد خوش ہوئے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ قسم خدا کی میں یقین رکھتا ہوں کہ حضرت عمر ؓ کے علم کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور دوسری میں تمام زندہ انسانوں کاعلم تو یقینا حضرت عمر ؓ کے علم والا پلڑا جھک جائے گا۔ آپ حضرت نبی کریم ﷺ کے ساتھ تمام غزوات میں شریک ہوئے اور یہ پہلے خلیفہ ہیں جو امیرالمؤمنین لقب سے پکارے گئے۔ حضرت عمر گورے رنگ والے لمبے قدوالے تھے۔ سر کے بال اکثر گر گئے تھے۔ آنکھوں میں سرخ جھلک رہا کرتی تھی۔ اپنی خلافت میں تمام امور حکومت کو احسن طریق پر انجام دیا۔ آخرمدینہ میں بدھ کے دن 26ذی الحجہ 23ھ میں مغیرہ بن شعبہ کے غلام ابولولوء نے آپ کو خنجر سے زخمی کیا اور یکم محرم الحرام کو آپ نے جام شہادت نوش فرمایا۔ تریسٹھ سال کی عمر پائی۔ مدت خلافت دس سال چھ ماہ ہے۔ آپ کے جنازہ کی نماز حضرت صہیب رومی نے پڑھائی۔ وفات سے قبل حجرئہ نبوی میں دفن ہونے کے لیے حضرت عائشہ ؓ سے باضابطہ اجازت حاصل کرلی۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔ وفیه الحرص علی مجاورة الصالحین في القبور طمعا في إصابة الرحمة إذا نزلت علیهم وفي دعاء من یزورهم من أهل الخیر۔یعنی آپ کے اس واقعہ میں یہ پہلو بھی ہے کہ صالحین بندوں کے پڑوس میں دفن ہونے کی حرص کرنا درست ہے۔ اس طمع میں کہ ان صالحین بندوں پر رحمت الٰہی کا نزول ہوگا تو اس میں ان کو بھی شرکت کا موقع ملے گا اور جواہل خیر ان کے لیے دعائے خیر کرنے آئیں گے وہ ان کی قبر پر بھی دعا کرتے جائیں گے۔ اس طرح دعاؤں میں بھی شرکت رہے گی۔ سبحان اللہ کیا مقام ہے! ہر سال لاکھوں مسلمان مدینہ شریف پہنچ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام پڑھتے ہیں۔ ساتھ ہی آپ کے جان نثاروں حضرت صدیق اکبر ؓ اور فاروق اعظم ؓ پر بھی سلام بھیجنے کا موقع مل جاتا ہے۔ سچ ہے نگاہ ناز جسے آشنائے راز کرے وہ اپنی خوبی قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے عشرہ مبشرہ میں سے یہی لوگ موجود تھے جن کا حضرت عمر ؓ نے خلیفہ بنانے والی کمیٹی کے لیے نام لیا۔ ابوعبیدہ بن جراح کا انتقال ہوچکا تھا اور سعید بن زید گوزندہ تھے مگر وہ حضرت عمر ؓ کے رشہ دار یعنی چچا زاد بھائی ہوتے تھے‘ اس لیے ان کا بھی نام نہیں لیا۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے بتاکید فرمایا کہ دیکھو میرے بیٹے عبداللہ کا خلافت میں کوئی حق نہیں ہے۔ یہ آپ کا وہ کارنامہ ہے جس پر آج کی نام نہاد جمہوریتیں ہزارہا بار قربان کی جاسکتی ہیں۔ حضرت عمر ؓ کی کسرنفسی کا یہ عالم ہے کہ ساری عمر خلافت کمال عدل کے ساتھ چلائی، پھر بھی اب آخر وقت میں اسی کو غنیمت تصور فرمارہے ہیں کہ خلافت کا نہ ثواب ملے نہ عذاب ہو بلکہ برابر برابر میں اُتر جائے تو یہی غنیمت ہے۔ اخیر میں آپ نے مہاجرین وانصار کے لیے بہترین وصیتیں فرمائیں اور سب سے بڑا کارنامہ یہ کہ ان غیر مسلموں کے لیے جو خلافت اسلامی کے زیر نگین امن وامان کی زندگی گزارتے ہیں‘ خصوصی وصیت فرمائی کہ ہرگز ہرگز ان سے بد عہدی نہ کی جائے اور طاقت سے زیادہ ان پر کوئی بار نہ ڈالا جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Amr bin Maimun Al-Audi (RA): I saw 'Umar bin Al-Khattab (RA) (when he was stabbed) saying, "O 'Abdullah bin 'Umar! Go to the mother of the believers Aisha (RA) and say, 'Umar bin Al-Khattab (RA) sends his greetings to you,' and request her to allow me to be buried with my companions." (So, Ibn 'Umar (RA) conveyed the message to 'Aisha (RA).) She said, "I had the idea of having this place for myself but today I prefer him ('Umar) to myself (and allow him to be buried there)." When 'Abdullah bin 'Umar returned, 'Umar asked him, "What (news) do you have?" He replied, "O chief of the believers! She has allowed you (to be buried there)." On that 'Umar said, "Nothing was more important to me than to be buried in that (sacred) place. So, when I expire, carry me there and pay my greetings to her ( 'Aisha (RA)) and say, 'Umar bin Al-Khattab (RA) asks permission; and if she gives permission, then bury me (there) and if she does not, then take me to the grave-yard of the Muslims. I do not think any person has more right for the caliphate than those with whom Allah's Apostle (ﷺ) was always pleased till his death. And whoever is chosen by the people after me will be the caliph, and you people must listen to him and obey him," and then he mentioned the name of 'Uthman, 'Ali, Talha, Az-Zubair, 'Abdur-Rahman bin 'Auf and Sad bin Abi Waqqas. By this time a young man from Ansar came and said, "O chief of the believers! Be happy with Allah's glad tidings. The grade which you have in Islam is known to you, then you became the caliph and you ruled with justice and then you have been awarded martyrdom after all this." 'Umar replied, "O son of my brother! Would that all that privileges will counterbalance (my short comings), so that I neither lose nor gain anything. I recommend my successor to be good to the early emigrants and realize their rights and to protect their honor and sacred things. And I also recommend him to be good to the Ansar who before them, had homes (in Medina) and had adopted the Faith. He should accept the good of the righteous among them and should excuse their wrongdoers. I recommend him to abide by the rules and regulations concerning the Dhimmis (protectees) of Allah and His Apostle, to fulfill their contracts completely and fight for them and not to tax (overburden) them beyond their capabilities."