باب: اگر کوئی شخص اپنی دولت بڑھانے کے لیے لوگوں سے سوال کرے؟
)
Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: Whoever asks the people to increase his wealth)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1475.
نیز رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’قیامت کے دن آفتاب اتنا قریب آجائے گا کہ پسینہ نصف کان تک پہنچ جائے گا، سب لوگ اسی حال میں حضرت آدم ؑ سے فریاد کریں گے، پھر وہی موسیٰ ؑ سےاور پھر حضرت محمد ﷺ سے۔۔۔راوی حدیث عبداللہ بن صالح کی روایت میں یہ اضافہ ہے ۔۔۔آپ سفارش کریں گے تاکہ مخلوق کے درمیان فیصلہ کیا جائے، آپ تشریف لے جائیں گے حتیٰ کہ جنت کے دروازے کاحلقہ پکڑ لیں گے، اس روز اللہ تعالیٰ آپ کو مقام محمود پر جلوہ افروز کرے گا، جس کی تمام محشر والے تعریف کریں گے۔‘‘ اس سلسلے میں حضرت معلیٰ بن اسعد کے طریق سے بھی ایک روایت ہے جس میں صرف لوگوں سے سوال کرنے کا ذکر ہے۔
تشریح:
(1) اس حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص اپنی ضرورت کے پیش نظر نہیں بلکہ اپنی دولت بڑھانے کے لیے لوگوں سے مانگتا پھرے وہ قیامت کے دن بہت ذلیل و خوار ہو گا۔ بلاوجہ لوگوں سے سوال کرنے کی سزا میں اس کے چہرے کی رونق کو ختم کر دیا جائے گا، صرف ہڈیاں ہی رہ جائیں گی۔ ایسی بھیانک اور قبیح شکل میں قیامت کے دن وہ اللہ کے حضور پیش ہو گا، اس وقت اذیت کا یہ عالم ہو گا کہ سورج بالکل قریب کر دیا جائے گا جو اپنی حدت اور شدت سے اس کی ہڈیوں کو خاکستر کر دے گا۔ امام بخاری ؒ نے حدیث سفارش کو اسی مناسبت سے بیان کیا ہے۔ اس کے برعکس جو شخص مجبور ہو کر سوال کرے جبکہ وہ سخت محتاج ہو تو وہ اس قسم کی سزا سے محفوظ ہو گا، کیونکہ ایسے شخص کے لیے سوال کرنا مباح ہے۔ (فتح الباري:427/3) (2) معلیٰ بن اسعد کی معلق روایت کو امام بیہقی ؒ نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ جو آدمی ہمیشہ لوگوں سے مانگتا رہتا ہے وہ اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملاقات کرے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت کا ٹکڑا تک نہیں ہو گا، اس روایت میں سورج کے قریب ہونے اور سفارش وغیرہ کا ذکر نہیں۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي:196/4، وعمدةالقاري:506/6)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1437
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1475
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1475
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1475
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
نیز رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’قیامت کے دن آفتاب اتنا قریب آجائے گا کہ پسینہ نصف کان تک پہنچ جائے گا، سب لوگ اسی حال میں حضرت آدم ؑ سے فریاد کریں گے، پھر وہی موسیٰ ؑ سےاور پھر حضرت محمد ﷺ سے۔۔۔راوی حدیث عبداللہ بن صالح کی روایت میں یہ اضافہ ہے ۔۔۔آپ سفارش کریں گے تاکہ مخلوق کے درمیان فیصلہ کیا جائے، آپ تشریف لے جائیں گے حتیٰ کہ جنت کے دروازے کاحلقہ پکڑ لیں گے، اس روز اللہ تعالیٰ آپ کو مقام محمود پر جلوہ افروز کرے گا، جس کی تمام محشر والے تعریف کریں گے۔‘‘ اس سلسلے میں حضرت معلیٰ بن اسعد کے طریق سے بھی ایک روایت ہے جس میں صرف لوگوں سے سوال کرنے کا ذکر ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص اپنی ضرورت کے پیش نظر نہیں بلکہ اپنی دولت بڑھانے کے لیے لوگوں سے مانگتا پھرے وہ قیامت کے دن بہت ذلیل و خوار ہو گا۔ بلاوجہ لوگوں سے سوال کرنے کی سزا میں اس کے چہرے کی رونق کو ختم کر دیا جائے گا، صرف ہڈیاں ہی رہ جائیں گی۔ ایسی بھیانک اور قبیح شکل میں قیامت کے دن وہ اللہ کے حضور پیش ہو گا، اس وقت اذیت کا یہ عالم ہو گا کہ سورج بالکل قریب کر دیا جائے گا جو اپنی حدت اور شدت سے اس کی ہڈیوں کو خاکستر کر دے گا۔ امام بخاری ؒ نے حدیث سفارش کو اسی مناسبت سے بیان کیا ہے۔ اس کے برعکس جو شخص مجبور ہو کر سوال کرے جبکہ وہ سخت محتاج ہو تو وہ اس قسم کی سزا سے محفوظ ہو گا، کیونکہ ایسے شخص کے لیے سوال کرنا مباح ہے۔ (فتح الباري:427/3) (2) معلیٰ بن اسعد کی معلق روایت کو امام بیہقی ؒ نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ جو آدمی ہمیشہ لوگوں سے مانگتا رہتا ہے وہ اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملاقات کرے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت کا ٹکڑا تک نہیں ہو گا، اس روایت میں سورج کے قریب ہونے اور سفارش وغیرہ کا ذکر نہیں۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي:196/4، وعمدةالقاري:506/6)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن سورج اتنا قریب ہو جائے گا کہ پسینہ آدھے کان تک پہنچ جائے گا۔ لوگ اسی حال میں اپنی مخلصی کے لیے حضرت آدم ؑ سے فریاد کریں گے۔ پھر موسیٰ ؑ سے۔ اور پھر محمد ﷺ سے۔ عبداللہ نے اپنی روایت میں یہ زیادتی کی ہے کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ابن ابی جعفر نے بیان کیا ‘ کہ پھر آنحضور ﷺ شفاعت کریں گے کہ مخلوق کا فیصلہ کیا جائے۔ پھر آپ بڑھیں گے اور جنت کے دروازے کا حلقہ تھام لیں گے۔ اور اسی دن اللہ تعالیٰ آپ کو مقام محمود عطا فرمائے گا۔ جس کی تمام اہل محشر تعریف کریں گے۔ اور معلی بن اسد نے کہا کہ ہم سے وہیب نے نعمان بن راشد سے بیان کیا ‘ ان سے زہری کے بھائی عبداللہ بن مسلم نے ‘ ان سے حمزہ بن عبداللہ نے ‘ اور انہوں نے عبداللہ بن عمر ؓ سے سنا ‘ انہوں نے آنحضرت ﷺ سے پھر اتنی ہی حدیث بیان کی جو سوال کے باب میں ہے۔
حدیث حاشیہ:
حدیث کے باب میں بھی سوال کرنے کی مذمت کی گئی ہے اور بتلایا گیاہے کہ غیر مستحق سوال کرنے والوں کا حشر میں یہ حال ہوگا کہ ان کے چہرے پر گوشت نہ ہوگا اور اس ذلت وخواری کے ساتھ وہ میدان حشر میں محشور ہوں گے۔ سوال کرنے کی تفصیل میں علامہ عینی ؒ فرماتے ہیں: وَهِي على ثَلَاثَة أوجه: حرَام ومكروه ومباح. فالحرام لمن سَأَلَ وَهُوَ غَنِي من زَكَاة أَو أظهر من الْفقر فَوق مَا هُوَ بِهِ. وَالْمَكْرُوه لمن سَأَلَ وَعِنْده مَا يمنعهُ عَن ذَلِك وَلم يظْهر من الْفقر مَا هُوَ بِهِ، والمباح لمن سَأَلَ بِالْمَعْرُوفِ قَرِيبا أَو صديقا. وَأما السُّؤَال عِنْد الضَّرُورَة فَوَاجِب لإحياء النَّفس. وَأدْخلهُ الدَّاودِيّ فِي الْمُبَاح. وَأما الْأَخْذ من غير مَسْأَلَة وَلَا إشراف نفس فَلَا بَأْس بِهِ. (عیني) یعنی سوال کی تین قسمیں ہیں۔ حرام‘ مکروہ اور مباح۔ حرام تو اس کے لیے جو مالدار ہونے کے باوجود زکوٰۃ میں سے مانگے اور خواہ مخواہ اپنے کو محتاج ظاہر کرے۔ مکروہ اس کے لیے جس کے پاس وہ چیز موجود ہے جسے وہ اور سے مانگ رہا ہے، وہ یہ نہیں سوچتا کہ یہ چیز تو میرے پاس موجود ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہ اپنے آپ کو محتاج بھی ظاہر نہیں کرتا پھر سوال کررہا ہے۔ اور مباح اس کے لیے ہے جو حقیقی حاجت کے وقت اپنے کسی خاص دوست یا رشتہ دار سے سوال کرے۔ بعض مرتبہ سخت ترین ضرورت کے تحت جہاں موت وزندگی کا سوال آجائے سوال کرنا بھی ضروری ہوجاتا ہے اور بغیر سوال کئے اور تانکے جھانکے کوئی چیز از خود مل جائے تو اس کے لینے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ غیر مستحقین سائلین کی سزا کے بیان کے ساتھ اس حدیث میں آنحضرت ﷺ کی شفاعت کبریٰ کا بھی بیان کیا گیا ہے جو قیامت میں آپ کو حاصل ہوگی۔ جہاں کسی بھی نبی ورسول کو مجال کلام نہ ہوگا وہاں آپ ﷺ نوع انسان کے لیے شافع اور مشفع بن کر تشریف لائیں گے۔ اللهم ارزقنا شفاعة حبیبك صلی اللہ علیه وسلم یوم القیامة۔ آمین
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
The Prophet (ﷺ) added, "On the Day of Resurrection, the Sun will come near (to, the people) to such an extent that the sweat will reach up to the middle of the ears, so, when all the people are in that state, they will ask Adam for help, and then Moses (ؑ), and then Muhammad ( (ﷺ) ) ." The sub-narrator added "Muhammad will intercede with Allah to judge amongst the people. He will proceed on till he will hold the ring of the door (of Paradise) and then Allah will exalt him to Maqam Mahmud (the privilege of intercession, etc.). And all the people of the gathering will send their praises to Allah.