باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان (زکوٰۃ کے مصارف بیان کرتے ہوئے کہ زکوٰۃ) غلام آزاد کرانے میں، مقروضوں کے قرض ادا کرنے میں اور اللہ کے راستے میں خرچ کی جائے۔
)
Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: The Statement of Allah Ta'ala)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ور ابن عباس ؓ سے منقول ہے کہ اپنی زکوٰۃ میں سے غلام آزاد کرسکتا ہے اور حج کے لیے دے سکتا ہے۔ اور امام حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا کہ اگر کوئی زکوٰۃ کے مال سے اپنے آپ کو جو غلام ہو خرید کر آزاد کردے تو جائز ہے۔ اور مجاہدین کے اخراجات کے لیے بھی زکوٰۃ دی جائے۔ اسی طرح اس شخص کو بھی زکوٰۃ دی جاسکتی ہے جس نے حج نہ کیا ہو۔ ( تاکہ اس امداد سے حج کرسکے ) پھر انہوں نے سورئہ توبہ کی آیت انما الصدقات للفقراءآخر تک کی تلاوت کی اور کہا کہ ( آیت میں بیان شدہ تمام مصارف زکوٰۃ میں سے جس کو بھی زکوٰۃ دی جائے کافی ہے۔ اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ خالد رضی اللہ عنہ نے تو اپنی زرہیں اللہ تعالیٰ کے راستے میں وقف کردی ہیں۔ ابوالاس ( زیادہ خزاعی صحابی ) رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں زکوٰۃ کے اونٹوں پر سوار کرکے حج کرایا
1468.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ صدقہ وصول کرنے کا حکم دیا، عرض کیا گیا کہ ابن جمیل، خالد بن ولید اور عباس بن عبدالمطلب ؓ نے صدقہ نہیں دیا، اس پر نبی ﷺ نے فرمایا:’’ابن جمیل تو اس وجہ سے انکار کرتا ہے کہ وہ تنگ دست تھا اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ نے اسے مالدار کردیا، مگر خالد پر تم زیادتی کرتے ہو کیونکہ اس نے تو اپنی زرہیں اور آلات اللہ کی راہ میں وقف کر رکھے ہیں، رہے عباس بن عبد المطلب تو وہ رسول اللہ ﷺ کے چچا ہیں ان کی زکاۃ ان پر صدقہ اور اس کے برابر اور بھی (میری طرف سے ہوگی)۔‘‘ ابو زنادنے یہ الفاظ نقل کیے ہیں۔’’یہ ان (محمد ﷺ ) کے ذمے ہے اور اس کے برابر اور بھی ۔‘‘ ابن جریج نے اعرج سے بیان کرنے میں ابو زناد کی متابعت کی ہے۔
تشریح:
(1) قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ آثار و حدیث سے امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ مصارف زکاۃ میں سے رقاب، غارمین اور فی سبیل اللہ کی وضاحت کریں۔ ان میں سے دو مصارف تو ایسے ہیں جن کے متعلق علمائے امت کا اختلاف ہے، یعنی رقاب اور فی سبیل اللہ۔ امام بخاری نے ان کا مفہوم اور مقصد متعین کرنے میں اپنا رجحان بیان کیا ہے، چنانچہ رقاب کے متعلق اختلاف ہے کہ اس سے مراد عام غلام ہیں یا وہ غلام جنہوں نے اپنی آزادی کے لیے اپنے مالک کے ساتھ کچھ رقم ادا کرنے پر معاہدہ کر رکھا ہے جنہیں مکاتب کہتے ہیں۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ مالِ زکاۃ سے صرف مکاتب غلام ہی آزاد کیے جا سکتے ہیں جبکہ امام بخاری کا موقف ہے کہ مذکورہ آیت مکاتب اور غیر مکاتب تمام قسم کے غلاموں کو شامل ہے، اپنی تائید کے لیے انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ کا اثر پیش کیا ہے، نیز حدیث میں ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: ایسا عمل بتائیں جو مجھے جنت کے قریب اور جہنم سے دور کر دے۔ آپ نے فرمایا: ’’جان کو آزاد کرو اور گردن کو چھڑاؤ۔‘‘ اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ان دونوں سے ایک ہی مراد ہے؟ آپ نے فرمایا:’’نہیں! یہ دونوں الگ الگ ہیں۔ جان کو آزاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تم اکیلے ہی کسی غلام کو آزاد کرو اور گردن چھڑانے سے مراد یہ ہے کہ تم اس کی قیمت ادا کرنے میں مدد کرو۔‘‘(مسندأحمد:299/4) امام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ مکاتب اگر خود اپنی قیمت ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے تو اسے زکاۃ نہیں دینی چاہیے اور اگر اس کے پاس کچھ نہیں ہے تو مال زکاۃ سے پوری رقم ادا کر دی جائے اور اگر کچھ رقم موجود ہے تو باقی رقم زکاۃ سے ادا کر دی جائے تاکہ اسے پوری آزادی مل جائے۔ (عمدةالقاري:487/6) (2) امام بخارى ؒ کا بیان کردہ دوسرا مصرف فی سبیل اللہ ہے۔ اس سے مراد کیا ہے؟ امام بخاری کے بیان کے مطابق جہاد اور حج بھی اس میں شامل ہے، چنانچہ آپ نے حج کے لیے حضرت ابن عباس ؓ اور حسن بصری ؒ کے آثار کو پیش کیا ہے، نیز آپ نے ابولاس ؓ سے مروی ایک معلق حدیث کا حوالہ دیا ہے، اسی طرح جہاد کے متعلق بھی حسن بصرى کا قول اور مرفوع حدیث کا حوالہ دیا ہے۔ حدیث میں حضرت خالد بن ولید ؓ کے متعلق ذکر ہے کہ انہوں نے اپنی زرہوں اور آلات حرب کو اللہ کے رستے میں وقف کر رکھا ہے، اس لیے زکاۃ کا مطالبہ کرنا درست نہیں۔ امام بخاری ؒ کے استدلال کے مطابق اس کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے وقف کرتے وقت اپنے مال سے زکاۃ نکالنے کی نیت کی تھی کیونکہ مال زکاۃ جہاد میں صرف ہو سکتا ہے اسی بنا پر فی سبیل اللہ میں یہ شامل ہے۔ (3) حضرت عباس ؓ کے زکاۃ ادا نہ کرنے کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ بدر میں اپنا اور اپنے بھائی کا فدیہ دینے کی وجہ سے مقروض تھے، انہوں نے اپنے مال کو خود پر قرض خیال کیا اور بحیثیت مقروض زکاۃ کو خود اپنے لیے جائز سمجھا۔ یہ معنی ان الفاظ کے تناظر میں ہیں کہ "هي عليه صدقة۔۔۔" اور ابو زناد کے الفاظ کے مطابق یہ ہوں گے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کی زکاۃ میرے ذمے ہے بلکہ مزید ایک سال کی زکاۃ بھی اور یہی معنی راجح ہیں۔ اس زکاۃ کی ذمہ داری آپ نے کیوں لی؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے حضرت عباس ؓ سے دو سال کی پیشگی زکاۃ وصول کر لی تھی۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اگرچہ ان روایات کو سندا کمزور کہا ہے لیکن راجح بات یہی ہے کہ یہ روایات حسن درجے کی ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (إرواء الغلیل، حدیث: 857) دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ عباس کی زکاۃ کی فکر نہ کرو وہ میرے ذمے رہی کیونکہ وہ میرے چچا ہیں اور چچا باپ ہوتا ہے، اس لیے میں نے دے دی یا انہوں نے، ایک ہی بات ہے۔ اس توجیہ کی تائید صحیح مسلم کی ایک حدیث (983) سے ہوتی ہے، تاہم اگر پیشگی زکاۃ وصول کرنے والی روایات صحیح ہوں تو پہلی وجہ راجح ہو گی کیونکہ وہ صریح ہے۔ واللہ أعلم۔ ابن جمیل کے متعلق بھی وضاحت کر دینا ضروری ہے کہ وہ اسلام لانے سے قبل غریب اور نادار تھا، اسلام کی برکت سے مالدار بن گیا، اب وہ زکاۃ دینے سے روگردانی کرتا ہے، کیا اسلام کے احسان کا یہی بدلہ ہے؟ (فتح الباري:421/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1430
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1468
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1468
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1468
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
تمہید باب
ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اس تعلیق کو ابو عبید نے کتاب الاموال میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباری:3/417) حسن بصری رحمہ اللہ کے قول کو امام ابن ابی شیبہ نے (291/4) میں متصل سند سے بیان کیا ہے، اس کا مطلب ہے کہ مالِ زکاۃ غلاموں کو آزاد کرنے اور کسی کو حج کے لیے دینے میں خرچ ہو سکتا ہے، لیکن غلام باپ کو مال زکاۃ سے خرید کر آزاد کرنے کے متعلق کسی نے بھی ان سے اتفاق نہیں کیا۔ (فتح الباری:3/418) خالد بن ولید رضی اللہ عنہ والی حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خود متصل سند سے بیان کیا۔ (صحیح البخاری،الزکاۃ،حدیث:1468) ابن لاس کی اس روایت کو امام احمد رحمہ اللہ نے اپنی متصل سند سے مسند میں بیان کیا ہے لیکن اس روایت میں ابن اسحاق مدلس راوی ہے جو عن سے بیان کرتا ہے۔ (مسنداحمد:4/221،وفتح الباری:3/419)مصارف زکاۃ: امام بخاری رحمہ اللہ کا اس عنوان سے کیا مقصد ہے؟ اسے بیان کرنے سے پہلے ہم مصارف زکاۃ کو مختصر طور پر بیان کرنا مناسب خیال کرتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سورہ توبہ، آیت: 60 کے تحت ذکر کیا ہے:٭ فقراء و مساکین: ان سے مراد وہ حاجت مند ہیں جو اپنی ضروریات و حاجات کو پورا کرنے کے لیے مطلوبہ وسائل سے محروم ہوں، البتہ اہل علم نے ان کے درمیان یہ فرق کیا ہے کہ مسکین وہ ہے جس کے پاس مال ہو لیکن اس قدر نہ ہو جو اسے کفایت کر سکے اور فقیر وہ ہے جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو۔ ایک حدیث میں مسکین کی تعریف ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے: مسکین وہ ہے جس کے پاس اتنا مال نہ ہو جو اسے بے نیاز کر سکے اور اس کی خودداری کی وجہ سے اس کی غربت کا پتہ نہ چل سکے کہ لوگ مستحق خیال کر کے اسے صدقہ دیں اور نہ وہ لوگوں کے سامنے دست سوال ہی دراز کرے۔ (صحیح البخاری،الزکاۃ،حدیث:1479)٭ عاملین: ان سے مراد وہ سرکاری اہل کار ہیں جو زکاۃ و صدقات کی وصولی اور اس کے حساب و کتاب پر مامور ہوں۔ انہیں اس خدمت کے عوض سرکاری طور پر مالِ زکاۃ سے معاوضہ دیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ مدارس کے سفیروں کو عاملین نہیں کہا جا سکتا اور ہمارے نزدیک سفارت کو بطور پیشہ اختیار کرنا صحیح نہیں؟ یہ ایک ایسا اجیر ہے جو مجہول اجرت پر خدمت سرانجام دیتا ہے جس کی شریعت میں ممانعت ہے۔٭ تالیف قلبی: اس مد میں درج ذیل حضرات آتے ہیں: ٭ وہ کافر جو اسلام کی طرف مائل ہوں اور مالی تعاون کرنے پر اس کے قبول اسلام کی امید ہو۔ ٭ وہ نو مسلم جنہیں اسلام پر قائم رکھنے کے لیے مالی تعاون کی ضرورت ہو۔ ٭ ایسے افراد جنہیں اس وجہ سے تعاون دیا جائے کہ وہ دوسروں کو مسلمانوں پر حملہ کرنے سے روکیں گے۔ یہ تمام صورتیں تالیف قلبی میں شامل ہیں اور ان پر زکاۃ خرچ کی جا سکتی ہے اگرچہ وہ مالدار ہی کیوں نہ ہوں، نیز یہ مد آج بھی باقی ہے۔٭ گردن آزاد کرنا: ہر قسم کے غلام اس میں شامل ہیں۔ مال زکاۃ سے انہیں خرید کر آزاد کیا جا سکتا ہے۔ اور اگر انہوں نے اپنے مالک سے طے شدہ رقم پر آزادی کا معاہدہ کر رکھا ہو تو انہیں امداد کے طور پر مال زکاۃ سے رقم دی جا سکتی ہے۔٭ غارمین: اس میں درج ذیل صورتیں ہیں: ٭ جو شخص اپنے اہل و عیال کے اخراجات پورے کرنے کے لیے قرض لے کر مقروض ہو گیا ہو۔ ٭ جس نے کسی کی ضمانت دی ہو، پھر وہ اس ضمانت کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہو۔ ٭ جو کاروباری طور پر قرضے کا شکار ہو گیا ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے تمام لوگوں کو سوال کا مستحق قرار دیا ہے۔٭ فی سبیل اللہ: اس مصرف میں ایسے تمام افراد شامل ہیں جو دنیا میں غلبہ اسلام کے لیے کسی بھی طریقے کو اختیار کیے ہوئے ہوں، خواہ وہ جہاد و قتال کا عمل ہو یا درس و تدریس میں مصروف ہوں۔ دوسرے لفظوں میں اس سے مراد ہر وہ جگہ ہے جو طریق الی اللہ سے متعلق ہے۔٭ ابن سبیل: اس سے مراد وہ مسافر ہے جو دوران سفر میں مالی تعاون کا حقدار ہو گیا ہو، مثلا: اس کا زادراہ ختم ہو گیا یا اس کی جیب کٹ گئی جس کی وجہ سے وہ اپنی دولت سے محروم ہو گیا۔ ایسے حضرات پر مالِ زکاۃ خرچ کیا جا سکتا ہے، خواہ وہ اپنے گھر میں صاحب حیثیت ہی کیوں نہ ہوں۔ مصارف زکاۃ کے متعلق مولانا ابو الکلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:یہ آٹھ مصارف جس ترتیب سے بیان کیے گئے ہیں حقیقت میں معاملے کی قدرتی ترتیب بھی یہی ہے۔ سب سے پہلے فقراء اور مساکین کا ذکر کیا جو استحقاق میں سب سے مقدم ہیں، پھر عاملین کا ذکر آیا جن کی موجودگی کے بغیر زکاۃ کا نظام قائم نہیں رہ سکتا، پھر ان کا ذکر آیا جن کا دل ہاتھ میں لینا ایمان کی تقویت اور حق کی اشاعت کے لیے ضروری تھا، پھر غلاموں کو آزاد کرانے اور قرض داروں کے بارِ قرض سے سبکدوش کرانے کے مقاصد نمایاں ہوئے، پھر فی سبیل اللہ کا مقصد رکھا گیا جس کا زیادہ اطلاق دفاع پر ہوا، پھر دین اور امت کے عام مصالح اس میں شامل ہیں، مثلا: قرآن اور دینی علوم کی ترویج و اشاعت، مدارس کا اجراء، قیام دعاۃ و مبلغین کے ضروری مصارف، ہدایت و ارشادات کے تمام مفید وسائل، سب کے آخر میں ابن السبیل، یعنی مسافر کو جگہ دی۔ تمام مصارف میں بیک وقت تقسیم کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ جس وقت جیسی حالت اور جیسی ضرورت ہو اسی کے مطابق خرچ کرنا چاہیے۔ یہی مذہب قرآن و حدیث کی تصریحات اور روح کے عین مطابق ہے۔ (ترجمان القرآن:2/130)
ور ابن عباس ؓ سے منقول ہے کہ اپنی زکوٰۃ میں سے غلام آزاد کرسکتا ہے اور حج کے لیے دے سکتا ہے۔ اور امام حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا کہ اگر کوئی زکوٰۃ کے مال سے اپنے آپ کو جو غلام ہو خرید کر آزاد کردے تو جائز ہے۔ اور مجاہدین کے اخراجات کے لیے بھی زکوٰۃ دی جائے۔ اسی طرح اس شخص کو بھی زکوٰۃ دی جاسکتی ہے جس نے حج نہ کیا ہو۔ ( تاکہ اس امداد سے حج کرسکے ) پھر انہوں نے سورئہ توبہ کی آیت انما الصدقات للفقراءآخر تک کی تلاوت کی اور کہا کہ ( آیت میں بیان شدہ تمام مصارف زکوٰۃ میں سے جس کو بھی زکوٰۃ دی جائے کافی ہے۔ اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ خالد رضی اللہ عنہ نے تو اپنی زرہیں اللہ تعالیٰ کے راستے میں وقف کردی ہیں۔ ابوالاس ( زیادہ خزاعی صحابی ) رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں زکوٰۃ کے اونٹوں پر سوار کرکے حج کرایا
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ صدقہ وصول کرنے کا حکم دیا، عرض کیا گیا کہ ابن جمیل، خالد بن ولید اور عباس بن عبدالمطلب ؓ نے صدقہ نہیں دیا، اس پر نبی ﷺ نے فرمایا:’’ابن جمیل تو اس وجہ سے انکار کرتا ہے کہ وہ تنگ دست تھا اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ نے اسے مالدار کردیا، مگر خالد پر تم زیادتی کرتے ہو کیونکہ اس نے تو اپنی زرہیں اور آلات اللہ کی راہ میں وقف کر رکھے ہیں، رہے عباس بن عبد المطلب تو وہ رسول اللہ ﷺ کے چچا ہیں ان کی زکاۃ ان پر صدقہ اور اس کے برابر اور بھی (میری طرف سے ہوگی)۔‘‘ ابو زنادنے یہ الفاظ نقل کیے ہیں۔’’یہ ان (محمد ﷺ ) کے ذمے ہے اور اس کے برابر اور بھی ۔‘‘ ابن جریج نے اعرج سے بیان کرنے میں ابو زناد کی متابعت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ آثار و حدیث سے امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ مصارف زکاۃ میں سے رقاب، غارمین اور فی سبیل اللہ کی وضاحت کریں۔ ان میں سے دو مصارف تو ایسے ہیں جن کے متعلق علمائے امت کا اختلاف ہے، یعنی رقاب اور فی سبیل اللہ۔ امام بخاری نے ان کا مفہوم اور مقصد متعین کرنے میں اپنا رجحان بیان کیا ہے، چنانچہ رقاب کے متعلق اختلاف ہے کہ اس سے مراد عام غلام ہیں یا وہ غلام جنہوں نے اپنی آزادی کے لیے اپنے مالک کے ساتھ کچھ رقم ادا کرنے پر معاہدہ کر رکھا ہے جنہیں مکاتب کہتے ہیں۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ مالِ زکاۃ سے صرف مکاتب غلام ہی آزاد کیے جا سکتے ہیں جبکہ امام بخاری کا موقف ہے کہ مذکورہ آیت مکاتب اور غیر مکاتب تمام قسم کے غلاموں کو شامل ہے، اپنی تائید کے لیے انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ کا اثر پیش کیا ہے، نیز حدیث میں ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: ایسا عمل بتائیں جو مجھے جنت کے قریب اور جہنم سے دور کر دے۔ آپ نے فرمایا: ’’جان کو آزاد کرو اور گردن کو چھڑاؤ۔‘‘ اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ان دونوں سے ایک ہی مراد ہے؟ آپ نے فرمایا:’’نہیں! یہ دونوں الگ الگ ہیں۔ جان کو آزاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تم اکیلے ہی کسی غلام کو آزاد کرو اور گردن چھڑانے سے مراد یہ ہے کہ تم اس کی قیمت ادا کرنے میں مدد کرو۔‘‘(مسندأحمد:299/4) امام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ مکاتب اگر خود اپنی قیمت ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے تو اسے زکاۃ نہیں دینی چاہیے اور اگر اس کے پاس کچھ نہیں ہے تو مال زکاۃ سے پوری رقم ادا کر دی جائے اور اگر کچھ رقم موجود ہے تو باقی رقم زکاۃ سے ادا کر دی جائے تاکہ اسے پوری آزادی مل جائے۔ (عمدةالقاري:487/6) (2) امام بخارى ؒ کا بیان کردہ دوسرا مصرف فی سبیل اللہ ہے۔ اس سے مراد کیا ہے؟ امام بخاری کے بیان کے مطابق جہاد اور حج بھی اس میں شامل ہے، چنانچہ آپ نے حج کے لیے حضرت ابن عباس ؓ اور حسن بصری ؒ کے آثار کو پیش کیا ہے، نیز آپ نے ابولاس ؓ سے مروی ایک معلق حدیث کا حوالہ دیا ہے، اسی طرح جہاد کے متعلق بھی حسن بصرى کا قول اور مرفوع حدیث کا حوالہ دیا ہے۔ حدیث میں حضرت خالد بن ولید ؓ کے متعلق ذکر ہے کہ انہوں نے اپنی زرہوں اور آلات حرب کو اللہ کے رستے میں وقف کر رکھا ہے، اس لیے زکاۃ کا مطالبہ کرنا درست نہیں۔ امام بخاری ؒ کے استدلال کے مطابق اس کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے وقف کرتے وقت اپنے مال سے زکاۃ نکالنے کی نیت کی تھی کیونکہ مال زکاۃ جہاد میں صرف ہو سکتا ہے اسی بنا پر فی سبیل اللہ میں یہ شامل ہے۔ (3) حضرت عباس ؓ کے زکاۃ ادا نہ کرنے کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ بدر میں اپنا اور اپنے بھائی کا فدیہ دینے کی وجہ سے مقروض تھے، انہوں نے اپنے مال کو خود پر قرض خیال کیا اور بحیثیت مقروض زکاۃ کو خود اپنے لیے جائز سمجھا۔ یہ معنی ان الفاظ کے تناظر میں ہیں کہ "هي عليه صدقة۔۔۔" اور ابو زناد کے الفاظ کے مطابق یہ ہوں گے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کی زکاۃ میرے ذمے ہے بلکہ مزید ایک سال کی زکاۃ بھی اور یہی معنی راجح ہیں۔ اس زکاۃ کی ذمہ داری آپ نے کیوں لی؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے حضرت عباس ؓ سے دو سال کی پیشگی زکاۃ وصول کر لی تھی۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اگرچہ ان روایات کو سندا کمزور کہا ہے لیکن راجح بات یہی ہے کہ یہ روایات حسن درجے کی ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (إرواء الغلیل، حدیث: 857) دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ عباس کی زکاۃ کی فکر نہ کرو وہ میرے ذمے رہی کیونکہ وہ میرے چچا ہیں اور چچا باپ ہوتا ہے، اس لیے میں نے دے دی یا انہوں نے، ایک ہی بات ہے۔ اس توجیہ کی تائید صحیح مسلم کی ایک حدیث (983) سے ہوتی ہے، تاہم اگر پیشگی زکاۃ وصول کرنے والی روایات صحیح ہوں تو پہلی وجہ راجح ہو گی کیونکہ وہ صریح ہے۔ واللہ أعلم۔ ابن جمیل کے متعلق بھی وضاحت کر دینا ضروری ہے کہ وہ اسلام لانے سے قبل غریب اور نادار تھا، اسلام کی برکت سے مالدار بن گیا، اب وہ زکاۃ دینے سے روگردانی کرتا ہے، کیا اسلام کے احسان کا یہی بدلہ ہے؟ (فتح الباري:421/3)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ انسان اپنے مال زکاۃ سے غلام آزاد کرےاور حج کے لیے دے۔
امام حسن بصری نے کہاہے: اگرمال زکاۃ سے اپنا غلام باپ خریدے(اور اسے آزاد کرے) تو جائز ہے، اسی طرح مجاہدین کو دے اور ان لوگوں کو دے جنھوں نے حج نہیں کیا، پھر انھوں نےیہ آیت تلاوت کی: "صدقات تو فقراء کے لیے ہیں۔۔۔ "ان میں سے جس کو بھی تو زکاۃ دے گا۔ کافی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بے شک خالد نے تو اپنی زرہیں اللہ کی راہ میں وقف کردی ہیں۔ "ابو لاس سے منقول ہے کہ ہمیں نبی ﷺ نے حج کے لیے صدقے کے اونٹ مہیا فرمائے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی ‘ کہا کہ ہم سے ابوالزناد نے اعرج سے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے زکوٰۃ وصول کرنے کا حکم دیا۔ پھر آپ سے کہا گیا کہ ابن جمیل اور خالد بن ولید اور عباس بن عبدالمطلب نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا ہے۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ابن جمیل یہ شکر نہیں کرتا کہ کل تک وہ فقیر تھا۔ پھر اللہ نے اپنے رسول کی دعا کی برکت سے اسے مالدار بنادیا۔ باقی رہے خالد ‘ تو ان پر تم لوگ ظلم کرتے ہو۔ انہوں نے تو اپنی زرہیں اللہ تعالیٰ کے راستے میں وقف کررکھی ہیں۔ اور عباس بن عبدالمطلب ‘ تو وہ رسول اللہ ﷺ کے چچا ہیں۔ اور ان کی زکوٰۃ انہی پر صدقہ ہے۔ اور اتنا ہی اور انہیں میری طرف سے دینا ہے۔ اس روایت کی متابعت ابوالزناد نے اپنے والد سے کی اور ابن اسحاق نے ابوالزناد سے یہ الفاظ بیان کیے۔ هي علیه ومثلها معها ( صدقہ کے لفظ کے بغیر ) اور ابن جریج نے کہا کہ مجھ سے اعرج سے اسی طرح یہ حدیث بیان کی گئی۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں تین اصحاب کا واقعہ ہے۔ پہلا ابن جمیل ہے جو اسلام لانے سے پہلے محض قلاش اور مفلس تھا۔ اسلام کی برکت سے مالدار بن گیا تو اس کا بدلہ یہ ہے کہ اب وہ زکوٰۃ دینے میں کراہتا ہے اور خفا ہوتا ہے۔ اور حضرت خالد ؓ کے متعلق آنحضرت ﷺ نے خود فرما دیا جب انہوں نے اپنا سارا مال واسباب ہتھیار وغیرہ فی سبیل اللہ وقف کردیا ہے تو اب وقفی مال کی زکوٰۃ کیوں دینے لگا۔ اللہ کی راہ میں مجاہدین کو دینا یہ خود زکوٰۃ ہے۔ بعض نے کہا کہ مطلب یہ ہے کہ خالد تو ایسا سخی ہے کہ اس نے ہتھیار گھوڑے وغیرہ سب راہ خدا میں دے ڈالے ہیں۔ وہ بھلا فرض زکوٰۃ کیسے نہ دے گا تم غلط کہتے ہو کہ وہ زکوٰۃ نہیں دیتا۔ حضرت عباس ؓ کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ زکوٰۃ بلکہ اس سے دونا میں ان پر سے تصدق کروں گا۔ مسلم کی روایت میں یوں ہے کہ عباس ؓ کی زکوٰۃ بلکہ اس کا دونا روپیہ میں دوں گا۔ حضرت عباس ؓ دو برس کی زکوٰۃ پیشگی آنحضرت ﷺ کودے چکے تھے۔ اس لیے انہوں نے ان تحصیل کرنے والوں کو زکوٰۃ نہ دی۔ بعضوں نے کہا مطلب یہ ہے کہ بالفعل ان کو مہلت دو۔ سال آئندہ ان سے دوہری یعنی دو برس کی زکوٰۃ وصول کرنا۔ ( مختصر ازوحیدی )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) Allah's Apostle (ﷺ) ordered (a person) to collect Zakat, and that person returned and told him that Ibn Jamil, Khalid bin Al-Walid, and Abbas bin 'Abdul Muttalib had refused to give Zakat." The Prophet (ﷺ) said, "What made Ibn Jamll refuse to give Zakat though he was a poor man, and was made wealthy by Allah and His Apostle (ﷺ) ? But you are unfair in asking Zakat from Khalid as he is keeping his armor for Allah's Cause (for Jihad). As for Abbas bin 'Abdul Muttalib, he is the uncle of Allah's Apostle (ﷺ) and Zakat is compulsory on him and he should pay it double." ________