Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: To abstain from begging)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1472.
حضرت حکیم بن حزام ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:میں نے ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ سے کچھ مانگا تو آپ نے مجھے دے دیا، میں نے پھر مانگا تو بھی آپ نے مجھے دے دیا، میں نے پھر مانگا تو آپ نے مجھے پھر بھی دے دیا اور اس کے بعد فرمایا:’’حکیم! یہ مال سبزوشریں ہے۔ جو شخص اس کو سخاوت نفس کے ساتھ لیتا ہے اسے برکت عطا ہوتی ہے۔ اور جوطمع کے ساتھ لیتا ہے۔ اس کواس میں برکت نہیں دی جاتی اور ایسا آدمی اس شخص کی طرح ہوتا ہے جو کھاتا تو ہے مگر سیر نہیں ہوتا، نیز اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔‘‘ حضرت حکیم ؓ کہتے ہیں:میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول ﷺ !اس ذات کی قسم جس نے آپ کوحق دے کر بھیجا ہے!میں آپ کے بعد کسی سے کچھ نہیں مانگوں گا یہاں تک کو دنیا س چلاجاؤں۔ چنانچہ جب ابو بکر ؓ خلیفہ ہوئے تو وہ حضرت حکیم ؓ کو وظیفہ دینے کے لیے بلاتے رہے مگر انھوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا، پھر حضرت عمر ؓ نے بھی اپنے دور خلافت میں ان کو بلاکر وظیفہ دینا چاہا، لیکن انھوں نے انکار کردیا۔ جس پر حضرت عمر ؓ نے فرمایا:مسلمانو!میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے حضرت حکیم ؓ کو ان کا حق پیش کیا مگر وہ مال غنیمت سے اپنا حق لینے سے انکار کرتے ہیں۔ الغرض حضرت حکیم ؓ رسول اللہ ﷺ کے بعد جب تک زندہ رہے انھوں نے کسی سے کچھ نہیں لیا۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ضرورت کے بغیر کسی دوسرے سے سوال کرنا حرام ہے۔ محنت و مزدوری پر قدرت رکھنے والے کے لیے یہی حکم ہے، البتہ بعض حضرات نے تین شرائط کے ساتھ کچھ گنجائش پیدا کی ہے: ٭ اصرار نہ کرے۔ ٭ اپنی عزت نفس کو مجروح نہ ہونے دے۔ ٭ اور جس سے سوال کرے اسے تکلیف نہ دے۔ اگر یہ شرائط نہ ہوں تو سوال کرنا بالاتفاق حرام ہے، نیز اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے صابر اور حریص کی جزا بیان فرمائی ہے کہ جو بھی دنیوی دولت کے سلسلے میں قناعت سے کام لے گا اور حرص و لالچ کی بیماری سے خود کو بچائے گا اس کے لیے اللہ تعالیٰ برکتوں کے دروازے کھول دے گا اور تھوڑا مال بھی اس کے لیے کافی ہو سکے گا اور اس کی زندگی بڑے اطمینان اور سکون سے گزرے گی۔ اس کے برعکس جو شخص حرص اور لالچ کا شکار ہو گا اس کا پیٹ کسی صورت نہیں بھرے گا، خواہ اسے دنیا کی تمام دولت مل جائے۔ ایسے لوگ نہ تو اللہ کے نام پر کچھ دیتے ہیں اور نہ اپنی دولت سے مخلوق ہی کو فائدہ پہنچاتے ہیں بلکہ اپنے اہل و عیال پر بھی خرچ نہیں کرتے۔ (2) موجودہ دور میں اگر سرمایہ داروں کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو بہت ہی بھیانک تصویر نظر آتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے دنیا کے مال کو خوشگوار اور شیریں قرار دیا ہے، خوشگوار مال دیکھنے میں مرغوب اور شیریں مال چمک دمک میں پسندیدہ ہوتا ہے۔ جب یہ دونوں چیزیں جمع ہو جائیں تو اس کے حصول کے لیے رغبت مزید بڑھ جاتی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1434
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1472
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1472
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1472
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
حضرت حکیم بن حزام ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:میں نے ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ سے کچھ مانگا تو آپ نے مجھے دے دیا، میں نے پھر مانگا تو بھی آپ نے مجھے دے دیا، میں نے پھر مانگا تو آپ نے مجھے پھر بھی دے دیا اور اس کے بعد فرمایا:’’حکیم! یہ مال سبزوشریں ہے۔ جو شخص اس کو سخاوت نفس کے ساتھ لیتا ہے اسے برکت عطا ہوتی ہے۔ اور جوطمع کے ساتھ لیتا ہے۔ اس کواس میں برکت نہیں دی جاتی اور ایسا آدمی اس شخص کی طرح ہوتا ہے جو کھاتا تو ہے مگر سیر نہیں ہوتا، نیز اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔‘‘ حضرت حکیم ؓ کہتے ہیں:میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول ﷺ !اس ذات کی قسم جس نے آپ کوحق دے کر بھیجا ہے!میں آپ کے بعد کسی سے کچھ نہیں مانگوں گا یہاں تک کو دنیا س چلاجاؤں۔ چنانچہ جب ابو بکر ؓ خلیفہ ہوئے تو وہ حضرت حکیم ؓ کو وظیفہ دینے کے لیے بلاتے رہے مگر انھوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا، پھر حضرت عمر ؓ نے بھی اپنے دور خلافت میں ان کو بلاکر وظیفہ دینا چاہا، لیکن انھوں نے انکار کردیا۔ جس پر حضرت عمر ؓ نے فرمایا:مسلمانو!میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے حضرت حکیم ؓ کو ان کا حق پیش کیا مگر وہ مال غنیمت سے اپنا حق لینے سے انکار کرتے ہیں۔ الغرض حضرت حکیم ؓ رسول اللہ ﷺ کے بعد جب تک زندہ رہے انھوں نے کسی سے کچھ نہیں لیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ضرورت کے بغیر کسی دوسرے سے سوال کرنا حرام ہے۔ محنت و مزدوری پر قدرت رکھنے والے کے لیے یہی حکم ہے، البتہ بعض حضرات نے تین شرائط کے ساتھ کچھ گنجائش پیدا کی ہے: ٭ اصرار نہ کرے۔ ٭ اپنی عزت نفس کو مجروح نہ ہونے دے۔ ٭ اور جس سے سوال کرے اسے تکلیف نہ دے۔ اگر یہ شرائط نہ ہوں تو سوال کرنا بالاتفاق حرام ہے، نیز اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے صابر اور حریص کی جزا بیان فرمائی ہے کہ جو بھی دنیوی دولت کے سلسلے میں قناعت سے کام لے گا اور حرص و لالچ کی بیماری سے خود کو بچائے گا اس کے لیے اللہ تعالیٰ برکتوں کے دروازے کھول دے گا اور تھوڑا مال بھی اس کے لیے کافی ہو سکے گا اور اس کی زندگی بڑے اطمینان اور سکون سے گزرے گی۔ اس کے برعکس جو شخص حرص اور لالچ کا شکار ہو گا اس کا پیٹ کسی صورت نہیں بھرے گا، خواہ اسے دنیا کی تمام دولت مل جائے۔ ایسے لوگ نہ تو اللہ کے نام پر کچھ دیتے ہیں اور نہ اپنی دولت سے مخلوق ہی کو فائدہ پہنچاتے ہیں بلکہ اپنے اہل و عیال پر بھی خرچ نہیں کرتے۔ (2) موجودہ دور میں اگر سرمایہ داروں کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو بہت ہی بھیانک تصویر نظر آتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے دنیا کے مال کو خوشگوار اور شیریں قرار دیا ہے، خوشگوار مال دیکھنے میں مرغوب اور شیریں مال چمک دمک میں پسندیدہ ہوتا ہے۔ جب یہ دونوں چیزیں جمع ہو جائیں تو اس کے حصول کے لیے رغبت مزید بڑھ جاتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد ان نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ کہا کہ ہمیں یونس نے خبر دی ‘ انہیں زہری نے ‘ انہیں عروہ بن زبیر اور سعید بن مسیب نے کہ حکیم بن حزام ؓ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے کچھ مانگا۔ آپ ﷺ نے عطا فرمایا۔ میں نے پھر مانگا اور آپ ﷺ نے پھر عطا فرمایا۔ میں نے پھر مانگا آپ ﷺ نے پھر بھی عطا فرمایا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ اے حکیم! یہ دولت بڑی سرسبز اور بہت ہی شیریں ہے۔ لیکن جو شخص اسے اپنے دل کو سخی رکھ کرلے تو اس کی دولت میں برکت ہوتی ہے۔ اور جو لالچ کے ساتھ لیتا ہے تو اس کی دولت میں کچھ بھی برکت نہیں ہوگی۔ اس کا حال اس شخص جیسا ہوگا جو کھاتا ہے لیکن آسودہ نہیں ہوتا ( یاد رکھو ) اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے۔ حکیم بن حزام ؓ نے کہا ‘ کہ میں نے عرض کی اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو سچائی کے ساتھ مبعوث کیا ہے۔ اب اس کے بعد میں کسی سے کوئی چیز نہیں لوں گا۔ تاآنکہ اس دنیا ہی سے میں جدا ہوجاؤں۔ چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ حکیم ؓ کو ان کا معمول دینے کو بلاتے تو وہ لینے سے انکار کردیتے۔ پھر حضرت عمر ؓ نے بھی انہیں ان کا حصہ دینا چاہا تو انہوں نے اس کے لینے سے انکار کردیا۔ اس پر حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ مسلمانو! میں تمہیں حکیم بن حزام کے معاملہ میں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کا حق انہیں دینا چاہا لیکن انہوں نے لینے سے انکار کردیا۔ غرض حکیم بن حزام ؓ رسول اللہ ﷺ کے بعد اسی طرح کسی سے بھی کوئی چیز لینے سے ہمیشہ انکار ہی کرتے رہے۔ یہاں تک کہ وفات پاگئے۔ حضرت عمر ؓ مال فے یعنی ملکی آمدنی سے ان کا حصہ ان کو دینا چاہتے تھے مگر انہوں نے وہ بھی نہیں لیا۔
حدیث حاشیہ:
حکیم بن حزام ؓ کی کنیت ابوخالد قریشی اسدی ہے۔ یہ حضرت ام المؤمنین خدیجۃ الکبریٰ ؓ کے بھتیجے ہیں۔ واقعہ فیل سے تیرہ سال پہلے کعبہ میں پیدا ہوئے۔ یہ قریش کے معزز ترین لوگوں میں سے ہیں۔ جاہلیت اور اسلام ہر دو زمانوں میں بڑی عزت ومنزلت کے مالک رہے۔ فتح مکہ کے دن اسلام لائے۔ 64ھ میں اپنے مکان کے اندر مدینہ میں وفات پائی۔ ان کی عمر ایک سوبیس سال کی ہوئی۔ ساٹھ سال عہد جاہلیت میں گزارے اور ساٹھ سال زمانہ اسلام میں زندگی پائی۔ بڑے زیرک اور فاضل متقی صحابہ میں سے تھے زمانہ جاہلیت میں سوغلاموں کو آزاد کیا۔ اور سو اونٹ سواری کے لیے بخشے۔ وفات نبوی کے بعد یہ مدت تک زندہ رہے یہاں تک کہ معاویہ ؓ کے عہد میں بھی دس سال کی زندگی پائی۔ مگر کبھی ایک پیسہ بھی انہوں نے کسی سے نہیں لیا۔ جو بہت بڑے درجے کی بات ہے۔ اس حدیث میں حکیم انسانیت رسول کریم ﷺ نے قانع اور حریص کی مثال بیان فرمائی کہ جو بھی کوئی دنیاوی دولت کے سلسلہ میں قناعت سے کام لے گا اور حرص اور لالچ کی بیماری سے بچے گا اس کے لیے برکتوں کے دروازے کھلیں گے اور تھوڑا مال بھی اسکے لیے کافی ہوسکے گا۔ اس کی زندگی بڑے ہی اطمینان اور سکون کی زندگی ہوگی۔ اور جو شخص حرص کی بیماری اور لالچ کے بخار میں مبتلا ہوگا اس کا پیٹ بھر ہی نہیں سکتا خواہ اس کو ساری دنیا کی دولت حاصل ہوجائے وہ پھر بھی اسی چکر میں رہے گا کہ کسی نہ کسی طرح سے اور زیادہ مال حاصل کیا جائے۔ ایسے طماع لوگ نہ اللہ کے نام پر خرچ کرنا جانتے ہیں نہ مخلوق کو فائدہ پہنچانے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ نہ کشادگی کے ساتھ اپنے اور اپنے اہل وعیال ہی پر خرچ کرتے ہیں۔ اگر سرمایہ داروں کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو ایک بہت ہی بھیانک تصویر نظرآتی ہے۔ فخر موجودات ﷺ نے ان ہی حقائق کو اس حدیث مقدس میں بیان فرمایا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Urwa bin Az-Zubair and Said bin Al-Musaiyab (RA): Haklm bin Hizam said, "(Once) I asked Allah's Apostle (ﷺ) (for something) and he gave it to me. Again I asked and he gave (it to me). Again I asked and he gave (it to me). And then he said, "O Hakim! This property is like a sweet fresh fruit; whoever takes it without greediness, he is blessed in it, and whoever takes it with greediness, he is not blessed in it, and he is like a person who eats but is never satisfied; and the upper (giving) hand is better than the lower (receiving) hand." Hakim added, "I said to Allah's Apostle (ﷺ) , 'By Him (Allah) Who sent you with the Truth, I shall never accept anything from anybody after you, till I leave this world.' " Then Abu Bakr (RA) (during his caliphate) called Hakim to give him his share from the war booty (like the other companions of the Prophet (ﷺ) ), he refused to accept anything. Then 'Umar (during his caliphate) called him to give him his share but he refused. On that 'Umar said, "O Muslims! I would like you to witness that I offered Hakim his share from this booty and he refused to take it." So Hakim never took anything from anybody after the Prophet (ﷺ) till he died. ________