باب: مکہ شریف کے گھر مکان میراث ہو سکتے ہیں ان کا بیچنا اور خریدنا جائز ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: The inheritance, sale and purchase of the houses of Makkah)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
مسجد الحرام میں سب لوگ برابر ہیں یعنی خاص مسجد میں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے (سورۃ الحج) میں فرمایا، جن لوگوں نے کفر کیا اور جو لوگ اللہ کی راہ اور مسجد الحرام سے لوگوں کو روکتے ہیں کہ جس کو ہم نے تمام لوگوں کے لیے یکساں مقرر کیا ہے۔ خواہ وہ وہیں کے رہنے والے ہوں یا باہر سے آنے والے اور جو شخص وہاں شرارت کے ساتھ حد سے تجاوز کرے، ہم اسے درد ناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ لفظ «بادي» باہر سے آنے والے کے معنی میں ہے اور «معكوفا» کا لفظ رکے ہوئے کے معنے میں ہے۔
1588.
حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انھوں نے(حجۃ الوداع کو جاتے وقت) عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! آپ اپنے مکہ و الے گھر میں کہاں نزول فرمائیں گے؟اس پر آپ نے فرمایا: ’’عقیل نے ہمارے لیے کوئی جائیداد یامکان کہاں چھوڑاہے؟‘‘عقیل اور طالب تو ابو طالب کے وارث ٹھہرے۔ حضرت جعفر اورحضرت علی ؓ ان کی کسی چیز کے وارث نہ ہوئے کیونکہ یہ دونوں مسلمان ہوگئے تھے جبکہ عقیل اور طالب (اس وقت) کافر تھے۔ اسی بنیاد پر حضرت عمر ؓ فرمایا کرتےتھے کہ کسی مسلمان کسی کافر کا وارث نہیں ہوتا۔ ابن شہاب کہتے ہیں کہ اس معاملے کے لیے لوگ ارشاد باری تعالیٰ کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں: ’’جو لوگ ایمان لائے، ہجرت کی اور اپنے مال وجان کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور وہ لوگ جنھوں نے پناہ دی اور مدد کی وہی ایک دو سرے کے وارث ہوں گے۔‘‘
تشریح:
(1) مکہ مکرمہ کے مکانات میں وراثت چلتی ہے کیونکہ ان کے متعلق حق ملکیت ثابت ہے۔ سردار ابو طالب کے چار بیٹے تھے: عقیل، طالب، حضرت جعفر اور حضرت علی۔ مؤخر الذکر دونوں بیٹے مسلمان ہو گئے۔ طالب جنگ بدر میں مارا گیا۔ عقیل کو اپنے باپ ابو طالب کی تمام جائیداد مل گئی۔ چونکہ یہ جائیداد ہاشم کی تھی جو پہلے عبدالمطلب کو منتقل ہوئی، اس نے اپنے تمام بیٹوں میں تقسیم کر دی۔ اس میں رسول اللہ ﷺ کے باپ عبداللہ کا بھی حصہ تھا، لیکن آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ان معاملات کو قائم رکھا تاکہ لوگوں کے درمیان نفرت پیدا نہ ہو۔ آپ اپنے باپ کے حصے میں پڑاؤ کر سکتے تھے لیکن آپ اللہ کے لیے ہجرت کر کے گئے تھے، اس لیے وہاں پڑاؤ کرنا مناسب خیال نہ کیا بلکہ ہوا یوں کہ عقیل نے آپ کی عدم موجودگی میں آپ کے مکان پر بھی قبضہ کر لیا تھا، پھر اسے فروخت کر دیا، چنانچہ آپ نے فرمایا: ’’عقیل نے ہمارے لیے مکان چھوڑا کب ہے کہ ہم اس میں رہیں۔‘‘ (2) بہرحال احادیث سے ثابت ہے کہ اسلام سے پہلے مکہ کے مکانات اور زمینوں میں لوگوں کا حق ملکیت قائم تھا۔ اس میں وراثت اور بیع و اجارہ کے معاملات بھی ہوتے تھے جو اسلام کے بعد بھی قائم رہے، چنانچہ سیدنا عمر ؓ کے زمانے میں نافع بن عبدالحارث نے صفوان بن امیہ سے ایک گھر جیل خانہ بنانے کے لیے مکہ میں اس شرط پر خریدا کہ اگر سیدنا عمر ؓ اس خریداری کو منطور کریں گے تو بیع پختہ ہو گی، بصورت دیگر صفوان کو چار سو دینار کرائے کے مل جائیں گے۔ (صحیح البخاري، الخصومات، باب:8) (3) امام بخاری ؒ عنوان اور پیش کردہ روایات سے ان احادیث کے ضعف کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں جن میں مکہ مکرمہ کی عمارتوں کو فروخت کرنے یا انہیں کرائے پر دینے کی ممانعت ہے۔ (فتح الباري:568/3) امام ابن خزیمہ ؒ لکھتے ہیں کہ اگر مسجد حرام کا اطلاق تمام حرم پر صحیح ہو تو حرم کے اندر کنواں کھودنا، قبر بنانا، بول و براز کرنا، تعلقات زن و شو قائم کرنا، مردار اور بدبودار چیزوں کو پھینکنا جائز نہ ہو۔ ہمارے علم کے مطابق کسی عالم نے حرم میں ان کاموں سے منع نہیں کیا اور نہ حائضہ اور جنبی کے لیے حدود حرم میں داخل ہونے پر پابندی لگائی ہے، نیز اگر ایسا ہو تو مکہ کے مکانات اور اس کی دوکانوں میں اعتکاف بیٹھنا بھی جائز ہو اور اس کا کوئی بھی قائل نہیں۔ (فتح الباري:569/3) امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں حضرت عمر ؓ سے بیان کیا ہے کہ مسلمان کسی کافر کا وارث نہیں ہو سکتا، اسے آپ نے مرفوع حدیث کے طور پر بھی روایت کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الفرائض، حدیث:6764)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1547
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1588
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1588
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1588
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
چونکہ آیت کریمہ میں العاكف کا لفظ ہے اس مناسبت سے معكوفا کے معنی بتائے کہ روکے ہوئے کو معكوف کہتے ہیں، یعنی کافروں نے قربانی کے جانوروں کو ان کی قربان گاہ تک پہنچنے سے روکے رکھا۔ العاكف کے معنی مقیم ہیں۔ آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ مسجد حرام میں نماز، طواف اور دیگر مناسک حج بجا لانے میں اہل مکہ اور بیرونی حضرات برابر کے حق دار ہیں۔ اہل مکہ کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ بیرونی حضرات کو حرم میں داخل ہونے، نمازیں ادا کرنے، طواف کرنے یا ارکان حج و عمرہ بجا لانے سے منع کریں۔ اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے، البتہ اس حق کا تعلق پورے حرم مکہ سے بھی ہے یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے، یعنی کیا پورے حرم مکہ کے دروازے باہر سے آنے والوں کے لیے ہر وقت کھلے رہنے چاہئیں کہ وہ جب چاہیں حرم مکہ کے اندر جہاں چاہیں ڈیرے ڈال دیں، ان سے کسی قسم کا کرایہ وغیرہ بھی وصول نہ کیا جائے اور نہ اس کے مکانات کو فروخت کیا جائے؟ اس اختلاف کی دو وجہیں ہیں: ٭ ارکان حج میں سے بیشتر کا تعلق صرف بیت اللہ سے نہیں بلکہ حرم مکہ سے ہے۔ منیٰ، مزدلفہ اور عرفات وغیرہ سب بیت اللہ کی حدود سے باہر ہیں اور حرم مکہ میں داخل ہیں۔ ٭ اللہ تعالیٰ نے بعض مقامات پر مسجد حرام کا ذکر کر کے پورا حرم مکہ مراد لیا ہے، مثلا: قرآن میں ہے: (ذَٰلِكَ لِمَن لَّمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ) "یہ رعایت اس شخص کے لیے ہے جو مسجد حرام کا باشندہ نہ ہو۔" (البقرۃ196:2) اس مقام پر مسجد حرام سے مراد حرم مکہ ہے کیونکہ کوئی شخص مسجد حرام کے اندر رہائش پذیر نہیں ہوتا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ عنوان اسی اختلاف کے پیش نظر قائم کیا ہے کہ آیا حرم میں زمین و مکانات کی خریدوفروخت اور اس سے آگے ان کی ملکیت و وراثت بھی جائز ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ حرم مکہ میں مکانات کی خریدوفروخت اور وراثت وغیرہ سب کچھ جائز ہے۔
مسجد الحرام میں سب لوگ برابر ہیں یعنی خاص مسجد میں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے (سورۃ الحج) میں فرمایا، جن لوگوں نے کفر کیا اور جو لوگ اللہ کی راہ اور مسجد الحرام سے لوگوں کو روکتے ہیں کہ جس کو ہم نے تمام لوگوں کے لیے یکساں مقرر کیا ہے۔ خواہ وہ وہیں کے رہنے والے ہوں یا باہر سے آنے والے اور جو شخص وہاں شرارت کے ساتھ حد سے تجاوز کرے، ہم اسے درد ناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ لفظ «بادي» باہر سے آنے والے کے معنی میں ہے اور «معكوفا» کا لفظ رکے ہوئے کے معنے میں ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انھوں نے(حجۃ الوداع کو جاتے وقت) عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! آپ اپنے مکہ و الے گھر میں کہاں نزول فرمائیں گے؟اس پر آپ نے فرمایا: ’’عقیل نے ہمارے لیے کوئی جائیداد یامکان کہاں چھوڑاہے؟‘‘عقیل اور طالب تو ابو طالب کے وارث ٹھہرے۔ حضرت جعفر اورحضرت علی ؓ ان کی کسی چیز کے وارث نہ ہوئے کیونکہ یہ دونوں مسلمان ہوگئے تھے جبکہ عقیل اور طالب (اس وقت) کافر تھے۔ اسی بنیاد پر حضرت عمر ؓ فرمایا کرتےتھے کہ کسی مسلمان کسی کافر کا وارث نہیں ہوتا۔ ابن شہاب کہتے ہیں کہ اس معاملے کے لیے لوگ ارشاد باری تعالیٰ کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں: ’’جو لوگ ایمان لائے، ہجرت کی اور اپنے مال وجان کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور وہ لوگ جنھوں نے پناہ دی اور مدد کی وہی ایک دو سرے کے وارث ہوں گے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) مکہ مکرمہ کے مکانات میں وراثت چلتی ہے کیونکہ ان کے متعلق حق ملکیت ثابت ہے۔ سردار ابو طالب کے چار بیٹے تھے: عقیل، طالب، حضرت جعفر اور حضرت علی۔ مؤخر الذکر دونوں بیٹے مسلمان ہو گئے۔ طالب جنگ بدر میں مارا گیا۔ عقیل کو اپنے باپ ابو طالب کی تمام جائیداد مل گئی۔ چونکہ یہ جائیداد ہاشم کی تھی جو پہلے عبدالمطلب کو منتقل ہوئی، اس نے اپنے تمام بیٹوں میں تقسیم کر دی۔ اس میں رسول اللہ ﷺ کے باپ عبداللہ کا بھی حصہ تھا، لیکن آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ان معاملات کو قائم رکھا تاکہ لوگوں کے درمیان نفرت پیدا نہ ہو۔ آپ اپنے باپ کے حصے میں پڑاؤ کر سکتے تھے لیکن آپ اللہ کے لیے ہجرت کر کے گئے تھے، اس لیے وہاں پڑاؤ کرنا مناسب خیال نہ کیا بلکہ ہوا یوں کہ عقیل نے آپ کی عدم موجودگی میں آپ کے مکان پر بھی قبضہ کر لیا تھا، پھر اسے فروخت کر دیا، چنانچہ آپ نے فرمایا: ’’عقیل نے ہمارے لیے مکان چھوڑا کب ہے کہ ہم اس میں رہیں۔‘‘ (2) بہرحال احادیث سے ثابت ہے کہ اسلام سے پہلے مکہ کے مکانات اور زمینوں میں لوگوں کا حق ملکیت قائم تھا۔ اس میں وراثت اور بیع و اجارہ کے معاملات بھی ہوتے تھے جو اسلام کے بعد بھی قائم رہے، چنانچہ سیدنا عمر ؓ کے زمانے میں نافع بن عبدالحارث نے صفوان بن امیہ سے ایک گھر جیل خانہ بنانے کے لیے مکہ میں اس شرط پر خریدا کہ اگر سیدنا عمر ؓ اس خریداری کو منطور کریں گے تو بیع پختہ ہو گی، بصورت دیگر صفوان کو چار سو دینار کرائے کے مل جائیں گے۔ (صحیح البخاري، الخصومات، باب:8) (3) امام بخاری ؒ عنوان اور پیش کردہ روایات سے ان احادیث کے ضعف کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں جن میں مکہ مکرمہ کی عمارتوں کو فروخت کرنے یا انہیں کرائے پر دینے کی ممانعت ہے۔ (فتح الباري:568/3) امام ابن خزیمہ ؒ لکھتے ہیں کہ اگر مسجد حرام کا اطلاق تمام حرم پر صحیح ہو تو حرم کے اندر کنواں کھودنا، قبر بنانا، بول و براز کرنا، تعلقات زن و شو قائم کرنا، مردار اور بدبودار چیزوں کو پھینکنا جائز نہ ہو۔ ہمارے علم کے مطابق کسی عالم نے حرم میں ان کاموں سے منع نہیں کیا اور نہ حائضہ اور جنبی کے لیے حدود حرم میں داخل ہونے پر پابندی لگائی ہے، نیز اگر ایسا ہو تو مکہ کے مکانات اور اس کی دوکانوں میں اعتکاف بیٹھنا بھی جائز ہو اور اس کا کوئی بھی قائل نہیں۔ (فتح الباري:569/3) امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں حضرت عمر ؓ سے بیان کیا ہے کہ مسلمان کسی کافر کا وارث نہیں ہو سکتا، اسے آپ نے مرفوع حدیث کے طور پر بھی روایت کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الفرائض، حدیث:6764)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: " بے شک وہ لوگ جو کافر ہیں اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے اور مسجدحرام سے روکتے ہیں وہ مسجد حرام جس میں ہم نے وہاں کے باشندے اور باہر سے آنے والوں کے حقوق برابر رکھے ہیں، لہذاجو بھی اس میں کسی قسم کے ظلم کے ساتھ کسی کج روی کا ارادہ کرے گا ایسے سب لوگوں کو ہم دردناک عذاب چکھائیں گے۔ "
(ابوعبداللہ امام بخاری کہتے ہیں کہ)بادي سے مراد باہر سے آنے والا اور مَعْكُوفًا کے معنی محبوس کے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے اصبغ بن فرج نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے عبداللہ بن وہب نے خبردی، انہیں یونس نے، انہیں ابن شہاب نے، انہیں علی بن حسین نے، انہیں عمرو بن عثمان نے اور انہیں حضرت اسامہ بن زید ؓ نے کہ انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ ! آپ مکہ میں کیا اپنے گھر میں قیام فرمائیں گے۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ عقیل نے ہمارے لیے محلہ یا مکان چھوڑا ہی کب ہے۔ ( سب بیچ کھوچ کر برابر کردئیے ) عقیل اور طالب، ابوطالب کے وارث ہوئے تھے۔ جعفر اور علی ؓ کو وراثت میں کچھ نہیں ملا تھا، کیونکہ یہ دونوں مسلمان ہوگئے تھے اور عقیل ؓ ( ابتداءمیں ) اور طالب اسلام نہیں لائے تھے۔ اسی بنیاد پر حضرت عمر بن خطاب ؓ فرمایا کرتے تھے کہ مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا۔ ابن شہاب نے کہا کہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے دلیل لیتے ہیں کہ ” جو لوگ ایمان لائے، ہجرت کی اور اپنے مال اور جان کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور وہ لوگ جنہوں نے پناہ دی اور مدد کی، وہی ایک دوسرے کے وارث ہوں گے۔ “
حدیث حاشیہ:
مجاہد سے منقول ہے کہ مکہ تمام مباح ہے نہ وہاں کے گھروں کا بیچنا درست ہے نہ کرایہ پر دینا اور ابن عمر ؓ سے بھی ایسا ہی منقول ہے اور امام ابوحنیفہ ؒ اور ثوری ؒ کا یہی مذہب ہے اور جمہور علماء کے نزدیک مکہ کے گھر مکان ملک ہیں اور مالک کے مرجانے کے بعد وہ وارثوں کے ملک ہوجاتے ہیں۔ امام ابویوسف ؒ ( شاگرد امام ابوحنیفہ ؒ ) کا بھی یہ قول ہے اور امام بخاری ؒ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ ہاں خاص مسجد حرام میں سب مسلمانوں کا حق برابر ہے جو جہاں بیٹھ گیا اس کو وہاں سے کوئی اٹھا نہیں سکتا۔ اوپر کی آیت میں چونکہ عاکف اور معکوف کا مادہ ایک ہی ہے۔ اس لیے معکوف کی بھی تفسیر بیان کردی۔ حدیث باب میں عقیل کا ذکر ہے۔ سو ابو طالب کے چار بیٹے تھے۔ عقیل، طالب، جعفر اور علی۔ علی اور جعفر نے تو آنحضرت ﷺ کا ساتھ دیا اور آپ کے ساتھ مدینہ آگئے مگر عقیل مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ اس لیے ابوطالب کی ساری جائیداد کے وہ وارث ہوئے۔ انہوں نے اسے بیچ ڈالا۔ آنحضرت ﷺ نے اسی کا ذکر فرمایا تھا جو یہاں مذکور ہے۔ کہتے ہیں کہ بعد میں عقیل مسلمان ہوگئے تھے۔ داؤدی نے کہا جو کوئی ہجرت کرکے مدینہ منورہ چلا جاتا اس کا عزیز جو مکہ میں رہتا وہ ساری جائداد دبالیتا۔ آنحضرت ﷺ نے فتح مکہ کے بعد ان معاملات کو قائم رکھا تاکہ کسی کی دل شکنی نہ ہو۔ کہتے ہیں کہ ابوطالب کے یہ مکانات عرصہ دراز بعد محمد بن یوسف، حجاج ظالم کے بھائی نے ایک لاکھ دینار میں خریدلیے تھے۔ اصل میں یہ جائداد ہاشم کی تھی، ان سے عبدالمطلب کو ملی۔ انہوں نے سب بیٹوں کو تقسیم کردی۔ اسی میں آنحضرت ﷺ کا حصہ بھی تھا۔ آیت مذکورئہ باب شروع اسلام میں مدینہ منورہ میں اتری تھی۔ اللہ پاک نے مہاجرین اور انصار کو ایک دوسرے کا وارث بنا دیا تھا۔ بعد میں یہ آیت اتری: ﴿وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ﴾(الأنفال: 75) یعنی غیر آدمیوں کی نسبت رشتہ دار میراث کے زیادہ حقدار ہیں۔ خیر اس آیت سے مومنوں کا ایک دوسرے کا وارث ہونا نکلتا ہے۔ اس میں یہ ذکر نہیں ہے کہ مومن کافر کا وارث نہ ہوگا اور شاید امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مضمون کی طرف اشارہ کیا جو اس کے بعد ہے۔ ﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يُهَاجِرُوا﴾(الأنفال: 72) یعنی جو لوگ ایمان بھی لے آئے مگر کافروں کے ملک سے ہجرت نہیں کی تو تم ان کے وارث نہیں ہوسکتے۔ جب ان کے وارث نہ ہوئے تو کافروں کے بطریق اولیٰ وارث نہ ہوں گے۔ ( وحیدی )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Usama bin Zaid (RA): I asked, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Where will you stay in Makkah? Will you stay in your house in Makkah?" He replied, "Has 'Aqil left any property or house?" Aqil along with Talib had inherited the property of Abu Talib. Jafar and Ali did not inherit anything as they were Muslims and the other two were non-believers. 'Umar bin Al-Khattab (RA) used to say, "A believer cannot inherit (anything from an) infidel." Ibn Shihab (RA), (a sub-narrator) said, "They (Umar and others) derived the above verdict from Allah's Statement: "Verily! those who believed and Emigrated and strove with their life And property in Allah's Cause, And those who helped (the emigrants) And gave them their places to live in, These are (all) allies to one another." (8.72) ________