Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: The superiority of Makkah and its buildings, and the statement of Allah Ta'ala)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ”اور جب کہ بنا دیا ہم نے خانہ کعبہ کو بار بار لوٹنے کی جگہ لوگوں کے لیے اور کر دیا اس کو امن کی جگہ اور (حکم دیا ہم نے) کہ مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بناؤ اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل سے عہد لیا کہ وہ دونوں پاک کر دیں میرے مکان کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع سجدہ کرنے والوں کے لیے۔ اے اللہ! کر دے اس شہر کو امن کی جگہ اور یہاں کے ان رہنے والوں کو پھلوں سے روزی دے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائیں صرف ان کو، اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور جس نے کفر کیا اس کو میں دنیا میں چند روز مزے کرنے دوں گا پھر اسے دوزخ کے عذاب میں کھینچ لاؤں گا اور وہ برا ٹھکانا ہے۔ اور جب ابراہیم و اسماعیل ؑخانہ کعبہ کی بنیاد اٹھا رہے تھے (تو وہ یوں دعا کر رہے تھے) اے ہمارے رب! ہماری اس کوشش کو قبول فرما۔ تو ہی ہماری (دعاؤں کو) سننے والا اور (ہماری نیتوں کا) جاننے والا ہے۔ اے ہمارے رب! ہمیں اپنا فرمانبردار بنا اور ہماری نسل سے ایک جماعت بنائیو جو تیری فرمانبردار ہو۔ ہم کو احکام حج سکھا اور ہمارے حال پر توجہ فرما کہ تو بہت ہی توجہ فرمانے والا ہے۔ اور بڑا رحیم ہے۔
1584.
حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے نبی کریم ﷺ سے حطیم کے متعلق دریافت کیا کہ وہ بھی بیت اللہ کا حصہ ہے؟آپ نےفرمایا: ’’ہاں۔‘‘ میں نے عرض کیا: پھر ان لوگوں نے اسے بیت اللہ میں داخل کیوں نہ کیا؟آپ نےفرمایا: ’’تیری قوم کے پاس مال کم تھا (اس سے تعمیر کے اخراجات پورے نہیں ہوسکتے تھے)۔‘‘ میں نے عرض کیا: دروازہ اتنا اونچا کیوں رکھا ہے؟آپ نے فرمایا: ’’یہ کام تیری قوم نے اس لیے کیا تاکہ جسے چاہیں کعبہ میں داخل ہونے دیں اور جسے چاہیں روک دیں۔ اگر تیری قوم کازمانہ جاہلیت کے قریب نہ ہوتا اور ان کے دلوں پر ناگواری کے اثرات کا مجھے اندیشہ نہ ہوتا تو میں حطیم کو کعبہ میں شامل کردیتا اور اس کا دروازہ بھی زمین سے متصل بنادیتا۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1543
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1584
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1584
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1584
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
ان آیات میں مکہ مکرمہ کی عمارتوں کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ چونکہ کعبہ کی تعمیر ہی مکہ کی آبادی کا سبب ہوئی، اس لیے تعمیر کعبہ پر اکتفا کیا گیا ہے۔ بیت اللہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کا ازسرنو تعمیر کردہ نہیں بلکہ اس کی بنیاد قدیم ہے۔ آپ نے صرف تجدید فرمائی ہے۔ اس کس سنگ بنیاد رکھنے والے اور ہیں جن کا ہم آئندہ ذکر کریں گے۔ بیت اللہ شریف لوگوں کے لیے ثواب کی جگہ ہے۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ حج و عمرہ اور طواف کے لیے بار بار لوٹ آنے کی جگہ۔ اسی طرح مقام ابراہیم سے مراد وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام بیت اللہ تعمیر کرتے رہے۔ اس پر کھڑے ہو کر ہی آپ نے لوگوں کو حج کے لیے پکارا تھا۔ آج کل اسے شیشے کی چھوٹی سی گنبد نما عمارت میں محفوظ کر دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاؤں کو شرف قبولیت سے نوازا، اس گھر کو زبردست امن و امان نصیب فرمایا اور اس وادی غیر ذی روح، یعنی یہاں کھیتی باڑی نہ ہونے کے باوجود مکہ میں ہر قسم کا پھل وافر دستیاب ہوتا ہے۔ الحمدللہ مدینہ یونیورسٹی میں دورانِ تعلیم 1978ء میں راقم الحروف کو بیت اللہ کے اندر جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں محض اللہ کی توفیق سے دو نفل ادا کیے۔ الحمدلله علیٰ ذلك حمدا كثيرا
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ”اور جب کہ بنا دیا ہم نے خانہ کعبہ کو بار بار لوٹنے کی جگہ لوگوں کے لیے اور کر دیا اس کو امن کی جگہ اور (حکم دیا ہم نے) کہ مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بناؤ اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل سے عہد لیا کہ وہ دونوں پاک کر دیں میرے مکان کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع سجدہ کرنے والوں کے لیے۔ اے اللہ! کر دے اس شہر کو امن کی جگہ اور یہاں کے ان رہنے والوں کو پھلوں سے روزی دے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائیں صرف ان کو، اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور جس نے کفر کیا اس کو میں دنیا میں چند روز مزے کرنے دوں گا پھر اسے دوزخ کے عذاب میں کھینچ لاؤں گا اور وہ برا ٹھکانا ہے۔ اور جب ابراہیم و اسماعیل ؑخانہ کعبہ کی بنیاد اٹھا رہے تھے (تو وہ یوں دعا کر رہے تھے) اے ہمارے رب! ہماری اس کوشش کو قبول فرما۔ تو ہی ہماری (دعاؤں کو) سننے والا اور (ہماری نیتوں کا) جاننے والا ہے۔ اے ہمارے رب! ہمیں اپنا فرمانبردار بنا اور ہماری نسل سے ایک جماعت بنائیو جو تیری فرمانبردار ہو۔ ہم کو احکام حج سکھا اور ہمارے حال پر توجہ فرما کہ تو بہت ہی توجہ فرمانے والا ہے۔ اور بڑا رحیم ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے نبی کریم ﷺ سے حطیم کے متعلق دریافت کیا کہ وہ بھی بیت اللہ کا حصہ ہے؟آپ نےفرمایا: ’’ہاں۔‘‘ میں نے عرض کیا: پھر ان لوگوں نے اسے بیت اللہ میں داخل کیوں نہ کیا؟آپ نےفرمایا: ’’تیری قوم کے پاس مال کم تھا (اس سے تعمیر کے اخراجات پورے نہیں ہوسکتے تھے)۔‘‘ میں نے عرض کیا: دروازہ اتنا اونچا کیوں رکھا ہے؟آپ نے فرمایا: ’’یہ کام تیری قوم نے اس لیے کیا تاکہ جسے چاہیں کعبہ میں داخل ہونے دیں اور جسے چاہیں روک دیں۔ اگر تیری قوم کازمانہ جاہلیت کے قریب نہ ہوتا اور ان کے دلوں پر ناگواری کے اثرات کا مجھے اندیشہ نہ ہوتا تو میں حطیم کو کعبہ میں شامل کردیتا اور اس کا دروازہ بھی زمین سے متصل بنادیتا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور جب ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے ثواب اور امن کی جگہ برقرار دیا(تو حکم دیا کہ) مقام ابراہیم ؑ کو جائے نمازقرار دو، نیز ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل ؑ کو تاکید کی کہ وہ میرے گھر کوطواف کرنے والوں، اعتکاف اور رکوع وسجود کرنے والوں کے لیے صاف ستھرا رکھیں۔ اور جب ابراہیم نے دعاکی: اے میرے رب!اس جگہ کو امن کا شہر بنادے اور اس کے رہنے والوں میں سے جو کوئی اللہ پر اورروز آخرت پر ایمان لائے اسے پھل عطا فرما۔ (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا: جو کفر کرے گا اسے تھوڑا سا فائدہ دوں گا، پھر اسے عذاب جہنم کی طرف لاچار کردوں گا اور وہ بُرا ٹھکانہ ہے۔ اور جب ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ بیت اللہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے۔ (تو دعا کی: ) اے ہمارے رب!ہم سے(خدمت) قبول فرما۔ بلاشبہ تو ہی سب کی سننے والا اورسب کچھ جاننے والاہے، اے ہمارے پروردگار!ہم دونوں کواپنا فرمانبردار بنا، اور ہماری اولاد میں سے اپنی ایک مسلم جماعت بنا۔ ہمیں اپنی عبادت کے طریقے سکھا اور ہماری توبہ قبول فرما۔ بے شک توبڑا توبہ قبول کرنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوالاحوص سلام بن سلیم جعفی نے بیان کیا، ان سے اشعث نے بیان کیا، ان سے اسود بن یزید نے او ران سے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ کیا حطیم بھی بیت اللہ میں داخل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں، پھر میں نے پوچھا کہ پھر لوگوں نے اسے کعبے میں کیوں نہیں شامل کیا؟ آپ ﷺ نے جواب دیا کہ تمہاری قوم کے پاس خرچ کی کمی پڑ گئی تھی۔ پھرمیں نے پوچھا کہ یہ دروازہ کیوں اونچا بنایا؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ بھی تمہاری قوم ہی نے کیا تاکہ جسے چاہیں اندر آنے دیں او رجسے چاہیں روک دیں۔ اگر تمہاری قوم کی جاہلیت کا زمانہ تازہ تازہ نہ ہوتا اور مجھے اس کا خوف نہ ہوتا کہ ان کے دل بگڑ جائیں گے تو اس حطیم کو بھی میں کعبہ میں شامل کردیتا اور کعبہ کا دروازہ زمین کے برابر کردیتا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): I asked the Prophet (ﷺ) whether the round wall (near Ka’bah) was part of the Ka’bah. The Prophet (ﷺ) replied in the affirmative. I further said, "What is wrong with them, why have they not included it in the building of the Ka’bah?" He said, "Don't you see that your people (Quraish) ran short of money (so they could not include it inside the building of Ka’bah)?" I asked, "What about its gate? Why is it so high?" He replied, "Your people did this so as to admit into it whomever they liked and prevent whomever they liked. Were your people not close to the Pre-lslamic Period of ignorance (i.e. they have recently embraced Islam) and were I not afraid that they would dislike it, surely I would have included the (area of the) wall inside the building of the Ka’bah and I would have lowered its gate to the level of the ground." ________