باب: نجد والوں کے لیے احرام باندھنے کی جگہ کون سی ہے؟
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: The Miqat for the people of Najd)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1528.
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "اہل مدینہ کا میقات ذوالحلیفہ، اہل شام کا مہیعہ، یعنی حجفہ اور نجد والوں کا قرن منازل ہے۔ " حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں نے خود نبی ﷺ سے نہیں سنا بلکہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "اہل یمن کے لیے احرام باندھنے کا مقام یلملم ہے۔ "
تشریح:
(1) اہل یمن کے لیے یلملم کے تعیین کو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا بلکہ انہوں نے اسے لوگوں کے حوالے سے بیان کیا ہے، لیکن یہ تعیین حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت جابر بن عبداللہ، حضرت عائشہ، حضرت حارث بن عمرو سہمی رضی اللہ عنہم سے مروی احادیث سے ثابت ہے۔ ان سب کا مشترکہ بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل یمن کے لیے مقام یلملم کو بطور میقات مقرر فرمایا تھا۔ (فتح الباری:3/488) (2) ان تمام مواقیت کی نسبت اہل مدینہ کے میقات ذوالحلیفہ کا فاصلہ مکہ سے بہت زیادہ ہے، یعنی وہ مکہ مکرمہ سے زیادہ دور پڑتا ہے۔ اس کی حکمت یہ بیان کی جا سکتی ہے کہ اہل مدینہ کے اجر کو زیادہ کرنا مقصود ہے، اس سے مدینہ میں رہائش رکھنے کی فضیلت بھی معلوم ہوتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دیگر اہل آفاق سے نرمی کرتے ہوئے ان کے احرام کے مقامات کو قریب رکھا گیا ہے کیونکہ وہ بہت دور دور سے آتے ہیں جبکہ مدینے والے دوسرے لوگوں کے مقابلے میں حرم مکی کے زیادہ قریب ہیں، اس لیے ان کے میقات کو دور رکھا گیا ہے۔ (فتح الباری:3/486) واللہ اعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1489
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1528
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1528
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1528
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "اہل مدینہ کا میقات ذوالحلیفہ، اہل شام کا مہیعہ، یعنی حجفہ اور نجد والوں کا قرن منازل ہے۔ " حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں نے خود نبی ﷺ سے نہیں سنا بلکہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "اہل یمن کے لیے احرام باندھنے کا مقام یلملم ہے۔ "
حدیث حاشیہ:
(1) اہل یمن کے لیے یلملم کے تعیین کو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا بلکہ انہوں نے اسے لوگوں کے حوالے سے بیان کیا ہے، لیکن یہ تعیین حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت جابر بن عبداللہ، حضرت عائشہ، حضرت حارث بن عمرو سہمی رضی اللہ عنہم سے مروی احادیث سے ثابت ہے۔ ان سب کا مشترکہ بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل یمن کے لیے مقام یلملم کو بطور میقات مقرر فرمایا تھا۔ (فتح الباری:3/488) (2) ان تمام مواقیت کی نسبت اہل مدینہ کے میقات ذوالحلیفہ کا فاصلہ مکہ سے بہت زیادہ ہے، یعنی وہ مکہ مکرمہ سے زیادہ دور پڑتا ہے۔ اس کی حکمت یہ بیان کی جا سکتی ہے کہ اہل مدینہ کے اجر کو زیادہ کرنا مقصود ہے، اس سے مدینہ میں رہائش رکھنے کی فضیلت بھی معلوم ہوتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دیگر اہل آفاق سے نرمی کرتے ہوئے ان کے احرام کے مقامات کو قریب رکھا گیا ہے کیونکہ وہ بہت دور دور سے آتے ہیں جبکہ مدینے والے دوسرے لوگوں کے مقابلے میں حرم مکی کے زیادہ قریب ہیں، اس لیے ان کے میقات کو دور رکھا گیا ہے۔ (فتح الباری:3/486) واللہ اعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
( دوسری سند ) اور امام بخاری نے کہا کہ مجھ سے احمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے یونس نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں سالم بن عبداللہ نے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیاکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ نے فرمایاتھا کہ مدینہ والو ں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ ذولحلیفہ اور شام والوں کے لئے مہیعہ یعنی حجفہ اور نجد والوں کے لئے قرن منازل۔ عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا کہ لوگ کہتے تھے کہ نبی کریم نے فرمایا کہ یمن والے احرام یلملم سے باندھیں لیکن میں نے اسے آپ سے نہیں سنا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Salim bin 'Abdullah from his father (RA): I heard Allah's Apostle (ﷺ) saying, "The Miqat for the people of Madinah is Dhul-Hulaifa; for the people of Sham is Mahita; (i.e. Al-Juhfa); and for the people of Najd is Qarn. And said Ibn 'Umar (RA), "They claim, but I did not hear personally, that the Prophet (ﷺ) said, "The Miqat for the people of Yemen is Yalamlam."