Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: As-Sadaqa must be from money earned honestly)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
کیونکہ اللہ پاک کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ سود کو گھٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی ناشکرے گنہگار کو پسند نہیں کرتا۔ وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے ‘ نماز قائم کی اور زکوٰۃ دی ‘ انہیں ان اعمال کا ان کے پروردگار کے یہاں ثواب ملے گا اور نہ انہیں کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
1410.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جو شخص حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر بھی صدقہ دیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ حلال وپاکیزہ چیزوں ہی کو قبول کرتا ہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ اس صدقے کو اپنے دائیں ہاتھ میں لیتا ہے، پھر اسے دینے والے کی خاطر بڑھاتا ہے، جس طرح تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے کے بچے کو پال کر بڑھاتا ہے، حتی کہ وہ کھجور پہاڑ کے برابر ہو جاتی ہے۔‘‘ سلیمان نے عبد اللہ بن دینار سے روایت کرنے میں عبد الرحمٰن کی متابعت کی ہے ورقاء نے ابن دینار سے اس نے سعید بن یسار سے، اس نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے، وہ نبی ﷺ سے اس روایت کو بیان کرتے ہیں۔ مسلم بن ابی مریم، زید بن اسلم اور سہیل نے ابو صالح سے، انھوں نےحضرت ابوہریرہ ؓ سے اور انھوں نے نبی ﷺ سے اس روایت کو بیان کیا ہے۔
تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ نے صدقہ بڑھنے کو گھوڑے کے بچے کی مثال دے کر بیان کیا ہے، کیونکہ گھوڑے کا بچہ بہت جلد بڑھتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے سواری کے قابل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح صدقہ بھی انسانی عمل کی پیداوار ہے اور ہر پیداوار کو نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے، جب اس پر توجہ دی جائے گی تو خوب پروان چڑھے گی۔ جب صدقہ حلال طیب کمائی سے کیا جائے گا تو وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ کرم میں رہتا ہے اور روز بروز بڑھتا رہتا ہے حتی کہ ایک کھجور اُحد پہاڑ جتنی ہو جاتی ہے۔ لیکن حرام مال سے صدقہ قبول نہیں کیا جاتا، کیونکہ صدقہ کرنے والا اس کا مالک نہیں ہوتا اور نہ وہ اس مال میں تصرف ہی کرنے کا حق دار ہے۔ اگر حرام مال سے صدقہ قبول کر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہی چیز بجا آوری اور حکم امتناعی کے درجے میں ہے جبکہ ایسا محال ہے۔ (فتح الباري:353/3) (2) بعض حضرات نے اس حدیث کی تاویل کی ہے اور کہا ہے کہ اس میں اللہ کی طرف دائیں ہاتھ کو منسوب کیا گیا ہے، اس سے مراد کوئی خاص عضو نہیں۔ لیکن اہل سنت کا یہ مسلک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی تاویل کی جائے، بلکہ سلف اسے ظاہری معنی ہی پر محمول کرتے ہیں۔ جملہ اہل علم صفات پر مشتمل احادیث پر بلا تاویل ایمان لاتے ہیں اور ان میں تشبیہ کا وہم نہیں کرتے اور نہ ان کی کیفیت ہی کے متعلق بحث کرتے ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے امام ترمذی ؒ کے حوالے سے اس موقف کو بیان کیا ہے اور یہ برحق ہے۔ (فتح الباري:354/3، وجامع الترمذي، الزکاة، حدیث:662) (3) سلیمان کی متابعت کو امام بخاری ؒ نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ اسی طرح ورقاء بن عمر کی روایت کو امام بخاری ؒ نے ذکر کیا ہے۔ (صحیح البخاري، التوحید، حدیث:7430) سلمہ بن ابو مریم کی روایت کو امام ابو یوسف نے اپنی تالیف کتاب الزکاۃ میں بیان کیا ہے۔ اور زید بن اسلم، نیز سہیل کی روایات کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں متصل سند سے ذکر کیا ہے۔ (صحیح مسلم، الزکاة، حدیث:2343(1014)، وفتح الباري:355/3))
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1373
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1410
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1410
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1410
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
تمہید باب
علامہ کرمانی لکھتے ہیں کہ آیت کریمہ میں لفظ صدقات اگرچہ عام ہے جو حلال و حرام کو شامل ہے لیکن اس سے مراد حلال مال کا صدقہ کرنا ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ) (البقرۃ267:2) "کسی خبیث چیز کو اللہ کی راہ میں دینے کا قصد نہ کرو۔" حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف حلال طیب کمائی سے دیے ہوئے صدقے کو قبول کرتا ہے۔ (سنن ابی داؤد،الطھارۃ،حدیث:59)
کیونکہ اللہ پاک کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ سود کو گھٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی ناشکرے گنہگار کو پسند نہیں کرتا۔ وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے ‘ نماز قائم کی اور زکوٰۃ دی ‘ انہیں ان اعمال کا ان کے پروردگار کے یہاں ثواب ملے گا اور نہ انہیں کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جو شخص حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر بھی صدقہ دیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ حلال وپاکیزہ چیزوں ہی کو قبول کرتا ہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ اس صدقے کو اپنے دائیں ہاتھ میں لیتا ہے، پھر اسے دینے والے کی خاطر بڑھاتا ہے، جس طرح تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے کے بچے کو پال کر بڑھاتا ہے، حتی کہ وہ کھجور پہاڑ کے برابر ہو جاتی ہے۔‘‘ سلیمان نے عبد اللہ بن دینار سے روایت کرنے میں عبد الرحمٰن کی متابعت کی ہے ورقاء نے ابن دینار سے اس نے سعید بن یسار سے، اس نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے، وہ نبی ﷺ سے اس روایت کو بیان کرتے ہیں۔ مسلم بن ابی مریم، زید بن اسلم اور سہیل نے ابو صالح سے، انھوں نےحضرت ابوہریرہ ؓ سے اور انھوں نے نبی ﷺ سے اس روایت کو بیان کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ ﷺ نے صدقہ بڑھنے کو گھوڑے کے بچے کی مثال دے کر بیان کیا ہے، کیونکہ گھوڑے کا بچہ بہت جلد بڑھتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے سواری کے قابل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح صدقہ بھی انسانی عمل کی پیداوار ہے اور ہر پیداوار کو نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے، جب اس پر توجہ دی جائے گی تو خوب پروان چڑھے گی۔ جب صدقہ حلال طیب کمائی سے کیا جائے گا تو وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ کرم میں رہتا ہے اور روز بروز بڑھتا رہتا ہے حتی کہ ایک کھجور اُحد پہاڑ جتنی ہو جاتی ہے۔ لیکن حرام مال سے صدقہ قبول نہیں کیا جاتا، کیونکہ صدقہ کرنے والا اس کا مالک نہیں ہوتا اور نہ وہ اس مال میں تصرف ہی کرنے کا حق دار ہے۔ اگر حرام مال سے صدقہ قبول کر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہی چیز بجا آوری اور حکم امتناعی کے درجے میں ہے جبکہ ایسا محال ہے۔ (فتح الباري:353/3) (2) بعض حضرات نے اس حدیث کی تاویل کی ہے اور کہا ہے کہ اس میں اللہ کی طرف دائیں ہاتھ کو منسوب کیا گیا ہے، اس سے مراد کوئی خاص عضو نہیں۔ لیکن اہل سنت کا یہ مسلک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی تاویل کی جائے، بلکہ سلف اسے ظاہری معنی ہی پر محمول کرتے ہیں۔ جملہ اہل علم صفات پر مشتمل احادیث پر بلا تاویل ایمان لاتے ہیں اور ان میں تشبیہ کا وہم نہیں کرتے اور نہ ان کی کیفیت ہی کے متعلق بحث کرتے ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے امام ترمذی ؒ کے حوالے سے اس موقف کو بیان کیا ہے اور یہ برحق ہے۔ (فتح الباري:354/3، وجامع الترمذي، الزکاة، حدیث:662) (3) سلیمان کی متابعت کو امام بخاری ؒ نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ اسی طرح ورقاء بن عمر کی روایت کو امام بخاری ؒ نے ذکر کیا ہے۔ (صحیح البخاري، التوحید، حدیث:7430) سلمہ بن ابو مریم کی روایت کو امام ابو یوسف نے اپنی تالیف کتاب الزکاۃ میں بیان کیا ہے۔ اور زید بن اسلم، نیز سہیل کی روایات کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں متصل سند سے ذکر کیا ہے۔ (صحیح مسلم، الزکاة، حدیث:2343(1014)، وفتح الباري:355/3))
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "(اللہ تعالیٰ) صدقات کی پرورش کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی ناشکرے گناہ گار انسان کو پسند نہیں کرتا۔ البتہ جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے اچھے کام کیے، نماز قائم کرتے رہے اور زکاۃ دیتے رہے ان کا اجر ان کے پروردگار کے پاس ہے، انھیں نہ کوئی خوف ہو گااور وہ غمگین ہوں گے۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا‘ انہوں نے ابوالنضر سالم بن ابی امیہ سے سنا‘ انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے عبدالرحمن بن عبداللہ بن دینار نے بیان کیا‘ ان سے ان کے والد نے‘ ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کرے اور اللہ تعالیٰ صرف حلال کمائی کے صدقہ کو قبول کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے داہنے ہاتھ سے قبول کرتا ہے پھر صدقہ کرنے والے کے فائدے کے لیے اس میں زیادتی کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی اپنے جانور کے بچے کو کھلا پلاکر بڑھاتا ہے تاآنکہ اس کا صدقہ پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے۔ عبدالرحمن کے ساتھ اس روایت کی متابعت سلیمان نے عبداللہ بن دینار کی روایت سے کی ہے اور ورقاءنے ابن دینار سے کہا‘ ان سے سعید بن یسارنے‘ ان سے ابوہریرہ ؓ نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے اور اس کی روایت مسلم بن ابی مریم‘ زید بن اسلم اور سہیل نے ابوصالح سے کی‘ ان سے ابوہریرہ نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے۔
حدیث حاشیہ:
حدیث میں ہے کہ اللہ کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں، یعنی ایسا نہیں کہ اس کا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ سے قوت میں کم ہو۔ جیسے مخلوقات میں ہوا کرتا ہے۔ اہلحدیث اس قسم کی آیتوں اور حدیثوں کی تاویل نہیں کرتے اور ان کو ان کے ظاہری معنی پر محمول رکھتے ہیں۔ سلیمان کی روایت مذکورہ کو خود مؤلف نے اور ابوعوانہ نے وصل کیا۔ اور ورقاء کی روایت کو امام بیہقی اور ابوبکر شافعی نے اپنے فوائد میں اور مسلم کی روایت کو قاضی یوسف بن یعقوب نے کتاب الزکوٰۃ میں اور زید بن اسلم اور سہیل کی روایتوں کو امام مسلم نے وصل کیا۔ (وحیدی) حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں۔ قال أهل العلم من أهل السنة والجماعة نؤمن بهذہ الأحادیث ولا نتوهم فیها تشبیها ولا نقول کیف۔ یعنی اہل سنت والجماعت کے جملہ اہل علم کا قول ہے کہ ہم بلاچوں وچراں احادیث پر ایمان لاتے ہیں اور اس میں تشبیہ کا وہم نہیں کرتے اور نہ ہم کیفیت کی بحث میں جاتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) Allah's Apostle (ﷺ) said, "If one give in charity what equals one date-fruit fro the honestly-earned money and Allah accepts only the honestly earned money --Allah takes it in His right (hand) ar then enlarges its reward for that person (who has given it), as anyone of you brings up his baby horse, so much s that it becomes as big as a mountain ________