Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: The demarcation of Mawaqit for Hajj)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1522.
زید بن جبیر کہتے ہیں کہ وہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے پاس آئے۔ وہاں ان کی قیام گاہ پر خیمے اور قناتیں لگی ہوئیں تھیں، میں نے دریافت کیا: میں کہاں سے عمرے کے لیے احرام باندھوں؟انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل نجد کے لیے قرن منازل اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ اور اہل شام کے لیےحجفہ مقرر فرمایا ہے۔
تشریح:
1۔ مواقیت، میقات کی جمع ہے۔ اس سے مراد وہ مقام ہے جہاں سے حج یا عمرے کے لیے احرام باندھا جاتا ہے۔ ان مقامات سے گزرنے کے بعد احرام باندھنا درست نہیں۔ مواقیت اور اہل مواقیت کی تفصیل درج ذیل ہے: ذو الحلیفہ اہل مدینہ جو شخص مقررہ مواقیت میں سے کسی ایک سے بھی نہ گزرے وہ جس میقات کے اندر رہتے ہوں وہ اپنی رہائش گاہ ہی سے احرام باندھ لیں حتی کہ اہل مکہ، مکہ ہی سے احرام باندھ لیں۔ حدود حرم میں عارضی طور پر مقیم حضرات عمرے کے وقت حدود حرم سے باہر نکل کر میقات سے احرام باندھیں۔ جحفہ اہل شام قرن المنازل اہل نجد یلملم اہل یمن ذات عرق اہل عراق 2۔ جو لوگ حج یا عمرے کا ارادہ نہ رکھتے ہوں وہ احرام باندھے بغیر بھی میقات سے گزر کر مکہ میں داخل ہو سکتے ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1483
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1522
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1522
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1522
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
زید بن جبیر کہتے ہیں کہ وہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے پاس آئے۔ وہاں ان کی قیام گاہ پر خیمے اور قناتیں لگی ہوئیں تھیں، میں نے دریافت کیا: میں کہاں سے عمرے کے لیے احرام باندھوں؟انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل نجد کے لیے قرن منازل اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ اور اہل شام کے لیےحجفہ مقرر فرمایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ مواقیت، میقات کی جمع ہے۔ اس سے مراد وہ مقام ہے جہاں سے حج یا عمرے کے لیے احرام باندھا جاتا ہے۔ ان مقامات سے گزرنے کے بعد احرام باندھنا درست نہیں۔ مواقیت اور اہل مواقیت کی تفصیل درج ذیل ہے: ذو الحلیفہ اہل مدینہ جو شخص مقررہ مواقیت میں سے کسی ایک سے بھی نہ گزرے وہ جس میقات کے اندر رہتے ہوں وہ اپنی رہائش گاہ ہی سے احرام باندھ لیں حتی کہ اہل مکہ، مکہ ہی سے احرام باندھ لیں۔ حدود حرم میں عارضی طور پر مقیم حضرات عمرے کے وقت حدود حرم سے باہر نکل کر میقات سے احرام باندھیں۔ جحفہ اہل شام قرن المنازل اہل نجد یلملم اہل یمن ذات عرق اہل عراق 2۔ جو لوگ حج یا عمرے کا ارادہ نہ رکھتے ہوں وہ احرام باندھے بغیر بھی میقات سے گزر کر مکہ میں داخل ہو سکتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے زہیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے زید بن جبیر نے بیان کیا کہ وہ عبداللہ بن عمر ؓ کی قیامگاہ پر حاضر ہوئے۔ وہاں قنات کے ساتھ شامیانہ لگا ہوا تھا ( زید بن جبیر نے کہا کہ ) میں نے پوچھا کہ کس جگہ سے عمرہ کا احرام باندھنا چاہئے۔ عبداللہ ؓ نے جوا ب دیا کہ رسول ﷺ نے نجدوالوں کے لئے قرن، مدینہ والوں کے لئے ذوالحلیفہ اور شام والوں کے لئے جحفہ مقرر کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
میقات اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں سے حج یا عمرہ کے لئے احرام باندھ لینا چاہئے اور وہاں سے بغیر احرام باندھے آگے بڑھنا ناجائز ہے اور ادھر ہندوستان کی طرف سے جانے والوں کے لیے یلملم پہاڑ کے محاذ سے احرام باندھ لینا چاہئے۔ جب جہاز پہاڑوں سے گزرتا ہے تو کپتان خود سارے حاجیوں کو اطلاع کرادیتا ہے یہ جگہ عدن کے قریب پڑتی ہے۔ قرن منازل مکہ سے دومنزل پر طائف کے قریب ہے اور ذوالحلیفہ مدینہ سے چھ میل پر ہے اور جحفہ مکہ سے پانچ چھ منزل پر ہے۔ قسطلانی نے کہا اب لوگ جحفہ کے بدل رابغ سے احرام باندھ لیتے ہیں۔ جو جحفہ کے برابر ہے اور اب جحفہ ویران ہے وہاں کی آب وہوا خراب ہے نہ وہاں کوئی جاتا ہے نہ اترتا ہے ( وحیدی ) واختصت الجحفة بالحمیٰ فلاینزلها أحد إلاحم۔ ( فتح ) یعنی حجفہ بخار کے لئے مشہور ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں عمالقہ نے قیام کیا تھا جب کہ ان کو یثرب سے بنو عبیل نے نکال دیا تھا مگر یہاں ایسا سیلاب آیا کہ اس نے اس کوبرباد کر کے رکھ دیا۔ اسی لئے اس کا جحفہ نام ہوا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ عمرہ کے میقات بھی وہی ہیں جو حج کے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Zaid bin Jubair (RA): I went to visit 'Abdullah bin 'Umar at his house which contained many tents made of cotton cloth and these were encircled with Suradik (part of the tent). I asked him from where, should one assume Ihram for Umra. He said, "Allah's Apostle (ﷺ) had fixed as Miqat (singular of Mawaqit) Qarn for the people of Najd, Dhul-Hulaifa for the people of Medina, and Al-Juhfa for the people of Sham." ________