باب: زکوٰۃ لیتے وقت جو مال جدا جدا ہوں وہ اکٹھے نہ کئے جائیں اور جو اکٹھے ہوں وہ جدا جدا نہ کیے جائیں۔
)
Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: The individual property of different people should neither be gathered together nor the joint property should be divided, in assessing the Zakat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور سالم نے عبداللہ بن عمر ؓسے اور انہوں نے نبی کریم ﷺسے ایسا ہی روایت کیا ہے۔
1450.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ نے انھیں زکاۃ کے احکام لکھ کر دیے جو رسول اللہ ﷺ نے مقرر فرمائے تھے (ان میں سے ایک یہ تھا کہ) ’’صدقے کے خوف سے متفرق مال کو یکجا اور یکجا کو متفرق نہ کیا جائے۔‘‘
تشریح:
1۔ حدیث میں مذکور صورتوں کو سمجھنے کے لیے حیوانات سے زکاۃ کا نصاب پیش نظر ہونا چاہیے۔ سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم بکریوں کا نصاب اور اس سے شرح زکاۃ ذکر کرتے ہیں:٭ 1 تا 39 بکریوں میں کوئی زکاۃ نہیں۔٭ 40 تا 120 بکریوں میں ایک بکری۔٭ 121 تا 200 بکریوں میں دو بکریاں۔٭201 تا 300 بکریوں میں تین بکریاں۔٭ 301 تا 400 بکریوں میں چار بکریاں۔٭ 401 تا 500 بکریوں میں پانچ بکریاں۔ اس طرح آگے ہر سو کی تعداد پر ایک بکری مزید بطور زکاۃ دینا ہو گی۔ ممنوع صورتیں مالک نصاب اور صدقہ لینے والے کے اعتبار سے چار ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ صدقے سے بچنے یا اسے کم مقدار میں ادا کرنے یا زیادہ لینے کے لیے مال زکاۃ میں جمع و تفریق نہ کی جائے۔ تفصیل حسب ذیل ہے: مالک نصاب کے اعتبار سے صدقہ وصول کرنے والے کے اعتبار سے شراکت کی بنیاد پر دو شخصوں کی پچاس بکریاں ہیں، جن میں ایک بکری بطور زکاۃ دینا پڑتی ہے۔ جب صدقہ وصول کرنے والا آئے تو وہ پچیس، پچیس بکریاں الگ الگ کر لیں تاکہ کسی کو زکاۃ نہ دینا پڑے۔ یا دو آدمیوں کی بطور شراکت دو سو پچاس بکریاں ہیں، ان میں تین بکریاں زکاۃ واجب ہے وہ زکاۃ کے وقت اپنی بکریاں الگ الگ کر لیں تاکہ دو بکریاں زکاۃ دی جائے۔ دو حضرات کی الگ الگ چالیس، چالیس بکریاں ہیں۔ نصاب کے اعتبار سے ہر ایک پر ایک ایک بکری زکاۃ واجب ہے۔ جب زکاۃ لینے والا آئے تو انہیں یکجا کر لیا جائے۔ اس صورت میں انہیں ایک ہی بکری دینا پڑے گی۔ دو آدمیوں کی الگ الگ پچیس پچیس بکریاں ہیں۔ ان میں سے کسی پر بھی زکاۃ واجب نہیں لیکن صدقہ لینے والا انہیں یکجا کر کے ان سے ایک بکری وصول کر لے۔ دو آدمیوں کی سو بکریاں ہیں، ان پر ایک بکری زکاۃ واجب ہے لیکن صدقہ لینے والا انہیں الگ الگ کر دے اس طرح ایک کی پچاس بکریوں پر ایک اور دوسرے کی پچاس پر بھی ایک بکری وصول کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے صدقے سے بچنے یا زیادہ وصول کرنے کے پیش نظر اس سے منع فرمایا ہے، کیونکہ یہ ایک فریب اور ناجائز حیلہ گری ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1413
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1450
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1450
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1450
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
تمہید باب
اس عنوان کا حاصل یہ ہے کہ مال زکاۃ میں زکاۃ کے پیش نظر جمع و تفریق نہ کی جائے، یعنی بکریوں کا مالک زکاۃ سے بچنے کے لیے اور صدقہ لینے والا زیادہ مال بٹورنے کے چکر میں ایسا نہ کرے۔ ہم اس کی وضاحت آئندہ کریں گے۔ مذکورہ معلق روایت کو ابوداود، ترمذی اور امام احمد نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان میں صدقے سے بچنے کے الفاظ ذکر نہیں کیے کیونکہ ان کے مفہوم کے متعلق علماء میں کافی اختلاف ہے، اس لیے انہیں عنوان سے حذف کر دیا ہے۔ (فتح الباری:3/396)
اور سالم نے عبداللہ بن عمر ؓسے اور انہوں نے نبی کریم ﷺسے ایسا ہی روایت کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ نے انھیں زکاۃ کے احکام لکھ کر دیے جو رسول اللہ ﷺ نے مقرر فرمائے تھے (ان میں سے ایک یہ تھا کہ) ’’صدقے کے خوف سے متفرق مال کو یکجا اور یکجا کو متفرق نہ کیا جائے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ حدیث میں مذکور صورتوں کو سمجھنے کے لیے حیوانات سے زکاۃ کا نصاب پیش نظر ہونا چاہیے۔ سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم بکریوں کا نصاب اور اس سے شرح زکاۃ ذکر کرتے ہیں:٭ 1 تا 39 بکریوں میں کوئی زکاۃ نہیں۔٭ 40 تا 120 بکریوں میں ایک بکری۔٭ 121 تا 200 بکریوں میں دو بکریاں۔٭201 تا 300 بکریوں میں تین بکریاں۔٭ 301 تا 400 بکریوں میں چار بکریاں۔٭ 401 تا 500 بکریوں میں پانچ بکریاں۔ اس طرح آگے ہر سو کی تعداد پر ایک بکری مزید بطور زکاۃ دینا ہو گی۔ ممنوع صورتیں مالک نصاب اور صدقہ لینے والے کے اعتبار سے چار ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ صدقے سے بچنے یا اسے کم مقدار میں ادا کرنے یا زیادہ لینے کے لیے مال زکاۃ میں جمع و تفریق نہ کی جائے۔ تفصیل حسب ذیل ہے: مالک نصاب کے اعتبار سے صدقہ وصول کرنے والے کے اعتبار سے شراکت کی بنیاد پر دو شخصوں کی پچاس بکریاں ہیں، جن میں ایک بکری بطور زکاۃ دینا پڑتی ہے۔ جب صدقہ وصول کرنے والا آئے تو وہ پچیس، پچیس بکریاں الگ الگ کر لیں تاکہ کسی کو زکاۃ نہ دینا پڑے۔ یا دو آدمیوں کی بطور شراکت دو سو پچاس بکریاں ہیں، ان میں تین بکریاں زکاۃ واجب ہے وہ زکاۃ کے وقت اپنی بکریاں الگ الگ کر لیں تاکہ دو بکریاں زکاۃ دی جائے۔ دو حضرات کی الگ الگ چالیس، چالیس بکریاں ہیں۔ نصاب کے اعتبار سے ہر ایک پر ایک ایک بکری زکاۃ واجب ہے۔ جب زکاۃ لینے والا آئے تو انہیں یکجا کر لیا جائے۔ اس صورت میں انہیں ایک ہی بکری دینا پڑے گی۔ دو آدمیوں کی الگ الگ پچیس پچیس بکریاں ہیں۔ ان میں سے کسی پر بھی زکاۃ واجب نہیں لیکن صدقہ لینے والا انہیں یکجا کر کے ان سے ایک بکری وصول کر لے۔ دو آدمیوں کی سو بکریاں ہیں، ان پر ایک بکری زکاۃ واجب ہے لیکن صدقہ لینے والا انہیں الگ الگ کر دے اس طرح ایک کی پچاس بکریوں پر ایک اور دوسرے کی پچاس پر بھی ایک بکری وصول کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے صدقے سے بچنے یا زیادہ وصول کرنے کے پیش نظر اس سے منع فرمایا ہے، کیونکہ یہ ایک فریب اور ناجائز حیلہ گری ہے۔
ترجمۃ الباب:
سالم عن ابن عمر کے طریق سےنبی کریمﷺ سے اسی طرح بیان کیا ہے
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ثمامہ نے بیان کیا ‘ اور ان سے انس ؓ نے بیان کیا کہ ابوبکر ؓ نے انہیں وہی چیز لکھی تھی جسے رسول اللہ ﷺ نے ضروری قرار دیا تھا۔ یہ کہ زکوٰۃ ( کی زیادتی ) کے خوف سے جدا جدا مال کو یک جا اور یک جا مال کو جدا جدا نہ کیا جائے۔
حدیث حاشیہ:
سالم کی روایت کو امام احمد اور ابویعلیٰ اور ترمذی وغیرہ نے وصل کیا ہے۔ امام مالک نے مؤطا میں اس کی تفسیر یوں بیان کی ہے۔ مثلاً تین آدمیوں کی الگ الگ چالیس چالیس بکریاں ہوں تو ہر ایک پر ایک بکری زکوٰۃ کی واجب ہے۔ زکوٰۃ لینے والا جب آیا تو تو یہ تینوں اپنی بکریاں ایک جگہ کردیں۔ اس صورت میں ایک ہی بکری دینی پڑے گی۔ اسی طرح دوآدمیوں کی شرکت کے مال میں مثلاً دو سوبکریاں ہوں تو تین بکریاں زکوٰۃ کی لازم ہوں گی اگر وہ زکوٰۃ لینے والا جب آئے اس کو جدا جدا کردیں تو دو ہی بکریاں دینی ہوں گی۔ اس سے منع فرمایا۔ کیونکہ یہ حق تعالیٰ کے ساتھ فریب کرنا ہے‘ معاذ اللہ۔ وہ تو سب جانتا ہے۔ ( وحیدی )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): Abu Bakr (RA) wrote to me what was made compulsory by Allah's Apostle (ﷺ) and that was (regarding the payments of Zakat): Neither the property of different people may be taken together nor the joint property may be split for fear of (paying more, or receiving less) Zakat.