باب: اگر کپڑوں پر خلوق (ایک قسم کی خوشبو) لگی ہو تو اس کو تین بار دھونا۔
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: To wash the perfume thrice of Ihram)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1536.
حضرت یعلی بن امیہ سے روایت ہے، انھوں نے حضرت عمر ؓ سے عرض کیا کہ جس وقت نبی ﷺ پر وحی نازل ہو رہی ہو وہ آپ مجھے دکھائیں۔ راوی کا بیان ہے کہ ایک دن نبی ﷺ مقام جعرانہ میں تھے، صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا ایک گروہ بھی وہاں حاضر تھا، اتنے میں ایک شخص نے آپ کے پاس آکر عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! آپ اس شخص کی بابت کیا حکم دیتے ہیں جس نے عمرہ کا احرام باندھا مگروہ خوشبو سے آلودہ تھا؟ اس پر نبی ﷺ نے کچھ دیر سکوت فرمایا: پھر آپ پر وحی آئی تو حضرت عمر ؓ نے میری طرف اشارہ کیا۔ جب میں آیا تو اس وقت رسول اللہ ﷺ کے سرپر ایک کپڑے سے سایہ کیا گیا تھا۔ میں نے اپنا سر اس کپڑے کے اندر کیا تو دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کا چہرہ سرخ ہے اور آپ خراٹے لے رہے ہیں۔ رفتہ رفتہ جب آپ کی یہ حالت ختم ہوئی تو آپ نے فرمایا: ’’وہ شخص کہاں ہے جس نے عمرے کے متعلق سوال کیا تھا؟‘‘ چنانچہ وہ شخص حاضر کیا گیا تو آپ نے اسے فرمایا: ’’جو خوشبو تجھے لگی ہوئی ہے اسے تین دفعہ دھو ڈالو اور اپنا جبہ اتار دو اور عمرے میں بھی اسی طرح کرو جیسے حج میں کرتے ہو۔‘‘ راوی کہتا ہے : میں نے حضرت عطاء سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے جب اسے تین مرتبہ دھونے کا حکم دیا تھا تو اس سے آپ کا صفائی کا ارادہ تھا؟ انھوں نے جواب دیا: ’’ہاں۔‘‘
تشریح:
(1) خلوق ایک خاص قسم کی خوشبو ہے جس میں زعفران شامل ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنے کپڑوں سے دھونے کا حکم دیا کیونکہ مردوں کے لیے زعفران کا اہتمام صحیح نہیں جیسا کہ حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے، نیز مذکورہ واقعہ آٹھ ہجری کا ہے۔ لیکن اس کے بعد حجۃ الوداع کے موقع پر احرام سے پہلے خوشبو استعمال کرنے کا ثبوت ملتا ہے، چنانچہ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ میں نے خود رسول اللہ ﷺ کو احرام سے پہلے خوشبو لگائی تھی جس کے اثرات احرام کے بعد بھی دیکھے جا سکتے تھے۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1539) (2) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ حجۃ الوداع دس ہجری کو ہوا تھا اور رسول اللہ ﷺ کا آخری فعل پہلے فعل کا ناسخ ہوتا ہے، اس لیے مذکورہ حدیث میں خوشبو کو دھونے کی وجہ اس میں زعفران کی ملاوٹ تھی یا وقتی طور پر اس کے دھونے کا حکم دیا جسے بعد میں اپنے عمل کے ذریعے سے ختم کر دیا۔ (فتح الباري:498/3) (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی احرام کے طور پر سلے ہوئے کپڑے استعمال کر لیتا ہے تو انہیں سر کی طرف سے اتارا جا سکتا ہے جیسا کہ ابوداود کی روایت میں صراحت ہے کہ اس نے فورا اپنے جبے کو سر کی طرف سے اتار دیا۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:1820) کپڑوں کو پھاڑ کر اتارنے کی ضرورت نہیں جیسا کہ بعض حضرات کا موقف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سر کی طرف سے اتارنے کی صورت میں سر ڈھک جائے گا جو احرام کے منافی ہے، لیکن شریعت میں اس قدر سختی نہیں ہے۔ (فتح الباري:498/4)واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1497
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1536
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1536
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1536
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت یعلی بن امیہ سے روایت ہے، انھوں نے حضرت عمر ؓ سے عرض کیا کہ جس وقت نبی ﷺ پر وحی نازل ہو رہی ہو وہ آپ مجھے دکھائیں۔ راوی کا بیان ہے کہ ایک دن نبی ﷺ مقام جعرانہ میں تھے، صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا ایک گروہ بھی وہاں حاضر تھا، اتنے میں ایک شخص نے آپ کے پاس آکر عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! آپ اس شخص کی بابت کیا حکم دیتے ہیں جس نے عمرہ کا احرام باندھا مگروہ خوشبو سے آلودہ تھا؟ اس پر نبی ﷺ نے کچھ دیر سکوت فرمایا: پھر آپ پر وحی آئی تو حضرت عمر ؓ نے میری طرف اشارہ کیا۔ جب میں آیا تو اس وقت رسول اللہ ﷺ کے سرپر ایک کپڑے سے سایہ کیا گیا تھا۔ میں نے اپنا سر اس کپڑے کے اندر کیا تو دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کا چہرہ سرخ ہے اور آپ خراٹے لے رہے ہیں۔ رفتہ رفتہ جب آپ کی یہ حالت ختم ہوئی تو آپ نے فرمایا: ’’وہ شخص کہاں ہے جس نے عمرے کے متعلق سوال کیا تھا؟‘‘ چنانچہ وہ شخص حاضر کیا گیا تو آپ نے اسے فرمایا: ’’جو خوشبو تجھے لگی ہوئی ہے اسے تین دفعہ دھو ڈالو اور اپنا جبہ اتار دو اور عمرے میں بھی اسی طرح کرو جیسے حج میں کرتے ہو۔‘‘ راوی کہتا ہے : میں نے حضرت عطاء سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے جب اسے تین مرتبہ دھونے کا حکم دیا تھا تو اس سے آپ کا صفائی کا ارادہ تھا؟ انھوں نے جواب دیا: ’’ہاں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) خلوق ایک خاص قسم کی خوشبو ہے جس میں زعفران شامل ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنے کپڑوں سے دھونے کا حکم دیا کیونکہ مردوں کے لیے زعفران کا اہتمام صحیح نہیں جیسا کہ حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے، نیز مذکورہ واقعہ آٹھ ہجری کا ہے۔ لیکن اس کے بعد حجۃ الوداع کے موقع پر احرام سے پہلے خوشبو استعمال کرنے کا ثبوت ملتا ہے، چنانچہ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ میں نے خود رسول اللہ ﷺ کو احرام سے پہلے خوشبو لگائی تھی جس کے اثرات احرام کے بعد بھی دیکھے جا سکتے تھے۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1539) (2) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ حجۃ الوداع دس ہجری کو ہوا تھا اور رسول اللہ ﷺ کا آخری فعل پہلے فعل کا ناسخ ہوتا ہے، اس لیے مذکورہ حدیث میں خوشبو کو دھونے کی وجہ اس میں زعفران کی ملاوٹ تھی یا وقتی طور پر اس کے دھونے کا حکم دیا جسے بعد میں اپنے عمل کے ذریعے سے ختم کر دیا۔ (فتح الباري:498/3) (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی احرام کے طور پر سلے ہوئے کپڑے استعمال کر لیتا ہے تو انہیں سر کی طرف سے اتارا جا سکتا ہے جیسا کہ ابوداود کی روایت میں صراحت ہے کہ اس نے فورا اپنے جبے کو سر کی طرف سے اتار دیا۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:1820) کپڑوں کو پھاڑ کر اتارنے کی ضرورت نہیں جیسا کہ بعض حضرات کا موقف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سر کی طرف سے اتارنے کی صورت میں سر ڈھک جائے گا جو احرام کے منافی ہے، لیکن شریعت میں اس قدر سختی نہیں ہے۔ (فتح الباري:498/4)واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعاصم، ضحاک بن مخلد نبیل نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں ابن جریج نے خبر دی کہا کہ مجھے عطاء بن ابی رباح نے خبرد ی، انہیں صفوان بن یعلیٰ نے، کہا کہ ان کے باپ یعلیٰ بن امیہ نے حضرت عمر ؓ سے کہا کہ کبھی آپ مجھے نبی کریم ﷺ کو اس حال میں دکھایئے جب آپ پر وحی نازل ہو رہی ہو۔ انہوں نے بیان کیا کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ جعرانہ میں اپنے اصحاب کی ایک جماعت کے ساتھ ٹھہر ے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے آ کر پوچھا یا رسول اللہ ( ﷺ ) ! اس شخص کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے جس نے عمرہ کا احرام اس طرح باندھا کہ اس کے کپڑے خوشبو میں بسے ہوئے ہوں۔ نبی کریم ﷺ اس پر تھوڑی دیر کے لئے چپ ہوگئے۔ پھر آپ پر وحی نازل ہوئی تو حضرت عمر ؓ نے یعلیٰ ؓ کو اشارہ کیا۔ یعلیٰ آئے تو رسول اللہ ﷺ پر ایک کپڑا تھا جس کے اندر آپ تشریف رکھتے تھے۔ انہو ں نے کپڑے کے اند راپنا سر کیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ روئے مبارک سرخ ہے اور آپ خراٹے لے رہے ہیں۔ پھر یہ حالت ختم ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ وہ شخص کہاں ہے جس نے عمرہ کے متعلق پوچھا تھا۔ شخص مذکور حاضرکیا گیا توآپ نے فرمایا کہ جو خوشبو لگا رکھی ہے اسے تین مرتبہ دھولے اور اپنا جبہ اتاردے۔ عمرہ میں بھی اسی طرح کر جس طرح حج میں کرتے ہو۔ میں نے عطاء سے پوچھا کہ کیا آنحضور ﷺ کے تین مرتبہ دھونے کے حکم سے پوری طرح صفائی مراد تھی؟ تو انہوں نے کہا کہ ہاں۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے ان لوگوں نے دلیل لی ہے جو احرام کے وقت خوشبو لگانا جائز نہیں سمجھتے۔ کیونکہ آنحضرت ﷺ نے اس خوشبوکے اثر کو تین بار دھونے کا حکم فرمایا مالک اور امام محمد کا یہی قول ہے۔ اور جمہور علما کے نزدیک احرام باندھتے وقت خوشبو لگانا درست ہے گو اس کا اثر احرام کے بعد باقی رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یعلیٰ کی حدیث 8ھ کی ہے اور 10 ھ میں یعنی حجتہ الوداع میں حضرت عائشہ ؓ نے احرام باندھتے وقت آپ ﷺ کے خوشبو لگائی اور یہ آخری فعل پہلے کا ناسخ ہے۔ ( وحیدی ) حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: وأجاب الجمهور بأن قصة یعلی کانت بالجعرانة کما ثبت في هذا الحدیث وهي في سنة ثمان بلا خلاف وقد ثبت عن عائشة أنها طیبت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم بیدھا عند إحرامها کما سیأتي في الذي بعدہ وکان ذالك في حجة الوداع سنة عشربلا خلاف وإنما یؤخذ بالآخر فالآخر من الأمر۔ ( فتح الباری ) خلاصہ اس عبارت کا وہی ہے جو اوپر مذکور ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ya'la said to 'Umar, "Show me the Prophet (ﷺ) when he is being inspired Divinely." While the Prophet (ﷺ) was at Ji'rana (in the company of some of his Companions) a person came and asked, "O Allah's Messenger! What is your verdict regarding that person who assumes Ihram for 'Umra and is scented with perfume ?" The Prophet (ﷺ) kept quiet for a while and he was Divinely inspired (then). 'Umar beckoned Ya'la. So he came, and the Allah's Messenger (ﷺ) was shaded with sheet. Ya'la put his head in and saw that the face of Allah's Messenger was red and he was snoring. When the state of the Prophet (ﷺ) was over, he (ﷺ) asked, "Where is the person who asked about 'Umra?" Then that person was brought and the Prophet (ﷺ) said, "Wash the perfume off your body thrice and take off the cloak and do the same in 'Umra as you do in Hajj."