Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: Giving in charity to orphans)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1465.
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ ایک دن منبر پر رونق افروز ہوئے، جب ہم لوگ آپ کے گرد بیٹھ گئے تو آپ نے فرمایا:’’میں اپنے بعد تمھارے حق میں دنیا کی شادابی اور اس کی زیبائش کا اندیشہ رکھتا ہوں جس کا دروازہ تمھارے لیے کھول دیا جائے گا۔‘‘اس پر ایک شخص نے عرض کیا:اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! کیا اچھی چیز بھی برائی پیدا کرے گی۔ آپ خاموش ہو گئے، اس شخص سے کہا گیا :کیا بات ہے کہ تو لب کشائی کیے جا رہا ہے جبکہ رسول اللہ ﷺ گفتگو نہیں فرماتے، اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ آپ پر وحی کا نزول ہو رہا ہے۔ راوی کہتا ہے کہ پھر آپ نے چہرہ مبارک سے پسینہ صاف کیا اور فرمایا:’’سائل کہاں ہے؟‘‘ گویا آپ نے اس کی تحسین فرمائی ، پھر فرمایا:’’دارصل بات یہ ہے کہ اچھی چیز تو برائی پیدا نہیں کرتی لیکن فصل ربیع (خزاں کا موسم) ایسی گھاس پیدا کرتی ہے جو جانور کو مار ڈالتی ہے یا بیمار کردیتی ہے، مگر اس سبزہ خورجانور کو جو اس حد تک کھائے کہ اس کی دونوں کو کھ بھر جائیں، پھر وہ دھوپ میں آکر لیٹ جائے اور پیشاب کرے، پھر چرنے لگے، بلا شبہ یہ مال بھی سر سبز و شیریں ہے اور مسلمان کا بہترین ساتھی ہے جبکہ اس سے مسکین، یتیم اور مسافر کودیا جائے۔‘‘ یا اس طرح کی کوئی اور بات ارشاد فرمائی، مزید فرمایا:’’جو شخص اس مال کو ناحق لے گا وہ اس شخص کی طرح ہو گا جو کھاتا جائےمگرسیر نہ ہو، ایسا مال قیامت کے دن اس کے خلاف گواہی دے گا۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یتیموں پر صدقہ کرنے کی ترغیب ثابت کی ہے، کیونکہ اس میں یہ الفاظ ہیں کہ مسلمان کا بہترین ساتھی اس کا مال ہے جبکہ اسے مساکین، یتامیٰ اور مسافروں پر خرچ کیا جائے۔ (2) ایک روایت میں اس طرح ہے کہ مسلمان کا وہ مال اچھا ہے جسے وہ حق کے طور پر حاصل کرتا ہے، پھر اسے اللہ کے راستے میں یتیموں، مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرتا ہے۔ (صحیح البخاري، الجھادوالسیر، حدیث:2842) (3) اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے دو قسم کے لوگوں کی مثالیں بیان کی ہیں: ٭ جو دنیا حاصل کرنے میں لگ جائے اور مال کے حقوق ادا کرنے میں بخل سے کام لے، ایسے شخص کا انجام تباہی اور بردباری ہے۔ ٭ جو شخص دنیا حاصل کرنے میں میانہ روی اور اقتصاد سے کام لے، نیز وہ ناجائز ذرائع سے دولت جمع کرنے کی کوشش نہ کرے اور مال کا حق بھی ادا کرتا رہے تو ایسا شخص دنیا کے وبال سے نجات پا جاتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1427
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1465
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1465
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1465
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ ایک دن منبر پر رونق افروز ہوئے، جب ہم لوگ آپ کے گرد بیٹھ گئے تو آپ نے فرمایا:’’میں اپنے بعد تمھارے حق میں دنیا کی شادابی اور اس کی زیبائش کا اندیشہ رکھتا ہوں جس کا دروازہ تمھارے لیے کھول دیا جائے گا۔‘‘اس پر ایک شخص نے عرض کیا:اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! کیا اچھی چیز بھی برائی پیدا کرے گی۔ آپ خاموش ہو گئے، اس شخص سے کہا گیا :کیا بات ہے کہ تو لب کشائی کیے جا رہا ہے جبکہ رسول اللہ ﷺ گفتگو نہیں فرماتے، اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ آپ پر وحی کا نزول ہو رہا ہے۔ راوی کہتا ہے کہ پھر آپ نے چہرہ مبارک سے پسینہ صاف کیا اور فرمایا:’’سائل کہاں ہے؟‘‘ گویا آپ نے اس کی تحسین فرمائی ، پھر فرمایا:’’دارصل بات یہ ہے کہ اچھی چیز تو برائی پیدا نہیں کرتی لیکن فصل ربیع (خزاں کا موسم) ایسی گھاس پیدا کرتی ہے جو جانور کو مار ڈالتی ہے یا بیمار کردیتی ہے، مگر اس سبزہ خورجانور کو جو اس حد تک کھائے کہ اس کی دونوں کو کھ بھر جائیں، پھر وہ دھوپ میں آکر لیٹ جائے اور پیشاب کرے، پھر چرنے لگے، بلا شبہ یہ مال بھی سر سبز و شیریں ہے اور مسلمان کا بہترین ساتھی ہے جبکہ اس سے مسکین، یتیم اور مسافر کودیا جائے۔‘‘ یا اس طرح کی کوئی اور بات ارشاد فرمائی، مزید فرمایا:’’جو شخص اس مال کو ناحق لے گا وہ اس شخص کی طرح ہو گا جو کھاتا جائےمگرسیر نہ ہو، ایسا مال قیامت کے دن اس کے خلاف گواہی دے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یتیموں پر صدقہ کرنے کی ترغیب ثابت کی ہے، کیونکہ اس میں یہ الفاظ ہیں کہ مسلمان کا بہترین ساتھی اس کا مال ہے جبکہ اسے مساکین، یتامیٰ اور مسافروں پر خرچ کیا جائے۔ (2) ایک روایت میں اس طرح ہے کہ مسلمان کا وہ مال اچھا ہے جسے وہ حق کے طور پر حاصل کرتا ہے، پھر اسے اللہ کے راستے میں یتیموں، مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرتا ہے۔ (صحیح البخاري، الجھادوالسیر، حدیث:2842) (3) اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے دو قسم کے لوگوں کی مثالیں بیان کی ہیں: ٭ جو دنیا حاصل کرنے میں لگ جائے اور مال کے حقوق ادا کرنے میں بخل سے کام لے، ایسے شخص کا انجام تباہی اور بردباری ہے۔ ٭ جو شخص دنیا حاصل کرنے میں میانہ روی اور اقتصاد سے کام لے، نیز وہ ناجائز ذرائع سے دولت جمع کرنے کی کوشش نہ کرے اور مال کا حق بھی ادا کرتا رہے تو ایسا شخص دنیا کے وبال سے نجات پا جاتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ہشام دستوائی نے ‘ یحیٰی سے بیان کیا۔ ان سے ہلال بن ابی میمونہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عطاء بن یسار نے بیان کیا ‘ اور انہوں نے ابوسعید خدری ؓ سے سنا ‘ وہ کہتے تھے کہ نبی کریم ﷺ ایک دن منبر پر تشریف فر ہوئے۔ ہم بھی آپ کے ارد گرد بیٹھ گئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہارے متعلق اس بات سے ڈرتا ہوں کہ تم پر دنیا کی خوشحالی اور اس کی زیبائش وآرائش کے دروازے کھول دئیے جائیں گے۔ ایک شخص نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ! کیا اچھائی برائی پیدا کرے گی؟ اس پر نبی کریم ﷺ خاموش ہوگئے۔ اس لیے اس شخص سے کہا جانے لگا کہ کیا بات تھی۔ تم نے نبی کریم ﷺ سے ایک بات پوچھی لیکن آنحضور ﷺ تم سے بات نہیں کرتے۔ پھر ہم نے محسوس کیا کہ آپ ﷺ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ بیان کیا کہ پھر آنحضور ﷺ نے پسینہ صاف کیا ( جو وحی نازل ہوتے وقت آپ کو آنے لگتا تھا ) پھر پوچھا کہ سوال کرنے والے صاحب کہاں ہیں۔ ہم نے محسوس کیا کہ آپ ﷺ نے اس کے ( سوال کی ) تعریف کی۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اچھائی برائی نہیں پیدا کرتی ( مگر بے موقع استعمال سے برائی پیدا ہوتی ہے ) کیونکہ موسم بہار میں بعض ایسی گھاس بھی اگتی ہے جو جان لیوا یا تکلیف دہ ثابت ہوتی ہے۔ البتہ ہریالی چرنے والا وہ جانور بچ جاتا ہے کہ خوب چرتا ہے اور جب اس کی دونوں کو کھیں بھر جاتی ہیں تو سورج کی طرف رخ کرکے پاخانہ پیشاب کردیتا ہے اور پھر چرتا ہے۔ اسی طرح یہ مال ودولت بھی ایک خوشگوار سبزہ زار ہے۔ اور مسلمان کا وہ مال کتنا عمدہ ہے جو مسکین ‘ یتیم اور مسافر کو دیا جائے۔ یا جس طرح نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ہاں اگر کوئی شخص زکوٰۃ کا حقدار ہونے کے بغیر لیتا ہے تو اس کی مثال ایسے شخص کی سی ہے جو کھاتا ہے، لیکن اس کا پیٹ نہیں بھرتا۔ اور قیامت کے دن یہ مال اس کے خلاف گواہ ہوگا۔
حدیث حاشیہ:
اس طویل حدیث میں آنحضرت ﷺ نے اپنی امت کے مستقبل کی بابت کئی ایک اشارے فرمائے جن میں سے بیشتر باتیں وجود میں آچکی ہیں۔ اس سلسلہ میں آپ نے مسلمانوں کے عروج واقبال کے دور پر بھی اشارہ فرمایا۔ اور یہ بھی بتلایا کہ دنیا کی ترقی مال ودولت کی فراوانی یہاں کا عیش وعشرت یہ چیزیں بظاہر خیر ہیں مگر بعض دفعہ ان کا نتیجہ شرسے بھی تبدیل ہوسکتا ہے۔ اس پر بعض لوگوں نے کہا کہ حضور کیا خیر کبھی شرکا باعث ہوجائے گی۔ اس سوال کے جواب کے لیے آنحضرت ﷺ وحی کے انتظار میں خاموش ہوگئے۔ جس سے کچھ لوگوں کو خیال ہوا کہ آپ اس سوال سے خفا ہوگئے ہیں۔ کافی دیر بعد جب اللہ پاک نے آپ کو بذریعہ وحی جواب سے آگاہ فرمادیا تو آپ ﷺ نے یہ مثال دے کر جو حدیث میں مذکور ہے سمجھایا اور بتلایا کہ گو دولت حق تعالیٰ کی نعمت اور اچھی چیز ہے مگر جب بے موقع اور گناہوں میں صرف کی جائے تو یہی دولت عذاب بن جاتی ہے۔ جیسے فصل کی ہری گھاس وہ جانوروں کے لیے بڑی عمدہ نعمت ہے۔ مگر جو جانور ایک ہی مرتبہ گر کر اس کو حد سے زیادہ کھا جائے تو اس کے لیے یہی گھاس زہر کا کام دیتی ہے۔ جانور پر کیا منحصر ہے۔ یہی روٹی جو آدمی کے لیے باعث حیات ہے اگر اس میں بے اعتدالی کی جائے تو باعث موت بن جاتی ہے۔ تم نے دیکھا ہوگا قحط سے متاثر بھوکے لوگ جب ایک ہی مرتبہ کھانا پالیتے ہیں اور حد سے زیادہ کھا جاتے ہیں تو بعض دفعہ ایسے لوگ پانی پیتے ہی دم توڑ دیتے ہیں اور ہلاک ہوجاتے ہیں۔ یہ کھانا ان کے لیے زہر کا کام دیتاہے۔ پس جو جانور ایک ہی مرتبہ ربیع کی پیداوار پر نہیں گرتا بلکہ سوکھی گھاس پر جو بارش سے ذرا ذرا ہری نکلتی ہے اسکے کھانے پر قناعت کرتا ہے۔ اور پھر کھانے کے بعد سورج کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوکر اس کے ہضم ہونے کا انتظار کرتا ہے۔ پاخانہ پیشاب کرتا ہے تو وہ ہلاک نہیں ہوتا۔ اسی طرح دنیا کا مال بھی ہے جو اعتدال سے حرام وحلال کی پابندی کے ساتھ اس کو کماتا ہے اس سے فائدہ اٹھاتا ہے آپ کھاتا ہے۔ مسکین‘ یتیم‘ مسافروں کی مدد کرتا ہے تو وہ بچارہتا ہے۔ مگر جو حریص کتے کی طرح دنیا کے مال واسباب پر گرپڑتا ہے اور حلال وحرام کی قید اٹھا دیتا ہے۔ آخر وہ مال اس کو ہضم نہیں ہوتا۔ اور استفراغ کی ضرورت پڑتی ہے۔ کبھی بدہضمی ہوکر اسی مال کی دھن میں اپنی جان بھی گنوادیتا ہے۔ پس مال دنیا کی ظاہری خوبصورتی پر فریب مت کھاؤ‘ ہوشیار رہو‘ حلوہ کے اندر زہرلپٹا ہوا ہے۔ حدیث کے آخری الفاظ کالذي یأ کل ولا یشبع میں ایسے لالچی طماع لوگوں پر اشارہ ہے جن کو جوع البقر کی بیماری ہوجاتی ہے اور کسی طرح ان کی حرص نہیں جاتی۔ حدیث اور باب میں مطابقت حدیث کا جملہ فنعم صاحب المسلم ماأعطی منه المسکین والیتیم وابن السبیل ہے کہ اس سے یتیموں پر صدقہ کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id Al-Khudri(RA): Once the Prophet (ﷺ) sat on a pulpit and we sat around him. Then he said, "The things I am afraid of most for your sake (concerning what will befall you after me) is the pleasures and splendors of the world and its beauties which will be disclosed to you." Somebody said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Can the good bring forth evil?" The Prophet (ﷺ) remained silent for a while. It was said to that person, "What is wrong with you? You are talking to the Prophet (ﷺ) while he is not talking to you." Then we noticed that he was being inspired divinely. Then the Prophet (ﷺ) wiped off his sweat and said, "Where is the questioner?" It seemed as if the Prophet (ﷺ) liked his question. Then he said, "Good never brings forth evil. Indeed it is like what grows on the banks of a water-stream which either kill or make the animals sick, except if an animal eats its fill the Khadira (a kind of vegetable) and then faces the sun, and then defecates and urinates and grazes again. No doubt this wealth is sweet and green. Blessed is the wealth of a Muslim from which he gives to the poor, the orphans and to needy travelers. (Or the Prophet (ﷺ) said something similar to it) No doubt, whoever takes it illegally will be like the one who eats but is never satisfied, and his wealth will be a witness against him on the Day of Resurrection." ________