Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: It is obligatory to perform Hajj)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ پاک نے (سورۃ آل عمران میں) فرمایا لوگوں پر فرض ہے کہ اللہ کے لیے خانہ کعبہ کا حج کریں جس کو وہاں تک راہ مل سکے۔ اور جو نہ مانے (اور باوجود قدرت کے حج کو نہ جائے) تو اللہ سارے جہاں سے بےنیاز ہے۔
1513.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ایک دفعہ حضرت فضل بن عباس ؓ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں قبیلہ خثعم کی ایک عورت آئی تو حضرت فضل اس کی طرف دیکھنےلگے۔ تب نبی ﷺ نے فضل کا منہ دوسری طرف پھیردیا، چنانچہ اس عورت نے دریافت کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !اللہ تعالیٰ کا فریضہ حج جو اس کے بندوں پر عائد ہے، اس نے میرے بوڑھے باپ کو پالیا ہے مگر وہ سواری پر نہیں بیٹھ سکتا، تو کیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟آپ نے فرمایا: ’’ہاں!‘‘ یہ واقعہ حجۃ الوداع میں پیش آیا تھا۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے وجوب حج اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ قبیلۂ خثعم کی عورت نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا فریضۂ حج جو اس کے بندوں پر عائد ہے، رسول اللہ ﷺ اس پر خاموش رہے، گویا اسے فرضیت حج بیان کرنے پر رسول اللہ ﷺ کی تائید حاصل ہے۔ فضیلت اس طرح ثابت ہوتی ہے کہ اسے ادا کرنے میں نیابت طلب کی گئی ہے، نیز عذر کے وقت بھی یہ حکم ہے کہ حج ساقط نہیں ہوگا بلکہ معذور کو چاہیے کہ وہ اپنا نائب مقرر کرکے حج بدل کرائے۔ (2) فضیلت حج کے لیے کئی ایک احادیث مروی ہیں:حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’حج مبرور کا بدلہ جنت کے سوا اور کچھ نہیں۔‘‘(صحیح البخاري، الحج، حدیث:1773) حج مبرور وہ ہوتا ہے جس میں کسی گناہ کا ارتکاب نہ کیا گیا ہو۔ حضرت ابو ہریره ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جس نے حج کیا اور اس میں اپنی بیوی کے پاس نہ گیا اور نہ ہی اس نے کوئی فسق وفجور کا کام کیا تو وہ اپنے گناہوں سے پاک صاف ہوکر اس دن کی طرح واپس ہوگا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔‘‘(صحیح البخاري، الحج، حدیث:1521) (3)واضح رہے کہ حج نو ہجری کے آخر میں فرض ہواتھا لیکن رسول اللہ ﷺ نے آئندہ سال دس ہجری میں ادا فرمایا۔ (4) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی معذور کی طرف سے حج کرنا جائز ہے جسے حج بدل کہا جاتا ہے بشرطیکہ حج بدل کرنے والا پہلے اپنا حج کرچکا ہو۔ اور حج بدل کسی کے مرنے کے بعد بھی اس کی طرف سے کرنا جائز ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1474
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1513
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1513
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1513
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
اس آیتِ کریمہ سے حج کا وجوب ثابت ہوتا ہے اور مَن كَفَرَ کے الفاظ سے وجوب کی تاکید اور اس کے تارک کے لیے وعید کا پتہ چلتا ہے۔فرضیت کی چند ایک شرائط حسب ذیل ہیں:٭حج کرنے والا مسلمان، بالغ اور عاقل ہو۔٭راستہ پر امن ہو، کسی قسم کا خطرہ نہ ہو۔٭سفر کے اخراجات موجود ہوں۔٭عورت کے لیے ضروری ہے کہ اس کے ساتھ محرم بھی ہو۔ان شرائط کی موجودگی میں صرف ایک مرتبہ حج کرنا فرض ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لوگو! اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے،لہٰذا تم حج کرو۔"ایک آدمی نے عرض کی: اللہ کے رسول !کیا ہر سال فرض ہے؟آپ خاموش رہے حتی کہ اس نے تیسری مرتبہ یہ سوال دہرایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال واجب ہوجاتا،پھر تم اسے بجالانے کی طاقت نہ رکھتے۔"( صحیح مسلم،الحج،حدیث:3257(1337)) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک مرفوع روایت ہے کہ حج ایک مرتبہ تو فرض ہے اور جس نے زیادہ کیا تو وہ نفلی ہے۔(سنن ابی داؤد،المناسک،حدیث:1721)اس آیت کریمہ سے حج کی فضیلت بھی ثابت ہو تی ہے کیونکہ ترک حج کو کفر سے تعبیر کیا گیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اس کی ادائیگی علامتِ ایمان ہے،نیز وجوب، فضیلت کو لازم ہوتا ہے۔والله اعلم
اور اللہ پاک نے (سورۃ آل عمران میں) فرمایا لوگوں پر فرض ہے کہ اللہ کے لیے خانہ کعبہ کا حج کریں جس کو وہاں تک راہ مل سکے۔ اور جو نہ مانے (اور باوجود قدرت کے حج کو نہ جائے) تو اللہ سارے جہاں سے بےنیاز ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ایک دفعہ حضرت فضل بن عباس ؓ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں قبیلہ خثعم کی ایک عورت آئی تو حضرت فضل اس کی طرف دیکھنےلگے۔ تب نبی ﷺ نے فضل کا منہ دوسری طرف پھیردیا، چنانچہ اس عورت نے دریافت کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !اللہ تعالیٰ کا فریضہ حج جو اس کے بندوں پر عائد ہے، اس نے میرے بوڑھے باپ کو پالیا ہے مگر وہ سواری پر نہیں بیٹھ سکتا، تو کیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟آپ نے فرمایا: ’’ہاں!‘‘ یہ واقعہ حجۃ الوداع میں پیش آیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے وجوب حج اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ قبیلۂ خثعم کی عورت نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا فریضۂ حج جو اس کے بندوں پر عائد ہے، رسول اللہ ﷺ اس پر خاموش رہے، گویا اسے فرضیت حج بیان کرنے پر رسول اللہ ﷺ کی تائید حاصل ہے۔ فضیلت اس طرح ثابت ہوتی ہے کہ اسے ادا کرنے میں نیابت طلب کی گئی ہے، نیز عذر کے وقت بھی یہ حکم ہے کہ حج ساقط نہیں ہوگا بلکہ معذور کو چاہیے کہ وہ اپنا نائب مقرر کرکے حج بدل کرائے۔ (2) فضیلت حج کے لیے کئی ایک احادیث مروی ہیں:حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’حج مبرور کا بدلہ جنت کے سوا اور کچھ نہیں۔‘‘(صحیح البخاري، الحج، حدیث:1773) حج مبرور وہ ہوتا ہے جس میں کسی گناہ کا ارتکاب نہ کیا گیا ہو۔ حضرت ابو ہریره ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جس نے حج کیا اور اس میں اپنی بیوی کے پاس نہ گیا اور نہ ہی اس نے کوئی فسق وفجور کا کام کیا تو وہ اپنے گناہوں سے پاک صاف ہوکر اس دن کی طرح واپس ہوگا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔‘‘(صحیح البخاري، الحج، حدیث:1521) (3)واضح رہے کہ حج نو ہجری کے آخر میں فرض ہواتھا لیکن رسول اللہ ﷺ نے آئندہ سال دس ہجری میں ادا فرمایا۔ (4) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی معذور کی طرف سے حج کرنا جائز ہے جسے حج بدل کہا جاتا ہے بشرطیکہ حج بدل کرنے والا پہلے اپنا حج کرچکا ہو۔ اور حج بدل کسی کے مرنے کے بعد بھی اس کی طرف سے کرنا جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس (گھر) تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے اور جو نہ مانے تو اللہ تعالیٰ تمام اہل جہاں سے بے نیاز ہے۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی انھیں ابن شہاب نے، انہیں سلیمان بن یسارنے، اور ان سے عبد اللہ بن عباس ؓ نے بیان کیا کہ فضل بن عباس ( حجۃ الوداع میں ) رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سواری کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے کہ قبیلہ خثعم کی ایک خوبصورت عورت آئی۔ فضل اس کو دیکھنے لگے وہ بھی انہیں دیکھ رہی تھی۔ لیکن رسول اللہ ﷺ فضل ؓ کا چہرہ بار بار دوسری طرف موڑ دیناچاہتے تھے۔ اس عورت نے کہا یا رسول اللہ ! اللہ کا فریضہ حج میرے والد کے لئے ادا کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ لیکن وہ بہت بوڑھے ہیں اونٹنی پر بیٹھ نہیں سکتے۔ کیا میں ان کی طرف سے حج ( بدل ) کرسکتی ہوں؟ آںحضور ﷺ نے فرمایا کہ ہاں۔ یہ حجتہ الوداع کا واقعہ تھا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے یہ نکلا کہ نیابتا دو سرے کی طرف سے حج کرنا درست ہے۔ مگر وہ شخص دوسرے کی طرف سے حج کرسکتاہے جو اپنا فرض حج ادا کرچکا ہوا۔ اور حنفیہ کے نزدیک مطلقاً درست ہے اور ان کے مذہب کو وہ حدیث رد کرتی ہے جس کو ابن خزیمہ اور اصحاب سنن نے ابن عباس ؓ سے نکالا کہ آنحضرت ﷺ نے ایک شخص کو شبرمہ کی طرف سے لبیک پکار تے ہوئے سنا، فرمایا کہ تو اپنی طرف سے حج کرچکا ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا تو پہلے اپنی طرف حج کر پھر شبرمہ کی طرف سے کرلو۔ اسی طرح کسی شخص کے مرجانے کے بعد بھی اس کی طرف حج درست ہے۔ بشرطیکہ وہ وصیت کر گیا ہو۔ اور بعضوں نے ماں باپ کی طرف سے بلا وصیت بھی حج درست رکھا ہے۔ (وحیدی) حج کی ایک قسم حج بدل بھی ہے۔ جو کسی معذور یا متوفی کی طرف سے نیابتا کیا جاتا ہے۔ اس کی نیت کرتے وقت لبیک کے ساتھ جس کی طرف سے حج کے لئے آیا ہے اس کا نام لینا چاہئے۔ مثلاً ایک شخص زید کی طرف سے حج کے لئے گیا تو وہ یوں پکارے لَبَّیكَ عَن زَیدٍ نِیَابَة کسی معذور زندے کی طرف سے حج کرنا جائز ہے۔ اسی طرح کسی مرے ہوئے کی طرف سے بھی حج بدل کرایا جاسکتا ہے۔ ایک صحابی نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا تھا کہ ميرا باپ بہت ہی بوڑھا ہوگیا ہے۔ وہ سواری پر بھی چلنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ آپ اجازت دیں تو میں ان کی طرف سے حج اداکرلوں۔ آپ نے فرمایا۔ ہاں کرلو (ابن ماجہ) مگر اس کے لئے یہ ضر وری ہے کہ جس شخص سے حج بدل کرایا جائے وہ پہلے خود اپنا حج ادا کرچکا ہو۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث سے ظاہر ہے۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ رَجُلًا يَقُولُ: لَبَّيْكَ، عَنْ شُبْرُمَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ شُبْرُمَةُ» قَالَ: قَرِيبٌ لِي، قَالَ: «هَلْ حَجَجْتَ قَطُّ؟» قَالَ: لَا، قَالَ: «فَاجْعَلْ هَذِهِ عَنْ نَفْسِكَ، ثُمَّ احْجُجْ عَنْ شُبْرُمَةَ» رواہ ابن ماجةیعنی ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ایک شخص کو سنا وہ لبیک پکارتے وقت کسی شخص شبرمہ نامی کی طرف سے لبیک پکاررہا ہے ہے۔ آپ نے دریافت کیا کہ بھئی یہ شبرمہ کون ہے؟ اس نے کہا کہ شبرمہ میرا ایک قریبی ہے۔ آپ نے پوچھا تو نے کبھی اپنا حج ادا کیا ہے۔ اس نے کہا نہیں۔آپ نے فرمایا، اپنے نفس کی طرف سے حج ادا کر پھر شبرمہ کی طرف سے کرنا۔ اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ حج بدل وہی شخص کرسکتا ہے جوپہلے اپنا حج کرچکا ہو۔ بہت سے ائمہ اور امام شافعی ؒ وامام احمد ؒ کا یہی مذہب ہے۔ لمعات میں ملاعلی قاری مرحوم لکھتے ہیں:الأمر یدل بظاهر علی أن النیابة إنما یجوز بعد أداء فرض الحج وإلیه ذهب جماعة من الأئمة والشافعي وأحمد۔ یعنی امر نبوی بظاہر اس بات پر دلالت کرتا ہے نیابت اسی کے لئے جائز ہے جو اپنا فرض ادا کرچکا ہو۔ علامہ شوکانی ؒ نے اپنی مایہ ناز کتاب نیل الاوطار میں یہ باب منعقد کیا ہے۔ باب من حج عن غیرہ ولم یکن حج عن نفسه۔یعنی جس شخص نے اپنا حج نہیں کیا وہ غیر کا حج بدل کرسکتا ہے یا نہیں۔ اس پر آپ حدیث بالا شبرمہ والی لائے ہیں۔ اور اس پر فیصلہ دیا ہے: و لیس في هذا الباب أصح منه۔یعنی حدیث شبرمہ سے زیادہ اس باب میں اور کوئی صحیح حدیث اور وارد نہیں ہوئی ہے۔ پھر فرماتے ہیں:وظاهر الحدیث أنه لا یجوز لمن یحج عن نفسه أن یحج عن غیرہ وسواء کان مستطیعا أوغیر مستطیع لأن النبي صلی اللہ علیه وسلم لم یستفصل هذا للرجل الذي سمعه یلبي عن شبرمة وهو ینزل منزلة العموم والیٰ ذلك ذهب الشافعي والناصر۔(جزء رابع نیل الأوطارص173 ؤ)یعنی اس حدیث ظاہر ہے کہ جس شخص نے اپنے نفس کی طرف سے پہلے حج نہ کیا ہو وہ حج بدل کسی دوسرے کی طرف سے نہیں کرسکتا۔ خواہ وہ اپنا حج کرنے کی طاقت رکھنے والا ہو یا طاقت نہ رکھنے والا ہو۔ اس لئے کہ نبی ﷺ نے جس شخص کو شبرمہ کی طرف سے لبیک پکارتے ہوئے سنا تھا اس سے آپ نے یہ تفصیل دریافت نہیں کی۔ پس یہ بمنزلہ عموم ہے اور امام شافعی ؒ وناصر ؒ کا یہی مذہب ہے۔ پس حج بدل کرنے اور کرانے والوں کو سوچ سمجھ لینا چاہئے۔ امر ضروری یہی ہے کہ حج بدل کے لئے ایسے آدمی کو تلاش کیا جائے جو اپنا حج ادا کرچکا ہوتا کہ بلاشک وشبہ ادائیگی فریضہ حج ہوسکے۔ اگرکسی بغیرحج کئے ہوئے کو بھیج دیا تو حدیث بالا کے خلاف ہو گا۔ نیز حج کی قبولیت اور ادائیگی میں پورا پورا تردد بھی باقی رہے گا۔ عقل مند ایسا کام کیوں کرے جس میں کافی روپیہ خرچ ہو اور قبولیت میں تردد وشک وشبہ ہاتھ آئے
چرا کارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah bin Abbas (RA): Al-Fadl (his brother) was riding behind Allah's Apostle (ﷺ) and a woman from the tribe of Khath'am came and Al-Fadl started looking at her and she started looking at him. The Prophet (ﷺ) turned Al-Fadl's face to the other side. The woman said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! The obligation of Hajj enjoined by Allah on His devotees has become due on my father and he is old and weak, and he cannot sit firm on the Mount; may I perform Hajj on his behalf?" The Prophet (ﷺ) replied, "Yes, you may." That happened during the Hajj-al-Wida (of the Prophet (ﷺ) ). ________