Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: The covering of the Ka'bah)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1594.
حضرت ابو وائل سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ شیبہ کے ساتھ کعبہ میں کرسی پر بیٹھا ہوا تھا تو انھوں نے کہا کہ اس جگہ پر حضرت عمر فاروق ؓ نے بیٹھ کر فرمایا: میرا ارادہ ہے کہ کعبہ میں جس قدر سونا چاندی موجود ہے۔ میں اسے تقسیم کردوں۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کے دونوں پیش رو ساتھیوں نے تو ایسا نہیں کیا۔ تب عمر فاروق ؓ نے فرمایا: وہ دونوں جلیل القدر انسان تھے۔ میں بھی ان کی اقتداء کرتا ہوں۔
تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ عمر فاروق ؓ نے فرمایا: میں بیت اللہ کے خزانے مسلمانوں میں تقسیم کر دینا چاہتا ہوں۔ شیبہ ؓ نے کہا کہ آپ ایسا نہیں کر سکتے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: میں ایسا کیوں نہیں کر سکتا؟ انہوں نے کہا: آپ کے دونوں ساتھیوں نے یہ کام نہیں کیا۔ اس کے بعد حضرت عمر فاروق ؓ نے یہ ارادہ ترک کر دیا۔ (صحیح البخاري، الاعتصام، حدیث:7275) امام ابن ماجہ نے اس حدیث کا سبب ورود ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ شقیق کے ہاتھ کسی آدمی نے بیت اللہ کے ہدیے کے طور پر چند درہم بھیجے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب میں بیت اللہ میں داخل ہوا تو حضرت شیبہ ؓ کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے وہ درہم ان کے حوالے کیے تو انہوں نے پوچھا: کیا یہ تمہارے ہیں؟ میں نے کہا: نہیں، اگر یہ میرے ہوئے تو میں آپ کے پاس نہ لاتا۔ اس کے بعد شیبہ نے حضرت عمر ؓ کا قصہ بیان کیا۔ (سنن ابن ماجة، المناسك، حدیث:3116) حضرت ابی بن کعب ؓ کے ساتھ بھی اس طرح کا واقعہ پیش آیا تو انہوں نے بھی حضرت عمر ؓ کو یہی جواب دیا تھا جس کا ذکر اس حدیث میں ہے۔ (فتح الباري:576/3) (2) امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت غلاف کعبہ کی مشروعیت اور اس کا حکم بیان کیا ہے۔ اس حدیث کی مناسبت اس طرح ہے کہ کعبہ شریف ہمیشہ سے محترم رہا ہے۔ لوگ اس کی طرف تحائف بھیجتے تھے۔ ان کا مقصد تعظیم کعبہ ہوتا تھا اور غلاف پہنانا بھی اس کی تعظیم کے لیے ہے، لہذا اس کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ حضرت عمر ؓ نے بیت اللہ کا بہترین غلاف کعبہ دیکھ کر ہی اس کے خزانے تقسیم کرنے کا ارادہ فرمایا ہو، نیز ہر زمانے میں بادشاہان وقت سونے کی تاروں سے بنا ہوا غلاف کعبہ بھیجتے تھے جیسا کہ دیگر اموال اس کے لیے وقف کرتے تھے۔ اس بنا پر امام بخاری ؒ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جس طرح مال تقسیم کرنا جائز ہے اسی طرح اگر غلافِ کعبہ سے کچھ بچ جائے تو اسے بھی ضرورت مند مسلمانوں میں تقسیم کرنا جائز ہے۔ حضرت عمر بھی ہر سال غلافِ کعبہ اتار کر حجاج میں تقسیم کر دیتے تھے۔ ممکن ہے کہ امام بخاری نے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہو۔ (عمدةالقاري:160/7) بہرحال بیت اللہ کو غلاف پہنانے کا دستور بہت قدیم ہے۔ مؤرخین کا بیان ہے کہ جس شخص نے سب سے پہلے کعبہ شریف کو غلاف پہنایا وہ یمن کے حیری قبیلے کا بادشاہ ابو کرب اسعد تبع تھا۔ یہ شخص جب مکہ مکرمہ آیا تو یمن کی تیار کردہ بہترین چادروں کا غلاف ہمراہ لایا، اس کے علاوہ سوتی اور ریشمی پردے بھی اس کے پاس تھے جو اس نے تعظیم کے طور پر بیت اللہ کو پہنائے تھے۔ (فتح الباري:579/3)واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1553
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1594
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1594
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1594
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت ابو وائل سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ شیبہ کے ساتھ کعبہ میں کرسی پر بیٹھا ہوا تھا تو انھوں نے کہا کہ اس جگہ پر حضرت عمر فاروق ؓ نے بیٹھ کر فرمایا: میرا ارادہ ہے کہ کعبہ میں جس قدر سونا چاندی موجود ہے۔ میں اسے تقسیم کردوں۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کے دونوں پیش رو ساتھیوں نے تو ایسا نہیں کیا۔ تب عمر فاروق ؓ نے فرمایا: وہ دونوں جلیل القدر انسان تھے۔ میں بھی ان کی اقتداء کرتا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک روایت میں ہے کہ عمر فاروق ؓ نے فرمایا: میں بیت اللہ کے خزانے مسلمانوں میں تقسیم کر دینا چاہتا ہوں۔ شیبہ ؓ نے کہا کہ آپ ایسا نہیں کر سکتے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: میں ایسا کیوں نہیں کر سکتا؟ انہوں نے کہا: آپ کے دونوں ساتھیوں نے یہ کام نہیں کیا۔ اس کے بعد حضرت عمر فاروق ؓ نے یہ ارادہ ترک کر دیا۔ (صحیح البخاري، الاعتصام، حدیث:7275) امام ابن ماجہ نے اس حدیث کا سبب ورود ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ شقیق کے ہاتھ کسی آدمی نے بیت اللہ کے ہدیے کے طور پر چند درہم بھیجے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب میں بیت اللہ میں داخل ہوا تو حضرت شیبہ ؓ کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے وہ درہم ان کے حوالے کیے تو انہوں نے پوچھا: کیا یہ تمہارے ہیں؟ میں نے کہا: نہیں، اگر یہ میرے ہوئے تو میں آپ کے پاس نہ لاتا۔ اس کے بعد شیبہ نے حضرت عمر ؓ کا قصہ بیان کیا۔ (سنن ابن ماجة، المناسك، حدیث:3116) حضرت ابی بن کعب ؓ کے ساتھ بھی اس طرح کا واقعہ پیش آیا تو انہوں نے بھی حضرت عمر ؓ کو یہی جواب دیا تھا جس کا ذکر اس حدیث میں ہے۔ (فتح الباري:576/3) (2) امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت غلاف کعبہ کی مشروعیت اور اس کا حکم بیان کیا ہے۔ اس حدیث کی مناسبت اس طرح ہے کہ کعبہ شریف ہمیشہ سے محترم رہا ہے۔ لوگ اس کی طرف تحائف بھیجتے تھے۔ ان کا مقصد تعظیم کعبہ ہوتا تھا اور غلاف پہنانا بھی اس کی تعظیم کے لیے ہے، لہذا اس کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ حضرت عمر ؓ نے بیت اللہ کا بہترین غلاف کعبہ دیکھ کر ہی اس کے خزانے تقسیم کرنے کا ارادہ فرمایا ہو، نیز ہر زمانے میں بادشاہان وقت سونے کی تاروں سے بنا ہوا غلاف کعبہ بھیجتے تھے جیسا کہ دیگر اموال اس کے لیے وقف کرتے تھے۔ اس بنا پر امام بخاری ؒ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جس طرح مال تقسیم کرنا جائز ہے اسی طرح اگر غلافِ کعبہ سے کچھ بچ جائے تو اسے بھی ضرورت مند مسلمانوں میں تقسیم کرنا جائز ہے۔ حضرت عمر بھی ہر سال غلافِ کعبہ اتار کر حجاج میں تقسیم کر دیتے تھے۔ ممکن ہے کہ امام بخاری نے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہو۔ (عمدةالقاري:160/7) بہرحال بیت اللہ کو غلاف پہنانے کا دستور بہت قدیم ہے۔ مؤرخین کا بیان ہے کہ جس شخص نے سب سے پہلے کعبہ شریف کو غلاف پہنایا وہ یمن کے حیری قبیلے کا بادشاہ ابو کرب اسعد تبع تھا۔ یہ شخص جب مکہ مکرمہ آیا تو یمن کی تیار کردہ بہترین چادروں کا غلاف ہمراہ لایا، اس کے علاوہ سوتی اور ریشمی پردے بھی اس کے پاس تھے جو اس نے تعظیم کے طور پر بیت اللہ کو پہنائے تھے۔ (فتح الباري:579/3)واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد بن حارث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے واصل احدب نے بیان کیا اور ان سے ابووائل نے بیان کیا کہ میں شیبہ کی خدمت میں حاضر ہوا ( دوسری سند ) اور ہم سے قبیصہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان نے واصل سے بیان کیا اور ان سے ابووائل نے بیان کیا کہ میں شیبہ کے ساتھ کعبہ میں کرسی پر بیٹھا ہوا تھا تو شیبہ نے فرمایا کہ اسی جگہ بیٹھ کر عمر ؓ نے ( ایک مرتبہ ) فرمایا کہ میرا ارادہ یہ ہوتا ہے کہ کعبہ کے اندر جتنا سوناچاندی ہے اسے نہ چھوڑوں ( جسے زمانہ جاہلیت میں کفار نے جمع کیا تھا ) بلکہ سب کو نکال کر ( مسلمانوں میں ) تقسیم کردوں۔ میں نے عرض کی کہ آپ کے ساتھیوں ( آنحضرت ﷺ اور ابوبکر ؓ ) نے تو ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ میں بھی انہیں کی پیروی کررہا ہوں ( اسی لیے میں اس کو ہاتھ نہیں لگاتا )
تشریح : بیت اللہ شریف پر غلاف ڈالنے کا رواج بہت قدیم زمانہ سے ہے۔ مؤرخین کا بیان ہے کہ جس شخص نے سب سے پہلے کعبہ مقدس کو غلاف پہنایا وہ حمیر کا بادشاہ اسعد ابوکرب ہے۔ یہ شخص جب مکہ شریف آیا تو نہایت بردیمانی سے غلاف تیار کراکر ہمراہ لایا اور بھی مختلف اقسام کی سوتی وریشمی چادروں کے پردے ساتھ تھے۔ قریش جب خانہ کعبہ کے متولی ہوئے تو عام چندہ سے ان کا نیا غلاف سالانہ تیار کراکر کعبہ شریف کو پہنانے کا دستور ہوگیا۔ یہاں تک کہ ابوربیعہ بن مغیرہ مخزومی کا زمانہ آیا جو قریش میں بہت ہی سخی اور صاحب ثروت تھا۔ اس نے اعلان کیا کہ ایک سال چندے سے غلاف تیار کیا جائے اور ایک سال میں اکیلا اس کے جملہ اخراجات برداشت کیا کروں گا۔ اسی بناپر اس کا نام عدل قریش پڑگیا۔ حضرت عباس ؓ کی والدہ نبیلہ بنت حرام نے قبل از اسلام ایک غلاف چڑھایا تھا جس کی صورت یہ ہوئی کہ نو عمر بچہ یعنی حضرت عباس ؓ کا بھائی خوار نامی گم ہوگیاتھا۔ اور انہوں نے منت مانی کہ میرا بچہ مل گیا تو کعبہ پر غلاف چڑھاؤں گی۔ چنانچہ ملنے پر انہوں نے اپنی منت پوری کی۔ 8ھ میں مکہ دار الاسلام بن گیا اور آنحضرت ﷺ نے یمنی چادر کا غلاف ڈالا۔ آپ کی وفات کے بعد ابوبکر صدیق ؓ نے آپ کی پیروی کی۔ حضرت عمر فاروق ؓ کے عہد خلافت میں جب مصر فتح ہوگیا تو آپ نے قباطی مصری کا جو کہ بیش قیمت کپڑا ہے بیت اللہ پر غلاف چڑھایا اور سالانہ اس کا اہتمام فرمایا۔ آپ پچھلے سال کا غلاف حاجیوں پر تقسیم فرمادیا کرتے اور نیا غلاف چڑھا دیا کرتے تھے۔ شروع میں حضرت عثمان غنیؓ کے زمانہ میں بھی یہی عمل رہا۔ ایک دفعہ آپ نے غلاف کعبہ کا کپڑا کسی حائضہ عورت کو پہنے ہوئے دیکھا تو تقسیم کی عادت بدل دی اور قدیم غلاف دفن کیا جانے لگا۔ اس کے بعد ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ نے مشورہ دیا کہ یہ اضاعت مال ہے، اس لیے بہتر ہے کہ پرانا پردہ فروخت کردیا جائے۔ چنانچہ اس کی قیمت غریبوں میں تقسیم ہونے لگی۔ رفتہ رفتہ بنو شیبہ بلاشرکت غیرے اس کے مالک بن گئے۔ اکثر سلاطین اسلام کعبہ شریف پر غلاف ڈالنے کو اپنا فخر سمجھتے رہے اور قسم قسم کے قیمتی غلاف سالانہ چڑھاتے رہے ہیں۔ حضرت معاویہؓ کی طرف سے ایک غلاف دیبا کا 10 محرم کو اور دوسرا قباطی کا 29 رمضان کو چڑھا دیا گیاتھا۔ خلیفہ مامون رشید نے اپنے عہد خلافت میں بجائے ایک کے تین غلاف بھیجے۔ جن میں ایک مصری پارچہ کا تھا۔ اور دوسرا سفید دیباکا اور تیسرا سرخ دیبا کا تھا تاکہ پہلا یکم رجب کو اور دوسرا 27 رمضان کو اور تیسرا آٹھویں ذی الحجہ کو بیت اللہ پر چڑھایا جائے۔ خلفائے عباسیہ کو اس کا بہت زیادہ اہتمام تھا اور سیاہ کپڑا ان کا شعار تھا۔ اس لیے اکثر سیاہ ریشم ہی کا غلاف کعبہ کے لیے تیار ہوتا تھا۔ سلاطین کے علاوہ دیگر امراء واہل ثروت بھی اس خدمت میں حصہ لیتے تھے اور ہر شخص چاہتا تھا کہ میرا غلاف تادیر ملبوس رہے۔ اس لیے اوپر نیچے بہت سے غلاف بیت اللہ پر جمع ہوگئے۔ 160ھ میں سلطان مہدی عباسی جب حج کے لیے آئے تو خدام کعبہ نے کہا کہ بیت اللہ پر اتنے غلاف جمع ہوگئے ہیں کہ بنیادوں کو ان کے بوجھ کا تحمل دشوار ہے۔ سلطان نے حکم دے دیا کہ تمام غلاف اتار دئیے جائیں اور آئندہ ایک سے زیادہ غلاف نہ چڑھایا جائے۔ عباسی حکومت جب ختم ہوگئی تو 659 ھ میں شاہ یمن ملک مظفرنے اس خدمت کو انجام دیا۔ اس کے بعد مدت تک خالص یمن سے غلاف آتا رہا اور کبھی شاہان مصر کی شرکت میں مشترکہ۔ خلافت عباسیہ کے بعد شاہان مصر میں سب سے پہلے اس خدمت کا فخر ملک ظاہر بیبرس کو نصیب ہوا۔ پھرشاہان مصر نے مستقل طورپر اس کے اوقاف کردئیے اور غلاف کعبہ سالانہ مصر سے آنے لگا۔ 751 ھ میں ملک مجاہد نے چاہا کہ مصری غلاف اتار دیا جائے اور میرے نام کا غلاف چڑھایا جائے مگر شریف مکہ کے ذریعہ جب یہ خبر شاہ مصر کو پہنچی تو ملک مجاہد گرفتار کرلیا گیا۔ کعبہ شریف کو بیرونی غلاف پہنانے کا دستور تو زمانہ قدیم سے چلا آتا ہے مگر اندرونی غلاف کے متعلق تقی الدین فارسی کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے ملک ناصر حسن چرکسی نے 761 ھ میں کعبہ کا اندرونی غلاف روانہ کیا تھا۔ جو تخمیناً 817 ھ تک کعبے کے اندر دیواروں پر لٹکارہا۔ اس کے بعد ملک الاشرف ابونصر سیف الدین سلطان مصر نے 825 ھ میں سرخ رنگ کا اندرونی غلاف کعبے کے لیے روانہ کیا۔ آج کل یہ غلاف خود حکومت سعودیہ عربیہ خلدها اللہ تعالیٰ کے زیر اہتمام تیار کرایا جاتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Wail (RA): (One day) I sat along with Shaiba on the chair inside the Ka’bah. He (Shaiba) said, "No doubt, Umar sat at this place and said, 'I intended not to leave any yellow (i.e. gold) or white (i.e. silver) (inside the Ka’bah) undistributed.' I said (to 'Umar), 'But your two companions (i.e. The Prophet (ﷺ) and Abu Bakr) did not do so.' 'Umar said, They are the two persons whom I always follow.' " ________