باب: جس مال کی زکوٰۃ دے دی جائے وہ کنز (خزانہ) نہیں ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: A property from which the Zakat is paid is not Al-Kanz (hoarded-money))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
کیونکہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوٰۃ نہیں ہے۔
1404.
حضرت خالد بن اسلم سے روایت ہے کہ ہم حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے ہمراہ نکلے تو ان سے ایک اعرابی نے دریافت کیا کہ ارشاد باری تعالیٰ :’’جو لوگ سونے اور چاندی کو جمع کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔‘‘ اس کا کیا مطلب ہے؟ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے جواب دیا:جس نے مال جمع کیا اور اس کی زکاۃ نہ ادا کی ، اس کے لیے ہلاکت ہے۔ اور آیت میں مذکورہ وعید زکاۃ کے نازل ہونے سے پہلے تھی، جب زکاۃ کا حکم نازل ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اسے اموال کی پاکیزگی کا ذریعہ بنادیا۔
تشریح:
(1) حضرت ابوذر ؓ کا آیت کنز کے پیش نظر یہ موقف تھا کہ ضروریات سے زیادہ سرمایہ رکھنا شرعا درست نہیں، بلکہ ایسا کنز ہے جس پر قرآن میں وعید آئی ہے، نیز اپنے موقف کی تائید میں اس آیت کو بھی پیش کرتے تھے: ﴿وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ﴾(البقرة: 219:2)’’اور لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں کیا خرچ کریں؟ ان سے کہہ دیں کہ جو کچھ بھی ضرورت سے زائد ہو وہ اللہ کی راہ میں خرچ کر دو۔‘‘ حضرت ابن عمر ؓ نے آیت کنز کے متعلق فرمایا کہ یہ حکم شروع اسلام میں تھا۔ جب زکاۃ فرض ہوئی تو اسے منسوخ کر دیا گیا، یعنی جب فتوحات ہوئیں اور نصاب زکاۃ مقرر ہوا، پھر اس کے مصارف بیان ہوئے تو آیت میں مذکور حکم بھی ختم ہو گیا۔ دراصل حضرت ابوذر ؓ رسول اللہ ﷺ سے کوئی حدیث سننے جس میں سخت حکم ہوتا تھا اور اسے اپنی قوم کو پہنچا دیتے، اس کے بعد اس کے متعلق نرمی آ جاتی، لیکن حضرت ابوذر ؓ پہلے حکم ہی پر عمل پیرا رہتے، جیسا کہ مال جمع کرنے کے متعلق ان کا موقف ہے۔ جمہور صحابہ نے ان سے اختلاف کیا ہے۔ (فتح الباري:345/3) (2) جن آیات کریمہ میں ضرورت سے زیادہ سارا مال خرچ کر دینے کا حکم ہے وہ نفلی صدقات کی آخری حد ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ انسان سارے کا سارا مال اللہ کی راہ میں خرچ کر دے اور بعد میں خود محتاج ہو جائے۔ صدقے کی کم از کم حد فرض زکاۃ ہے جو کفر اور اسلام کی سرحد پر واقع ہے۔ بالفاظ دیگر زکاۃ ادا نہ کرنے والا کافر ہے مسلمان نہیں، جیسا کہ حضرت ابوبکر ؓ نے ایسے لوگوں کے خلاف جہاد کیا تھا۔ اور ان دونوں حدوں کے درمیان وسیع میدان ہے اور اہل خیر جتنی چاہیں نیکیاں کما سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ ہمارے اشتراکی ذہن رکھنے والے حضرات نے قرآنی آیت میں العفو کے مفہوم کو بہت غلط معنی پہنائے ہیں۔ اشتراکی نظریے کے مطابق ہر چیز کی مالک حکومت ہوتی ہے اور اشتراکی حکومت میں انفرادی ملکیت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی کی ذاتی ملکیت ہی نہ ہو تو وہ پس انداز کیا کرے گا اور خرچ کیا کرے گا اور انفاق کے متعلق کیا پوچھے گا؟ گویا جس آیت سے اشتراکی نظریہ کشید کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، وہی آیت اس نظریے کی تردید پر بڑی واضح دلیل ہے، کیونکہ آیت سے واضح ہوتا ہے کہ سوال کرنے والے خود اپنے مالوں کے مالک تھے اور اپنی مرضی ہی سے ان میں تصرف کرنے کی قدرت رکھتے تھے۔ انہوں نے اس وقت سوال کیا تھا جب جہاد کے لیے مصارف کی شدید ضرورت تھی جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ دوران سفر میں فرمایا: ’’جس کے پاس زائد سواری ہو وہ دوسرے کو دے دے جس کے پاس سواری نہیں ہے اور جس کے پاس زائد زادراہ ہے وہ اسے دے دے جس کے پاس زادِ راہ نہیں ہے۔‘‘ الغرض آپ نے مال کی ایک ایک قسم کا اس انداز سے ذکر فرمایا کہ ہم سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ ہمیں تو اپنے زائد مال میں کوئی حق نہیں ہے۔ (صحیح مسلم، اللقطة، حدیث:4517(1728)) ایسے حالات میں بھی اللہ تعالیٰ نے حکومت کو یہ اختیار نہیں دیا کہ لوگوں سے ان کے سب زائد مال چھین لیے جائیں، بلکہ مسلمانوں کی تربیت اس انداز سے کی جا رہی ہے کہ وہ اپنے اختیار و ارادے سے اپنا سارا مال دے دیں تو یہ سب سے بہتر ہے، لیکن جو مسلمان ایسے حالات میں اپنا سارا زائد مال نہیں دے سکتے یا نہیں دینا چاہتے ان پر بھی کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی، جبکہ اشتراکی نظریہ اس کے بالکل برعکس ہے جو حالات جنگ تو درکنار عام حالات میں بھی لوگوں کو حق ملکیت سے محروم کر دیتا ہے، لہذا اس آیت کریمہ سے اشتراکی نظریہ کشید کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1368
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1404
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1404
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1404
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
تمہید باب
عنوان کے الفاظ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک موقوف حدیث ہے، آپ نے فرمایا کہ ہر وہ خزانہ جس کی زکاۃ ادا کر دی جائے وہ کنز نہیں اگرچہ وہ ساتوں زمینوں کے نیچے مدفون ہو۔ اور جس مال کی زکاۃ ادا نہ کی جائے وہ کنز ہے اگرچہ وہ زمین کے اوپر ہی پڑا ہو۔ (فتح الباری:3/344) حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ سونے کے کنگن پہنا کرتی تھیں، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: اللہ کے رسول! کیا یہ کنز ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے وعید سنائی ہے؟ آپ نے فرمایا: "اگر ان کی زکاۃ ادا کر دی جائے تو کنز نہیں ہے۔" (سنن ابی داؤد،الزکاۃ،حدیث:1564) یہ روایت اس موقف کی دلیل ہے کہ اگر کسی مال سے اس کی زکاۃ ادا کر دی جائے تو وہ کنز نہیں جس پر قرآن مجید میں دھمکی آئی ہے، نیز امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کا حوالہ دیا ہے کہ پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ممنوع کنز وہ ہے جس پر قرآن کریم میں وعید آئی ہے۔ اس کے لیے دو شرطیں ہیں: ٭ وہ مال نصاب کو پہنچ جائے۔ ٭ اس کی زکاۃ نہ ادا کی جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی مال نصاب سے کم ہے تو وہ ممنوع کنز نہیں، اسے اپنے پاس رکھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح جو مال نصاب کو پہنچ جائے اور اس سے زکاۃ ادا کر دی جائے تو وہ بھی کنز نہیں، لہذا مستحقِ عذاب نہیں ہو گا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جس مال میں زکاۃ واجب نہیں وہ قابل معافی ہے، اسے کنز کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اور جس مال سے زکاۃ ادا کر دی جائے وہ بھی قابل معافی ہے کیونکہ اس کا حق ادا کر دیا گیا ہے۔ اسے بھی کنز نہیں کہا جائے گا جس پر قرآن کریم میں وعید آئی ہے۔ (فتح الباری:3/344) واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے پیش کردہ ارشاد نبوی کو خود ہی آگے متصل سند سے بیان کیا ہے جیسا کہ آئندہ بیان ہو گا۔ دیکھیے: (حدیث: 1405)
کیونکہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوٰۃ نہیں ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت خالد بن اسلم سے روایت ہے کہ ہم حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے ہمراہ نکلے تو ان سے ایک اعرابی نے دریافت کیا کہ ارشاد باری تعالیٰ :’’جو لوگ سونے اور چاندی کو جمع کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔‘‘ اس کا کیا مطلب ہے؟ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے جواب دیا:جس نے مال جمع کیا اور اس کی زکاۃ نہ ادا کی ، اس کے لیے ہلاکت ہے۔ اور آیت میں مذکورہ وعید زکاۃ کے نازل ہونے سے پہلے تھی، جب زکاۃ کا حکم نازل ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اسے اموال کی پاکیزگی کا ذریعہ بنادیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت ابوذر ؓ کا آیت کنز کے پیش نظر یہ موقف تھا کہ ضروریات سے زیادہ سرمایہ رکھنا شرعا درست نہیں، بلکہ ایسا کنز ہے جس پر قرآن میں وعید آئی ہے، نیز اپنے موقف کی تائید میں اس آیت کو بھی پیش کرتے تھے: ﴿وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ﴾(البقرة: 219:2)’’اور لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں کیا خرچ کریں؟ ان سے کہہ دیں کہ جو کچھ بھی ضرورت سے زائد ہو وہ اللہ کی راہ میں خرچ کر دو۔‘‘ حضرت ابن عمر ؓ نے آیت کنز کے متعلق فرمایا کہ یہ حکم شروع اسلام میں تھا۔ جب زکاۃ فرض ہوئی تو اسے منسوخ کر دیا گیا، یعنی جب فتوحات ہوئیں اور نصاب زکاۃ مقرر ہوا، پھر اس کے مصارف بیان ہوئے تو آیت میں مذکور حکم بھی ختم ہو گیا۔ دراصل حضرت ابوذر ؓ رسول اللہ ﷺ سے کوئی حدیث سننے جس میں سخت حکم ہوتا تھا اور اسے اپنی قوم کو پہنچا دیتے، اس کے بعد اس کے متعلق نرمی آ جاتی، لیکن حضرت ابوذر ؓ پہلے حکم ہی پر عمل پیرا رہتے، جیسا کہ مال جمع کرنے کے متعلق ان کا موقف ہے۔ جمہور صحابہ نے ان سے اختلاف کیا ہے۔ (فتح الباري:345/3) (2) جن آیات کریمہ میں ضرورت سے زیادہ سارا مال خرچ کر دینے کا حکم ہے وہ نفلی صدقات کی آخری حد ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ انسان سارے کا سارا مال اللہ کی راہ میں خرچ کر دے اور بعد میں خود محتاج ہو جائے۔ صدقے کی کم از کم حد فرض زکاۃ ہے جو کفر اور اسلام کی سرحد پر واقع ہے۔ بالفاظ دیگر زکاۃ ادا نہ کرنے والا کافر ہے مسلمان نہیں، جیسا کہ حضرت ابوبکر ؓ نے ایسے لوگوں کے خلاف جہاد کیا تھا۔ اور ان دونوں حدوں کے درمیان وسیع میدان ہے اور اہل خیر جتنی چاہیں نیکیاں کما سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ ہمارے اشتراکی ذہن رکھنے والے حضرات نے قرآنی آیت میں العفو کے مفہوم کو بہت غلط معنی پہنائے ہیں۔ اشتراکی نظریے کے مطابق ہر چیز کی مالک حکومت ہوتی ہے اور اشتراکی حکومت میں انفرادی ملکیت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی کی ذاتی ملکیت ہی نہ ہو تو وہ پس انداز کیا کرے گا اور خرچ کیا کرے گا اور انفاق کے متعلق کیا پوچھے گا؟ گویا جس آیت سے اشتراکی نظریہ کشید کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، وہی آیت اس نظریے کی تردید پر بڑی واضح دلیل ہے، کیونکہ آیت سے واضح ہوتا ہے کہ سوال کرنے والے خود اپنے مالوں کے مالک تھے اور اپنی مرضی ہی سے ان میں تصرف کرنے کی قدرت رکھتے تھے۔ انہوں نے اس وقت سوال کیا تھا جب جہاد کے لیے مصارف کی شدید ضرورت تھی جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ دوران سفر میں فرمایا: ’’جس کے پاس زائد سواری ہو وہ دوسرے کو دے دے جس کے پاس سواری نہیں ہے اور جس کے پاس زائد زادراہ ہے وہ اسے دے دے جس کے پاس زادِ راہ نہیں ہے۔‘‘ الغرض آپ نے مال کی ایک ایک قسم کا اس انداز سے ذکر فرمایا کہ ہم سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ ہمیں تو اپنے زائد مال میں کوئی حق نہیں ہے۔ (صحیح مسلم، اللقطة، حدیث:4517(1728)) ایسے حالات میں بھی اللہ تعالیٰ نے حکومت کو یہ اختیار نہیں دیا کہ لوگوں سے ان کے سب زائد مال چھین لیے جائیں، بلکہ مسلمانوں کی تربیت اس انداز سے کی جا رہی ہے کہ وہ اپنے اختیار و ارادے سے اپنا سارا مال دے دیں تو یہ سب سے بہتر ہے، لیکن جو مسلمان ایسے حالات میں اپنا سارا زائد مال نہیں دے سکتے یا نہیں دینا چاہتے ان پر بھی کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی، جبکہ اشتراکی نظریہ اس کے بالکل برعکس ہے جو حالات جنگ تو درکنار عام حالات میں بھی لوگوں کو حق ملکیت سے محروم کر دیتا ہے، لہذا اس آیت کریمہ سے اشتراکی نظریہ کشید کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد نبوی ہے: "پانچ اوقیہ سے کم میں زکاۃ نہیں ہے۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن شبیب بن سعید نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے میرے والد شبیب نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے یونس نے بیان کیا‘ ان سے ابن شہاب نے‘ ان سے خالد بن اسلم نے‘ انہوں نے بیان کیا کہ ہم عبداللہ بن عمر ؓ کے ساتھ کہیں جارہے تھے۔ ایک اعرابی نے آپ سے پوچھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر بتلائیے ’’جو لوگ سونے اور چاندی کا خزانہ بناکر رکھتے ہیں۔‘‘ حضرت ابن عمر ؓ نے اس کا جواب دیا کہ اگر کسی نے سونا چاندی جمع کیا اور اس کی زکوٰة نہ دی تو اس کے لیے ویل ( خرابی ) ہے۔ یہ حکم زکوٰة کے احکام نازل ہونے سے پہلے تھا لیکن جب اللہ تعالیٰ نے زکوٰة کا حکم نازل کردیا تو اب وہی زکوٰة مال ودولت کو پاک کردینے والی ہے۔
حدیث حاشیہ:
یعنی اس مال سے متعلق یہ آیت نہیں ہے ﴿وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ﴾(التوبة: 34) معلوم ہوا کہ اگر کوئی مال جمع کرے تو گنہگار نہیں، بشرطیکہ زکوٰۃ دیا کرے۔ گو تقویٰ اور فضیلت کے خلاف ہے۔ یہ ترجمہ باب خود ایک حدیث ہے۔ جسے امام مالک نے ابن عمر ؓ سے موقوفاً نکالا ہے اور ابوداؤد نے ایک مرفوع حدیث نکالی جس کا مطلب یہی ہے۔ حدیث لیس فیمادون خمس أواق صدقة۔ یہ حدیث اس باب میں آتی ہے۔ امام بخاری نے اس حدیث سے دلیل لی کہ جس مال کی زکوٰۃ ادا کی جائے وہ کنزنہیں ہے۔ اس کا دبانا اور رکھ چھوڑنا درست ہے، کیونکہ پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں بموجب نص حدیث زکوٰۃ نہیں ہے۔ پس اتنی چاندی کا رکھ چھوڑنا اور دبانا کنزنہ ہوگا اور آیت میں سے اس کو خاص کرنا ہوگا اور خاص کرنے کی وجہ یہی ہوئی کہ زکوٰۃ اس پر نہیں ہے تو جس مال کی زکوٰۃ ادا کردی گئی وہ بھی کنزنہ ہوگا، کیونکہ اس پر بھی زکوٰۃ نہیں رہی۔ ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے، پانچ اوقیوں کے دو سو درہم ہوئے یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی۔ یہی چاندی کا نصاب ہے، اس سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ کنز کے متعلق بیہقی میں عبداللہ بن عمر ؓ کی روایت میں ہے، کل ما أدیت زکوته وإن کان تحت سبع أرضین فلیس بکنز وکل مالا تؤدی زکوته فهو کنز وإن کان ظاهرا علی وجه الأرض۔(فتح الباري) یعنی ہر وہ مال جس کی تونے زکوٰۃ ادا کردی ہے وہ کنز نہیں ہے اگرچہ وہ ساتویں زمین کے نیچے دفن ہو اور ہر وہ مال جس کی زکوٰۃ نہیں ادا کی وہ کنز ہے اگر چہ وہ زمین کی پیٹھ پر رکھا ہوا ہو۔ آپ کا یہ قول بھی مروی ہےـ ما أبالي لو کان لی مثل أحد ذهبا أعلم عددہ أزکیه وأعمل فیه بطاعة اللہ تعالیٰ۔(فتح)یعنی مجھ کو کچھ پروا نہیں جب کہ میرے پاس احد پہاڑ جتنا سونا ہو اور میں زکوٰۃ ادا کرکے اسے پاک کروں اور اس میں اللہ کی اطاعت کے کام کروں یعنی اس حالت میں اتنا خزانہ بھی میرے لیے مضر نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Khalid bin Aslam: We went out with 'Abdullah bin 'Umar and a bedouin said (to 'Abdullah), "Tell me about Allah's saying: "And those who hoard up gold and silver (Al-Kanz - money, gold, silver etc., the Zakat of which has not been paid) and spend it not in the Way of Allah (V9:34)." Ibn 'Umar said, "Whoever hoarded them and did not pay the Zakat thereof, then woe to him. But these holy Verses were revealed before the Verses of Zakat. So when the Verses of Zakat were revealed, Allah made Zakat a purifier of the property”.