Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: To abstain from begging)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1469.
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، کہ انصار میں سے چند لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے (مال کا) سوال کیا تو آپ نے انھیں دے دیا، انھوں نے دوبارہ مانگا تو آپ نے پھر دے دیا، انھوں نےپھر دست سوال پھیلایا تو آپ نے پھر فرمادیا یہاں تک کہ آپ کے پاس جو کچھ تھا سب ختم ہوگیا۔ بالآخر آپ ﷺ نے فرمایا:’’میرے پاس جو مال ہو گا اسے تم لوگوں سے بچا کر نہیں رکھوں گا لیکن یاد رکھو! جو شخص سوال کرنے سے بچے گا اللہ تعالیٰ اسے فقرو فاقہ سے بچا ئے گا، اور جو شخص (دنیا کے مال سے) بے نیاز رہے گا اللہ اسے غنی کردے گا اور جو شخص صبر کرے گا اللہ اسے صابر بنادے گا اور کسی شخص کو صبر سے بہتر کوئی وسیع تر نعمت نہیں دی گئی۔‘‘
تشریح:
شریعت اسلامیہ کی یہ خوبی کس قدر اہم ہے کہ اس نے اپنے ماننے والوں کو لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے اور ان سے سوال کرنے سے مختلف طریقوں کے ساتھ منع کیا ہے اور اپنے زور بازو سے کمانے اور رزق حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے، لیکن اس کے باوجود بعض معذور ایسے ہیں جنہیں بغیر سوال کیے چارہ نہیں۔ ان کے متعلق قرآن کا حکم ہے کہ انہیں ڈانٹ نہیں پلانی بلکہ اگر انہیں دینے کے لیے کچھ نہ ہو تو نرمی سے جواب دینا ہے۔ (2) علامہ عینی ؒ نے سوال کی تین قسمیں ذکر کی ہیں: ٭ حرام: یہ اس شخص کے لیے ہے جو زکاۃ سے بے نیاز ہو یا خواہ مخواہ اپنے آپ کو فقیر ظاہر کرے۔ ٭ مکروہ: جس کے پاس ضرورت کے لیے مال موجود ہو اور فقر کو ظاہر نہ کرے۔ ٭ مباح: جو معروف طریقے سے اپنے کسی قریبی یا دوست سے مانگتا ہے، البتہ ضرورت کے وقت اپنی جان بچانے کے لیے سوال کرنا ضروری ہے۔ حرص نفس اور سوال کے بغیر اگر کچھ مل جائے تو اسے لینے میں کوئی حرج نہیں۔ (عمدةالقاري:494/6) اس حدیث میں سوال نہ کرنے کے تین درجے بیان ہوئے ہیں: پہلا یہ ہے کہ انسان سوال سے پرہیز کرے، لیکن استغناء کو ظاہر نہ کرے، دوسرا یہ کہ مخلوق سے تو بے نیاز رہے، البتہ اسے کچھ دے دیا جائے تو خوشی سے قبول کرے اور تیسرا یہ ہے کہ دینے کے باوجود اسے قبول نہ کرے۔ یہ صبروثبات کا آخری درجہ ہے جو مکارم اخلاق کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1431
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1469
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1469
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1469
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، کہ انصار میں سے چند لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے (مال کا) سوال کیا تو آپ نے انھیں دے دیا، انھوں نے دوبارہ مانگا تو آپ نے پھر دے دیا، انھوں نےپھر دست سوال پھیلایا تو آپ نے پھر فرمادیا یہاں تک کہ آپ کے پاس جو کچھ تھا سب ختم ہوگیا۔ بالآخر آپ ﷺ نے فرمایا:’’میرے پاس جو مال ہو گا اسے تم لوگوں سے بچا کر نہیں رکھوں گا لیکن یاد رکھو! جو شخص سوال کرنے سے بچے گا اللہ تعالیٰ اسے فقرو فاقہ سے بچا ئے گا، اور جو شخص (دنیا کے مال سے) بے نیاز رہے گا اللہ اسے غنی کردے گا اور جو شخص صبر کرے گا اللہ اسے صابر بنادے گا اور کسی شخص کو صبر سے بہتر کوئی وسیع تر نعمت نہیں دی گئی۔‘‘
حدیث حاشیہ:
شریعت اسلامیہ کی یہ خوبی کس قدر اہم ہے کہ اس نے اپنے ماننے والوں کو لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے اور ان سے سوال کرنے سے مختلف طریقوں کے ساتھ منع کیا ہے اور اپنے زور بازو سے کمانے اور رزق حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے، لیکن اس کے باوجود بعض معذور ایسے ہیں جنہیں بغیر سوال کیے چارہ نہیں۔ ان کے متعلق قرآن کا حکم ہے کہ انہیں ڈانٹ نہیں پلانی بلکہ اگر انہیں دینے کے لیے کچھ نہ ہو تو نرمی سے جواب دینا ہے۔ (2) علامہ عینی ؒ نے سوال کی تین قسمیں ذکر کی ہیں: ٭ حرام: یہ اس شخص کے لیے ہے جو زکاۃ سے بے نیاز ہو یا خواہ مخواہ اپنے آپ کو فقیر ظاہر کرے۔ ٭ مکروہ: جس کے پاس ضرورت کے لیے مال موجود ہو اور فقر کو ظاہر نہ کرے۔ ٭ مباح: جو معروف طریقے سے اپنے کسی قریبی یا دوست سے مانگتا ہے، البتہ ضرورت کے وقت اپنی جان بچانے کے لیے سوال کرنا ضروری ہے۔ حرص نفس اور سوال کے بغیر اگر کچھ مل جائے تو اسے لینے میں کوئی حرج نہیں۔ (عمدةالقاري:494/6) اس حدیث میں سوال نہ کرنے کے تین درجے بیان ہوئے ہیں: پہلا یہ ہے کہ انسان سوال سے پرہیز کرے، لیکن استغناء کو ظاہر نہ کرے، دوسرا یہ کہ مخلوق سے تو بے نیاز رہے، البتہ اسے کچھ دے دیا جائے تو خوشی سے قبول کرے اور تیسرا یہ ہے کہ دینے کے باوجود اسے قبول نہ کرے۔ یہ صبروثبات کا آخری درجہ ہے جو مکارم اخلاق کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں امام مالک نے ‘ ابن شہاب سے خبر دی ‘ انہیں عطاءبن یزید لیثی نے اور انہیں ابو سعید خدری ؓ نے کہ انصار کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا تو آپ نے انہیں دیا۔ پھر انہوں نے سوال کیا اور آپ ﷺ نے پھر دیا۔ یہاں تک کہ جو مال آپ کے پاس تھا۔ اب وہ ختم ہوگیا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر میرے پاس جو مال ودولت ہوتو میں اسے بچا کر نہیں رکھوں گا۔ مگر جو شخص سوال کرنے سے بچتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اسے سوال کرنے سے محفوظ ہی رکھتا ہے۔ اور جو شخص بے نیازی برتتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بے نیاز بنادیتا ہے اور جو شخص اپنے اوپر زور ڈال کر بھی صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اسے صبرو استقلال دے دیتا ہے۔ اور کسی کو بھی صبر سے زیادہ بہتر اور اس سے زیادہ بے پایاں خیر نہیں ملی۔ ( صبر تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے )
حدیث حاشیہ:
شریعت اسلامیہ کی بے شمار خوبیوں میں سے ایک یہ خوبی بھی کس قدر اہم ہے کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے‘سوال کرنے سے مختلف طریقوں کے ساتھ ممانعت کی ہے اور ساتھ ہی اپنے زور بازو سے کمانے اور رزق حاصل کرنے کی ترغیبات دلائی ہیں۔ مگر پھر بھی کتنے ہی ایسے معذورین مرد عورت ہوتے ہیں جن کو بغیر سوال کئے چارہ نہیں۔ ان کے لیے فرمایا: ﴿وَاَمَّا السَّائِلَ فَلاَ تَنهَر﴾یعنی سوال کرنے والوں کو نہ ڈانٹو۔ بلکہ نرمی سے ان کو جواب دے دو۔ حدیث ہذا کے راوی حضرت ابوسعید خدری ؓ ہیں۔ جن کا نام سعد بن مالک ہے۔ اور یہ انصاری ہیں۔ جو کنیت ہی سے زیادہ مشہور ہیں۔ حافظ حدیث اور صاحب فضل و عقل علمائے کبار صحابہ میں ان کا شمار ہے۔ 84 سال کی عمر پائی اور 74 ھ میں انتقال کیا اور جنت البقیع میں سپرد خاک کئے گئے۔ رضي اللہ عنه وأرضاہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id Al-Khudri(RA): Some Ansari persons asked for (something) from Allah's Apostle (ﷺ) and he gave them. They again asked him for (something) and he again gave them. And then they asked him and he gave them again till all that was with him finished. And then he said "If I had anything. I would not keep it away from you. (Remember) Whoever abstains from asking others, Allah will make him contented, and whoever tries to make himself self-sufficient, Allah will make him self-sufficient. And whoever remains patient, Allah will make him patient. Nobody can be given a blessing better and greater than patience." ________