باب: اللہ تعالیٰ نے سورۃ المائدہ میں فرمایا اللہ نے کعبہ کو عزت والا گھر اور لوگوں کے قیام کی جگہ بنایا ہے اور اس طرح حرمت والے مہینہ کو بنایا۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان «وأن الله بكل شىء عليم» تک۔
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: The Statement of Allah Ta'ala)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1593.
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’یاجوج ماجوج کے خروج کے بعد بھی خانہ کعبہ کاحج اور عمرہ ہوتا رہے گا۔‘‘ ابان اور عمران نے قتادہ سے بیان کرنے میں حجاج بن حجاج کی متابعت کی ہے۔ شعبہ بن قتادہ کے طریق سے مروی روایت میں ہے: ’’اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی تاآنکہ حج موقوف ہوجائے۔‘‘ لیکن پہلی روایت اکثر ہے۔ (ابو عبداللہ امام بخاری ؓ کہتے ہیں کہ) قتادہ نے عبداللہ سے اور عبداللہ نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے یہ حدیث سنی ہے۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کی بیان کردہ ان دونوں روایات میں بظاہر تعارض ہے کیونکہ پہلی حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ علامات قیامت کے ظہور کے بعد بھی بیت اللہ کا حج اور عمرہ ہوتا رہے گا کیونکہ یاجوج ماجوج کا ظاہر ہونا علامات قیامت میں سے ہے جبکہ دوسری روایت کا تقاضا ہے کہ علاماتِ قیامت کے بعد حج موقوف ہو جائے گا۔ امام بخاری ؒ نے پہلی روایت کو ترجیح دی ہے اور دوسری کو مرجوح قرار دیا ہے کیونکہ پہلی حدیث کے راوی دوسری حدیث کے راویوں سے زیادہ ہیں۔ (2) ان میں تعارض کو بایں طور پر بھی دور کیا جا سکتا ہے کہ یاجوج ماجوج کے خروج کے بعد حج اور عمرہ ہوتا رہے گا، اس کے بعد قرب قیامت کے وقت لوگوں میں کفر پھیل جائے گا، اس لیے حج و عمرہ بھی موقوف ہو جائے گا۔ حسن بصری ؒ کا قول ہے کہ مسلمان اپنے دین پر اس وقت تک قائم رہیں گے جب تک وہ بیت اللہ کا حج کرتے رہیں گے اور اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہیں گے۔ (فتح الباري:574/3) (3) ابان اور عمران کی متابعت کو امام احمد نے اپنی مسند میں بیان کیا ہے۔ (مسندأحمد:27/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1552
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1593
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1593
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1593
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’یاجوج ماجوج کے خروج کے بعد بھی خانہ کعبہ کاحج اور عمرہ ہوتا رہے گا۔‘‘ ابان اور عمران نے قتادہ سے بیان کرنے میں حجاج بن حجاج کی متابعت کی ہے۔ شعبہ بن قتادہ کے طریق سے مروی روایت میں ہے: ’’اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی تاآنکہ حج موقوف ہوجائے۔‘‘ لیکن پہلی روایت اکثر ہے۔ (ابو عبداللہ امام بخاری ؓ کہتے ہیں کہ) قتادہ نے عبداللہ سے اور عبداللہ نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے یہ حدیث سنی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ کی بیان کردہ ان دونوں روایات میں بظاہر تعارض ہے کیونکہ پہلی حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ علامات قیامت کے ظہور کے بعد بھی بیت اللہ کا حج اور عمرہ ہوتا رہے گا کیونکہ یاجوج ماجوج کا ظاہر ہونا علامات قیامت میں سے ہے جبکہ دوسری روایت کا تقاضا ہے کہ علاماتِ قیامت کے بعد حج موقوف ہو جائے گا۔ امام بخاری ؒ نے پہلی روایت کو ترجیح دی ہے اور دوسری کو مرجوح قرار دیا ہے کیونکہ پہلی حدیث کے راوی دوسری حدیث کے راویوں سے زیادہ ہیں۔ (2) ان میں تعارض کو بایں طور پر بھی دور کیا جا سکتا ہے کہ یاجوج ماجوج کے خروج کے بعد حج اور عمرہ ہوتا رہے گا، اس کے بعد قرب قیامت کے وقت لوگوں میں کفر پھیل جائے گا، اس لیے حج و عمرہ بھی موقوف ہو جائے گا۔ حسن بصری ؒ کا قول ہے کہ مسلمان اپنے دین پر اس وقت تک قائم رہیں گے جب تک وہ بیت اللہ کا حج کرتے رہیں گے اور اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہیں گے۔ (فتح الباري:574/3) (3) ابان اور عمران کی متابعت کو امام احمد نے اپنی مسند میں بیان کیا ہے۔ (مسندأحمد:27/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن حفص نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے میرے والد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن طہمان نے بیان کیا، ان سے حجاج بن حجاج اسلمی نے، ان سے قتادہ نے، ان سے عبداللہ بن ابی عتبہ نے اور ان سے ابوسعید خدری ؓ نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا بیت اللہ کا حج اور عمرہ یا جوج اور ماجوج کے نکلنے کے بعد بھی ہوتا رہے گا۔ عبداللہ بن ابی عتبہ کے ساتھ اس حدیث کو ابان اور عمران نے قتادہ سے روایت کیا اور عبدالرحمن نے شعبہ کے واسطہ سے یوں بیان کیا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک بیت اللہ کا حج بند نہ ہوجائے۔ امام بخاری ؓ نے کہا کہ پہلی روایت زیادہ راویوں نے کی ہے اور قتادہ نے عبداللہ بن عتبہ سے سنا اور عبداللہ نے ابو سعید خدری ؓ سے سنا۔
حدیث حاشیہ:
یاجوج ماجوج دو کافر قومیں یافث بن نوح کی اولاد ہیں جن کی اولاد میں روسی اور ترک بھی ہیں قیامت کے قریب وہ ساری دنیا پر قابض ہوکر بڑا دھند مچائیں گے۔ پورا ذکر علامات قیامت میں آئے گا۔ امام بخاری ؒ اس حدیث کو یہاں اس لیے لائے کہ اس کی دوسری روایت میں بظاہر تعارض ہے اور فی الحقیقت تعارض نہیں، اس لیے کہ قیامت تو یاجوج اور ماجوج کے نکلنے اور ہلاک ہونے کے بہت دنوں بعد قائم ہوگی تو یاجوج اورماجوج کے وقت میں لوگ حج اور عمرہ کرتے رہیں گے۔ اس کے بعد پھر قرب قیامت پر لوگوں میں کفر پھیل جائے گا اور حج اور عمرہ موقوف ہوجائے گا۔ ابان کی روایت کو امام احمد ؒ نے اور عمران کی روایت کو ابویعلٰی اور ابن خزیمہ نے وصل کیا ہے۔ حضرت حسن بصری ؒ نے کہا: لا یزال الناس علی دین ماحجوا البیت واستقبلوا القبلة۔ ( فتح ) یعنی مسلمان اپنے دین پر اس وقت تک قائم رہیں گے جب تک وہ کعبہ کا حج اور اس کی طرف منہ کرکے نمازیں پڑھتے رہیں گے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id Al-Khudri(RA): The Prophet (ﷺ) said "The people will continue performing the Hajj and 'Umra to the Ka’bah even after the appearance of Gog and Magog." Narrated Shu'ba extra: The Hour (Day of Judgment) will not be established till the Hajj (to the Ka’bah) is abandoned.