Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: Reciting Talbiya on entering a valley)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1555.
مجاہد ؓ سے روایت ہے کہ ہم ابن عباس ؓ کے پاس تھے تو لوگوں نے دجال کا ذکر کیا اور کہاکہ آپ ﷺ کا فرمان ہے: ’’اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہواہے۔‘‘ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: میں نے یہ بات رسول اللہ ﷺ سے نہیں سنی، البتہ آپ ﷺ نے یہ ضرور فرمایا: ’’گویا میں اس وقت موسی ؑ کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ لبیک کہتے ہوئے وادی کے نشیب میں اتر رہے ہیں۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نشیب و فراز میں اترتے چڑھتے وقت تلبیہ کہنا حضرات انبیاء ؑ کی سنت ہے اسے بجا لانا چاہیے۔ (2) صحیح مسلم میں حضرت موسیٰ ؑ کے متعلق یہ الفاظ ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’گویا میں موسیٰ ؑ کو دیکھ رہا ہوں، وہ گھاٹی سے اتر رہے ہیں اور کانوں میں انگلیاں ڈالے بآواز بلند لبیک پکارتے ہوئے اس وادی سے گزر رہے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:421(166)) اس سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ نے حضرت موسیٰ ؑ کو عالم مثال میں دیکھا۔ ایک روایت میں حضرت ابراہیم ؑ کا ذکر ہے۔ ایک اور روایت میں حضرت عیسیٰ ؑ کے متعلق بیان ہے کہ وہ فج الروحاء سے احرام باندھ رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ اس قسم کے واقعات عالم خواب میں رونما ہوئے ہوں اور انبیاء ؑ کے خواب بھی وحی ہوتے ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اسی کو ترجیح دی ہے اور قابل اعتماد ٹھہرایا ہے۔ مختصر یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت موسیٰ ؑ کو عالم مثال یا عالم خواب میں حج کے لیے لبیک کہتے ہوئے دیکھا جو اس وادی سے گزر رہے ہیں جس کا حدیث میں ذکر ہے۔ (فتح الباري:522/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1514
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1555
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1555
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1555
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
مجاہد ؓ سے روایت ہے کہ ہم ابن عباس ؓ کے پاس تھے تو لوگوں نے دجال کا ذکر کیا اور کہاکہ آپ ﷺ کا فرمان ہے: ’’اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہواہے۔‘‘ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: میں نے یہ بات رسول اللہ ﷺ سے نہیں سنی، البتہ آپ ﷺ نے یہ ضرور فرمایا: ’’گویا میں اس وقت موسی ؑ کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ لبیک کہتے ہوئے وادی کے نشیب میں اتر رہے ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نشیب و فراز میں اترتے چڑھتے وقت تلبیہ کہنا حضرات انبیاء ؑ کی سنت ہے اسے بجا لانا چاہیے۔ (2) صحیح مسلم میں حضرت موسیٰ ؑ کے متعلق یہ الفاظ ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’گویا میں موسیٰ ؑ کو دیکھ رہا ہوں، وہ گھاٹی سے اتر رہے ہیں اور کانوں میں انگلیاں ڈالے بآواز بلند لبیک پکارتے ہوئے اس وادی سے گزر رہے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:421(166)) اس سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ نے حضرت موسیٰ ؑ کو عالم مثال میں دیکھا۔ ایک روایت میں حضرت ابراہیم ؑ کا ذکر ہے۔ ایک اور روایت میں حضرت عیسیٰ ؑ کے متعلق بیان ہے کہ وہ فج الروحاء سے احرام باندھ رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ اس قسم کے واقعات عالم خواب میں رونما ہوئے ہوں اور انبیاء ؑ کے خواب بھی وحی ہوتے ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اسی کو ترجیح دی ہے اور قابل اعتماد ٹھہرایا ہے۔ مختصر یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت موسیٰ ؑ کو عالم مثال یا عالم خواب میں حج کے لیے لبیک کہتے ہوئے دیکھا جو اس وادی سے گزر رہے ہیں جس کا حدیث میں ذکر ہے۔ (فتح الباري:522/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے ابن عدی نے بیان کیا ، ان سے عبداللہ بن عون نے ان سے مجاہد نے بیان کیا ، کہا کہ ہم عبداللہ بن عباس ؓ کی خدمت میں حاضر تھے ۔ لوگوں نے دجال کا ذکر کیا کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافرلکھا ہوا ہوگا ۔ تو ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ میں نے تو یہ نہیں سنا ۔ ہاں آپ ﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ گویا میں موسیٰ ؑ کو دیکھ رہا ہوں کہ جب آپ نالے میں اترے تو لبیک کہہ رہے ہیں ۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ عالم مثال میں آنحضرت ﷺ نے حضرت موسیٰ ؑ کو حج کے لئے لبیک پکارتے ہوئے دیکھا۔ ایک روایت میں ایسے ہی حضرت ابراہیم ؑ کا بھی دکر ہے۔ ایک حدیث میں حضرت عیسیٰ بن مریم کا فج الروحاء سے احرام باندھنے کا ذکر ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کو آپ ﷺ نے اس حالت میں خواب میں دیکھا ہو۔ حافظ نے اسی پر اعتماد کیاہے۔ مسلم شریف میں یہ واقعہ حضرت ابن عباس ؓ سے یو ں مروی ہے۔ «كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ هَابِطًا مِنَ الثَّنِيَّةِ، وَلَهُ جُؤَارٌ إِلَى اللهِ بِالتَّلْبِيَةِ»یعنی آنحضرت ﷺ نے فرمایا گویا میں موسیٰ ؑ کو دیکھ رہاہوں آپ گھاٹی سے اترے ہوئے کانوں میں انگلیاں ڈالے ہوئے لبیک بلند آواز سے پکارتے ہوئے اس وادی سے گزررہے ہیں۔ اس کے ذیل میں حافظ صاحب کی پوری تقریر یہ ہے۔ وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ التَّحْقِيقِ فِي مَعْنَى قَوْلِهِ كَأَنِّي أَنْظُرُ عَلَى أَوْجُهٍ الْأَوَّلُ هُوَ عَلَى الْحَقِيقَةِ وَالْأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَلَا مَانِعُ أَنْ يَحُجُّوا فِي هَذَا الْحَالِ كَمَا ثَبَتَ فِي صَحِيحِ مُسْلِمٍ مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ أَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى مُوسَى قَائِمًا فِي قَبْرِهِ يُصَلِّي قَالَ الْقُرْطُبِيُّ حُبِّبَتْ إِلَيْهِمُ الْعِبَادَةُ فَهُمْ يَتَعَبَّدُونَ بِمَا يَجِدُونَهُ مِنْ دَوَاعِي أَنْفُسِهِمْ لَا بِمَا يُلْزَمُونَ بِهِ كَمَا يُلْهَمُ أَهْلُ الْجَنَّةِ الذِّكْرَ وَيُؤَيِّدُهُ أَنَّ عَمَلَ الْآخِرَةِ ذِكْرٌ وَدُعَاءٌ لقَوْله تَعَالَى دَعوَاهُم فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ الْآيَةَ لَكِنَّ تَمَامَ هَذَا التَّوْجِيهِ أَنْ يُقَالَ إِنَّ الْمَنْظُورَ إِلَيْهِ هِيَ أَرْوَاحُهُمْ فَلَعَلَّهَا مُثِّلَتْ لَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الدُّنْيَا كَمَا مُثِّلَتْ لَهُ لَيْلَةَ الْإِسْرَاءِ وَأَمَّا أَجْسَادُهُمْ فَهِيَ فِي الْقُبُور قَالَ بن الْمُنِيرِ وَغَيْرُهُ يَجْعَلُ اللَّهُ لِرُوحِهِ مِثَالًا فَيَرَى فِي الْيَقَظَةَ كَمَا يَرَى فِي النَّوْمِ ثَانِيهَا كَأَنَّهُ مُثِّلَتْ لَهُ أَحْوَالُهُمُ الَّتِي كَانَتْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَيْفَ تَعَبَّدُوا وَكَيْفَ حَجُّوا وَكَيْفَ لَبَّوْا وَلِهَذَا قَالَ كَأَنِّي ثَالِثُهَا كَأَنَّهُ أُخْبِرَ بِالْوَحْيِ عَنْ ذَلِكَ فَلِشِدَّةِ قَطْعِهِ بِهِ قَالَ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ رَابِعُهَا كَأَنَّهَا رُؤْيَةُ مَنَامٍ تقدّمت لَهُ فَأخْبر عَنْهَا لما حج عِنْد مَا تذكرذَلِكَ وَرُؤْيَا الْأَنْبِيَاءِ وَحْيٌ وَهَذَا هُوَ الْمُعْتَمَدُ عِنْدِي لِمَا سَيَأْتِي فِي أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ مِنَ التَّصْرِيحِ بِنَحْوِ ذَلِكَ فِي أَحَادِيثَ أُخَرَ وَكَوْنُ ذَلِكَ كَانَ فِي الْمَنَامِ وَالَّذِي قَبْلَهُ أَيْضًا لَيْسَ بِبَعِيد وَالله أعلم(فتح الباری)یعنی آنحضرت ﷺ کے فرمان کأني أنظر إلیه ( گویا میں ان کو دیکھ رہا ہوں ) کی اہل تحقیق نے مختلف توجیہات کی ہیں۔ اول تو یہ کہ یہ حقیقت پر مبنی ہے کہ کیونکہ انبیاء کرام اپنے رب کے ہاں سے رزق دیئے جاتے ہیں اور وہ اپنی قبور میں زندہ ہیں۔ پس کچھ مشکل نہیں کہ وہ ا س حالت میں حج بھی کرتے ہوں جیسا کہ صحیح مسلم میں حدیث انس سے ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں نے موسیٰ ؑ کو دیکھا کہ وہ اپنی قبر میں نمازپڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے تھے قرطبی نے کہا کہ عبادت ان کے لئے محبوب ترین چیز رہی۔ پس وہ عالم آخرت میں بھی اسی حالت میں بطیب خاطر مشغول ہیں حالانکہ یہ ان کے لئے وہاں لازم نہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ اہل جنت کو ذکر الہٰی کا الہام ہوتا رہے گا اور اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ عمل آخرت ذکر اور دعا ہے جیسا کہ آیت شریفہ: ﴿دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ﴾(یونس:10) میں مذکورہے۔لیکن اس توجیہ کی تکمیل اس پر ہے کہ آپ کو ان کی ارواح نظر آئیں اور عالم مثال میں ان کو دنیا میں آپ کو دکھلایا گیا۔ جیسا کہ معراج میں آپ کو تمثیلی اشکال میں ان کو دکھلایا گیا تھا۔ حالانکہ ان کے اجسادان کی قبروں میں تھے۔ ابن منیر نے کہا کہ اللہ پاک ان کی ارواح طیبہ کو عالم مثال میں دکھلادیتا ہے۔ یہ عالم بیداری میں بھی ایسے ہی دکھائی دیئے جاتے ہیں جیسے عالم خواب میں ۔ دوسری توجیہ یہ کہ ان کے تمثیلی حالات دکھلائے گئے۔ جیسے کہ وہ دنیا میں عبادت اور حج اور لبیک وغیرہ کیا کرتے تھے۔ تیسری یہ کہ وحی سے یہ حال معلوم کرایا گیا جو اتنا قطعی تھا کہ آپ نے کانی انظر الیہ سے اسے تعبیر فرمایا۔ چوتھی توجیہ یہ کہ یہ عالم خواب کا معاملہ ہے جو آپ کو دکھلایا گیا اور انبیاءکے خواب بھی وحی کے درجہ میں ہوتے ہیں اور میرے نزدیک اسی توجیہ کو ترجیح ہے جیسا کہ احادیث الانبیاءمیں صراحت آئے گی اور اس کا حالت خواب میں نظر آنا کوئی بعید چیز نہیں ہے۔ خلاصۃ المرام یہ ہے کہ عالم خواب میں یاعالم مثال میں آنحضرت ﷺ نے حضرت موسی ؑ کو سفر حج میں لبیک پکارتے ہوئے اور مذکورہ وادی میں سے گزرتے ہوئے دیکھا۔ صلی اللہ علیه وسلم وعلی نبینا علیه الصلٰوة والسلام۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Mujahid (RA): I was in the company of Ibn Abbas (RA) and the people talked about Ad-Dajjal and said, "Ad-Dajjal will come with the word Kafir (non-believer) written in between his eyes." On that Ibn Abbas (RA) said, "I have not heard this from the Prophet (ﷺ) but I heard him saying, 'As if I saw Moses (ؑ) just now entering the valley reciting Talbyia. ' " ________