Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: The Zakat of camels)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اس باب میں ابوبکر ‘ ابوذر اور ابوہریرؓ نے نبی کریم ﷺسے روایتیں کی ہیں۔
1452.
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے رسول اللہ ﷺ سے ہجرت کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا:’’تیرے لیے خرابی ہو، ہجرت کا معاملہ بڑا سخت ہے، کیا تیرے پاس کچھ اونٹ ہیں جن کی تو زکوٰۃ دا کرتا ہے ؟‘‘ اس نے عرض کیا:جی ہاں! آپ نے فرمایا:’’پھر تو دریاؤں کے اس پار عمل کرتا رہ، بے شک اللہ تعالیٰ تیرے اعمال سے کسی چیز کو ضائع نہیں کرے گا۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے اونٹوں سے زکاۃ کی مشروعیت بیان کی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ جب انسان اپنے مال سے فریضہ ادا کرتا رہے اور اپنے آپ کو عبادت میں مصروف رکھے تو اللہ تعالیٰ اس کے اعمال کو ضائع نہیں کرے گا۔ وہ جہاں چاہے رہے اس معاملے میں اس سے کوئی باز پرس نہیں ہو گی۔ ایک روایت میں مزید تفصیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے زکاۃ کی ادائیگی کے بعد اس سے دریافت کیا: ’’تو کسی کو ان اونٹوں میں سے عطیہ وغیرہ دیتا ہے؟‘‘ اس نے کہا: جی ہاں! پھر آپ نے پوچھا: ’’پانی کے چشمے پر ان کا دودھ دوہ کر اسے غرباء میں تقسیم بھی کرتا ہے؟‘‘ اس نے کہا: جی ہاں! اس کے بعد آپ نے فرمایا: ’’دریاؤں کے اس پار عمل کرتا رہ، اللہ تعالیٰ تیرے اعمال کو ضائع نہیں کرے گا۔‘‘(صحیح البخاري، الھبة وفضلھا، حدیث:2633) (2) اس کا مطلب قطعا یہ نہیں ہے کہ ہجرت منسوخ ہو چکی تھی بلکہ آپ جانتے تھے کہ یہ دیہاتی ہجرت جیسے کوہ گراں کا متحمل نہیں، اس لیے آپ نے مذکورہ ہدایات دیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1415
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1452
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1452
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1452
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
تمہید باب
ان حضرات سے مروی احادیث میں اونٹوں کی زکاۃ کے متعلق مختلف احکام بیان کیے گئے ہیں، مثلا: اونٹوں کے متعلق زکاۃ کا وجوب، نہ ادا کرنے پر سخت وعید، اس کی ادائیگی پر فضیلت وغیرہ۔ حضرت ابوبکر سے مروی حدیث (1453) آئندہ بیان ہو گی جبکہ حضرت ابوذر اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی احادیث کا بھی آئندہ ذکر ہو گا۔ (فتح الباری:3/398)
اس باب میں ابوبکر ‘ ابوذر اور ابوہریرؓ نے نبی کریم ﷺسے روایتیں کی ہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے رسول اللہ ﷺ سے ہجرت کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا:’’تیرے لیے خرابی ہو، ہجرت کا معاملہ بڑا سخت ہے، کیا تیرے پاس کچھ اونٹ ہیں جن کی تو زکوٰۃ دا کرتا ہے ؟‘‘ اس نے عرض کیا:جی ہاں! آپ نے فرمایا:’’پھر تو دریاؤں کے اس پار عمل کرتا رہ، بے شک اللہ تعالیٰ تیرے اعمال سے کسی چیز کو ضائع نہیں کرے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے اونٹوں سے زکاۃ کی مشروعیت بیان کی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ جب انسان اپنے مال سے فریضہ ادا کرتا رہے اور اپنے آپ کو عبادت میں مصروف رکھے تو اللہ تعالیٰ اس کے اعمال کو ضائع نہیں کرے گا۔ وہ جہاں چاہے رہے اس معاملے میں اس سے کوئی باز پرس نہیں ہو گی۔ ایک روایت میں مزید تفصیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے زکاۃ کی ادائیگی کے بعد اس سے دریافت کیا: ’’تو کسی کو ان اونٹوں میں سے عطیہ وغیرہ دیتا ہے؟‘‘ اس نے کہا: جی ہاں! پھر آپ نے پوچھا: ’’پانی کے چشمے پر ان کا دودھ دوہ کر اسے غرباء میں تقسیم بھی کرتا ہے؟‘‘ اس نے کہا: جی ہاں! اس کے بعد آپ نے فرمایا: ’’دریاؤں کے اس پار عمل کرتا رہ، اللہ تعالیٰ تیرے اعمال کو ضائع نہیں کرے گا۔‘‘(صحیح البخاري، الھبة وفضلھا، حدیث:2633) (2) اس کا مطلب قطعا یہ نہیں ہے کہ ہجرت منسوخ ہو چکی تھی بلکہ آپ جانتے تھے کہ یہ دیہاتی ہجرت جیسے کوہ گراں کا متحمل نہیں، اس لیے آپ نے مذکورہ ہدایات دیں۔
ترجمۃ الباب:
اونٹوں کی زکوٰۃ کے متعلق حضرت ابو بکرصدیقؓ حضرت ابوذر غفاریؓ اور حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریمﷺ سے بیان کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ بن مدینی نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ولید بن مسلم نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے امام اوزاعی نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ابن شہاب نے بیان کیا ‘ ان سے عطاءبن یزید نے اور ان سے ابوسعید خدری ؓ نے کہ ایک دیہاتی نے رسول اللہ ﷺ سے ہجرت کے متعلق پوچھا ( یعنی یہ کہ آپ اجازت دیں تو میں مدینہ میں ہجرت کرآؤں ) آپ نے فرمایا۔ افسوس! اس کی توشان بڑی ہے۔ کیا تیرے پاس زکوٰۃ دینے کے لیے کچھ اونٹ ہیں جن کی تو زکوٰۃ دیا کرتا ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں! اس پر آپ نے فرمایا کہ پھر کیا ہے سمندروں کے اس پار ( جس ملک میں تو رہے وہاں ) عمل کرتا رہ اللہ تیرے کسی عمل کا ثواب کم نہیں کرے گا۔
حدیث حاشیہ:
مطلب آپچ ﷺ کا یہ تھا کہ جب تم اپنے ملک میں ارکان اسلام آزادی کے ساتھ ادا کررہے ہو۔ یہاں تک کہ اونٹوں کی زکوٰۃ بھی باقاعدہ نکالتے رہتے ہو تو خواہ مخواہ ہجرت کا خیال کرنا ٹھیک نہیں۔ ہجرت کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ گھر در وطن چھوڑنے کے بعد جو تکالیف برداشت کرنی پڑتی ہیں ان کو ہجرت کرنے والے ہی جانتے ہیں۔ مسلمانان ہند کو اس حدیث سے سبق حاصل کرنا چاہیے، اللہ نیک سمجھ عطا کرے۔ آمین
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id Al-Khudri(RA): A Bedouin asked Allah's Apostle (ﷺ) about the emigration. The Prophet (ﷺ) said, "May Allah have mercy on you! The matter of emigration is very hard. Have you got camels? Do you pay their Zakat?" The Bedouin said, "Yes, I have camels and I pay their Zakat." The Prophet (ﷺ) said, Work beyond the seas and Allah will not decrease (waste) any of your good deeds." (See Hadith No. 26O Vol. 5). ________