Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: The superiority of Makkah and its buildings, and the statement of Allah Ta'ala)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ”اور جب کہ بنا دیا ہم نے خانہ کعبہ کو بار بار لوٹنے کی جگہ لوگوں کے لیے اور کر دیا اس کو امن کی جگہ اور (حکم دیا ہم نے) کہ مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بناؤ اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل سے عہد لیا کہ وہ دونوں پاک کر دیں میرے مکان کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع سجدہ کرنے والوں کے لیے۔ اے اللہ! کر دے اس شہر کو امن کی جگہ اور یہاں کے ان رہنے والوں کو پھلوں سے روزی دے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائیں صرف ان کو، اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور جس نے کفر کیا اس کو میں دنیا میں چند روز مزے کرنے دوں گا پھر اسے دوزخ کے عذاب میں کھینچ لاؤں گا اور وہ برا ٹھکانا ہے۔ اور جب ابراہیم و اسماعیل ؑخانہ کعبہ کی بنیاد اٹھا رہے تھے (تو وہ یوں دعا کر رہے تھے) اے ہمارے رب! ہماری اس کوشش کو قبول فرما۔ تو ہی ہماری (دعاؤں کو) سننے والا اور (ہماری نیتوں کا) جاننے والا ہے۔ اے ہمارے رب! ہمیں اپنا فرمانبردار بنا اور ہماری نسل سے ایک جماعت بنائیو جو تیری فرمانبردار ہو۔ ہم کو احکام حج سکھا اور ہمارے حال پر توجہ فرما کہ تو بہت ہی توجہ فرمانے والا ہے۔ اور بڑا رحیم ہے۔
1586.
حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا: ’’اگر تیری قوم کا زمانہ جاہلیت ابھی تازہ نہ ہوتا تو میں کعبہ کو منہدم کرکے جو حصہ ا س سے خارج کردیا گیاتھا اس کو پھر اس میں شامل کردیتا اور اس کا دروازہ زمین سے متصل کردیتا۔ نیز اس میں ایک شرقی اور ایک غربی دو دروازے بنادیتا۔ الغرض میں اسے حضرت ابراہیم ؑ کی بنیادوں کے مطابق استوار کرتا۔‘‘ (راوی حدیث کہتا ہے کہ) یہ وہ حدیث ہے جس نے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کو بیت اللہ کے گرانے پر آمادہ کیا تھا۔ یزید کہتے ہیں کہ میری موجودگی میں حضرت ابن زبیر ؓ نے اسے گرایا اور بنایا تھا انھوں نے اس میں حطیم کو بھی شامل کردیا تھا۔ میں نے ابراہیمی ؑ بنیادوں کے پتھر دیکھے ہیں جو اونٹ کی کوہان جیسے تھے۔ جریرکہتے ہیں: میں نے یزید سے عرض کیا کہ اس جگہ کی نشاندہی کریں کہ کہاں ہے؟انھوں نے فرمایا: میں ابھی تمھیں دکھاتا ہوں۔ چنانچہ میں ان کے ہمراہ حطیم میں داخل ہوا تو انھوں نے ایک جگہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یہ وہ جگہ ہے جریر کہتے ہیں کہ میں نے بیت اللہ کی دیوار سے چھ گز یا اس کے قریب قریب اندازہ کیا ہے۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے مکہ مکرمہ اور اس کی عمارت کی فضیلت کے متعلق عنوان قائم کیا ہے۔ اس سلسلے میں حضرت عائشہ ؓ سے مروی ایک حدیث کے چار مختلف طرق ذکر کیے ہیں۔ ان میں تعمیر کعبہ کا ذکر ہے۔ عمارات مکہ کی فضیلت ان سے ثابت نہیں ہوتی۔ لیکن اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ تعمیر کعبہ ہی مکہ کی آباد کاری کا سبب ہے، اس لیے امام بخاری نے صرف ان احادیث پر اکتفا کیا ہے جو کعبہ کی تعمیر پر مشتمل ہیں۔ (2) ان احادیث کا خلاصہ ہم اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ؓ کی نبوت سے پانچ سال قبل قریش نے بیت اللہ کی تعمیر کی تھی۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ایک عورت کعبہ کے اردگرد بخور جلا رہی تھی جس سے غلاف کعبہ کو آگ لگ گئی۔ وہ اس طرح پھیلی کہ کعبہ کی چھت بھی جل گئی اور اس کے پتھروں میں بھی دراڑیں پڑ گئیں۔ جگہ جگہ سے دیواریں پھٹ گئیں۔ کچھ دنوں بعد سیلاب آیا جس نے بیت اللہ کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ جب اس کے گرنے کا خطرہ ہوا تو قریش نے اس کی ازسرنو تعمیر کا فیصلہ کیا اور اس کی دیواروں کو اونچا کر کے چھت ڈالنے کی تجویز پاس کی۔ قریش نے اس کارخیر کے لیے چندہ جمع کیا مگر شرط یہ رکھی کہ اس میں سود، اجرتِ زنا، غارت گری اور چوری وغیرہ کا پیسہ نہ لگایا جائے۔ اس طرح حلال کا چندہ بہت کم جمع ہوا۔ اس سے بیت اللہ کی تعمیر پر اٹھنے والے اخراجات پورے نہ ہو سکتے تھے۔ اس کا تدارک اس طرح کیا گیا کہ شمالی رخ سے چھ سات گز زمین باہر چھوڑ کر عمارت بنا دی۔ اس متروکہ حصے کا نام حطیم ہے۔ بیت اللہ کی دیواروں کو اٹھارہ ہاتھ اونچا کر کے اس پر چھت ڈال دی گئی۔ اس کی امتیازی شان قائم رکھنے کے لیے انہوں نے اس کا دروازہ اونچا رکھا۔ وہی دروازہ داخل ہونے اور نکلنے کے لیے تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی وجہ بیان کی ہے تاکہ قریش کی اجارہ داری قائم رہے۔ وہ اپنی مرضی سے جس کو چاہیں اندر جانے کی اجازت دیں اور جسے چاہیں روک دیں۔ بیت اللہ کو تعمیر کرتے وقت قریش نے سیدنا ابراہیم ؑ کی تعمیر کے خلاف تین تصرفات کیے: ٭ اس کا کچھ حصہ بیت اللہ سے خارج کر دیا گیا کیونکہ ان کے پاس اتنی رقم نہ تھی۔ ٭ اس کے دونوں دروازے بند کر کے بلندی پر ایک ہی دروازہ بنا دیا گیا تاکہ اپنی اجارہ داری قائم رکھیں۔ ٭ حضرت ابراہیم ؑ کی بنیادوں پر اس کی تعمیر نہ کی گئی، بلکہ انہیں چھوڑ دیا گیا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے اپنے دور حکومت میں بیت اللہ کو گرا کر اصلی بنیادوں پر اس کی تعمیر کی اور جو حصہ بیت اللہ سے خارج کر دیا گیا تھا، اسے بیت اللہ میں داخل کر دیا گیا، اسی طرح اس کے شرقی اور غربی دو دروازے کھول دیے اور انہیں زمین کے متصل رکھا گیا۔ جب حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کو شہید کر دیا گیا تو حجاج بن یوسف نے قریش کی بنیادوں پر کعبہ کی تعمیر کی اور اب انہیں بنیادوں پر کعبہ موجود ہے۔ عباسی خلفاء نے امام مالک کے ہاں اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ ہم بیت اللہ کو عبداللہ بن زبیر کی بنیادوں پر بنانا چاہتے ہیں تو انہوں نے فرمایا: اسے اپنی حالت پر رہنے دو، مبادا بادشاہوں کے لیے محض تفریح طبع اور کھلونا بن جائے۔ (فتح الباري:566/3) (4) اب سعودی حکومت نے بیت اللہ سمیت اس مقدس شہر کو جو ترقی دی ہے وہ اس کا ایسا سنہری کارنامہ ہے جو ان کی نیک نامی اور فراخ دلی کی علامت ہے۔ حرمین شریفین کی ترقی اور تعمیر جدید ایسے کارنامے ہیں جن کی وجہ سے وہ پوری ملت اسلامیہ کے لیے حد درجہ قابل تشکر ہیں۔ شكر الله سعيهم و كلل جهودهم آمين
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1545
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1586
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1586
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1586
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
ان آیات میں مکہ مکرمہ کی عمارتوں کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ چونکہ کعبہ کی تعمیر ہی مکہ کی آبادی کا سبب ہوئی، اس لیے تعمیر کعبہ پر اکتفا کیا گیا ہے۔ بیت اللہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کا ازسرنو تعمیر کردہ نہیں بلکہ اس کی بنیاد قدیم ہے۔ آپ نے صرف تجدید فرمائی ہے۔ اس کس سنگ بنیاد رکھنے والے اور ہیں جن کا ہم آئندہ ذکر کریں گے۔ بیت اللہ شریف لوگوں کے لیے ثواب کی جگہ ہے۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ حج و عمرہ اور طواف کے لیے بار بار لوٹ آنے کی جگہ۔ اسی طرح مقام ابراہیم سے مراد وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام بیت اللہ تعمیر کرتے رہے۔ اس پر کھڑے ہو کر ہی آپ نے لوگوں کو حج کے لیے پکارا تھا۔ آج کل اسے شیشے کی چھوٹی سی گنبد نما عمارت میں محفوظ کر دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاؤں کو شرف قبولیت سے نوازا، اس گھر کو زبردست امن و امان نصیب فرمایا اور اس وادی غیر ذی روح، یعنی یہاں کھیتی باڑی نہ ہونے کے باوجود مکہ میں ہر قسم کا پھل وافر دستیاب ہوتا ہے۔ الحمدللہ مدینہ یونیورسٹی میں دورانِ تعلیم 1978ء میں راقم الحروف کو بیت اللہ کے اندر جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں محض اللہ کی توفیق سے دو نفل ادا کیے۔ الحمدلله علیٰ ذلك حمدا كثيرا
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ”اور جب کہ بنا دیا ہم نے خانہ کعبہ کو بار بار لوٹنے کی جگہ لوگوں کے لیے اور کر دیا اس کو امن کی جگہ اور (حکم دیا ہم نے) کہ مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بناؤ اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل سے عہد لیا کہ وہ دونوں پاک کر دیں میرے مکان کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع سجدہ کرنے والوں کے لیے۔ اے اللہ! کر دے اس شہر کو امن کی جگہ اور یہاں کے ان رہنے والوں کو پھلوں سے روزی دے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائیں صرف ان کو، اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور جس نے کفر کیا اس کو میں دنیا میں چند روز مزے کرنے دوں گا پھر اسے دوزخ کے عذاب میں کھینچ لاؤں گا اور وہ برا ٹھکانا ہے۔ اور جب ابراہیم و اسماعیل ؑخانہ کعبہ کی بنیاد اٹھا رہے تھے (تو وہ یوں دعا کر رہے تھے) اے ہمارے رب! ہماری اس کوشش کو قبول فرما۔ تو ہی ہماری (دعاؤں کو) سننے والا اور (ہماری نیتوں کا) جاننے والا ہے۔ اے ہمارے رب! ہمیں اپنا فرمانبردار بنا اور ہماری نسل سے ایک جماعت بنائیو جو تیری فرمانبردار ہو۔ ہم کو احکام حج سکھا اور ہمارے حال پر توجہ فرما کہ تو بہت ہی توجہ فرمانے والا ہے۔ اور بڑا رحیم ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا: ’’اگر تیری قوم کا زمانہ جاہلیت ابھی تازہ نہ ہوتا تو میں کعبہ کو منہدم کرکے جو حصہ ا س سے خارج کردیا گیاتھا اس کو پھر اس میں شامل کردیتا اور اس کا دروازہ زمین سے متصل کردیتا۔ نیز اس میں ایک شرقی اور ایک غربی دو دروازے بنادیتا۔ الغرض میں اسے حضرت ابراہیم ؑ کی بنیادوں کے مطابق استوار کرتا۔‘‘ (راوی حدیث کہتا ہے کہ) یہ وہ حدیث ہے جس نے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کو بیت اللہ کے گرانے پر آمادہ کیا تھا۔ یزید کہتے ہیں کہ میری موجودگی میں حضرت ابن زبیر ؓ نے اسے گرایا اور بنایا تھا انھوں نے اس میں حطیم کو بھی شامل کردیا تھا۔ میں نے ابراہیمی ؑ بنیادوں کے پتھر دیکھے ہیں جو اونٹ کی کوہان جیسے تھے۔ جریرکہتے ہیں: میں نے یزید سے عرض کیا کہ اس جگہ کی نشاندہی کریں کہ کہاں ہے؟انھوں نے فرمایا: میں ابھی تمھیں دکھاتا ہوں۔ چنانچہ میں ان کے ہمراہ حطیم میں داخل ہوا تو انھوں نے ایک جگہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یہ وہ جگہ ہے جریر کہتے ہیں کہ میں نے بیت اللہ کی دیوار سے چھ گز یا اس کے قریب قریب اندازہ کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے مکہ مکرمہ اور اس کی عمارت کی فضیلت کے متعلق عنوان قائم کیا ہے۔ اس سلسلے میں حضرت عائشہ ؓ سے مروی ایک حدیث کے چار مختلف طرق ذکر کیے ہیں۔ ان میں تعمیر کعبہ کا ذکر ہے۔ عمارات مکہ کی فضیلت ان سے ثابت نہیں ہوتی۔ لیکن اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ تعمیر کعبہ ہی مکہ کی آباد کاری کا سبب ہے، اس لیے امام بخاری نے صرف ان احادیث پر اکتفا کیا ہے جو کعبہ کی تعمیر پر مشتمل ہیں۔ (2) ان احادیث کا خلاصہ ہم اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ؓ کی نبوت سے پانچ سال قبل قریش نے بیت اللہ کی تعمیر کی تھی۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ایک عورت کعبہ کے اردگرد بخور جلا رہی تھی جس سے غلاف کعبہ کو آگ لگ گئی۔ وہ اس طرح پھیلی کہ کعبہ کی چھت بھی جل گئی اور اس کے پتھروں میں بھی دراڑیں پڑ گئیں۔ جگہ جگہ سے دیواریں پھٹ گئیں۔ کچھ دنوں بعد سیلاب آیا جس نے بیت اللہ کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ جب اس کے گرنے کا خطرہ ہوا تو قریش نے اس کی ازسرنو تعمیر کا فیصلہ کیا اور اس کی دیواروں کو اونچا کر کے چھت ڈالنے کی تجویز پاس کی۔ قریش نے اس کارخیر کے لیے چندہ جمع کیا مگر شرط یہ رکھی کہ اس میں سود، اجرتِ زنا، غارت گری اور چوری وغیرہ کا پیسہ نہ لگایا جائے۔ اس طرح حلال کا چندہ بہت کم جمع ہوا۔ اس سے بیت اللہ کی تعمیر پر اٹھنے والے اخراجات پورے نہ ہو سکتے تھے۔ اس کا تدارک اس طرح کیا گیا کہ شمالی رخ سے چھ سات گز زمین باہر چھوڑ کر عمارت بنا دی۔ اس متروکہ حصے کا نام حطیم ہے۔ بیت اللہ کی دیواروں کو اٹھارہ ہاتھ اونچا کر کے اس پر چھت ڈال دی گئی۔ اس کی امتیازی شان قائم رکھنے کے لیے انہوں نے اس کا دروازہ اونچا رکھا۔ وہی دروازہ داخل ہونے اور نکلنے کے لیے تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی وجہ بیان کی ہے تاکہ قریش کی اجارہ داری قائم رہے۔ وہ اپنی مرضی سے جس کو چاہیں اندر جانے کی اجازت دیں اور جسے چاہیں روک دیں۔ بیت اللہ کو تعمیر کرتے وقت قریش نے سیدنا ابراہیم ؑ کی تعمیر کے خلاف تین تصرفات کیے: ٭ اس کا کچھ حصہ بیت اللہ سے خارج کر دیا گیا کیونکہ ان کے پاس اتنی رقم نہ تھی۔ ٭ اس کے دونوں دروازے بند کر کے بلندی پر ایک ہی دروازہ بنا دیا گیا تاکہ اپنی اجارہ داری قائم رکھیں۔ ٭ حضرت ابراہیم ؑ کی بنیادوں پر اس کی تعمیر نہ کی گئی، بلکہ انہیں چھوڑ دیا گیا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے اپنے دور حکومت میں بیت اللہ کو گرا کر اصلی بنیادوں پر اس کی تعمیر کی اور جو حصہ بیت اللہ سے خارج کر دیا گیا تھا، اسے بیت اللہ میں داخل کر دیا گیا، اسی طرح اس کے شرقی اور غربی دو دروازے کھول دیے اور انہیں زمین کے متصل رکھا گیا۔ جب حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کو شہید کر دیا گیا تو حجاج بن یوسف نے قریش کی بنیادوں پر کعبہ کی تعمیر کی اور اب انہیں بنیادوں پر کعبہ موجود ہے۔ عباسی خلفاء نے امام مالک کے ہاں اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ ہم بیت اللہ کو عبداللہ بن زبیر کی بنیادوں پر بنانا چاہتے ہیں تو انہوں نے فرمایا: اسے اپنی حالت پر رہنے دو، مبادا بادشاہوں کے لیے محض تفریح طبع اور کھلونا بن جائے۔ (فتح الباري:566/3) (4) اب سعودی حکومت نے بیت اللہ سمیت اس مقدس شہر کو جو ترقی دی ہے وہ اس کا ایسا سنہری کارنامہ ہے جو ان کی نیک نامی اور فراخ دلی کی علامت ہے۔ حرمین شریفین کی ترقی اور تعمیر جدید ایسے کارنامے ہیں جن کی وجہ سے وہ پوری ملت اسلامیہ کے لیے حد درجہ قابل تشکر ہیں۔ شكر الله سعيهم و كلل جهودهم آمين
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور جب ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے ثواب اور امن کی جگہ برقرار دیا(تو حکم دیا کہ) مقام ابراہیم ؑ کو جائے نمازقرار دو، نیز ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل ؑ کو تاکید کی کہ وہ میرے گھر کوطواف کرنے والوں، اعتکاف اور رکوع وسجود کرنے والوں کے لیے صاف ستھرا رکھیں۔ اور جب ابراہیم نے دعاکی: اے میرے رب!اس جگہ کو امن کا شہر بنادے اور اس کے رہنے والوں میں سے جو کوئی اللہ پر اورروز آخرت پر ایمان لائے اسے پھل عطا فرما۔ (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا: جو کفر کرے گا اسے تھوڑا سا فائدہ دوں گا، پھر اسے عذاب جہنم کی طرف لاچار کردوں گا اور وہ بُرا ٹھکانہ ہے۔ اور جب ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ بیت اللہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے۔ (تو دعا کی: ) اے ہمارے رب!ہم سے(خدمت) قبول فرما۔ بلاشبہ تو ہی سب کی سننے والا اورسب کچھ جاننے والاہے، اے ہمارے پروردگار!ہم دونوں کواپنا فرمانبردار بنا، اور ہماری اولاد میں سے اپنی ایک مسلم جماعت بنا۔ ہمیں اپنی عبادت کے طریقے سکھا اور ہماری توبہ قبول فرما۔ بے شک توبڑا توبہ قبول کرنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے بیان بن عمرو نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یزید بن ہاروں نے بیان کیا، انہو ں نے کہا کہ ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یزید بن رومان نے بیان کیا، ان سے عروہ نے اور ان سے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، عائشہ ؓ ! اگر تیری قوم کازمانہ جاہلیت ابھی تازنہ ہوتا، تو میں بیت اللہ کو گرانے کا حکم دے دیتا تاکہ ( نئی تعمیر میں ) اس حصہ کو بھی داخل کردوں جو اس سے باہر رہ گیا ہے اور اس کی کرسی زمین کے برابر کردوں اور اس کے دو دروازے بنا دوں، ایک مشرق میں اور ایک مغرب میں۔ اس طرح ابراہیم ؑ کی بنیاد پر اس کی تعمیر ہوجاتی۔ عبداللہ بن زبیر ؓ کا کعبہ کو گرانے سے یہی مقصد تھا۔ یزید نے بیان کیا کہ میں اس وقت موجود تھا جب عبد اللہ بن زبیر ؓ نے اسے گرایا تھا اور اس کی نئی تعمیر کر کے حطیم کو اس کے اند رکردیاتھا۔ میں نے ابراہیم ؑ کی تعمیر کے پائے بھی دیکھے جو اونٹ کی کوہان کی طرح تھے۔ جریربن حاز م نے کہا کہ میں نے ان سے پوچھا، ان کی جگہ کہاں ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ میں ابھی دکھاتا ہوں۔ چنانچہ میں ان کے ساتھ حطیم میں گیا اور آپ نے ایک جگہ کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ یہ وہ جگہ ہے۔ جریر نے کہا کہ میں نے اندازہ لگایا کہ وہ جگہ حطیم میں سے چھ ہاتھ ہوگی یا ایسی ہی کچھ۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہو ا کہ حطیم کی زمین کعبہ میں شریک نہ تھی۔ کیونکہ پرنالے سے لے کر حطیم کی دیوار تک سترہ ہاتھ جگہ ہے اور ایک اتہائی ہاتھ دیوار کا عرض دو ہاتھ اور تہائی ہے۔ باقی پندرہ ہاتھ حطیم کے اندر ہے۔ بعض کہتے ہیںکل حطیم کی زمین کعبہ میں شریک تھی اور حضرت عمر ؓ نے اپنی خلافت میں امتیاز کے لئے حطیم کے گرد ایک چھوٹی سی دیوار اٹھادی ( وحیدی ) جس مقدس جگہ پرآج خانہ کعبہ کی عمارت ہے یہ وہ جگہ ہے جہاں فرشتوں نے پہلے پہل عبادت الہٰی کے لئے مسجد تعمیر کی۔ قرآن مجید میں ہے۔ ﴿اِنَّ اَوَّلَ بَیتٍ وُّضِعَ لِلنَاسِ لَلَّذِي بِبَکَّةَ مُبرَکاَّوَّ هُدَّی لِلعٰلَمِینِ﴾(آل عمران: 96)یعنی اللہ کی عبادت کے لئے اور لوگوں کی ہدایت کے لئے برکت والا گھر جو سب سے پہلے دنیا کے اند رتعمیر ہوا وہ مکہ شریف ولا گھر ہے۔ ابن ابی شیبہ، اسحاق بن راہویہ، عبد بن حمید، حرث بن ابی اسامہ، ابن جریر، ابن ابی حاتم اور بيہقی نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا ہے۔ أن رجلاقال له ألا تخبرني عن البیت أهوأول بیت وضع في الأرض قال لا ولکنه أول بیت وضع للناس فیه البرکة والهدیٰ ومقام إبراهیم ومن دخله کان آمنا۔ایک شخص نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے پوچھا کہ آیا وہ سب سے پہلا مکان ہے جو روئے زمین پر بنایا گیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ بات نہیں ہے بلکہ یہ متبرک مقامات میں سب سے پہلا مکان ہے جو لوگوں کے لئے تعمیر ہوا اس میں برکت اور ہدایت ہے اور مقام ابراہیم ہے جوشخص وہاں داخل ہوجائے اس کو امن مل جاتاہے۔حضرت آدم ؑ کا بیت اللہ کو تعمیر کرنا!
عبدالرزاق، ابن جریر، ابن منذر، حضرت عطاء سے روایت کرتے ہیں آپ ﷺنے فرمایا۔ قال آدم أي رب مالي لا أسمع أصوات الملئکة قال لخطیئتك ولکن اھبط إلی الأرض فابن لي بیتا ثم احفف به کما رأیت الملائکة تحف بیتي الذي في السماء فزعم الناس أنه بناہ خمسة أجبل من حراء و لبنان وطور زیتا و طورسینا و الجودي فکان هذا بنا آدم حتی بناہ إبراهیم بعد۔ ( ترجمہ ) حضرت آدم ؑ نے بارگاہ الٰہی میں عرض کی، پرور دگار کیا بات ہے کہ مجھے فرشتوں کی آوازیں سنائی نہیں دیتیں۔ ارشاد الٰہی ہوا یہ تمہاری اس لغزش کا سبب ہے جو شجر ممنوعہ کے استعمال کے باعث تم سے ہوگئی۔ لیکن ایک صورت ابھی باقی ہے کہ تم زمین پر اترو اور ہمارے لئے ایک مکان تیار کرو اور اس کو گھیرے رہو جس طرح تم نے فرشتوں کو دیکھاہے کہ وہ ہمارے مکان کو جو آسمان پر ہے گھیرے ہوئے ہیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کا حکم کی بنا پر حضرت آدم ؑ نے کوہ حرا، لبنان، طور زیتا، طور سینا اور جودی ایسے پانچ پہاڑوں کے پتھروں سے بیت اللہ شریف کی تعمیر کی، یہاں تک کہ اس کے آثار مٹ گئے تو حضرت ابراہیم ؑ نے اس کے بعد از سر نو اس کو تعمیر کیا۔ابن جریر، ابن ابی حاتم اور طبرانی نے حضر ت عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : لما أهبط الله آدم من الجنة قال: إني مهبط معك بيتا - أو: منزلا - يطاف حوله كما يطاف حول عرشي، ويصلى عنده كما يصلى حول عرشي. فلما كان زمان الطوفان رفعہ اللہ إلیه وكان الأنبياء يحجونه ولا يعلمون مكانه حتی تولاہ اللہ بعد لإبراهیم وأعلمه مکانه فبناہ من خمسة أجبل حراء ولبنان، وثبیروجبل االطور و جبل الحمر وهو جبل بیت المقدس۔ (ترجمہ) اللہ سبحانہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کو جنت سے زمین پراتارا تو ارشاد فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ایک گھر بھی اتاروں گا۔ جس کا طواف اسی طرح کیا جاتا ہے جیساکہ میرے عرش کا طواف ہوتا ہے اور اس کے پاس نماز اسی طرح ادا کی جائے گی جس طرح کہ میرے عرش کے پاس ادا کی جاتی ہے۔ پھر طوفان نوح کا زمانہ آیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو اٹھالیا۔ اس کے بعد انبیاء ؑ بیت اللہ شریف کا حج تو کیاکرتے تھے مگر اس کا مقام کسی کو معلوم نہ تھا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا پتہ حضرت ابراہیم ؑ کو بتایا اور اس کی جگہ دکھادی تو آپ نے اس کو پانچ پہاڑوں سے بنایا۔ کوہ حرا، لبنان ثبیر، جبل الحمر، جبل طور (جبل الحمر کو جبل بیت المقدس بھی کہتے ہیں) ازرقی اور ابن منذر نے حضرت وہب بن منبہ ؓ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا اللہ سبحانہ تعالیٰ نے جب آدم ؑ کی توبہ قبول فرمائی تو ان کو مکہ مکرمہ جانے کاارشاد ہوا۔ جب وہ چلنے لگے تو زمین اور بڑے بڑے میدان لپیٹ کرمختصر کردیئے گئے۔ یہاں تک کہ ایک ایک میدان جہاں سے وہ گزرتے تھے ایک قدم کے برابر ہوگیا اور زمین میں جہا ں کہیں سمندر یا تالاب تھے ان کے دہانے ایک ایک بستی ہوجاتی اور اس میں عجیب برکت نظر آتی۔ شدہ شدہ آپ مکہ مکرمہ پہنچ گئے۔ مکہ شریف آنے سے پیشتر آدم ؑ کی آہ و زاری اور آپ کا رنج وغم جنت سے چلے آنے کی وجہ سے بہت تھا، یہاں تک کہ فرشتے بھی آپ کے گریہ کی وجہ سے گریہ کرتے وار آپ کے رنج میں شریک ہوتے تھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کا غم غلط کرنے کے لے جنت کا ایک خیمہ عنایت فرمایا تھا جو مکہ مکرمہ میں کعبہ شریف کے مقام پر نصب کیا گیاتھا۔ یہ وقت وہ تھا کہ ابھی کعبۃ اللہ کو کعبہ کا لقب نہیں دیا گیاتھا۔ اسی دن کعبۃ اللہ کے ساتھ رکن بھی نازل ہوا۔ اس دن وہ سفید یا قوت اور جنت کا ٹکڑا تھا۔ جب حضرت آدم ؑ مکہ شریف آئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت اپنے ذمہ لے لی اور اس خیمہ کی حفاظت فرشتوں کے ذریعہ کرائی۔ یہ خیمہ آپ کے آخر وقت تک وہیں لگارہا۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح قبض فرمائی تو اس خیمہ کو اپنی طرف اٹھالیا اور آدم ؑ کے صاحبزادوں نے اس کے بعد اس خیمہ کے مقام پر مٹی اور پتھر کا ایک مکان بنایا۔ جو ہمیشہ آباد رہا۔ آدم ؑ کے صاحبزادے اور ان کے بعد والی نسلیں یکے بعد دیگر ے اس کی آبادی کا انتظام کرتی رہیں جب نوح ؑ کا زمانہ آیا تو وہ عمارت غرق ہوگئی اور اس کا نشا ن چھپ گیا۔ حضرت ہود ؑ اور صالح ؑ کے سوا تمام انبیاء ؑ نے بیت اللہ شریف کی زیارت کی ہے
ابن اسحاق اور بیہقی نے حضرت عروہ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا "مَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا وَقَدْ حَجَّ الْبَيْتَ إِلَّا مَا كَانَ مِنْ هُودٍ , وَصَالِحٍ وَلَقَدْ حَجَّهُ نُوحٌ فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْأَرْضِ مَا كَانَ مِنَ الْغَرَقِ أَصَابَ الْبَيْتَ مَا أَصَابَ الْأَرْضَ , وَكَانَ الْبَيْتُ رَبْوَةً حَمْرَاءَ فَبَعَثَ اللهُ هُودًا عَلَيْهِ السَّلَامُ فَتَشَاغَلَ بِأَمْرِ قَوْمِهِ حَتَّى قَبَضَهُ اللهُ إِلَيْهِ فَلَمْ يَحُجَّهُ حَتَّى مَاتَ فَلَمَّا بَوَّأَهُ اللهُ لِإِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ حَجَّهُ , ثُمَّ لَمْ يَبْقَ نَبِيٌّ بَعْدَهُ إِلَّا حَجَّهُ" (ترجمہ) جس قدر انبیاء ؑ مبعوث ہوئے سب ہی نے بیت اللہ شریف کا حج ادافرمایا مگر حضرت ہود اور حضرت صالح ؑ کو اس کا موقع نہ ملا۔حضرت نوح ؑ نے بھی حج ادا فرمایاہے لیکن جب آپ کے زمانہ میں زمین پر طوفان آیا اور ساری زمین غرقاب ہوئی تو بیت اللہ شریف کو بھی اس سے حصہ ملا۔ بیت اللہ شریف ایک سرخ رنگ کا ٹیلہ رہ گیا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود ؑ کو مبعوث فرمایا تو آپ حکم الٰہی کے مطابق فریضہ تبلیغ کی ادئیگی میں مشغول رہے اور آپ کی مشغولیت اس درجہ رہی کہ آپ کو آخردم تک حج کرنے کی نوبت نہ آئی۔ پھر حضرت ابراہیم ؑ کو بیت اللہ شریف ببانے کا موقع ملا تو انہوں نے حج ادا فرمایا آپ کے بعد جس قدر انبیاء تشریف لائے سب نے حج ادا فرمایا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بیت اللہ کو تعمیر کرنا!
طبقات ابن سعد میں حضرت ابو جہم بن حذیفہ ؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم ﷺ نے فرمایا: أوحى الله إلى إبراهيم يأمره بالمسير إلى بلده الحرام. فركب إبراهيم البراق وحمل إسماعيل أمامه. وهو ابن سنتين. وهاجر خلفه ومعه جبريل يدله على موضع البيت حتى قدم به مكة. فأنزل إسماعيل وأمه إلى جانب البيت. ثم انصرف إبراهيم إلى الشأم. ثم أوحی اللہ إلی إبراهیم أن تبني البیت وهویومئذ ابن مائة سنة وإسمعیل یؤمئذ ابن ثلاثین سنة فبناہ معه وتوفي إسمعیل بعد أبیه فد فن داخل الحجر مما یلي۔یعنی اللہ عزوجل نے حضرت ابراہیم ؑ کو بذریعہ وحی حکم بھیجا کہ بلدالحرام مکہ شریف کی طرف چلیں۔ چنانچہ آپ بہ تعمیل حکم الٰہی براق پر سوار ہوگئے۔ اپنے پیارے نور نظر حضرت اسماعیل کوجن کی عمر شریف ہنوز دوسال کی تھی اپنے سامنے اور بی بی ہاجرہ کو اپنے پیچھے لے لیا۔ حضرت جبرئیل ؑ بیت اللہ شریف کامقام بتلانے کی غرض سے آپ کے ساتھ تھے۔ جب مکہ مرمکرمہ تشریف لائے تو حضرت اسماعیل علیہ السلام اور آپ کی والدہ ماجدہ کو بیت اللہ کے ایک جانب میں اتارا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام شام کو واپس ہوئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب کہ آپ کی عمر شریف کامل ایک سو سال تھی، بذریعہ وحی بیت اللہ شریف کے بنانے کا حکم فرمایا۔ اس وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمر مبارک تیس سال کی تھی۔ چنانچہ اپنے صاحبزادے کو ساتھ لے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی بنیاد ڈالی۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وفات ہوگئی اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے بھی آپ کے بعد وفات پائی تو حجر اسود اور کعبہ شریف کے درمیان اپنی والدہ ماجدہ حضرت ہاجرہ کے ساتھ دفن ہوئے اور آپ کے صاحبزادے حضرت ثابت بن اسماعیل اپنے والد محترم کے بعد اپنے ماموؤں کے ساتھ مل کر جو بنی جرہم سے تھے کعبہ شریف کے متولی قرار پائے۔ ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن حاتم اور بيہقی کی روایت کے مطابق حضرت علی کرم ؓ فرماتے ہیں جب حضرت ابراہیم ؑ کو کعبۃ اللہ شریف بنانے کا حکم ہواتو آپ کو معلوم نہ ہوسکا کہ اس کو کس طرح بنائیں۔ اس نوبت پر اللہ پاک نے سکینہ یعنی ایک ہوا بھیجی جس کے دو کنارے تھے۔ اس نے بیت اللہ شریف کے مقام پر طوق کی طرح ایک حلقہ باندھ دیا۔ ادھر آپ کو حکم ہوچکا تھا کہ سکینہ جہاں ٹھہرے بس وہیں تعمیر ہونی چاہئے۔ چنانچہ حضرت ابراہم ؑ نے اس مقام پر بیت اللہ شریف کو تعمیر فرمایا۔ دیلمی نے حضرت علی ؓ سے مرفوعاً روایت کی ہے۔ زیر تفسیر آیت ﴿وَإِذ یَرفَعُ إِبرَاهِیمُ القَوَاعِدَ﴾(البقرة: 127) کہ بیت اللہ شریف جس طرح مربع ہے اسی طرح ایک چوکونی ابرنمودار ہوا اس سے آواز آتی تھی کہ بیت اللہ کا ارتفاع ایسا ہی چوکونا ہونا چاہئے جیسا میں یعنی ابر چوکونا ہوں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم ؑ نے بیت اللہ کو اسی کے مطابق مربع بنایا۔ سعید بن منصور اور عبد بن حمید، ابن ابی حاتم وغیرہ نے سعید بن مسیب سے روایت کیا ہے کہ حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم ؑ نے ہوا کہ ڈالے ہوئے نشان کے نیچے کھودنا شرو ع کیا۔ پس بیت اللہ شریف کے ستون برآمد ہوگئے۔ جس کو تیس تیس آدمی بھی ہلا نہیں سکتے تھے۔ آیت بالا کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں: القواعد التي کانت قواعد البیت قبل ذلك ستون جن کو حضرت ابراہیم ؑ نے بنایا، یہ وہی ستون ہیں جو بیت اللہ شریف میں پہلے کے بنے ہوئے تھے۔ ان ہی کو حضرت ابراہیم ؑ نے بلند کیا۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ بیت اللہ شریف اگرچہ حضرت ابراہیم وحضرت اسماعیل کا تعمیر فرمودہ ہے لیکن اس کا سنگ بنیاد ان حضرات کا رکھا ہوا نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد قدیم ہے آپ نے صرف اس کی تجدید فرمائی۔ جب حضرت ابراہیم ؑ تعمیر کعبہ فرمارہے تھے۔ تو یہ دعائیں آپ کی زبان پر تھیں۔ ﴿ربنا تقبل مِنا إِنكَ أَنتَ السمیعُ العلیمُ﴾اے رب! ہماری اس خدمت توحید کو قبول فرمائیے۔ تو جاننے والا سننے والا ہے۔﴿رَبَّنَاوَاجعلنَا مُسلِمَینِ لَكَ وَ مِن ذُرّیِتِنَآ اُمَّة مُّسلِمَمة لَّكَ وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُب عَلَینَا اِنَّكَ اَنتَ التَّوبُ الرَّحِیمُ﴾(البقرة: 128)اے رب! ہمیں اپنا فرمانبردار بنالے اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک جماعت ہمیشہ اس مشن کو زندہ رکھنے والی بنا دے او مناسک حج سے ہمیں آگاہ کردے اور ہمارے اوپر اپنی عنایات کی نظر کردے تو نہایت ہی تواب اور رحیم ہے۔﴿رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنَامَ﴾ (سورة إبراهیم:13)اے رب! اس شہر کو امن و امان والا مقام بنادے اور مجھے اور میری اولاد کو ہمیشہ بت پرستی کی حماقت سے بچاتا رہیو۔﴿رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ﴾(إبراهیم: 37)اے رب!میں اپنی اولاد کو ایک بنجرنا قابل کاشت بیابان میں تیرے پاک گھر کے قریب آباد کرتا ہوں۔ اے رب! میری غرض ان کو یہاں بسانے سے صرف یہ ہے کہ یہ تیری عبادت کریں۔ نماز قائم کریں۔ میرے مولا! لوگوں کے دل ان کی طرف پھیردے اور ان کو میووں سے روزی عطا کرنا کہ یہ تیری شکر گزاری کریں۔ قال ابن عباس: بنى إبراهيم البيت من خمسة أجبل: من طور سيناء وطور زيتا ولبنان جبل بالشام والجودي جبل بالجزيرة، وبنى قواعده من حراء جبل بمكة فلما انتهى إبراهيم إلى موضع الحجر الأسود قال لإسماعيل: ائتني بحجر حسن يكون للناس علما فأتاه بحجر فقال ائتني بأحسن منه فمضى إسماعيل ليطلب حجرا أحسن منه فصاح أبو قبيس: يا إبراهيم إن لك عندي وديعة فخذها فقذف بالحجر الأسود فأخذه إبراهيم فوضعه مكانه۔(خازن، ج 1 ص:94)یعنی حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ نے طور سینا وطور زیتا جبل لبنان جو شام میں ہے اور جبل جودی جو جزیرہ میں ہیں ان چاروں پہاڑوں کے پتھروں کا استعمال کیا۔ جب آپ حجر اسود کے مقام تک پہنچ گئے، تو آپ نے حضرت اسماعیل ؑ سے فرمایا کہ ایک خوبصورت سا پتھر لاؤ جس کو نشانی کے طور پر ( طوافوں کی گنتی کے لئے ) میں قائم کردوں۔ حضرت اسماعیل ایک پتھر لائے، اس کو آپ نے واپس کردیا اور فرمایا اور مناسب پتھر تلاش کر کے لاؤ۔ حضرت اسماعیل پتھر تلاش کررہی رہے تھے۔ کہ جبل ابو قبیس سے ایک غیبی صدا بلند ہوئی کہ اے ابراہیم! میرے پاس آپ کو دینے کی ایک امانت ہے، اسے لیجائیے۔ چنانچہ اس پہاڑ نے حجراسود کو حضرت ابراہیم ؑ کے حوالے کردیا اور آپ نے اس پتھر کو اس کے مقام پر نصب کردیا۔ بعض روایات میں یو ں ہے کہ حضرت جبرائیل ؑ نے حجر اسود کو لاکر آپ کے حوالہ کیا۔ (ابن کثیر) اور شرقی گوشہ میں باہر کی طرف زمین سے ڈیڑھ گز کی بلندی پر ایک طاق میں اس کو نصب کیا گیا۔ تعمیر ابراہیمی بالکل سادہ تھی نہ اس پر چھت تھی نہ دروازہ نہ چونہ۔ مٹی سے کام لیا گیا تھا۔ صرف پتھر کی چاردیواری تھی علامہ ازرقی نے تاریخ مکہ میں تعمیر ابراہیمی کا عرض وطول حسب ذیل لکھا ہے۔ بلندی زمین سے چھت تک 9 گز۔ طول حجر اسود سے رکن شامی تک 32 گز۔ عرض رکن شامی سے غربی تک 22 گز۔ گھر بن چکا۔ حضرت جبرئیل ؑ نے مناسک حج سے آگاہ کردیا۔ اب ارشاد باری ہوا﴿وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ (26) وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ﴾(الحج :27) یعنی ہمارا گھر طوار کرنے والوں، نماز میں قیام کرنے والوں، رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک کردے اور تمام لوگوں کو پکاردے کہ حج کو آئیں پیدل بھی اور دبلی اونٹنیوں پر بھی ہر دور دراز گوشہ سے آئیں گے۔ اس زمانہ میں اعلان واشتہار کے لے وسائل نہیں تھے۔ ویران جگہ تھی، آدم زاد کا کوسوں تک پتہ نہ تھا۔ ابراہیم ؑ کی آواز حدود حرم سے باہر نہیں جاسکتی تھی۔ لیکن اس معمولی آواز کو قدرت حق تعالیٰ نے مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک اور زمین سے آسمان تک پہنچا دیا۔ مفسرین آیت بالا کے ذیل میں لکھتے ہیں: فَنَادَى عَلَى جبل أبي قبيس يأيها النَّاس إنَّ رَبّكُمْ بَنَى بَيْتًا وَأَوْجَبَ عَلَيْكُمْ الْحَجّ إلَيْهِ فَأَجِيبُوا رَبّكُمْ وَالْتَفَتَ بِوَجْهِهِ يَمِينًا وَشِمَالًا وَشَرْقًا وَغَرْبًا فَأَجَابَهُ كُلّ مَنْ كَتَبَ لَهُ أَنْ يَحُجّ مِنْ أَصْلَاب الرِّجَال وَأَرْحَام الْأُمَّهَات لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ(جلالین) یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جبل ابو قبیس پر چڑھ کر پکارا اے لوگو! تمہارے رب نے اپنی عبادت کے لئے ایک مکان بنوایا اور تم پر اس کا حج فرض کردیا ہے۔ آپ یہ اعلان کرتے ہوئے شمال وجنوب، مشرق ومغرب کی طرف منہ کرتے جاتے اور آواز بلند کرتے جاتے تھے۔ پس جن انسانوں کی قسمت میں حج بیت اللہ کی سعادت ازلی لکھی جا چکی ہے۔ انہو ں نے اپنے باپوں کی پشت سے اور اپنی ماؤں کے ارحام سے اس مبارک ندا کو سن کر جواب دیا لبیک اللہم لبیک یا اللہ! ہم حاضر ہیں، یااللہ ! ہم تیرے پاک گھر کی زیارت کے لئے حاضرہیں۔
بنائے ابراہیمی کے بعد!
ابراہیم ؑ کی یہ تعمیر ایک مدت تک قائم رہی اور اس کی تولیت ونگرانی سیدنا اسماعیل کی اولاد پر اس کا حج فرض کردیاہے۔ آپ یہ اعلان کرتے ہوئے شمال وجنوب،مشرق ومغرب کی طرف منہ کرتے جاتے اور آواز بلند کرتے جاتے تھے۔ پس جن انسانوں کی قسمت میں حج بیت اللہ کی سعادت ازلی لکھی جاچکی ہے۔ انھوں نے اپنے باپوں کی پشت سے اور اپنی ماؤں کے ارحام سے اس مبارک ندا کو سن کر جواب دیا لبیك اللهم لبیكیا اللہ! ہم حاضر ہیں، یا اللہ! ہم تیرے پاک گھر کی زیارت کے لیے حاضر ہیں۔
تعمیرقصی بن کلاب!
ابراہیمی تعمیرکے بعد خانہ کعبہ کو چوتھی مرتبہ قصی بن کلاب قریشی نے تعمیر کیا۔ قصی قریش کے ممتاز افراد میں سے تھے تعمیر کعبہ کے ساتھ ساتھ قومی تعمیر کے لئے بھی اس نے بڑے بڑے اہم کام انجام دیئے۔ تمام قریش کو جمع کر کے بذریعہ تقاریر ان میں اتحاد کی روح پھونکی۔ دار الندوہ کا بانی بھی یہی شحض ہے جس میں قریش اپنے قومی اجتماعات ومذہبی تقریبات نکاح وغیرہ کے لئے جمع ہوا کرتے تھے۔ سقایہ (حاجیوں کو آب زمزم پلانا) اور رفادہ ( یعنی حاجیوں کے کھانے پینے کا انتظام کرنا ) یہ محکمے اسی نے قائم کيے۔ قریش کے قومی فنڈ سے ایک سالانہ رقم منیٰ اور مکہ معظمہ میں لنگر خانوں کے لے مقرر کی۔ اس کے ساتھ چرمی حوض بنوائے جن میں حجاج کے لئے ایام حج میں پانی بھروا دیاجاتا تھا۔ قصی نے اپنے سارے خاندان قریش کو مجتمع کر کے کعبہ شریف کے آس پاس بسایا۔ خدمت کعبہ کے متعلق متعدد کمیٹیاں قائم کیں جن کو مختلف خدمات کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ خانہ کعبہ کی چھت پر گوگل کی لکڑی کی چھت بنا کر اطراف میں درختوں کی باڑی لگادی اور اس پر سیاہ غلاف ڈالا۔ یہ تعمیر حضرت رسول پاک ﷺ کے زمانہ طفولیت تک باقی تھی آپ نے اپنے بچپن میں اس کو ملاحظہ فرمایا۔
تعمیرقریش!
یہ تعمیر نبوت محمدی سے پانچ سال قبل جب آنحضرت ﷺ کی عمر شریف 35 سال کی تھی، ہوئی۔ اس تعمیر میں اور بنائے ابراہیمی میں1675 سال کا زمانہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ ایک عورت نزد کعبہ بخور جلا رہی تھی، پردہ شریف میں آگ لگ گئی اور پھیل گئی یہاں تک کہ کعبہ شریف کی چھت بھی جل گئی اور پتھر بھی چٹخ گئے۔ جگہ جگہ سے دیواریں شق ہوگئیں۔ کچھ ہی دنوں بعد سیلاب آیا۔ جس نے اس کی بنیادوں کو ہلا دیا کہ گرجانے کا خطرہ قوی ہوگیا۔ قریش نے اس تعمیر کے لئے چندہ جمع کیا۔ مگر شرط یہ رکھی کہ سود، اجرت زنا، غارت گری اور چوری کا پیسہ نہ لگایا جائے اس لیے خرچ میں کمی ہوگئی۔ جس کا تدارک یہ کیا گیا کہ شمالی رخ سے سات ذراع زمین باہر چھوڑ کر عمارت بنادی۔ اس متروکہ حصہ کا نام حطیم ہے۔ آیت شریفہ ﴿وَإِذ یَرفَعُ إِبرَاهِیمُ القَوَاعِدَ﴾(البقرة: 127) کی تفسیرین میں ابن کثیر میں تفصیلات یو آئی ہیں۔ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ يَسَارٍ، فِي السِّيرَةِ:وَلَمَّا بَلَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمْسًا وَثَلَاثِينَ سَنَةً، اجْتَمَعَتْ قُرَيْشٌ لِبُنْيَانِ الْكَعْبَةِ، وَكَانُوا يَهُمُّون بِذَلِكَ (5) لِيَسْقُفُوهَا، وَيَهَابُونَ هَدْمها، وَإِنَّمَا كَانَتْ رَضما فَوْقَ الْقَامَةِ، فَأَرَادُوا رَفْعَهَا وَتَسْقِيفَهَا، وَذَلِكَ أَنَّ نَفَرًا سَرَقُوا كَنْزَ الْكَعْبَةِ، وَإِنَّمَا كَانَ يَكُونُ فِي بِئْرٍ فِي جَوْف الْكَعْبَةِ، وَكَانَ الذِي وُجد عِنْدَهُ الْكَنْزُ دُوَيْكٌ، مَوْلَى بَنِي مُلَيح بْنِ عَمْرٍو مِنْ خُزَاعَةَ، فَقَطَعَتْ قُرَيْشٌ يَدَهُ. وَيَزْعُمُ النَّاسُ أَنَّ الَّذِينَ سَرَقُوهُ وَضَعُوهُ عِنْدَ دُوَيْكٍ. وَكَانَ الْبَحْرُ قَدْ رَمى بِسَفِينَةٍ إِلَى جُدَّة، لِرَجُلٍ مَنْ تُجَّارِ الرُّومِ، فَتَحَطَّمَتْ، فَأَخَذُوا خَشَبَهَا فأعدُّوه لِتَسْقِيفِهَا. وَكَانَ بِمَكَّةَ رَجُلٌ قِبْطِيٌّ نَجَّارٌ، فَهَيَّأَ لَهُمْ، فِي أَنْفُسِهِمْ بَعْضَ مَا يُصْلِحُهَا، وَكَانَتْ حَيَّةٌ تَخْرُجُ مِنْ بِئْرِ الْكَعْبَةِ التِي كَانَتْ تَطْرَحُ، فِيهَا مَا يُهْدَى لَهَا كُلَّ يَوْمٍ، فَتَتشرق عَلَى جِدَارِ الْكَعْبَةِ، وَكَانَتْ مِمَّا يَهَابُونَ. وَذَلِكَ أَنَّهُ كَانَ لَا يَدْنُو مِنْهَا أَحَدٌ إِلَّا احزَألَّت وَكَشَّتْ وَفَتَحَتْ فَاهَا، فَكَانُوا يَهَابُونَهَا، فَبَيْنَا هِيَ يَوْمًا تَتَشرَّق عَلَى جِدَارِ الْكَعْبَةِ، كَمَا كَانَتْ تَصْنَعُ، بَعَثَ اللَّهُ إِلَيْهَا طَائِرًا فَاخْتَطَفَهَا، فَذَهَبَ بِهَا. فَقَالَتْ قُرَيْشٌ: إِنَّا لَنَرْجُو أَنْ يَكُونَ اللَّهُ قَدْ رَضي مَا أَرَدْنَا، عِنْدَنَا عَامِلٌ رَفِيقٌ، وَعِنْدَنَا خَشَبٌ، وَقَدْ كَفَانَا اللَّهُ الْحَيَّةَ. فَلَمَّا أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ فِي هَدْمِهَا وَبُنْيَانِهَا، قَامَ أَبُو وَهْبِ بْنُ عَمْرومَخْزُومٍ، فَتَنَاوَلَ مِنَ الْكَعْبَةِ حَجَرًا، فَوَثَبَ مِنْ يَدِهِ حَتَّى رَجَعَ إِلَى مَوْضِعِهِ. فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، لَا تُدخلوا فِي بُنْيَانِهَا مِنْ كَسْبِكُمْ إِلَّا طَيِّبًا، لَا يَدْخُلُ فِيهَا مَهْرُ بَغِي وَلَا بَيْعُ رِبًا، وَلَا مَظْلِمَةُ أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ إلی آخرہ۔خلاصہ اس عبارت کا یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف 35 سال کی تھی کہ قریش نے کعبہ کی از سر نو تعمیر کا فیصلہ اور اس کی دیواروں کو بلند کر کے چھت ڈالنے کی تجویز پاس کی۔ کچھ دنوں کے بعد اور حادثات کے ساتھ ساتھ کعبہ شریف میں چوری کا حادثہ بھی ہوچکا تھا۔ اتفاق سے چور پکڑا گیا، اس کا ہاتھ کاٹا گیا اور تعمیری پروگرام میں مزید پختگی ہوگئی۔ حسن اتفاق سے ہ باقوم نامی ایک رومی تاجر کی کشتی طوفانی موجوں سے ٹکراتی ہوئی جدہ کے کنارے آپڑی اور لکڑی کا سامان ارزاں مل جانے کی اہل مکہ کو تو قع ہوئی۔ ولید بن مغیرہ لکڑی خرید نے کے خیال سے جدہ آیا اور سامان تعمیر کے ساتھ ہی باقوم کو جوفن معماری میں استاد تھا اپنے ساتھ لے گیا۔ ان ہی ایام میں کعبہ شریف کی دیواروں میں ایک خطرناک اژدہا پایا گیا۔ جس کو مارنے کی کسی کو ہمت نہ ہوتی تھی۔ اتفاقاوہ ایک دن دیوار کعبہ پر بیٹھا ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا پرندہ بھیجا جو اس کو آن کی آن میں اچک کر لے گیا۔ اب قریش نے سمجھا کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی ومشیت ہمارے ساتھ ہے اس لئے تعمیر کا کام فوراً شروع کردینا چاہئے۔ مگر کسی کی ہمت نہ ہوتی تھی کہ چھت پر چڑھے اور بیت اللہ کو منہدم کرے ۔ آخر جرات کرکے ابن وہب آگے بڑھا اور ایک پتھر جدا کیا تو وہ پتھر ہاتھ سے چھوٹ کر پھر اپنی جگہ پر جاٹھہرا۔ اس وقت ابن وہب نے اعلان کیا کہ ناجائز کمائی کا پیسہ ہر گز ہر گز تعمیر میں نہ لگایا جائے۔ پھر ولید بن مغیرہ نے کدال لے کر یہ کہتے ہوئے کہ اے اللہ! تو جانتا ہے ہماری نیت بخیر ہے اس کا ہدم شروع کردیا بنیاد نکل آئی تو اس کے مختلف حصوں کی تعمیر مختلف قبائل پرتقسیم کردی گئی اور کام شروع ہوگیا۔ آنحضرت ﷺ بھی اپنے چچا حضرت عباس ؓ کے ساتھ شریک کار تھے اور کندھوں پتھر رکھ کر لاتے تھے۔ جب حجر اسود رکھنے کا وقت آیا تو قبائل میں اختلاف پڑگیا۔ ہر خاندان اس شرف کے حصول کا دعویدار تھا۔ آخر مرنے مارنے تک نوبت پہنچ گئی، مگرولید بن مغیرہ نے یہ تجویز پیش کی کہ کل صبح کو جو شخص بھی سب سے پہلے حرم شریف میں قدم رکھے، اس کے فیصلے کو واجب العمل سمجھوچنانچہ صبح کو سب سے پہلے حرم شریف میں آنے والے سیدنا محمد ﷺ تھے۔ سب نے بیک زبان آپ کے فیصلے کو بخوشی ماننے کااعتراف کیا۔ آپ نے حجر اسود کو اپنی چادر مبارک کے وسط میں رکھا اور ہر قبیلہ کے ایک ایک سردار کو اس چادر کے اٹھانے میں شریک کرلیا۔ جب وہ چادر گوشہ کعبہ تک پہنچ گئی تو آپ نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو اٹھا کر دیوار میں نصب فرمادیا۔ دیواریں اٹھارہ ہاتھ اونچی کردی گئیں۔ اندرونی فرش بھی پتھر کا بنایا۔ اپنی امتیازی شان قائم رکھنے کے لئے دروازہ قد آدم اونچا رکھا۔ اندرون بیت اللہ شمالاً و جنوباً تین تین ستون قائم کئے۔ جن پر شہتیر ڈال کر چھت پاٹ دی اور رکن عراقی کی طرف اندر ہی اندر زینہ چڑھا یا کہ چھت پر پہنچ سکیں اور شمالی سمت پر پرنالہ لگایا تاکہ چھت کا بارشی پانی حجر میں آکر پڑے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Yazid bin Ruman from 'Urwa (RA): 'Aisha (RA) said that the Prophet (ﷺ) said to her, "O Aisha (RA) ! Were your nation not close to the Pre-lslamic Period of Ignorance, I would have had the Ka’bah demolished and would have included in it the portion which had been left, and would have made it at a level with the ground and would have made two doors for it, one towards the east and the other towards the west, and then by doing this it would have been built on the foundations laid by Abraham." That was what urged Ibn-Az-Zubair to demolish the Ka’bah. Jazz said, "I saw Ibn-Az-Zubair when he demolished and rebuilt the Ka’bah and included in it a portion of Al-Hijr (the unroofed portion of Ka’bah which is at present in the form of a compound towards the north-west of the Ka’bah). I saw the original foundations of Abraham which were of stones resembling the humps of camels." So Jarir asked Yazid, "Where was the place of those stones?" Jazz said, "I will just now show it to you." So Jarir accompanied Yazid and entered Al-Hijr, and Jazz pointed to a place and said, "Here it is." Jarir said, "It appeared to me about six cubits from Al-Hijr or so." ________