باب: عورت کا خود اپنے شوہر کو یا اپنی زیر تربیت یتیم بچوں کو زکوٰۃ دینا۔
)
Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: The giving of Zakat to husband and to orphans)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اس کو ابو سعید خدری ؓ نے بھی نبی کریم ﷺسے روایت کیا ہے۔
1466.
حضرت زینب زو جہ عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا :میں مسجد میں تھا کہ نبی کو یہ کہتے ہوئے دیکھا، آپ نے فرمایا :’’عورتو!تم صدقہ کرو اگرچہ زیورات ہی سے کیوں نہ ہو۔‘‘ حضرت زینب ؓ اپنے شوہرعبد اللہ بن مسعود ؓ اور ان یتیم بچوں پر خرچ کرتی تھیں جو ان کی پرورش میں تھے۔ انھوں نے اپنے شوہر عبداللہ بن مسعود سے کہا کہ آپ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کریں آیا میرے لیے یہ کافی ہے کہ میں تم پر اور ان یتیم بچوں پر خرچ کروں؟ حضرت عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا:تم خود ہی رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کرلو، چنانچہ میں نبی ﷺ کے پاس گئی اور آپ کے دروازے پر ایک انصاریہ عورت کو پایا۔ اس کی حاجت بھی میری حاجت جیسی تھی۔ اتنے میں ہمارے پاس سے حضرت بلال ؓ گزرے تو ہم نے کہا کہ نبی ﷺ سے دریافت کرو، آیا میرے لیے یہ کافی ہے کہ میں اپنے شوہراور ان یتیم بچوں پر خرچ کروں جو میری پرورش میں ہیں؟ اور ہم نے یہ بھی کہا کہ آپ سے ہمارا ذکر نہ کرنا۔ حضرت بلالؓ اندر گئے اور آپ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا:’’وہ دوعورتیں کون ہیں:‘‘ بلال نے عرض کیا:زینب ہے، آپ نے دریافت فرمایا:’’کون سی زینب ؟ حضرت بلال نے عرض کیا:حضرت عبد اللہ بن مسعود کی بیوی۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ ہاں! اس کے لیے دواجر ہیں۔ ایک قرابت داری (صلہ رحمی) کا ثواب اور دوسرا صدقے کا اجر۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1428
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1466
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1466
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1466
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
تمہید باب
اس روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خود ہی اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری،الزکاۃ،حدیث:1462) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان میں دوبارہ یتامیٰ کا ذکر کیا ہے جبکہ عنوان سابق میں بھی ان کا ذکر تھا۔ پہلے عنوان میں عام یتیموں کا ذکر تھا جبکہ اس عنوان میں زیر پرورش یتیموں کے متعلق حکم بیان کیا ہے۔( فتح الباری،3/413)
اس کو ابو سعید خدری ؓ نے بھی نبی کریم ﷺسے روایت کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت زینب زو جہ عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا :میں مسجد میں تھا کہ نبی کو یہ کہتے ہوئے دیکھا، آپ نے فرمایا :’’عورتو!تم صدقہ کرو اگرچہ زیورات ہی سے کیوں نہ ہو۔‘‘ حضرت زینب ؓ اپنے شوہرعبد اللہ بن مسعود ؓ اور ان یتیم بچوں پر خرچ کرتی تھیں جو ان کی پرورش میں تھے۔ انھوں نے اپنے شوہر عبداللہ بن مسعود سے کہا کہ آپ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کریں آیا میرے لیے یہ کافی ہے کہ میں تم پر اور ان یتیم بچوں پر خرچ کروں؟ حضرت عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا:تم خود ہی رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کرلو، چنانچہ میں نبی ﷺ کے پاس گئی اور آپ کے دروازے پر ایک انصاریہ عورت کو پایا۔ اس کی حاجت بھی میری حاجت جیسی تھی۔ اتنے میں ہمارے پاس سے حضرت بلال ؓ گزرے تو ہم نے کہا کہ نبی ﷺ سے دریافت کرو، آیا میرے لیے یہ کافی ہے کہ میں اپنے شوہراور ان یتیم بچوں پر خرچ کروں جو میری پرورش میں ہیں؟ اور ہم نے یہ بھی کہا کہ آپ سے ہمارا ذکر نہ کرنا۔ حضرت بلالؓ اندر گئے اور آپ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا:’’وہ دوعورتیں کون ہیں:‘‘ بلال نے عرض کیا:زینب ہے، آپ نے دریافت فرمایا:’’کون سی زینب ؟ حضرت بلال نے عرض کیا:حضرت عبد اللہ بن مسعود کی بیوی۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ ہاں! اس کے لیے دواجر ہیں۔ ایک قرابت داری (صلہ رحمی) کا ثواب اور دوسرا صدقے کا اجر۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
اس مضمون کو حضرت ابو سعید خدریؓ نے نبی ﷺسے بیان کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے میرے باپ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا ‘ ان سے شقیق نے ‘ ان سے عمر وبن الحارث نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود ؓ کی بیوی زینب ؓ نے۔ ( اعمش نے ) کہا کہ میں نے اس حدیث کا ذکر ابراہیم نحعی سے کیا۔ تو انہوں نے بھی مجھ سے ابوعبیدہ سے بیان کیا۔ ان سے عمروبن حارث نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود ؓ کی بیوی زینب نے ‘ بالکل اسی طرح حدیث بیان کی ( جس طرح شقیق نے کی کہ ) زینب ؓ نے بیان کیا کہ میں مسجد نبوی میں تھی۔ رسول اللہ ﷺ کو میں نے دیکھا۔ آپ یہ فر رہے تھے ‘ صدقہ کرو ‘ خواہ اپنے زیور ہی میں سے دو۔ اور زینب اپنا صدقہ اپنے شوہر حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اور چند یتیموں پر بھی جوان کی پرورش میں تھے خرچ کیا کرتی تھیں۔ اس لیے انہوں نے اپنے خاوند سے کہا کہ آپ رسول اللہ ﷺ سے پوچھئے کہ کیا وہ صدقہ بھی مجھ سے کفایت کرے گا جو میں آپ پر اور ان چند یتیموں پر خرچ کروں جو میری سپردگی میں ہیں۔ لیکن عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا کہ تم خود جاکر رسول اللہ ﷺ سے پوچھ لو۔ آخر میں خود رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ اس وقت میں نے آپ ﷺ کے دروازے پر ایک انصاری خاتون کو پایا۔ جو میری ہی جیسی ضرورت لے کر موجود تھیں۔ ( جو زینب ابومسعود انصاری کی بیوی تھیں ) پھر ہمارے سامنے سے بلال گذرے۔ تو ہم نے ان سے کہا کہ آپ رسول اللہ ﷺ سے یہ مسئلہ دریافت کیجئے کہ کیا وہ صدقہ مجھ سے کفایت کرے گا جسے میں اپنے شوہر اور اپنی زیر تحویل چند یتیم بچوں پر خرچ کردوں۔ ہم نے بلال سے یہ بھی کہا کہ ہمارا نام نہ لینا۔ وہ اندر گئے اور آپ سے عرض کیا کہ دو عورتیں مسئلہ دریافت کرتی ہیں۔ تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ یہ دونوں کون ہیں؟ بلال ؓ نے کہہ دیا کہ زینب نام کی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ کون سی زینب؟ بلال ؓ نے کہا کہ عبداللہ بن مسعود ؓ کی بیوی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں! بے شک درست ہے۔ اور انہیں دوگنا ثواب ملے گا۔ ایک قرابت داری کا اور دوسرا خیرات کرنے کا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں صدقہ یعنی خیرات کا لفظ ہے جو فرض صدقہ یعنی زکوٰۃ اور نفل خیرات دونوں کو شامل ہے۔ امام شافعی ؒ اور ثوری ؒ اور صاحبین اور امام مالک ؒ اور امام احمد ؒ سے ایک روایت ایسی ہی ہے اپنے خاوند کو اور بیٹوں کو ( بشرطیکہ وہ غریب مسکین ہوں ) دینا درست ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ماں باپ اور بیٹے کو دینا درست نہیں۔ اور امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک خاوند کو بھی زکوٰۃ دینا درست نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان حدیثوں میں صدقہ سے نفل صدقہ مراد ہے۔ ( وحیدی ) لیکن خود حضرت امام بخاری ؒ نے یہاں زکوٰۃ فرض کو مراد لیا ہے۔ جس سے ان کا مسلک ظاہر ہے حدیث کے ظاہر الفاظ سے بھی حضرت امام کے خیال ہی کی تائید ہوتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Amr bin Al-Harith (RA): Zainab, the wife of 'Abdullah said, "I was in the Mosque and saw the Prophet (ﷺ) saying, 'O women ! Give alms even from your ornaments.' " Zainab used to provide for 'Abdullah and those orphans who were under her protection. So she said to 'Abdullah, "Will you ask Allah's Apostle (ﷺ) whether it will be sufficient for me to spend part of the Zakat on you and the orphans who are under my protection?" He replied "Will you yourself ask Allah's Apostle (ﷺ) ?" (Zainab added): So I went to the Prophet (ﷺ) and I saw there an Ansari woman who was standing at the door (of the Prophet) with a similar problem as mine. Bilal (RA) passed by us and we asked him, 'Ask the Prophet (ﷺ) whether it is permissible for me to spend (the Zakat) on my husband and the orphans under my protection.' And we requested Bilal (RA) not to inform the Prophet (ﷺ) about us. So Bilal (RA) went inside and asked the Prophet (ﷺ) regarding our problem. The Prophet (ﷺ) asked, "Who are those two?" Bilal (RA) replied that she was Zainab. The Prophet (ﷺ) said, "Which Zainab?" Bilal (RA) said, "The wife of 'Adullah (bin Masud)." The Prophet (ﷺ) said, "Yes, (it is sufficient for her) and she will receive a double rewards (for that): One for helping relatives, and the other for giving Zakat." ________