باب: حج میں تمتع، قران اور افراد کا بیان اور جس کے ساتھ ہدی نہ ہو، اسے حج فسخ کر کے عمرہ بنا دینے کی اجازت ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: Hajj-at-Tamattu', Hajj-al-Qiran, and Hajj-al-Ifrad)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1563.
حضرت مردان بن حکم سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ کی ایک مجلس میں موجود تھا۔ حضرت عثمان ؓ نے حج تمتع اور حج عمرہ اکٹھا کرنے(حج قرآن) سے منع کیا۔ حضر ت علی ؓ نے جب یہ دیکھا تو حج اورعمرہ دونوں کاایک ساتھ احرام باندھا اور کہا: "لبيك بعمرة وحجة" پھر فرمایا کہ میں نبی کریم ﷺ کی سنت کو کسی کے کہنے سے نہیں چھوڑوں گا۔
تشریح:
(1) حضرت عثمان اور حضرت علی ؓ کا یہ اجتماع مقام عسفان میں ہوا۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1569) (2) حضرت عثمان ؓ تمتع اور قران دونوں سے منع کرتے تھے تاکہ لوگ حج افراد کو بالکل ہی نظر انداز نہ کر دیں۔ یہ بھی احتمال ہے کہ آپ صرف حج قران سے منع کرتے ہوں اور اس کو تمتع اس لیے کہا جاتا ہے کہ حج قران کرنے والا عمرے کے لیے الگ سفر کرنے کی اذیت سے محفوظ رہتا ہے، اس طرح وہ ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ دونوں ادا کرنے کا فائدہ حاصل کر لیتا ہے۔ چونکہ حضرت عثمان ؓ کا منع کرنا اپنے اجتہاد کی بنا پر تھا، اس لیے حضرت علی ؓ نے اس پر عمل نہیں کیا بلکہ فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کو کسی کے قول کی بنا پر ترک نہیں کیا جا سکتا۔ (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت عثمان ؓ بہت بردبار اور حلیم الطبع تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے خلیفہ ہونے کے باوجود اس مخالفت پر کسی کو ملامت نہیں کی۔ (4) سنن نسائی کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے اپنے اس موقف سے رجوع کر لیا تھا۔ (سنن النسائي، مناسك الحج، حدیث:2724) لیکن یہ رجوع صریح الفاظ میں نہیں بلکہ اس روایت سے رجوع کا اشارہ ملتا ہے۔ (فتح الباري:536/3) (5) اس حدیث سے اتباع سنت کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ صحابہ کرام ؓ رسول اکرم ﷺ کی حدیث کے مقابلے میں کسی صحابی کے اجتہاد کو بھی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ جو لوگ صریح حدیث کو اس لیے ترک کر دیتے ہیں کہ ہمارے امام، مفتی یا بزرگ کا فتویٰ اس پر نہیں ہے، ان کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1522
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1563
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1563
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1563
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
حج کی تین قسمیں ہیں: حج تمتع، حج قران، حج افراد۔ ٭ حج تمتع: اس سے مراد حج کے مہینوں میں عمرے کا احرام باندھ کر مکہ مکرمہ میں داخل ہونا، پھر عمرہ کر کے احرام کھول دینا اور غیر محرم ہی رہنا حتی کہ آٹھ ذوالحجہ کو حج کے لیے احرام باندھنا۔ اس حج میں قربانی کرنا ضروری ہے۔ ٭ حج قِران: اس سے مراد میقات سے حج اور عمرے کا احرام باندھنے کے بعد مکہ پہنچ کر عمرہ کرنا اور سعی کرنے کے بعد احرام نہ کھولنا بلکہ حالت احرام ہی میں ایام حج کا انتظار کرنا اور اسی احرام سے حج مکمل کرنا۔ اس میں مسنون یہ ہے کہ قربانی ساتھ لے کر جائے۔ ٭ حج افراد: میقات سے صرف حج کے لیے احرام باندھ کر تمام مناسک حج سرانجام دینا حج افراد کہلاتا ہے۔ اس میں قربانی واجب نہیں۔ میقات سے صرف عمرے کے ارادے سے احرام باندھ کر عمرہ ادا کرنا، عمرہ مفردہ کہلاتا ہے۔ چونکہ تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، اس لیے ہر قسم کی الگ نیت کرنا ضروری ہے، مبہم نیت کافی نہیں ہو گی۔ مذکورہ بالا تینوں اقسام میں سے کسی ایک قسم حج کی نیت کی جا سکتی ہے، ان کے جواز پر اجماع ہے، البتہ حج تمتع افضل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ حج قِران کیا تھا لیکن آپ نے فرمایا تھا: "اگر مجھے اپنے معاملے کا پہلے علم ہوتا جس کا مجھے بعد میں علم ہوا تو میں قربانی لے کر نہ چلتا بلکہ اسے عمرہ بنا لیتا۔" (مسنداحمد:3/147) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم افضل عمل ہی کی تمنا کر سکتے ہیں، نیز اس میں سہولت بھی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے آئندہ احادیث میں حج کی تینوں اقسام کو بیان کیا ہے۔
حضرت مردان بن حکم سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ کی ایک مجلس میں موجود تھا۔ حضرت عثمان ؓ نے حج تمتع اور حج عمرہ اکٹھا کرنے(حج قرآن) سے منع کیا۔ حضر ت علی ؓ نے جب یہ دیکھا تو حج اورعمرہ دونوں کاایک ساتھ احرام باندھا اور کہا: "لبيك بعمرة وحجة" پھر فرمایا کہ میں نبی کریم ﷺ کی سنت کو کسی کے کہنے سے نہیں چھوڑوں گا۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت عثمان اور حضرت علی ؓ کا یہ اجتماع مقام عسفان میں ہوا۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1569) (2) حضرت عثمان ؓ تمتع اور قران دونوں سے منع کرتے تھے تاکہ لوگ حج افراد کو بالکل ہی نظر انداز نہ کر دیں۔ یہ بھی احتمال ہے کہ آپ صرف حج قران سے منع کرتے ہوں اور اس کو تمتع اس لیے کہا جاتا ہے کہ حج قران کرنے والا عمرے کے لیے الگ سفر کرنے کی اذیت سے محفوظ رہتا ہے، اس طرح وہ ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ دونوں ادا کرنے کا فائدہ حاصل کر لیتا ہے۔ چونکہ حضرت عثمان ؓ کا منع کرنا اپنے اجتہاد کی بنا پر تھا، اس لیے حضرت علی ؓ نے اس پر عمل نہیں کیا بلکہ فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کو کسی کے قول کی بنا پر ترک نہیں کیا جا سکتا۔ (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت عثمان ؓ بہت بردبار اور حلیم الطبع تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے خلیفہ ہونے کے باوجود اس مخالفت پر کسی کو ملامت نہیں کی۔ (4) سنن نسائی کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے اپنے اس موقف سے رجوع کر لیا تھا۔ (سنن النسائي، مناسك الحج، حدیث:2724) لیکن یہ رجوع صریح الفاظ میں نہیں بلکہ اس روایت سے رجوع کا اشارہ ملتا ہے۔ (فتح الباري:536/3) (5) اس حدیث سے اتباع سنت کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ صحابہ کرام ؓ رسول اکرم ﷺ کی حدیث کے مقابلے میں کسی صحابی کے اجتہاد کو بھی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ جو لوگ صریح حدیث کو اس لیے ترک کر دیتے ہیں کہ ہمارے امام، مفتی یا بزرگ کا فتویٰ اس پر نہیں ہے، ان کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکم نے، ان سے علی بن حسین ( حضرت زین العابدین ) نے اور ان سے مروان بن حکم نے بیان کیا کہ حضرت عثمان اور علی ؓ کو میں نے دیکھا ہے۔ عثمان ؓ حج اور عمرہ کو ایک ساتھ ادا کرنے سے روکتے تھے لیکن حضرت علی ؓ نے اس کے باوجود دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھا اور کہا ''لبیك بعمرة وحجة'' آپ نے فرمایا تھا کہ میں کسی ایک شخص کی بات پر رسول اللہ ﷺ کی حدیث کو نہیں چھوڑ سکتا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عثمان ؓ شاید حضرت عمر ؓ کی تقلید سے تمتع کو برا سمجھتے تھے ان کو بھی یہی خیال ہوا آنحضرت ﷺ نے حج کو فسخ کرا کر جو حکم عمرہ کا دیا تھا وہ خاص تھا صحابہ ؓ سے۔ بعضوں نے کہا مکروہ تنزیہی سمجھا اور چونکہ حضرت عثمان ؓ کا یہ خیال حدیث کے خلاف تھا۔ اس لیے حضرت علی ؓ نے اس پر عمل نہیں کیا اور یہ فرمایا کہ میں آنحضرت ﷺ کی حدیث کو کسی کے قول سے نہیں چھوڑسکتا۔ مسلمان بھائیو! ذرا حضرت علی ؓ کے اس قول کو غور سے دیکھو، حضرت عثمان ؓ خلیفہ وقت اور خلیفہ بھی کیسے؟ خلیفہ راشد اور امیرالمؤمنین۔ لیکن حدیث کے خلاف ان کا قول پھینک دیا گیا اور خود ان کے سامنے ان کا خلاف کیا گیا۔ پھر تم کو کیا ہوگیا ہے جو تم ابو حنیفہ یا شافعی کے قول کو لیے رہتے ہو اور صحیح حدیث کے خلاف ان کے قول پر عمل کرتے ہو، یہ صریح گمراہی ہے۔ خدا کے لیے اس سے باز آؤ اور ہمارا کہنا مانو ہم نے جو حق بات تھی وہ تم کو بتادی آئندہ تم کو اختیار ہے۔ تم قیامت کے دن جب آنحضرت ﷺ کے سامنے کھڑے ہوگے اپنا عذر بیان کرلینا والسلام ( مولانا وحیدالزمان مرحوم )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Marwan bin Al-Hakam (RA): I saw 'Uthman and 'Ali. 'Uthman used to forbid people to perform Hajj-at-Tamattu' and Hajj-al-Qiran (Hajj and 'Umra together), and when 'Ali saw (this act of 'Uthman), he assumed Ihram for Hajj and 'Umra together saying, "Lubbaik for 'Umra and Hajj," and said, "I will not leave the tradition of the Prophet (ﷺ) on the saying of somebody." ________