Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: The obligation of Zakat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ عزوجل نے فرمایا کہ نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو۔ ابن عباس ؓ نے کہا کہ ابوسفیان ؓنے مجھ سے بیان کیا ‘ انہوں نے نبی کریم ﷺسے متعلق (قیصر روم سے اپنی) گفتگو نقل کی کہ انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں وہ نماز ‘ زکوٰۃ ‘ صلہ رحمی ‘ ناطہٰ جوڑنے اور حرام کاری سے بچنے کا حکم دیتے ہیں۔
1400.
حضرت ابو بکر ؓ نے فرمایا:اللہ کی قسم !میں ہر اس شخص سے قتال کروں گا جو نماز اور زکاۃ میں فرق کرتا ہے، کیونکہ زکاۃ مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم !اگر انھوں نے ایک بکری کا بچہ بھی روک لیا جو وہ رسول اللہ ﷺ کو ادا کرتے تھے تو اس کے روکنے پر بھی میں ضرور ان سے جنگ لڑوں گا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا:اللہ کی قسم!میں بھی اس وضاحت کے بعد وہی سمجھنے لگا جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر ؓ کا سینہ کھول دیا تھا۔ اب میں پہچان گیا کہ حق یہی ہے۔
تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ کی وفات پر لوگ تین حصوں میں تقسیم ہو گئے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ کچھ لوگ دین اسلام سے مرتد ہو کر کفر کی طرف لوٹ گئے اور شرائع اسلام کا انکار کر دیا، یعنی انہوں نے بت پرستی اختیار کر لی۔ ٭ بعض لوگ ختم نبوت کے منکر ہو گئے۔ وہ مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی کو بطور متنبی ماننے لگے اور ان کے پیروکار ہو گئے۔ ان دونوں گروہوں سے ابوبکر ؓ نے قتال کر کے ان کا خاتمہ کر دیا۔ ان سے قتال کرنے میں حضرت عمر ؓ بھی ان کے ہمنوا تھے۔ ٭ ایک تیسرا گروہ بھی تھا جو نماز اور زکاۃ میں فرق کرتا تھا۔ ان کا موقف تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد اس کے جانشین کو زکاۃ دینا ضروری نہیں۔ ان کے خلاف قتال کے متعلق حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کا اختلاف ہوا جس کا مذکورہ احادیث میں ذکر ہے۔ (2) دراصل یہ لوگ باغی تھے، مگر اس زمانے میں انہیں باغیوں کے نام سے یاد نہیں کیا جاتا تھا، کیونکہ وہ مرتدین کے گروہ میں شامل تھے۔ اس بنا پر انہیں بھی مرتدین میں شامل کیا گیا۔ حضرت علی ؓ کے دور میں چونکہ اس قسم کا اختلاط نہیں تھا، اس لیے انہیں باغی قرار دے کر ان سے جنگ کی گئی۔ حضرت ابوبکر ؓ نے زکاۃ کو نماز پر قیاس کیا جس کا انکار بالاتفاق کفر ہے اور حضرت عمر ؓ نے عموم حدیث سے استدلال کیا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے صرف قیاس ہی سے کام نہیں لیا تھا بلکہ حق اسلام کے الفاظ سے بھی اپنےموقف کو مضبوط کیا۔ اس وضاحت کے بعد حضرت عمر ؓ بھی مطمئن ہو گئے۔ (3) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے وجوب زکاۃ پر استدلال کیا ہے جو أظهر من الشمس ہے۔ (4) واضح رہے کہ حضرت ابن عمر ؓ سے ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جنگ کروں تا وقتیکہ وہ اقرار کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، نماز پڑھیں اور زکاۃ ادا کریں، جب یہ کام کرنے لگیں گے تو انہوں نے مجھ سے اپنے مال اور جان کو محفوظ کر لیا سوائے حق اسلام کے، پھر ان کا باطنی حساب اللہ کے سپرد ہو گا۔‘‘(صحیح البخاري، الإیمان، حدیث:25) یہ حدیث حضرت ابوبکر ؓ کو مستحضر نہ تھی، اگر یاد ہوتی تو وہ قیاس کے بجائے اسے پیش کرتے اور نہ یہ حدیث حضرت عمر ؓ ہی کے سامنے تھی وگرنہ وہ اس کے ہوتے ہوئے حدیث کے عموم سے فائدہ نہ اٹھاتے۔ عین ممکن ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ جن سے یہ فیصلہ کن حدیث مروی ہے بحث و تکرار کے وقت وہاں موجود نہ ہوں، اگر وہاں موجود ہوتے تو اسے پیش کر کے اس نزاع کو فورا ختم کیا جا سکتا تھا۔ بہرحال زکاۃ ادا کرنا فرض ہے اور اس کا انکار کفر اور ادائیگی کے متعلق تاویل باعث جنگ و قتال ہے، چنانچہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’جو فرائض کو قبول کرنے سے انکار کر کے ارتداد کی طرف منسوب ہو اس کے خلاف قتال کرنا۔‘‘(صحیح البخاري، استتابةالمرتدین، باب:3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1364.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1400
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1400
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1400
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
تمہید باب
زکاۃ فرض ہے اور اس کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ حاکم وقت کو چاہیے کہ وہ منکر زکاۃ شخص کے خلاف جہاد کرے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کی فرضیت بیان کرنے کے لیے حسب عادت قرآنی آیت کا حوالہ دیا ہے جس میں زکاۃ ادا کرنے کا حکم ہے اور حکم وجوب کے لیے ہوتا ہے، پھر آپ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث ذکر کی ہے جو کتاب بدء الوحی میں تفصیل سے گزر چکی ہے۔ اس حصے سے فرضیت زکاۃ کی طرف اشارہ کیا ہے، نیز اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ فرضیت زکاۃ کا حکم مکہ مکرمہ میں نازل ہوا تھا کیونکہ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے مذکورہ الفاظ انہوں نے شاہِ روم کے دربار میں کہے تھے اور اس وقت وہ مسلمان نہیں ہوئے تھے، نیز اس واقعہ کا تعلق بھی مکی دور سے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ مکرمہ میں فرض ہو چکی تھی اگرچہ اس کی تفصیلات اور حدود و مصارف مدینہ طیبہ میں نازل ہوئے ہیں جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے۔والله أعلم
اور اللہ عزوجل نے فرمایا کہ نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو۔ ابن عباس ؓ نے کہا کہ ابوسفیان ؓنے مجھ سے بیان کیا ‘ انہوں نے نبی کریم ﷺسے متعلق (قیصر روم سے اپنی) گفتگو نقل کی کہ انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں وہ نماز ‘ زکوٰۃ ‘ صلہ رحمی ‘ ناطہٰ جوڑنے اور حرام کاری سے بچنے کا حکم دیتے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو بکر ؓ نے فرمایا:اللہ کی قسم !میں ہر اس شخص سے قتال کروں گا جو نماز اور زکاۃ میں فرق کرتا ہے، کیونکہ زکاۃ مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم !اگر انھوں نے ایک بکری کا بچہ بھی روک لیا جو وہ رسول اللہ ﷺ کو ادا کرتے تھے تو اس کے روکنے پر بھی میں ضرور ان سے جنگ لڑوں گا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا:اللہ کی قسم!میں بھی اس وضاحت کے بعد وہی سمجھنے لگا جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر ؓ کا سینہ کھول دیا تھا۔ اب میں پہچان گیا کہ حق یہی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ ﷺ کی وفات پر لوگ تین حصوں میں تقسیم ہو گئے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ کچھ لوگ دین اسلام سے مرتد ہو کر کفر کی طرف لوٹ گئے اور شرائع اسلام کا انکار کر دیا، یعنی انہوں نے بت پرستی اختیار کر لی۔ ٭ بعض لوگ ختم نبوت کے منکر ہو گئے۔ وہ مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی کو بطور متنبی ماننے لگے اور ان کے پیروکار ہو گئے۔ ان دونوں گروہوں سے ابوبکر ؓ نے قتال کر کے ان کا خاتمہ کر دیا۔ ان سے قتال کرنے میں حضرت عمر ؓ بھی ان کے ہمنوا تھے۔ ٭ ایک تیسرا گروہ بھی تھا جو نماز اور زکاۃ میں فرق کرتا تھا۔ ان کا موقف تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد اس کے جانشین کو زکاۃ دینا ضروری نہیں۔ ان کے خلاف قتال کے متعلق حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کا اختلاف ہوا جس کا مذکورہ احادیث میں ذکر ہے۔ (2) دراصل یہ لوگ باغی تھے، مگر اس زمانے میں انہیں باغیوں کے نام سے یاد نہیں کیا جاتا تھا، کیونکہ وہ مرتدین کے گروہ میں شامل تھے۔ اس بنا پر انہیں بھی مرتدین میں شامل کیا گیا۔ حضرت علی ؓ کے دور میں چونکہ اس قسم کا اختلاط نہیں تھا، اس لیے انہیں باغی قرار دے کر ان سے جنگ کی گئی۔ حضرت ابوبکر ؓ نے زکاۃ کو نماز پر قیاس کیا جس کا انکار بالاتفاق کفر ہے اور حضرت عمر ؓ نے عموم حدیث سے استدلال کیا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے صرف قیاس ہی سے کام نہیں لیا تھا بلکہ حق اسلام کے الفاظ سے بھی اپنےموقف کو مضبوط کیا۔ اس وضاحت کے بعد حضرت عمر ؓ بھی مطمئن ہو گئے۔ (3) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے وجوب زکاۃ پر استدلال کیا ہے جو أظهر من الشمس ہے۔ (4) واضح رہے کہ حضرت ابن عمر ؓ سے ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جنگ کروں تا وقتیکہ وہ اقرار کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، نماز پڑھیں اور زکاۃ ادا کریں، جب یہ کام کرنے لگیں گے تو انہوں نے مجھ سے اپنے مال اور جان کو محفوظ کر لیا سوائے حق اسلام کے، پھر ان کا باطنی حساب اللہ کے سپرد ہو گا۔‘‘(صحیح البخاري، الإیمان، حدیث:25) یہ حدیث حضرت ابوبکر ؓ کو مستحضر نہ تھی، اگر یاد ہوتی تو وہ قیاس کے بجائے اسے پیش کرتے اور نہ یہ حدیث حضرت عمر ؓ ہی کے سامنے تھی وگرنہ وہ اس کے ہوتے ہوئے حدیث کے عموم سے فائدہ نہ اٹھاتے۔ عین ممکن ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ جن سے یہ فیصلہ کن حدیث مروی ہے بحث و تکرار کے وقت وہاں موجود نہ ہوں، اگر وہاں موجود ہوتے تو اسے پیش کر کے اس نزاع کو فورا ختم کیا جا سکتا تھا۔ بہرحال زکاۃ ادا کرنا فرض ہے اور اس کا انکار کفر اور ادائیگی کے متعلق تاویل باعث جنگ و قتال ہے، چنانچہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’جو فرائض کو قبول کرنے سے انکار کر کے ارتداد کی طرف منسوب ہو اس کے خلاف قتال کرنا۔‘‘(صحیح البخاري، استتابةالمرتدین، باب:3)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور نماز قائم کرواور زکاۃ ادا کرو۔ "
حضرت عباس ؓ نے فرمایا: مجھ سے حضرت ابو سفیان ؓ نے نبی ﷺ کی حدیث بیان کی اور کہا: آپ ہمیں نماز پڑھنے، زکاۃدینے، صلہ رحمی کرنے اور پاکدامنی اختیار کرنے کا حکم دیتے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
اس پر حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جواب دیا کہ قسم اللہ کی میں ہر اس شخص سے جنگ کروں گا جو زکوٰة اور نماز میں تفریق کرے گا۔ ( یعنی نماز تو پڑھے مگر زکوٰة کے لیے انکار کردے ) کیونکہ زکوٰة مال کا حق ہے۔ خدا کی قسم اگر انہوں نے زکوٰة میں چار مہینے کی ( بکری کے ) بچے کو دینے سے بھی انکار کیا جسے وہ رسول اللہ ﷺ کو دیتے تھے تو میں ان سے لڑوں گا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ بخدایہ بات اس کا نتیجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر ؓ کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا تھا اور بعد میں میں بھی اس نتیجہ پر پہنچا کہ ابوبکر ؓ ہی حق پر تھے۔
حدیث حاشیہ:
وفات نبی کے بعد مدینہ کے اطراف میں مختلف قبائل جو پہلے اسلام لاچکے تھے، اب انہوں نے سمجھا کہ اسلام ختم ہوگیا، لہٰذا ان میں سے بعض بت پرست بن گئے۔ بعض مسیلمہ کذاب کے تابع ہوگئے، جیسے یمامہ والے اور بعض مسلمان رہے، مگر زکوٰۃ کی فرضیت کا انکار کرنے لگے اور قرآن شریف کی یوں تاویل کرنے لگے کہ زکوٰۃ لینا آنحضرت ﷺ سے خاص تھا۔ کیونکہ اللہ نے فرمایا۔ ﴿خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ﴾(التوبة: 103) اور پیغمبر کے سوا اور کسی کی دعا سے ان کو تسلی نہیں ہوسکتی۔ وحسابه علی اللہ کا مطلب یہ کہ دل میں اس کے ایمان ہے یا نہیں اس سے ہم کو غرض نہیں اس کی پوچھ قیامت کے دن اللہ کے سامنے ہوگی اور دنیا میں جو کوئی زبان سے لا إله إلا اللہ کہے گا اس کو مومن سمجھیں گے اور اس کے مال اور جان پر حملہ نہ کریں گے۔ صدیقی الفاظ میں فرق بین الصلوٰة والزکوٰة کا مطلب یہ کہ جو شخص نماز کو فرض کہے گا مگر زکوٰۃ کی فرضیت کا انکار کرے گا ہم ضرور ضرور اس پر جہاد کریں گے۔ حضرت عمر ؓ نے بھی بعد میں حضرت ابوبکر ؓ کی رائے سے اتفاق کیا اور سب صحابہ متفق ہوگئے اور زکوٰۃ دینے والوں پر جہاد کیا۔ یہ حضرت صدیق اکبر ؓ کی فہم وفراست تھی۔ اگر وہ اس عزم سے کام نہ لیتے تو اسی وقت اسلامی نظام درہم برہم ہوجاتا مگر حضرت صدیق اکبر ؓ نے اپنے عزم صمیم سے اسلام کو ایک بڑے فتنے سے بچالیا۔ آج بھی اسلامی قانون یہی ہے کہ کوئی شخص محض کلمہ گو ہونے سے مسلمان نہیں بن جاتا جب تک وہ نماز‘ زکوٰۃ‘ روزہ‘ حج کی فرضیت کا اقراری نہ ہو اور وقت آنے پر ان کو ادا نہ کرے۔ جو کوئی کسی بھی اسلام کے رکن کی فرضیت کا انکار کرے وہ متفقہ طورپر اسلام سے خارج اور کافر ہے۔ نماز کے لیے تو صاف موجود ہے من ترك الصلوٰة متعمدا فقد کفرجس نے جان بوجھ کر بلا عذر شرعی ایک وقت کی نماز بھی ترک کردی تو اس نے کفر کا ارتکاب کیا۔ عدم زکوٰۃ کے لیے حضرت صدیق اکبر ؓ کا فتویٰ جہاد موجود ہے اور حج کے متعلق فاروق اعظم کا وہ فرمان قابل غور ہے جس میں آپ نے مملکت اسلامیہ سے ایسے لوگوں کی فہرست طلب کی تھی جو مسلمان ہیں اورجن پر حج فرض ہے مگر وہ یہ فرض نہیں ادا کرتے تو آپ نے فرمایا تھا کہ ان پر جزیہ قائم کردو‘ وہ مسلمانوں کی جماعت سے خارج ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Bakr (RA) said, "By Allah! I will fight those who differentiate between the prayer and the Zakat as Zakat is the compulsory right to be taken from the property (according to Allah's orders) By Allah! If they refuse to pay me even a she-kid which they used to pay at the time of Allah's Apostle (ﷺ) . I would fight with them for withholding it" Then 'Umar said, "By Allah, it was nothing, but Allah opened Abu Bakr's chest towards the decision (to fight) and I came to know that his decision was right."