Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: To go for Hajj on a pack-saddle (of a camel))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1517.
حضرت ثمامہ بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، کہ حضرت انس ؓ نے پالان پر سوار ہو کر حج کیا، حالانکہ آپ بخیل نہیں تھے۔ اور انھوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے بھی پالان پر سوار ہو کر حج کیا تھا اور اسی اونٹنی پر آپ کا سازو سامان لداہواتھا۔
تشریح:
(1) اس حدیث مین بھی سفر حج کی سادگی کا بیان ہے کہ حضرت انس ؓ الله کے فضل سے صاحب ثروت تھے اور بخل وکنجوسی سے کوسوں دور رہتے تھے۔ انھوں نے سفر حج کے لیے آرام دہ سواری کا اہتمام نہیں کیا بلکہ سادہ سواری پر سادہ پالان رکھا، اس پر حج مکمل کیا، پھر انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے سفر حج کا حوالہ دیا کہ آپ نے اسی انداز سے حج کیا تھا، اور جس اونٹنی پر سوار تھے اسی پر سفر خرچ اور زادِراہ لادا ہواتھا، اس کے لیے کسی الگ سواری کا اہتمام نہیں کیا۔ (2) لفظ زاملہ ایسے اونٹ پر بولا جاتا ہے جو حالتِ سفر سامان واسباب اور کھانے پینے کی اشیاء اٹھانے کے لیے استعمال ہو۔ حضرت انس ؓ کا مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ سفر اس قدر سادگی سے کیا کہ ایک ہی اونٹ پر سواری کی اور اسی پر اپنا سامان وغیرہ لادلیا، اس کے لیے الگ اونٹ کا اہتمام نہیں کیا۔ حضرت عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ اس وقت لوگ سفر حج پر روانہ ہوتے تو اسی سواری پر اپنا سامان وغیرہ لاد لیتے تھے، حضرت عثمان ؓ نے سامان کے لیے اونٹ کا اہتمام کیا۔(فتح الباري:480/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1478
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1517
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1517
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1517
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت ثمامہ بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، کہ حضرت انس ؓ نے پالان پر سوار ہو کر حج کیا، حالانکہ آپ بخیل نہیں تھے۔ اور انھوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے بھی پالان پر سوار ہو کر حج کیا تھا اور اسی اونٹنی پر آپ کا سازو سامان لداہواتھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث مین بھی سفر حج کی سادگی کا بیان ہے کہ حضرت انس ؓ الله کے فضل سے صاحب ثروت تھے اور بخل وکنجوسی سے کوسوں دور رہتے تھے۔ انھوں نے سفر حج کے لیے آرام دہ سواری کا اہتمام نہیں کیا بلکہ سادہ سواری پر سادہ پالان رکھا، اس پر حج مکمل کیا، پھر انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے سفر حج کا حوالہ دیا کہ آپ نے اسی انداز سے حج کیا تھا، اور جس اونٹنی پر سوار تھے اسی پر سفر خرچ اور زادِراہ لادا ہواتھا، اس کے لیے کسی الگ سواری کا اہتمام نہیں کیا۔ (2) لفظ زاملہ ایسے اونٹ پر بولا جاتا ہے جو حالتِ سفر سامان واسباب اور کھانے پینے کی اشیاء اٹھانے کے لیے استعمال ہو۔ حضرت انس ؓ کا مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ سفر اس قدر سادگی سے کیا کہ ایک ہی اونٹ پر سواری کی اور اسی پر اپنا سامان وغیرہ لادلیا، اس کے لیے الگ اونٹ کا اہتمام نہیں کیا۔ حضرت عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ اس وقت لوگ سفر حج پر روانہ ہوتے تو اسی سواری پر اپنا سامان وغیرہ لاد لیتے تھے، حضرت عثمان ؓ نے سامان کے لیے اونٹ کا اہتمام کیا۔(فتح الباري:480/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
محمد بن ابی بکر نے بیان کیا کہ ہم سے زید بن زریع نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عزرہ بن ثابت نے بیان کیا، ان سے ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے بیان کیا کہ حضرت انس ؓ ایک پالان پر حج کے لئے تشریف لے گئے اور آپ بخیل نہیں تھے۔ آپ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ بھی پالان پر حج کے لئے تشریف لے گئے تھے، اسی پر آپ کا اسباب بھی لدا ہوا تھا۔
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ حج میں تکلف کرنا اور آرام کی سواری ڈھونڈناسنت کے خلاف ہے۔ سادے پالان پر چڑھنا کافی ہے۔ شغدف اور محمل اور عمدہ کجاوے اور گدے اور تکیے ان چیزوں کی ضرورت نہیں۔ عبادت میں جس قدر مشقت ہو اتنا ہی زیادہ ثواب ہے۔ ( وحیدی ) یہ باتیں آج کے سفر حج میں خواب وخیال بن کر رہ گئی ہیں۔ اب ہر جگہ موٹرکار، ہوائی جہاز دوڑتے پھر رہے ہیں۔ حج کا مبارک سفر بھی ریل، دخانی جہاز، موٹر کار اور ہوائی جہازوں سے ہورہا ہے۔ پھر زیادہ سے زیادہ آرام ہر ہر قدم پر موجود ہے۔ ان تکلّفات کے ساتھ حج اس حدیث کی تصدیق ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آخرزمانہ میں سفر حج بھی ایک تفریح کا ذریعہ بن جائے گا۔ لیکن سنت کے شیدائی ان حالات میں بھی چاہیں تو سادگی کے ساتھ یہ مبارک سفر کرتے ہوئے قدم قدم پر خدا ترسی سنت شعاری کا ثبوت دے سکتے ہیں۔ مکہ شریف سے پیدل چلنے کی اجازت ہے۔ حکومت مجبور نہیں کرتی کہ ہر شخص موٹر ہی کا سفر کرے مگر آرام طلبی کی دنیا میں یہ سب باتیں دقیانوسی سمجھی جانے لگی۔ بہرحال حقیقت ہے کہ سفر حج جہاد سے کم نہیں ہے بشرطیکہ حقیقی حج نصیب ہو۔ لفظ زاملہ ایسے اونٹ پر بولا جاتا جو حالت سفر میں علیحدہ سامان اسباب اور کھانے پینے کی اشیاء اٹھانے کے لئے استعمال میں آتا تھا، یہاں راوی کا مقصد یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یہ سفر مبارک اس قدر سادگی سے کیا کہ ایک ہی اونٹ سے سواری اور سامان اٹھانا ہر دو کام لے لئے گئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Thumama bin 'Abdullah bin Anas (RA): Anas performed the Hajj on a pack-saddle and he was not a miser. Anas said, "Allah's Apostle (ﷺ) performed Hajj on a pack-saddle and the same Mount was carrying his baggage too."