Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: Estimating the date-fruits on the palms for Zakat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1481.
حضرت ابو حمید ساعدی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:ہم غزوہ تبوک میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھے، جب آپ وادی قرُیٰ میں تشریف لائے تو دیکھا کہ ایک عورت ا پنے باغ میں ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے فرمایا:’’اندازہ کروکہ اس میں کتنی کھجوریں ہوں گی۔‘‘ خود رسول اللہ ﷺ نے اس کا دس وسق اندازہ لگایا، پھر اس عورت سے فرمایا:’’جتنی کھجوریں پیدا ہوں ان کو وزن کرلینا۔‘‘ پھر جب ہم تبوک پہنچے تو آپ نے فرمایا:’’آج رات سخت آندھی آئے گی، اس لیے آج رات کوئی نہ اٹھے اور جس کے پاس اونٹ ہوا سے بھی باندھ دے۔‘‘ چنانچہ ہم لوگوں نے اونٹوں کو باندھ دیا، پھر سخت آندھی ہوئی، اتفاق سے ایک شخص کھڑا ہوا تو اسے(تیز ہوانے) طے نامی پہاڑ پر پھینک دیا۔ اسی جہاد میں ایلہ کے بادشاہ نے نبی کریم ﷺ کے لیے ایک سفید خچر اور اوڑھنے کے لیے ایک چادر بھیجی، آپﷺ نے اس کے علاقے کی حکومت اسکے نام لکھ دی، پھر جب آپ وادی قرُیٰ لوٹ کر آئے تو آپ نے اس عورت سے پوچھا:’’تمہارے باغ میں کھجوروں کی کتنی پیداوار رہی؟‘‘ اس نے عرض کیا:دس وسق جتنا کہ رسول اللہ ﷺ نے اندازہ لگایا تھا، پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’میں مدینہ منورہ جلدی جانا چاہتا ہوں، لہذا تم میں سے جو شخص میرے ساتھ جلدی جانا چاہتا ہے وہ جلدی تیار ہوجائے۔‘‘ جب آپ کو مدینہ نظر آنے لگا۔ ابن بکار نے اس مفہوم کاکلمہ بولا۔ تو فرمایا:’’یہ طابہ ہے۔‘‘ اور جب آپ نے احد کو دیکھا توفرمایا:’’یہ چھوٹا پہاڑ ہے جو ہم کو دوست رکھتا ہے۔ اور ہم اسے دوست رکھتے ہیں۔ کیا میں تمھیں بتاؤں کہ انصار میں کس کا گھرانہ بہترین ہے؟‘‘ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کیا:جی ہاں! آپ نےفرمایا:’’قبیلہ بنو نجار کا گھرانہ، اس کے بعد بنواشہل پھر بنو ساعدہ کےگھرانے یا بنو حارث بن خزرج کے گھرانے، ویسے تو انصار کے تمام گھرانوں میں خیر اوربھلائی ہے۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1443
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1481
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1481
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1481
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
حضرت ابو حمید ساعدی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:ہم غزوہ تبوک میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھے، جب آپ وادی قرُیٰ میں تشریف لائے تو دیکھا کہ ایک عورت ا پنے باغ میں ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے فرمایا:’’اندازہ کروکہ اس میں کتنی کھجوریں ہوں گی۔‘‘ خود رسول اللہ ﷺ نے اس کا دس وسق اندازہ لگایا، پھر اس عورت سے فرمایا:’’جتنی کھجوریں پیدا ہوں ان کو وزن کرلینا۔‘‘ پھر جب ہم تبوک پہنچے تو آپ نے فرمایا:’’آج رات سخت آندھی آئے گی، اس لیے آج رات کوئی نہ اٹھے اور جس کے پاس اونٹ ہوا سے بھی باندھ دے۔‘‘ چنانچہ ہم لوگوں نے اونٹوں کو باندھ دیا، پھر سخت آندھی ہوئی، اتفاق سے ایک شخص کھڑا ہوا تو اسے(تیز ہوانے) طے نامی پہاڑ پر پھینک دیا۔ اسی جہاد میں ایلہ کے بادشاہ نے نبی کریم ﷺ کے لیے ایک سفید خچر اور اوڑھنے کے لیے ایک چادر بھیجی، آپﷺ نے اس کے علاقے کی حکومت اسکے نام لکھ دی، پھر جب آپ وادی قرُیٰ لوٹ کر آئے تو آپ نے اس عورت سے پوچھا:’’تمہارے باغ میں کھجوروں کی کتنی پیداوار رہی؟‘‘ اس نے عرض کیا:دس وسق جتنا کہ رسول اللہ ﷺ نے اندازہ لگایا تھا، پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’میں مدینہ منورہ جلدی جانا چاہتا ہوں، لہذا تم میں سے جو شخص میرے ساتھ جلدی جانا چاہتا ہے وہ جلدی تیار ہوجائے۔‘‘ جب آپ کو مدینہ نظر آنے لگا۔ ابن بکار نے اس مفہوم کاکلمہ بولا۔ تو فرمایا:’’یہ طابہ ہے۔‘‘ اور جب آپ نے احد کو دیکھا توفرمایا:’’یہ چھوٹا پہاڑ ہے جو ہم کو دوست رکھتا ہے۔ اور ہم اسے دوست رکھتے ہیں۔ کیا میں تمھیں بتاؤں کہ انصار میں کس کا گھرانہ بہترین ہے؟‘‘ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کیا:جی ہاں! آپ نےفرمایا:’’قبیلہ بنو نجار کا گھرانہ، اس کے بعد بنواشہل پھر بنو ساعدہ کےگھرانے یا بنو حارث بن خزرج کے گھرانے، ویسے تو انصار کے تمام گھرانوں میں خیر اوربھلائی ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سہل بن بکار نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے ‘ ان سے عمروبن یحیٰی نے ‘ ان سے عباس بن سہل ساعدی نے ‘ ان سے ابوحمید ساعدی ؓ نے بیان کیا کہ ہم غزوئہ تبوک کے لیے نبی کریم ﷺ کے ساتھ جارہے تھے۔ جب آپ وادی قریٰ ( مدینہ منورہ اور شام کے درمیان ایک قدیم آبادی ) سے گزرے تو ہماری نظر ایک عورت پر پڑی جو اپنے باغ میں کھڑی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا کہ اس کے پھلوں کا اندازہ لگاؤ ( کہ اس میں کتنی کھجور نکلے گی ) حضور اکرم ﷺ نے دس وسق کا اندازہ لگایا۔ پھر اس عورت سے فرمایا کہ یاد رکھنا اس میں سے جتنی کھجور نکلے۔ جب ہم تبوک پہنچے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ آج رات بڑے زور کی آندھی چلے گی اس لیے کوئی شخص کھڑا نہ رہے۔ اور جس کے پاس اونٹ ہوں تو وہ اسے باندھ دیں۔ چنانچہ ہم نے اونٹ باندھ لیے۔ اور آندھی بڑے زور کی آئی۔ ایک شخص کھڑا ہوا تھا۔ تو ہوا نے اسے جبل طے پر جا پھینکا۔ اور ایلہ کے حاکم ( یوحنا بن روبہ ) نے نبی کریم ﷺ کو سفید خچر اور ایک چادر کا تحفہ بھیجا۔ آںحضور ﷺ نے تحریری طورپر اسے اس کی حکومت پر برقرار رکھا، پھر جب وادی قریٰ ( واپسی میں ) پہنچے تو آپ نے اسی عورت سے پوچھا کہ تمہارے باغ میں کتنا پھل آیا تھا اس نے کہا کہ آپ ﷺ کے اندازہ کے مطابق دس وسق آیا تھا۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں مدینہ جلد جانا چاہتا ہوں۔ اس لیے جو کوئی میرے ساتھ جلدی چلنا چاہے وہ میرے ساتھ جلد روانہ ہو پھر جب ( ابن بکار امام بخاری ؓ کے شیخ نے ایک ایسا جملہ کہا جس کے معنے یہ تھے ) کہ مدینہ دکھائی دینے لگا تو آپ نے فرمایا کہ یہ ہے طابہ! پھر آپ نے احد پہاڑ دیکھا تو فرمایا کہ یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم بھی اس سے محبت رکھتے ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا کیا میں انصار کے سب سے اچھے خاندان کی نشاندہی نہ کروں؟ صحابہ نے عرض کی کہ ضرور کیجئے۔ آپ نے فرمایا کہ بنو نجار کا خاندان۔ پھر بنو عبدالاشہل کا خاندان، پھر بنو ساعدہ کایا ( یہ فرمایا کہ ) بنی حارث بن خزرج کا خاندان۔ اور فرمایا کہ انصار کے تمام ہی خاندانوں میں خیر ہے ‘ ابو عبداللہ ( قاسم بن سلام ) نے کہا کہ جس باغ کی چہار دیواری ہو اسے حدیقہ کہیں گے۔ اور جس کی چہار دیواری نہ ہو اسے حدیقہ نہیں کہیں گے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Humaid As-Sa'idi We took part in the holy battle of Tabuk in the company of the Prophet (ﷺ) and when we arrived at the Wadi-al-Qura, there was a woman in her garden. The Prophet (ﷺ) asked his companions to estimate the amount of the fruits in the garden, and Allah's Apostle (ﷺ) estimated it at ten Awsuq (One Wasaq = 6O Sa's) and 1 Sa'= 3 kg. approximately). The Prophet (ﷺ) said to that lady, "Check what your garden will yield." When we reached Tabuk, the Prophet (ﷺ) said, "There will be a strong wind to-night and so no one should stand and whoever has a camel, should fasten it." So we fastened our camels. A strong wind blew at night and a man stood up and he was blown away to a mountain called Taiy, The King of Aila sent a white mule and a sheet for wearing to the Prophet (ﷺ) as a present, and wrote to the Prophet (ﷺ) that his people would stay in their place (and will pay Jizya taxation.) (1) When the Prophet (ﷺ) reached Wadi-al-Qura he asked that woman how much her garden had yielded. She said, "Ten Awsuq," and that was what Allah's Apostle (ﷺ) had estimated. Then the Prophet (ﷺ) said, "I want to reach Madinah quickly, and whoever among you wants to accompany me, should hurry up." The sub-narrator Ibn Bakkar said something which meant: When the Prophet (ﷺ) saw Madinah he said, "This is Taba." And when he saw the mountain of Uhud, he said, "This mountain loves us and we love it. Shall I tell you of the best amongst the Ansar?" They replied in the affirmative. He said, "The family of Bani-n-Najjar, and then the family of Bani Sa'ida or Bani Al-Harith bin Al-Khazraj. (The above-mentioned are the best) but there is goodness in all the families of Ansar." ________