باب: اللہ پاک کا سورۃ البقرہ میں یہ فرمانا کہ حج کے مہینے مقرر ہیں جو کوئی ان میں حج کی ٹھان لے تو شہوت کی باتیں نہ کرے نہ گناہ اور جھگڑے کے قریب جائے کیونکہ حج میں خاص طور پر یہ گناہ اور جھگڑے بہت ہی برے ہیں۔اے رسول تجھ سے لوگ چاند کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ دیجئے کہ چاند سے لوگوں کے کاموں کے اور حج کے اوقات معلوم ہوتے ہیں
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: "The Hajj is (in) the well-known (lunar year) months ...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اورحضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا کہ حج کے مہینے شوال، ذیقعدہ اور ذی الحجہ کے دس دن ہیں اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے کہا سنت یہ ہے کہ حج کا احرام صرف حج کے مہینوں ہی میں باندھیں اور حضرت عثمان ؓنے کہا کہ کوئی خراسان یا کرمان سے احرام باندھ کر چلے تو یہ مکروہ ہے
تشریح : حضرت عبداللہ بن عمر ؓکے اثر کو ابن جریر اور طبری نے وصل کیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ حج کا احرام پہلے سے پہلے غرہ شوال سے باندھ سکتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے درست نہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس کے اثر کو ابن خزیمہ اور دارقطنی نے وصل کیا ہے۔ حضرت عثمانؓ کے قول کامطلب یہ ہے کہ میقات کے قریب سے احرام باندھنا سنت اور بہتر ہے گو میقات سے پہلے بھی باندھ لینا درست ہے۔ اس کو سعید بن منصور نے وصل کیا اور ابواحمد بن سیار نے تاریخ مرو میں نکالا کہ جب عبداللہ بن عامر نے خراسان فتح کیا تو اس کے شکریہ میں انہوں نے منت مانی کہ میں یہیں سے احرام باندھ کر نکلوں گا۔ حضرت عثمان ؓکے پاس آئے تو انہوں نے ان کو ملامت کی۔ کہتے ہیں اسی سال حضرت عثمان شہید ہوئے۔ حدیث میں آمدہ مقام سرف مکہ سے دس میل کے فاصلہ پر ہے۔ اسے آج کل وادی فاطمہ کہتے ہیں۔
احرام میںکیا حکمت ہے
شاہی درباروں کے آداب میں سے ایک خاص لباس بھی ہے جس کو زیب تن کئے بغیر جانا سوءادبی سمجھا جاتاہے۔ آج اس روشن تہذیب کے زمانے میں بھی ہر حکومت اپنے نشانات مقررہ کئے ہوئے ہے اور درباروں ایونوں کے لئے خاص خاص لباس مقرر کئے ہوئے ہے۔ چنانچہ ان ایوانوں میں شریک ہونے والے ممبروں کو ایک خاص ڈریس تیار کرانا پڑتاہے۔ جس کو زیب تن کر کے وہ شریک اجلاس ہوتے ہیں۔ حج احکم الحاکمین رب العالمین کا سالانہ جشن ہے۔ اسکے دربار کی حاضری ہے پس اس کے لئے تیاری نہ کرنا اور ایسے ہی گشاخانہ چلے آنا کیونکر مناسب ہوسکتاہے۔ اس لئے حکم ہے کہ میقات سے اس دربارکی حضوری کی تیاری شروع کردو اور اپنی وہ حالت بنالو جو پسندیدہ بارگاہ عالی، یعنی عاجزی، مسکینی، ترک زینت، تبتل الی للہ اس لئے احرام کا لباس بھی ایسا ہی سادہ رکھا جو سب سے آسان اور سہل الحصول ہے اور جس میں مساوات اسلام کا بخوبی ظہور ہوتاہے۔ اس میں کفن کی بھی مشابہت ہے جس سے انسان کو یہ بھی یاد آجاتا ہے کہ دنیاسے رخصت ہوتے وقت اس کو اتنا ہی کپڑا نصیب ہوگا۔ نیز اس سے انسان کو اپنی ابتدائی حالت بھی یا دآتی ہے جب کہ وہ ابتدائی دور میں تھا اورحجر و شجر کے لباس سے نکل کر اس نے اپنے لئے کپڑے کا لباس ایجاد کیا تھا۔ احرام کے اس سادہ لباس میں ایک طرف فقیری کی تلقین ہے تو دوسری طرف ایک فقیری فوج میں ڈسپلن بھی قائم کرنا مقصود ہے۔
لبیک پکارنے میں کیاحکمت ہے
لبیک کا نعرہ اللہ کی فوج کا قومی نعرہ ہے جو جشن خداوندی کی شرکت کے لیے اقصائے عالم سے کھنچی چلی آرہی ہے۔ احرام باندھنے سے کھولنے تک ہرحاجی کو نہایت خشوع وخضوع کے ساتھ بار بار لبیک کا نعرہ پکارنا ضروری ہے۔ جس کے مقدس الفاظ یہ ہوتے ہیں لبیک اللہم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک حاضر ہوں۔ الٰہی!فقیرانہ و غلامانہ جذبات میں تیرے جشن کی شرکت کے لئے حاضر ہوں۔ حاضرہوں۔ حاضر ہوں تجھے واحد بے مثال سمجھ کر حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں ہے۔ میں حاضر ہوں۔ تمام تعریفیں تیرے ہی لئے زیبا ہیں اور سب نعمتیں تیری ہی عطا کی ہوئی ہیں۔ راج پاٹ سب کا مالک حقیقی صرف تو ہی ہے۔ اس میں کوئی تیرا شریک نہیں۔ الفاظ کی گہرائی پر اگر غور کیا جائے تو بے شمار حکمتیں ان میں نظر آئیں گی۔ ان الفاظ میں ایک طرف سچے بادشاہ کی خدائی کا اعتراف ہے تو دوسری طرف اپنی خودی کو بھی ایک درجہ خاص میں رکھ کر اس کے سامنے پیش کیا گیا ہے
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
( 1 ) بار بار لبیک کہنا یہ اقرار کرناہے کہ اے خدا! میں پورے طور پر تسلیم ورضا کا بندہ بن کر تیرے سارے احکام کو ماننے کے لئے تیار ہوکر تیرے دربار میں حاضر ہوتاہوں۔
( 2 ) لاشریک لک میں اللہ کی توحید کا اقرار ہے جو اصل اصول ایمان واسلام ہے اور جو دنیا میں قیام امن کا صرف ایک ہی راستہ ہے۔دنیا میں جس قدر تباہی وبربادی، فساد، بدامنی پھیلی ہوئی ہے ہے وہ سب ترک توحید کی وجہ سے ہے۔
( 3 ) پھر یہ اعتراف ہے کہ سب نعمتیں تیری ہی دی ہوئی ہیں۔ لینا دینا صرف تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ لہٰذا ہم تیری ہی حمد وثنا کرتے ہیں اور تیری ہی تعریفوں کے گیت گاتے ہیں۔
( 4 )پھر اس بات کا اقرار ہے کہ ملک وحکومت صرف خدا کی ہے۔ حقیقی بادشاہ سچا حاکم اصل مالک وہی ہے۔ ہم سب اس کے عاجز بندے ہیں۔ لہٰذا دنیا میں اسی کا قانون نافذ ہونا چاہئے اور کسی کو اپنی طرف سے نیا قانون بنانے کا اختیار نہیں ہے۔ جو کوئی قانون الٰہی سے ہٹ کر قانون سازی کرے گا وہ اللہ کا حریف ٹھہرے گا۔ دنیاوی حکام صرف اللہ تعالیٰ کے خلیفہ ہیں۔
اس لئے ان کی اطاعت بندوں پراسی وقت تک فرض ہے جب تک وہ حدود الٰہی قوانین فطرت سے آگے نہ بڑھیں اور خود خدا نہ بن بیٹھیں ا س کے برعکس ان کی اطاعت حرام ہوجاتی ہے۔غور کرو جو شخص بار بار ان سب باتوںکا اقرار کرے گاتو وہ حج کے بعد کس قسم کا انسان بن جائے گا۔ بشرطیکہ اس نے یہ تمام اقرار سچے دل سے کئے ہوں اور سمجھ بوجھ کر یہ الفاظ منہ سے نکالے ہوں
1560.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نےفرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ حج کے مہینوں، حج کی راتوں اور حج کے احرام میں روانہ ہوئے، پھر ہم نے مقام سرف میں پڑاؤ کیا۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ پھر آپ اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ’’تم میں سے جس کے پاس قربانی کا جانور نہ ہو اور اس احرام سے عمرہ کرنا چاہتا ہوتو ایسا کرسکتا ہے مگر جس کے پاس قربانی کاجانور ہو وہ ایسا نہ کرے۔‘‘ حضرت عائشہ نے فرمایاکہ آپ کے اصحاب میں سے بعض نے اس حکم سے فائدہ اٹھایا اور کچھ اس سے قاصر رہے۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین صاحب حیثیت تھے اور ان کے پاس قربانی کے جانورتھے وہ عمرہ نہیں کرسکتے تھے۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ جب میرے پاس تشریف لائے تو میں رورہی تھی۔ آپ نے فرمایا: ’’اے بھولی بھالی!کیوں روررہی ہو؟‘‘ میں نے عرض کیا: حضور!میں نے آپ کی وہ گفتگو سنی جو آپ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے کی ہے اور میں عمرہ نہیں کرسکتی ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا بات ہے؟‘‘عرض کیا: میں نماز کے قابل نہیں رہی۔ آپ نے فرمایا: ’’کوئی ضرر نہیں، آخر تم بھی دیگر بنات آدم کی طرح ہو۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے مقدر میں وہی کچھ لکھاہے جو دوسری عورتوں کے لیے ہے۔ تم اپنے حج کے احرام میں رہو، شاید اللہ تعالیٰ تمھیں عمرہ نصیب کردے۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ ہم حج کے لیے روانہ ہوئے حتیٰ کہ جب منیٰ میں آئے تو میں حیض سے پاک ہوگئی۔ پھر میں منیٰ سے روانہ ہوئی اور غسل کے بعد بیت اللہ کا طواف کیا۔ فرماتی ہیں: پھر میں آپ کے ہمراہ کوچ کے دوسرے دن وہاں سے روانہ ہوئی یہاں تک کہ آپ نے وادی محصب میں پڑاؤ کیا۔ ہم بھی آپ کے ہمراہ وہاں ٹھہرے۔ آپ نے عبدالرحمان بن ابی بکر ؓ کو بلایا اور فرمایا: ’’اپنی ہمشیرہ کوحرم سے باہر لے جاؤ تاکہ وہ وہاں سے عمرے کا احرام باندھے، پھر عمرے سے فارغ ہوکر تم لوگ یہیں واپس آجاؤ میں یہاں تمہارا منتظر ہوں۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ ہم حرم سے باہر گئے حتیٰ کہ میں ( عمرے) اور طواف سے فارغ ہوگئی۔ پھر علی الصبح رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچی تو آپ نے فرمایا: ’’تم عمرے سے فارغ ہوچکے ہو؟‘‘ میں نے عرض کیا: جی ہاں! پھر آپ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کوچ کا اعلان کیا تو لوگ چل پڑے۔ اس طرح آپ نے مدینہ منورہ کی طرف متوجہ ہوکر راہ سفر اختیار فرمایا۔ لفظ لايضرك ضار يضير ضيرا سے یا ضار يضور ضورا اور ضر يضر ضرا سے مشتق بھی کہا گیا ہے۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اس طویل حدیث سے صرف یہ ثابت کیا ہے کہ حج کا احرام حج کے مہینوں میں باندھنا چاہیے کیونکہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ حج کے مہینوں، حج کی راتوں اور حج کے احرام میں روانہ ہوئے۔ اس اسلوب بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں حج کے مہینوں میں حج کا احرام باندھنا معروف تھا۔ حج کے مہینوں سے پہلے حج کا احرام باندھنا صحیح نہیں۔ حضرت ابن عمر، ابن عباس، جابر بن عبداللہ ؓ اور دیگر صحابہ کرام و تابعین عظام کا یہی موقف ہے کہ حج کے مہینوں میں حج کا احرام باندھنا حج کے لیے شرط ہے۔ (فتح الباري:534/3) (2) حضرت عائشہ ؓ نے حیض کا عارضہ ذکر کرنے کے بجائے ادب کے طور پر یہ فرمایا: میں نماز کے قابل نہیں رہی۔ یہ اشارہ اس قدر مقبول ہوا کہ اب بھی عورتیں حیض کے موقع پر یہی الفاظ استعمال کرتی ہیں۔ (3) بخاری کے بعض نسخوں میں يَضُرك کے بجائے يَضِيرك ہے۔ امام بخاری ؒ نے يضيرك کے متعلق فرمایا: یہ باب یائی اور وادی دونوں طرح ہو سکتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1519
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1560
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1560
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1560
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
میقات کی دو قسمیں ہیں: میقات مکانی اور میقات زمانی۔ میقات مکانی، وہ مقام جہاں سے حج یا عمرے کا احرام باندھا جاتا ہے۔ میقات زمانی، وہ وقت جب حج کا احرام باندھا جاتا ہے۔ میقات مکانی اور اس کے متعلقات سے فراغت کے بعد میقات زمانی کو بیان کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے اثر کو طبری، دارقطنی (2/226) اور بیہقی (4/342) نے اپنی اپنی متصل اسناد سے بیان کیا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اثر کو امام ابن خزیمہ، امام حاکم (1/448) اور دارقطنی (2/233) نے بیان کیا ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں: حج کا احرام حج کے مہینوں ہی میں باندھا جائے۔ سنت کے مطابق حج کرنے کا یہی طریقہ ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اثر کو امام بیہقی نے اپنی سنن (5/31) میں بیان کیا ہے، واقعہ یوں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے جب خراسان فتح کیا تو اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کے لیے نذر مانی کہ وہیں سے احرام باندھ کر حج کریں گے، چنانچہ انہوں نے نیشاپور سے احرام باندھا، جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے اس فعل پر ملامت کی۔ خراسان سے مکہ مکرمہ دو، اڑھائی ماہ کی مسافت پر ہے، اس لیے حضرت عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے حج کے مہینوں سے پہلے احرام باندھا ہو گا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ملامت کرنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ تم نے حج کے مہینوں سے پہلے کیوں احرام باندھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ میقات یا میقات کے قریب سے احرام نہ باندھے کی وجہ سے ملامت کی کیونکہ اگر اس کا یہ مفہوم لیا جائے تو اس اثر کی عنوان سے کوئی مطابقت نہیں رہتی۔ (فتح الباری:3/530)
اورحضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا کہ حج کے مہینے شوال، ذیقعدہ اور ذی الحجہ کے دس دن ہیں اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے کہا سنت یہ ہے کہ حج کا احرام صرف حج کے مہینوں ہی میں باندھیں اور حضرت عثمان ؓنے کہا کہ کوئی خراسان یا کرمان سے احرام باندھ کر چلے تو یہ مکروہ ہے
تشریح : حضرت عبداللہ بن عمر ؓکے اثر کو ابن جریر اور طبری نے وصل کیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ حج کا احرام پہلے سے پہلے غرہ شوال سے باندھ سکتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے درست نہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس کے اثر کو ابن خزیمہ اور دارقطنی نے وصل کیا ہے۔ حضرت عثمانؓ کے قول کامطلب یہ ہے کہ میقات کے قریب سے احرام باندھنا سنت اور بہتر ہے گو میقات سے پہلے بھی باندھ لینا درست ہے۔ اس کو سعید بن منصور نے وصل کیا اور ابواحمد بن سیار نے تاریخ مرو میں نکالا کہ جب عبداللہ بن عامر نے خراسان فتح کیا تو اس کے شکریہ میں انہوں نے منت مانی کہ میں یہیں سے احرام باندھ کر نکلوں گا۔ حضرت عثمان ؓکے پاس آئے تو انہوں نے ان کو ملامت کی۔ کہتے ہیں اسی سال حضرت عثمان شہید ہوئے۔ حدیث میں آمدہ مقام سرف مکہ سے دس میل کے فاصلہ پر ہے۔ اسے آج کل وادی فاطمہ کہتے ہیں۔
احرام میںکیا حکمت ہے
شاہی درباروں کے آداب میں سے ایک خاص لباس بھی ہے جس کو زیب تن کئے بغیر جانا سوءادبی سمجھا جاتاہے۔ آج اس روشن تہذیب کے زمانے میں بھی ہر حکومت اپنے نشانات مقررہ کئے ہوئے ہے اور درباروں ایونوں کے لئے خاص خاص لباس مقرر کئے ہوئے ہے۔ چنانچہ ان ایوانوں میں شریک ہونے والے ممبروں کو ایک خاص ڈریس تیار کرانا پڑتاہے۔ جس کو زیب تن کر کے وہ شریک اجلاس ہوتے ہیں۔ حج احکم الحاکمین رب العالمین کا سالانہ جشن ہے۔ اسکے دربار کی حاضری ہے پس اس کے لئے تیاری نہ کرنا اور ایسے ہی گشاخانہ چلے آنا کیونکر مناسب ہوسکتاہے۔ اس لئے حکم ہے کہ میقات سے اس دربارکی حضوری کی تیاری شروع کردو اور اپنی وہ حالت بنالو جو پسندیدہ بارگاہ عالی، یعنی عاجزی، مسکینی، ترک زینت، تبتل الی للہ اس لئے احرام کا لباس بھی ایسا ہی سادہ رکھا جو سب سے آسان اور سہل الحصول ہے اور جس میں مساوات اسلام کا بخوبی ظہور ہوتاہے۔ اس میں کفن کی بھی مشابہت ہے جس سے انسان کو یہ بھی یاد آجاتا ہے کہ دنیاسے رخصت ہوتے وقت اس کو اتنا ہی کپڑا نصیب ہوگا۔ نیز اس سے انسان کو اپنی ابتدائی حالت بھی یا دآتی ہے جب کہ وہ ابتدائی دور میں تھا اورحجر و شجر کے لباس سے نکل کر اس نے اپنے لئے کپڑے کا لباس ایجاد کیا تھا۔ احرام کے اس سادہ لباس میں ایک طرف فقیری کی تلقین ہے تو دوسری طرف ایک فقیری فوج میں ڈسپلن بھی قائم کرنا مقصود ہے۔
لبیک پکارنے میں کیاحکمت ہے
لبیک کا نعرہ اللہ کی فوج کا قومی نعرہ ہے جو جشن خداوندی کی شرکت کے لیے اقصائے عالم سے کھنچی چلی آرہی ہے۔ احرام باندھنے سے کھولنے تک ہرحاجی کو نہایت خشوع وخضوع کے ساتھ بار بار لبیک کا نعرہ پکارنا ضروری ہے۔ جس کے مقدس الفاظ یہ ہوتے ہیں لبیک اللہم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک حاضر ہوں۔ الٰہی!فقیرانہ و غلامانہ جذبات میں تیرے جشن کی شرکت کے لئے حاضر ہوں۔ حاضرہوں۔ حاضر ہوں تجھے واحد بے مثال سمجھ کر حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں ہے۔ میں حاضر ہوں۔ تمام تعریفیں تیرے ہی لئے زیبا ہیں اور سب نعمتیں تیری ہی عطا کی ہوئی ہیں۔ راج پاٹ سب کا مالک حقیقی صرف تو ہی ہے۔ اس میں کوئی تیرا شریک نہیں۔ الفاظ کی گہرائی پر اگر غور کیا جائے تو بے شمار حکمتیں ان میں نظر آئیں گی۔ ان الفاظ میں ایک طرف سچے بادشاہ کی خدائی کا اعتراف ہے تو دوسری طرف اپنی خودی کو بھی ایک درجہ خاص میں رکھ کر اس کے سامنے پیش کیا گیا ہے
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
( 1 ) بار بار لبیک کہنا یہ اقرار کرناہے کہ اے خدا! میں پورے طور پر تسلیم ورضا کا بندہ بن کر تیرے سارے احکام کو ماننے کے لئے تیار ہوکر تیرے دربار میں حاضر ہوتاہوں۔
( 2 ) لاشریک لک میں اللہ کی توحید کا اقرار ہے جو اصل اصول ایمان واسلام ہے اور جو دنیا میں قیام امن کا صرف ایک ہی راستہ ہے۔دنیا میں جس قدر تباہی وبربادی، فساد، بدامنی پھیلی ہوئی ہے ہے وہ سب ترک توحید کی وجہ سے ہے۔
( 3 ) پھر یہ اعتراف ہے کہ سب نعمتیں تیری ہی دی ہوئی ہیں۔ لینا دینا صرف تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ لہٰذا ہم تیری ہی حمد وثنا کرتے ہیں اور تیری ہی تعریفوں کے گیت گاتے ہیں۔
( 4 )پھر اس بات کا اقرار ہے کہ ملک وحکومت صرف خدا کی ہے۔ حقیقی بادشاہ سچا حاکم اصل مالک وہی ہے۔ ہم سب اس کے عاجز بندے ہیں۔ لہٰذا دنیا میں اسی کا قانون نافذ ہونا چاہئے اور کسی کو اپنی طرف سے نیا قانون بنانے کا اختیار نہیں ہے۔ جو کوئی قانون الٰہی سے ہٹ کر قانون سازی کرے گا وہ اللہ کا حریف ٹھہرے گا۔ دنیاوی حکام صرف اللہ تعالیٰ کے خلیفہ ہیں۔
اس لئے ان کی اطاعت بندوں پراسی وقت تک فرض ہے جب تک وہ حدود الٰہی قوانین فطرت سے آگے نہ بڑھیں اور خود خدا نہ بن بیٹھیں ا س کے برعکس ان کی اطاعت حرام ہوجاتی ہے۔غور کرو جو شخص بار بار ان سب باتوںکا اقرار کرے گاتو وہ حج کے بعد کس قسم کا انسان بن جائے گا۔ بشرطیکہ اس نے یہ تمام اقرار سچے دل سے کئے ہوں اور سمجھ بوجھ کر یہ الفاظ منہ سے نکالے ہوں
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نےفرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ حج کے مہینوں، حج کی راتوں اور حج کے احرام میں روانہ ہوئے، پھر ہم نے مقام سرف میں پڑاؤ کیا۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ پھر آپ اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ’’تم میں سے جس کے پاس قربانی کا جانور نہ ہو اور اس احرام سے عمرہ کرنا چاہتا ہوتو ایسا کرسکتا ہے مگر جس کے پاس قربانی کاجانور ہو وہ ایسا نہ کرے۔‘‘ حضرت عائشہ نے فرمایاکہ آپ کے اصحاب میں سے بعض نے اس حکم سے فائدہ اٹھایا اور کچھ اس سے قاصر رہے۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین صاحب حیثیت تھے اور ان کے پاس قربانی کے جانورتھے وہ عمرہ نہیں کرسکتے تھے۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ جب میرے پاس تشریف لائے تو میں رورہی تھی۔ آپ نے فرمایا: ’’اے بھولی بھالی!کیوں روررہی ہو؟‘‘ میں نے عرض کیا: حضور!میں نے آپ کی وہ گفتگو سنی جو آپ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے کی ہے اور میں عمرہ نہیں کرسکتی ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا بات ہے؟‘‘عرض کیا: میں نماز کے قابل نہیں رہی۔ آپ نے فرمایا: ’’کوئی ضرر نہیں، آخر تم بھی دیگر بنات آدم کی طرح ہو۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے مقدر میں وہی کچھ لکھاہے جو دوسری عورتوں کے لیے ہے۔ تم اپنے حج کے احرام میں رہو، شاید اللہ تعالیٰ تمھیں عمرہ نصیب کردے۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ ہم حج کے لیے روانہ ہوئے حتیٰ کہ جب منیٰ میں آئے تو میں حیض سے پاک ہوگئی۔ پھر میں منیٰ سے روانہ ہوئی اور غسل کے بعد بیت اللہ کا طواف کیا۔ فرماتی ہیں: پھر میں آپ کے ہمراہ کوچ کے دوسرے دن وہاں سے روانہ ہوئی یہاں تک کہ آپ نے وادی محصب میں پڑاؤ کیا۔ ہم بھی آپ کے ہمراہ وہاں ٹھہرے۔ آپ نے عبدالرحمان بن ابی بکر ؓ کو بلایا اور فرمایا: ’’اپنی ہمشیرہ کوحرم سے باہر لے جاؤ تاکہ وہ وہاں سے عمرے کا احرام باندھے، پھر عمرے سے فارغ ہوکر تم لوگ یہیں واپس آجاؤ میں یہاں تمہارا منتظر ہوں۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ ہم حرم سے باہر گئے حتیٰ کہ میں ( عمرے) اور طواف سے فارغ ہوگئی۔ پھر علی الصبح رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچی تو آپ نے فرمایا: ’’تم عمرے سے فارغ ہوچکے ہو؟‘‘ میں نے عرض کیا: جی ہاں! پھر آپ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کوچ کا اعلان کیا تو لوگ چل پڑے۔ اس طرح آپ نے مدینہ منورہ کی طرف متوجہ ہوکر راہ سفر اختیار فرمایا۔ لفظ لايضرك ضار يضير ضيرا سے یا ضار يضور ضورا اور ضر يضر ضرا سے مشتق بھی کہا گیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے اس طویل حدیث سے صرف یہ ثابت کیا ہے کہ حج کا احرام حج کے مہینوں میں باندھنا چاہیے کیونکہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ حج کے مہینوں، حج کی راتوں اور حج کے احرام میں روانہ ہوئے۔ اس اسلوب بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں حج کے مہینوں میں حج کا احرام باندھنا معروف تھا۔ حج کے مہینوں سے پہلے حج کا احرام باندھنا صحیح نہیں۔ حضرت ابن عمر، ابن عباس، جابر بن عبداللہ ؓ اور دیگر صحابہ کرام و تابعین عظام کا یہی موقف ہے کہ حج کے مہینوں میں حج کا احرام باندھنا حج کے لیے شرط ہے۔ (فتح الباري:534/3) (2) حضرت عائشہ ؓ نے حیض کا عارضہ ذکر کرنے کے بجائے ادب کے طور پر یہ فرمایا: میں نماز کے قابل نہیں رہی۔ یہ اشارہ اس قدر مقبول ہوا کہ اب بھی عورتیں حیض کے موقع پر یہی الفاظ استعمال کرتی ہیں۔ (3) بخاری کے بعض نسخوں میں يَضُرك کے بجائے يَضِيرك ہے۔ امام بخاری ؒ نے يضيرك کے متعلق فرمایا: یہ باب یائی اور وادی دونوں طرح ہو سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا کہ حج کے مہینے شوال، ذوالعقیدہ اور ذوالحجہ کے دس دن ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: مسنون یہ ہے کہ حج کا احرام صرف حج کے مہینوں میں باندھا جائے۔ حضرت عثمان ؓ نے خراسان اور کرمان سے احرام باندھنا مکروہ خیال کیاہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابو بکر حنفی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے افلح بن حمید نے بیان کیا، کہا کہ میں نے قاسم بن محمد سے سنا، ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ ہم رسول للہ ﷺ کے ساتھ حج کے مہینوں میں حج کی راتوں میں اور حج کے دنوں میں نکلے۔ پھر سرف میں جاکر اترے۔ آپ نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم ﷺ نے صحابہ کو خطاب فرمایا جس کے ساتھ ہدی نہ ہو اور وہ چاہتا ہوکہ اپنے احرام کو صرف عمرہ کا بنالے تو اسے ایسا کرلینا چاہئے لیکن جس کے ساتھ قربانی ہے وہ ایسا نہ کرے۔ حضرت عائشہ ؓ نے بیان فرمایا کہ آنحضور ﷺ کے بعض اصحاب نے اس فرمان پر عمل کیا اور بعض نے نہیں کیا۔ انہو ں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ او رآ پ کے بعض اصحاب جو استطاعت وحوصلہ والے تھے ( کہ وہ احرام کے ممنوعات سے بچ سکتے تھے۔ ) ان کے ساتھ ہدی بھی تھی، اس لئے وہ تنہا عمرہ نہیں کرسکتے تھے ( پس انہوں نے احرام نہیں کھولا ) عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاش تشریف لائے تو میں رو رہی تھی۔ آپ نے پوچھا کہ ( اے بھولی بھالی عورت ! تو ) رو کیوں رہی ہے؟ میں نے عرض کی کہ میں نے آپ کے اپنے صحابہ سے ارشاد کو سن لیا، اب تو میں عمرہ نہ کرسکوں گی۔ آپ نے پوچھا کیا بات ہے؟ میں نے کہا میں نماز پڑھنے کے قابل نہ رہی ( یعنی حائضہ ہوگئی ) آپ نے فرمایا کوئی حرج نہیں۔ آخر تم بھی آدم کی بیٹیوں کی طرح ایک عورت ہو اور اللہ نے تمہارے لئے بھی وہ مقدر کیا ہے جو تمام عورتوں کے لئے کیا ہے۔ اس لئے ( عمرہ چھوڑ کر ) حج کرتی رہ اللہ تعالیٰ تمہیں جلد ہی عمرہ کی توفیق دے دے گا۔ حضرت عائشہ ؓ نے یہ بیان کیا کہ ہم حج کے لیے نکلے۔ جب ہم ( عرفات سے ) منیٰ پہنچے تومیں پاک ہوگئی۔ پھر منٰی سے جب میں نکلی تو بیت اللہ کا طواف الزیارۃ کیا۔ آپ نے بیان کیا کہ آخر میں آنحضور ﷺ کے ساتھ جب واپس ہونے لگی تو آپ وادی محصب میں آن کر اترے۔ ہم بھی آپ کے ساتھ ٹھہرے۔ آپ نے عبدالرحمن بن ابی بکر کو بلاکر کہا کہ اپنی بہن کو لے کرحرم سے باہر جا اور وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ پھر عمرہ سے فارغ ہوکر تم لوگ یہیں واپس آجاؤ، میں تمہارا انتظار کرتا رہوں گا۔ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ ہم ( آنحضور ﷺ کی ہدایت کے مطابق ) چلے اور جب میں اورمیرے بھائی طواف سے فارغ ہو لیے تو میں سحری کے وقت آپ کی خدمت میں پہنچی۔ آپ نے پوچھا کہ فارغ ہولیں؟ میں نے کہا ہاں۔ تب آپ نے اپنے ساتھیوں سے سفر شروع کردینے کے لیے کہا۔ سفر شروع ہوگیا اور آپ مدینہ منورہ واپس ہورہے تھے۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری ) نے کہا کہ جو لایضیرک ہے وہ ضاریضیرضیرا سے مشتق ہے ضار یضور ضورا بھی استعمال ہوتاہے۔ اورجس روایت میں لایضرک ہے وہ ضریضرضرا سے نکلا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Qasim bin Muhammad (RA): ' Aisha (RA) said, "We set out with Allah's Apostles in the months of Hajj, and (in) the nights of Hajj, and at the time and places of Hajj and in a state of Hajj. We dismounted at Sarif (a village six miles from Makkah). The Prophet (ﷺ) then addressed his companions and said, "Anyone who has not got the Hadi and likes to do Umra instead of Hajj may do so (i.e. Hajj-al-Tamattu) and anyone who has got the Hadi should not finish the Ihram after performing ' Umra). (i.e. Hajj-al-Qiran). Aisha (RA) added, "The companions of the Prophet (ﷺ) obeyed the above (order) and some of them (i.e. who did not have Hadi) finished their Ihram after Umra." Allah's Apostle (ﷺ) and some of his companions were resourceful and had the Hadi with them, they could not perform Umra (alone) (but had to perform both Hajj and Umra with one Ihram). Aisha (RA) added, "Allah's Apostle (ﷺ) came to me and saw me weeping and said, "What makes you weep, O Hantah?" I replied, "I have heard your conversation with your companions and I cannot perform the Umra." He asked, "What is wrong with you?' I replied, ' I do not offer the prayers (i.e. I have my menses).' He said, ' It will not harm you for you are one of the daughters of Adam, and Allah has written for you (this state) as He has written it for them. Keep on with your intentions for Hajj and Allah may reward you that." Aisha (RA) further added, "Then we proceeded for Hajj till we reached Mina and I became clean from my menses. Then I went out from Mina and performed Tawaf round the Ka’bah." Aisha (RA) added, "I went along with the Prophet (ﷺ) in his final departure (from Hajj) till he dismounted at Al-Muhassab (a valley outside Makkah), and we too, dismounted with him." He called ' Abdur-Rahman bin Abu Bakr (RA) and said to him, ' Take your sister outside the sanctuary of Makkah and let her assume Ihram for ' Umra, and when you had finished ' Umra, return to this place and I will wait for you both till you both return to me.' " ' Aisha (RA) added, ' ' So we went out of the sanctuary of Makkah and after finishing from the ' Umra and the Tawaf we returned to the Prophet (ﷺ) at dawn. He said, 'Have you performed the ' Umra?' We replied in the affirmative. So he announced the departure amongst his companions and the people set out for the journey, and the Prophet: too left for Medina.''