باب: حج میں تمتع، قران اور افراد کا بیان اور جس کے ساتھ ہدی نہ ہو، اسے حج فسخ کر کے عمرہ بنا دینے کی اجازت ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: Hajj-at-Tamattu', Hajj-al-Qiran, and Hajj-al-Ifrad)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1561.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ (مدینہ سے) روانہ ہوئے تو صرف حج کرنے کاارادہ تھا لیکن جب ہم نے مکہ مکرمہ پہنچ کرکعبہ کاطواف کرلیا تو نبی کریم ﷺ نے حکم دیا کہ جو شخص قربانی کاجانور ساتھ لے کر نہ آیا ہو و ہ احرام کھول دے، چنانچہ جو لوگ قربانی ساتھ نہ لائے تھے وہ احرام سے باہر ہوگئے۔ چونکہ آپ کی ازواج مطہرات بھی قربانی کاجانور ہمراہ نہ لائی تھیں، اس لیے انھوں نے بھی احرام کھول دیے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ ﷺ فرماتی ہیں کہ میں حالت حیض میں تھی، اس لیے میں نے طواف نہ کیا۔ جب وادی محصب میں ٹھہرنے کی رات تھی تو میں نے عرض کیا: اللہ کے ر سول ﷺ ! لوگ تو عمرہ اور حج کرکے لوٹیں گے اور میں صرف حج کرکے واپس جارہی ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’جن راتوں میں ہم مکہ مکرمہ آئے تھے کیا تم نے طواف نہیں کیا تھا؟‘‘ میں نے عرض کیا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’تم اپنے بھائی (عبدالرحمان بن ابی بکرؓ) کے ساتھ مقام تنعیم جاؤ اور عمرے کا احرام باندھ کر اس کی تکمیل کرو، اس کے بعد فلاں جگہ پر آجانا۔ ’’ام المومنین صفیہ ؓ نے کہا: میرا خیال ہے کہ میری وجہ سے لوگوں کو رکنا پڑے گا۔ آپ نے فرمایا: ’’عقریٰ حلقیٰ! کیا تو نے قربانی کے دن طواف نہیں کیا تھا؟‘‘ حضرت صفیہ ؓ نے عرض کیا: کیوں نہیں، یعنی میں نے طواف زیارت کیا تھا، آپ نے فرمایا: ’’پھر کوئی حرج نہیں روانہ ہوجاؤ۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ میری نبی کریم ﷺ سے ملاقات ہوئی جبکہ آپ مکہ جارہے تھے اور میں واپس آرہی تھی یا میں مکہ کو جاری تھی اور آپ واپس آرہے تھے۔
تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ نے ان صحابہ کرام ؓ کو جو قربانی ساتھ نہیں لائے تھے عمرہ کر کے احرام کھول دینے کا حکم دیا تو اس سے حج تمتع ثابت ہوا، نیز اس سے حج کو فسخ کر کے عمرے میں بدل دینے کا جواز بھی ثابت ہوا۔ (2) امام بخاری ؒ کا عنوان بھی یہی ہے، البتہ اس حدیث میں ہے کہ ہمارا صرف حج کرنے کا ارادہ تھا جبکہ حضرت عروہ کی روایت کے مطابق حضرت عائشہ ؓ نے عمرے کا احرام باندھا تھا۔ (صحیح البخاري، العمرة، حدیث:1783، والمغازي، حدیث:4395) علامہ اسماعیلی نے اس روایت کو غلط قرار دیا ہے جس میں حضرت عائشہ ؓ سے احرام عمرے کا ذکر ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ دور جاہلیت میں عمرے کے متعلق یہ خیال تھا کہ اسے حج کے مہینوں میں نہیں کرنا چاہیے، اس لیے صحابہ کرام ؓ حج کا احرام باندھ کر روانہ ہوئے۔ ان میں حضرت عائشہ ؓ بھی تھیں۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے جب وضاحت کی اور حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کو جائز قرار دیا تو حضرت عائشہ ؓ نے عمرے کا احرام باندھ لیا، اس لیے حضرت عروہ کی روایت کو غلط قرار دینے کی ضرورت نہیں۔ ان مختلف روایات میں تطبیق کی یہ صورت بھی ممکن ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے حج افراد کا احرام باندھا جیسا کہ دیگر صحابہ کرام نے کیا تھا۔ مذکورہ حدیثِ اسود میں اسی کا بیان ہے۔ پھر آپ نے احرامِ حج کو عمرے میں بدل دینے کا حکم دیا تو حضرت عائشہ ؓ نے بھی اسی عمرے کے احرام میں بدل لیا جیسا کہ حدیث عروہ میں ہے لیکن جب مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو حضرت عائشہ اپنے عارضے کی وجہ سے عمرہ نہ کر سکتی تھیں، اس لیے آپ نے عمرہ چھوڑ دینے کا حکم دیا اور فرمایا کہ تم حج کے احرام کی نیت کر لو۔ (فتح الباري:534/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1520
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1561
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1561
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1561
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
حج کی تین قسمیں ہیں: حج تمتع، حج قران، حج افراد۔ ٭ حج تمتع: اس سے مراد حج کے مہینوں میں عمرے کا احرام باندھ کر مکہ مکرمہ میں داخل ہونا، پھر عمرہ کر کے احرام کھول دینا اور غیر محرم ہی رہنا حتی کہ آٹھ ذوالحجہ کو حج کے لیے احرام باندھنا۔ اس حج میں قربانی کرنا ضروری ہے۔ ٭ حج قِران: اس سے مراد میقات سے حج اور عمرے کا احرام باندھنے کے بعد مکہ پہنچ کر عمرہ کرنا اور سعی کرنے کے بعد احرام نہ کھولنا بلکہ حالت احرام ہی میں ایام حج کا انتظار کرنا اور اسی احرام سے حج مکمل کرنا۔ اس میں مسنون یہ ہے کہ قربانی ساتھ لے کر جائے۔ ٭ حج افراد: میقات سے صرف حج کے لیے احرام باندھ کر تمام مناسک حج سرانجام دینا حج افراد کہلاتا ہے۔ اس میں قربانی واجب نہیں۔ میقات سے صرف عمرے کے ارادے سے احرام باندھ کر عمرہ ادا کرنا، عمرہ مفردہ کہلاتا ہے۔ چونکہ تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، اس لیے ہر قسم کی الگ نیت کرنا ضروری ہے، مبہم نیت کافی نہیں ہو گی۔ مذکورہ بالا تینوں اقسام میں سے کسی ایک قسم حج کی نیت کی جا سکتی ہے، ان کے جواز پر اجماع ہے، البتہ حج تمتع افضل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ حج قِران کیا تھا لیکن آپ نے فرمایا تھا: "اگر مجھے اپنے معاملے کا پہلے علم ہوتا جس کا مجھے بعد میں علم ہوا تو میں قربانی لے کر نہ چلتا بلکہ اسے عمرہ بنا لیتا۔" (مسنداحمد:3/147) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم افضل عمل ہی کی تمنا کر سکتے ہیں، نیز اس میں سہولت بھی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے آئندہ احادیث میں حج کی تینوں اقسام کو بیان کیا ہے۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ (مدینہ سے) روانہ ہوئے تو صرف حج کرنے کاارادہ تھا لیکن جب ہم نے مکہ مکرمہ پہنچ کرکعبہ کاطواف کرلیا تو نبی کریم ﷺ نے حکم دیا کہ جو شخص قربانی کاجانور ساتھ لے کر نہ آیا ہو و ہ احرام کھول دے، چنانچہ جو لوگ قربانی ساتھ نہ لائے تھے وہ احرام سے باہر ہوگئے۔ چونکہ آپ کی ازواج مطہرات بھی قربانی کاجانور ہمراہ نہ لائی تھیں، اس لیے انھوں نے بھی احرام کھول دیے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ ﷺ فرماتی ہیں کہ میں حالت حیض میں تھی، اس لیے میں نے طواف نہ کیا۔ جب وادی محصب میں ٹھہرنے کی رات تھی تو میں نے عرض کیا: اللہ کے ر سول ﷺ ! لوگ تو عمرہ اور حج کرکے لوٹیں گے اور میں صرف حج کرکے واپس جارہی ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’جن راتوں میں ہم مکہ مکرمہ آئے تھے کیا تم نے طواف نہیں کیا تھا؟‘‘ میں نے عرض کیا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’تم اپنے بھائی (عبدالرحمان بن ابی بکرؓ) کے ساتھ مقام تنعیم جاؤ اور عمرے کا احرام باندھ کر اس کی تکمیل کرو، اس کے بعد فلاں جگہ پر آجانا۔ ’’ام المومنین صفیہ ؓ نے کہا: میرا خیال ہے کہ میری وجہ سے لوگوں کو رکنا پڑے گا۔ آپ نے فرمایا: ’’عقریٰ حلقیٰ! کیا تو نے قربانی کے دن طواف نہیں کیا تھا؟‘‘ حضرت صفیہ ؓ نے عرض کیا: کیوں نہیں، یعنی میں نے طواف زیارت کیا تھا، آپ نے فرمایا: ’’پھر کوئی حرج نہیں روانہ ہوجاؤ۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ میری نبی کریم ﷺ سے ملاقات ہوئی جبکہ آپ مکہ جارہے تھے اور میں واپس آرہی تھی یا میں مکہ کو جاری تھی اور آپ واپس آرہے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ ﷺ نے ان صحابہ کرام ؓ کو جو قربانی ساتھ نہیں لائے تھے عمرہ کر کے احرام کھول دینے کا حکم دیا تو اس سے حج تمتع ثابت ہوا، نیز اس سے حج کو فسخ کر کے عمرے میں بدل دینے کا جواز بھی ثابت ہوا۔ (2) امام بخاری ؒ کا عنوان بھی یہی ہے، البتہ اس حدیث میں ہے کہ ہمارا صرف حج کرنے کا ارادہ تھا جبکہ حضرت عروہ کی روایت کے مطابق حضرت عائشہ ؓ نے عمرے کا احرام باندھا تھا۔ (صحیح البخاري، العمرة، حدیث:1783، والمغازي، حدیث:4395) علامہ اسماعیلی نے اس روایت کو غلط قرار دیا ہے جس میں حضرت عائشہ ؓ سے احرام عمرے کا ذکر ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ دور جاہلیت میں عمرے کے متعلق یہ خیال تھا کہ اسے حج کے مہینوں میں نہیں کرنا چاہیے، اس لیے صحابہ کرام ؓ حج کا احرام باندھ کر روانہ ہوئے۔ ان میں حضرت عائشہ ؓ بھی تھیں۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے جب وضاحت کی اور حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کو جائز قرار دیا تو حضرت عائشہ ؓ نے عمرے کا احرام باندھ لیا، اس لیے حضرت عروہ کی روایت کو غلط قرار دینے کی ضرورت نہیں۔ ان مختلف روایات میں تطبیق کی یہ صورت بھی ممکن ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے حج افراد کا احرام باندھا جیسا کہ دیگر صحابہ کرام نے کیا تھا۔ مذکورہ حدیثِ اسود میں اسی کا بیان ہے۔ پھر آپ نے احرامِ حج کو عمرے میں بدل دینے کا حکم دیا تو حضرت عائشہ ؓ نے بھی اسی عمرے کے احرام میں بدل لیا جیسا کہ حدیث عروہ میں ہے لیکن جب مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو حضرت عائشہ اپنے عارضے کی وجہ سے عمرہ نہ کر سکتی تھیں، اس لیے آپ نے عمرہ چھوڑ دینے کا حکم دیا اور فرمایا کہ تم حج کے احرام کی نیت کر لو۔ (فتح الباري:534/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے اسود نے اور ان سے عائشہ ؓ نے کہ ہم حج کے لیے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے۔ ہماری نیت حج کے سوااور کچھ نہ تھی۔ جب ہم مکہ پہنچے تو ( اور لوگوں نے ) بیت اللہ کا طواف کیا۔ آنحضور ﷺ کا حکم تھا کہ جو قربانی اپنے ساتھ نہ لایا ہو وہ حلال ہوجائے۔ چنانچہ جن کے پاس ہدی نہ تھی وہ حلال ہوگئے۔ ( افعال عمرہ کے بعد ) آنحضور ﷺ کی ازواج مطہرات ہدی نہیں لے گئی تھیں، اس لئے انہوں نے بھی احرام کھول ڈالے۔ عائشہ ؓ نے کہا کہ میں حائضہ ہوگئی تھیں اس لیے بیت اللہ کا طواف نہ کرسکی ( یعنی عمرہ چھوٹ گیا اورحج کرتی چلی گئی ) جب محصب کی رات آئی، میں نے کہا یا رسول اللہ ! اور لوگ تو حج اور عمرہ دونوں کر کے واپس ہورہے ہیں لیکن میں صرف حج کر سکی ہوں۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ جب ہم مکہ آئے تھے تو تم طواف نہ کرسکی تھی؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اپنے بھائی کے ساتھ تنعیم تک چلی جااور وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ ( پھر عمرہ ادا کر ) ہم لوگ تمہارا فلاں جگہ انتظارکریں گے اور صفیہ ؓ نے کہا کہ معلوم ہوتاہے میں بھی آپ ( لوگوں ) کو روکنے کاسبب بن جاوں گی۔ آنحضور ﷺ نے فرمایا مردار سرمنڈی کیا تو نے یوم نحرکا طواف نہیں کیاتھا؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں میں تو طواف کرچکی ہوں۔ آپ نے فرمایا پھر کوئی حرج نہیں چل کوچ کر۔ عائشہ ؓ نے کہا کہ پھر میری ملاقات نبی کریم ﷺ سے ہوئی تو آپ مکہ سے جاتے ہوئے اوپر کے حصہ پرچڑھ رہے تھے اور میں نشیب میں اتررہی تھی یا یہ کہا کہ میں اوپر چڑھ رہی تھی او رآنحضور ﷺ اس چڑھاؤ کے بعد اتررہے تھے۔
حدیث حاشیہ:
حج کی تین قسمیں ہیں۔ ایک تمتع وہ یہ ہے کہ میقات سے عمرہ کا احرام باندھے اور مکہ میں جاکر طواف اور سعی کر کے احرام کھول ڈالے۔ پر آٹھویں تاریخ کو حرم ہی سے حج کا احرام باندھے۔ دوسرے قران وہ یہ ہے کہ میقات سے حج اور عمرہ دونوں کا احرام ایک ساتھ باندھے یا پہلے صرف عمرے کا احرام باندھے پھر حج کو بھی اس میں شریک کر لے۔ اس صورت میں عمرے کے افعال حج میں شریک ہوجاتے ہیں اور عمرے کے افعال علیحدہ نہیں کرنا پڑتے۔ تیسرے حج مفرد یعنی میقات سے صرف حج ہی کا احرام باندھے اور جس کے ساتھ ہدی نہ ہو اس کا حج فسخ کر کے عمرہ بنا دینا۔ یہ ہمارے امام احمد بن حنبل اور جملہ اہلحدیث کے نزدیک جائز ہے۔ اور امام مالک اور شافعی اور ابو حنیفہ اور جمہور علماء نے کہا کہ یہ امر خاص تھا ان صحابہ سے جن کو آنحضرت ﷺ نے اس کی اجازت دی تھی اور دلیل لیتے ہیں ہلال بن حارث کی حدیث سے جس میں یہ ہے کہ تمہارے لئے خاص ہے اور یہ روایت ضعیف ہے اعتماد کے لائق نہیں۔ امام ابن قیم اور شوکانی اور محققین اہلحدیث نے کہا کہ فسخ حج کو چوبیس صحابہ نے روایت کیاہے۔ ہلال بن حارث کی ایک ضعیف روایت ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ آپ نے ان صحابہ کو جو قربانی نہیں لائے تھے، عمرہ کر کے احرام کھول ڈالنے کا حکم دیا۔ اس سے تمتع اور حج کو فسخ کر کے عمرہ کر ڈالنے کا جواز ثابت ہوا اورحضرت عائشہ ؓ کو جو حج کی نیت کر لینے کا حکم دیا اس سے قران کا جواز نکلا۔ گو اس روایت میں اس کی صراحت نہیں ہے مگر جب انہوں نے حیض کی وجہ سے عمرہ ادا نہیں کیا تھا اور حج کرنے لگیں تو یہ مطلب نکل آیا۔ اوپر کی روایتوں میں اس کی صراحت ہوچکی ہے۔ ( وحيدالزمان مرحوم )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Aswad (RA): ' Aisha (RA) said, We went out with the Prophet (ﷺ) (from Medina) with the intention of performing Hajj only and when we reached Makkah we performed Tawaf round the Kaba and then the Prophet (ﷺ) ordered those who had not driven the Hadi along with them to finish their Ihram. So the people who had not driven the Hadi along with them finished their Ihram. The Prophet's wives, too, had not driven the Hadi with them, so they too, finished their Ihram." 'Aisha (RA) added, "I got my menses and could not perform Tawaf round the Ka’bah." So when it was the night of Hasba (i.e. when we stopped at Al-Muhassab), I said, 'O Allah's Apostle (ﷺ) ! Everyone is returning after performing Hajj and 'Umra but I am returning after performing Hajj only.' He said, 'Didn't you perform Tawaf round the Ka’bah the night we reached Makkah?' I replied in the negative. He said, 'Go with your brother to Tan'im and assume the Ihram for'Umra, (and after performing it) come back to such and such a place.' On that Safiya said, 'I feel that I will detain you all.' The Prophet (ﷺ) said, 'O 'Aqra Halqa! Didn't you perform Tawaf of the Ka’bah on the day of sacrifice? (i.e. Tawaf-al-ifada) Safiya replied in the affirmative. He said, (to Safiya). 'There is no harm for you to proceed on with us.' " 'Aisha (RA) added, "(after returning from 'Umra), the Prophet (ﷺ) met me while he was ascending (from Makkah) and I was descending to it, or I was ascending and he was descending." ________