Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: Sadaqat-ul-Fitr on a slave as well as on a free Muslim)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ور زہری نے کہا جو غلام لونڈی سوداگری کامال ہوں تو ان کی سالانہ زکوٰۃ بھی دی جائے گی اور ان کی طرف سے صدقہ فطر بھی ادا کیا جائے
1511.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے ہر مذکر، مؤنث، آزاد اور غلام پر صدقہ فطر یا صدقہ رمضان ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو مقرر کیا ہے، پھر لوگوں نے نصف صاع گندم اس کے مساوی قراردے لیا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ فطرانہ کھجوروں سے دیا کرتے تھے، ایک دفعہ اہل مدینہ کھجوریں نہ حاصل کر سکے تو آپ نے بطور فطرانہ اداکیے۔ راوی کہتا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ ہر چھوٹے بڑے حتی کہ میرے بیٹوں کی طرف سے فطرانہ ادا کرتے تھے۔ اور آپ فطرانہ ان لوگوں کو دیتے تھے جو صدقہ وصول کرنے پرتعینات تھے، لوگ انھیں عید الفطرسے ایک یا دودن پہلے فطرانہ دے دیتے تھے۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا اس عنوان سے مقصود یہ ہے کہ غلام اگر تجارت کے لیے ہوں تو مسلمان اور کافر کی تمیز کیے بغیر ان کی مالیت پر زکاۃ واجب ہے۔ اور اگر تجارت کے لیے نہیں ہیں تو ان کا فطرانہ ادا کیا جائے لیکن صرف ان غلاموں کا جو مسلمان ہیں۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صدقہ فطر اس جنس سے ادا کیا جائے جو سال کے اکثر حصے میں بطور خوراک استعمال ہوتی ہے، اس سے بہتر جنس بھی بطور فطرانہ دی جا سکتی ہے، البتہ اس سے کمتر کو بطور فطرانہ دینا درست نہیں۔ لیکن حضرت ابن عمر ؓ میں اتباع سنت کا جذبہ موجزن تھا، چنانچہ ابو مجلز ؒ کہتے ہیں: میں نے ایک دفعہ ان سے کہا: اللہ تعالیٰ نے اب فراخی کر دی ہے اور گندم کھجور سے بڑھ کر ہے، لہذا آپ کھجور کے بجائے گندم سے صدقہ فطر ادا کریں تو انہوں نے فرمایا: صدقہ فطر کی ادائیگی میں جو راستہ میرے ساتھیوں نے اختیار کیا تھا میں بھی اس پر چلنا پسند کرتا ہوں۔ (فتح الباري:474/3) (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صدقہ فطر ایک دو دن پہلے بھی دیا جا سکتا ہے۔ ہمارے نزدیک صدقہ فطر کا مقصد ’’مساکین کی خوراک‘‘ ٹھہرایا گیا ہے جس کی وضاحت حدیث میں ہے۔ (سنن أبي داود، الزکاة، حدیث:1609) اس بنا پر اشیائے خوردنی ہی فطرانے میں دی جائیں، قیمت وغیرہ ادا کرنا محل نظر ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1472
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1511
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1511
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1511
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
تمہید باب
اس کا مطلب یہ ہے کہ تجارت کے غلاموں میں سے دونوں قسم کی زکاۃ ادا کی جائے۔ زکاۃ اموال، یعنی سال کے آخر میں ان کی قیمت لگا کر مجموعی مالیت پر چالیسواں حصہ نکالا جائے، اور زکاۃ ابدان، یعنی ان کی طرف سے فطرانہ بھی ادا کیا جائے۔ امام زہری رحمہ اللہ کے اس اثر کو ابن منذر نے اپنی کتاب "الکبیر" میں موصولا بیان کیا ہے، البتہ ابو عبید نے کتاب الاموال میں امام زہری سے بیان کیا ہے کہ مملوک پر زکاۃ نہیں، اس کا مالک صرف فطرانہ ادا کرے گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی روایت کے مطابق جمہور کا بھی یہی موقف ہے۔ (فتح الباری:3/473)
ور زہری نے کہا جو غلام لونڈی سوداگری کامال ہوں تو ان کی سالانہ زکوٰۃ بھی دی جائے گی اور ان کی طرف سے صدقہ فطر بھی ادا کیا جائے
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے ہر مذکر، مؤنث، آزاد اور غلام پر صدقہ فطر یا صدقہ رمضان ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو مقرر کیا ہے، پھر لوگوں نے نصف صاع گندم اس کے مساوی قراردے لیا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ فطرانہ کھجوروں سے دیا کرتے تھے، ایک دفعہ اہل مدینہ کھجوریں نہ حاصل کر سکے تو آپ نے بطور فطرانہ اداکیے۔ راوی کہتا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ ہر چھوٹے بڑے حتی کہ میرے بیٹوں کی طرف سے فطرانہ ادا کرتے تھے۔ اور آپ فطرانہ ان لوگوں کو دیتے تھے جو صدقہ وصول کرنے پرتعینات تھے، لوگ انھیں عید الفطرسے ایک یا دودن پہلے فطرانہ دے دیتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ کا اس عنوان سے مقصود یہ ہے کہ غلام اگر تجارت کے لیے ہوں تو مسلمان اور کافر کی تمیز کیے بغیر ان کی مالیت پر زکاۃ واجب ہے۔ اور اگر تجارت کے لیے نہیں ہیں تو ان کا فطرانہ ادا کیا جائے لیکن صرف ان غلاموں کا جو مسلمان ہیں۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صدقہ فطر اس جنس سے ادا کیا جائے جو سال کے اکثر حصے میں بطور خوراک استعمال ہوتی ہے، اس سے بہتر جنس بھی بطور فطرانہ دی جا سکتی ہے، البتہ اس سے کمتر کو بطور فطرانہ دینا درست نہیں۔ لیکن حضرت ابن عمر ؓ میں اتباع سنت کا جذبہ موجزن تھا، چنانچہ ابو مجلز ؒ کہتے ہیں: میں نے ایک دفعہ ان سے کہا: اللہ تعالیٰ نے اب فراخی کر دی ہے اور گندم کھجور سے بڑھ کر ہے، لہذا آپ کھجور کے بجائے گندم سے صدقہ فطر ادا کریں تو انہوں نے فرمایا: صدقہ فطر کی ادائیگی میں جو راستہ میرے ساتھیوں نے اختیار کیا تھا میں بھی اس پر چلنا پسند کرتا ہوں۔ (فتح الباري:474/3) (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صدقہ فطر ایک دو دن پہلے بھی دیا جا سکتا ہے۔ ہمارے نزدیک صدقہ فطر کا مقصد ’’مساکین کی خوراک‘‘ ٹھہرایا گیا ہے جس کی وضاحت حدیث میں ہے۔ (سنن أبي داود، الزکاة، حدیث:1609) اس بنا پر اشیائے خوردنی ہی فطرانے میں دی جائیں، قیمت وغیرہ ادا کرنا محل نظر ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
امام زہری نے تجارتی غلاموں کے متعلق فرمایا کہ تجارت کی وجہ سے ان کی زکاۃ دی جائے اور ان کا فطرانہ بھی ادا کیا جائے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ انہو ںنے کہا کہ ہم سے ایوب نے بیان کیا ‘ ان سے نافع نے بیان کیا اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے صدقہ فطر یا یہ کہا کہ صدقہ رمضان مرد، عورت، آزاد اور غلام ( سب پر ) ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو فرض قرار دیا تھا۔ پھر لوگوں نے آدھا صاع گیہوں اس کے برابر قرار دے لیا۔ لیکن ابن عمر ؓ کھجور دیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ مدینہ میں کھجور کا قحط پڑا تو آپ نے جو صدقہ میں نکالا۔ ابن عمر ؓ چھوٹے بڑے سب کی طرف سے یہاں تک کہ میرے بیٹوں کی طرف سے بھی صدقہ فطر نکالتے تھے۔ ابن عمر ؓ صدقہ فطر ہر فقیر کو جو اسے قبول کرتا، دے دیا کرتے تھے۔ اور لوگ صدقہ فطر ایک یا دو دن پہلے ہی دے دیا کرتے تھے۔ امام بخاری ؓ نے کہا میرے بیٹوں سے نافع کے بیٹے مراد ہیں۔ امام بخاری نے کہا وہ عید سے پہلے جو صدقہ دے دیتے تھے تو اکٹھا ہونے کے لیے نہ فقیروں کے لیے ( پھر وہ جمع کرکے فقرا میں تقسیم کردیا جاتا )
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Nafi': Ibn 'Umar (RA) said, "The Prophet (ﷺ) made incumbent on every male or female, free man or slave, the payment of one Sa' of dates or barley as Sadaqat-ul-Fitr (or said Sadaqa-Ramadan)." The people then substituted half Sa' of wheat for that. Ibn 'Umar (RA) used to give dates (as Sadaqat-ulFitr). Once there was scarcity of dates in Madinah and Ibn 'Umar (RA) gave barley. 'And Ibn 'Umar (RA) used to give Sadaqat-ul-Fitr for every young and old person. He even used to give on behalf of my children. Ibn 'Umar (RA) used to give Sadaqatul-Fitr to those who had been officially appointed for its collection. People used to give Sadaqat-ul-Fitr (even) a day or two before the 'Id. ________