Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: What is said regarding the Black Stone)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1597.
حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ وہ حجراسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دے کر فرمایا: میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے۔ کسی کو نفع یا نقصان پہنچانا تیرے بس میں نہیں۔ اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتاتو میں بھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔
تشریح:
1۔ حضرت عمر ؓ صرف اتباع کی نیت سے حجراسود کو بوسہ دیتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قبروں کی چوکھٹ یا ان کی زمین کو چومنا بدعت اور جہالت کے کام ہیں۔ اسلامی روایات کے مطابق حجراسود کی حیثیت ایک تاریخی پتھر کی ہے۔ اہل اسلام اس کی جو تعظیم استلام کی صورت میں بجا لاتے ہیں وہ صرف اس بنا پر ہے کہ مذہب اسلام کی حقانیت پر یہ پتھر ایک تاریخی شاہد عادل کی حیثیت رکھتا ہے جسے ہزاروں سال کے انقلابات ختم نہ کر سکے۔ رسول اللہ ﷺ کی پاکیزہ تعلیمات کا اثر ہے کہ مسلمان ان سے سرمو انحراف نہیں کرتے اور نہ دوسری دیواروں کے پتھروں ہی کو چومتے ہیں کیونکہ مسلمان مخلوق کے ساتھ تعلق قائم کرنے میں رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے تابع ہوتا ہے۔ مخلوق میں سے جو چیز محترم ہوتی ہے وہ بالذات نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کی وجہ سے اسے قابل احترام سمجھا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے بیت اللہ، حجراسود اور صفا مروہ وغیرہ محترم قرار پاتے ہیں۔ اگر کوئی کام ایسا ہو جس کی سند رسول اللہ ﷺ تک نہ پہنچتی ہو تو اسلام اسے بدعت کہتا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے حجراسود کو چومتے وقت اسی حقیقت کو اجاگر فرمایا ہے کہ ذاتی طور پر یہ ایک پتھر ہے جو کسی کے نفع یا نقصان کا مالک نہیں۔ ہم اس کی جو تعظیم چومنے کی صورت میں بجا لاتے ہیں وہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات اور آپ کی سنت کے اتباع کا نتیجہ ہے اور کچھ نہیں۔ (2) امام بخاری ؒ کو حجراسود کے متعلق صرف یہی روایت ان کی قائم کردہ شرائط کے مطابق دستیاب ہوئی ورنہ اس کے متعلق کتب حدیث میں متعدد روایات موجود ہیں، چنانچہ حضرت ابن عباس ؓ مرفوعا بیان کرتے ہیں کہ قیامت کے دن حجراسود کی زبان اور دو ہونٹ ہوں گے اور جس نے اخلاص نیت سے اسے بوسہ دیا ہو گا، اس کے متعلق یہ پتھر حق پر ہونے کی گواہی دے گا۔ (صحیح ابن خزیمة:220/4) حدیث میں ہے کہ حجراسود جنت کا پتھر ہے۔ یہ برف سے زیادہ سفید تھا لیکن ابن آدم کی خطاؤوں نے اسے سیاہ کر دیا ہے۔ (صحیح ابن خزیمة:220/4، والصحیحة للألباني، حدیث:2618) محب طبری نے کہا ہے کہ اس سے لوگوں کو عبرت لینی چاہیے کہ اگر انسانوں کے گناہ ایک پتھر کو سیاہ کر سکتے ہیں تو اس کے دل کو سیاہ کیوں نہیں کر سکتے، لہذا لوگوں کو اللہ کی نافرمانی سے بچنا چاہیے۔ (فتح الباري:584/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1556
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1597
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1597
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1597
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ وہ حجراسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دے کر فرمایا: میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے۔ کسی کو نفع یا نقصان پہنچانا تیرے بس میں نہیں۔ اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتاتو میں بھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ حضرت عمر ؓ صرف اتباع کی نیت سے حجراسود کو بوسہ دیتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قبروں کی چوکھٹ یا ان کی زمین کو چومنا بدعت اور جہالت کے کام ہیں۔ اسلامی روایات کے مطابق حجراسود کی حیثیت ایک تاریخی پتھر کی ہے۔ اہل اسلام اس کی جو تعظیم استلام کی صورت میں بجا لاتے ہیں وہ صرف اس بنا پر ہے کہ مذہب اسلام کی حقانیت پر یہ پتھر ایک تاریخی شاہد عادل کی حیثیت رکھتا ہے جسے ہزاروں سال کے انقلابات ختم نہ کر سکے۔ رسول اللہ ﷺ کی پاکیزہ تعلیمات کا اثر ہے کہ مسلمان ان سے سرمو انحراف نہیں کرتے اور نہ دوسری دیواروں کے پتھروں ہی کو چومتے ہیں کیونکہ مسلمان مخلوق کے ساتھ تعلق قائم کرنے میں رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے تابع ہوتا ہے۔ مخلوق میں سے جو چیز محترم ہوتی ہے وہ بالذات نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کی وجہ سے اسے قابل احترام سمجھا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے بیت اللہ، حجراسود اور صفا مروہ وغیرہ محترم قرار پاتے ہیں۔ اگر کوئی کام ایسا ہو جس کی سند رسول اللہ ﷺ تک نہ پہنچتی ہو تو اسلام اسے بدعت کہتا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے حجراسود کو چومتے وقت اسی حقیقت کو اجاگر فرمایا ہے کہ ذاتی طور پر یہ ایک پتھر ہے جو کسی کے نفع یا نقصان کا مالک نہیں۔ ہم اس کی جو تعظیم چومنے کی صورت میں بجا لاتے ہیں وہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات اور آپ کی سنت کے اتباع کا نتیجہ ہے اور کچھ نہیں۔ (2) امام بخاری ؒ کو حجراسود کے متعلق صرف یہی روایت ان کی قائم کردہ شرائط کے مطابق دستیاب ہوئی ورنہ اس کے متعلق کتب حدیث میں متعدد روایات موجود ہیں، چنانچہ حضرت ابن عباس ؓ مرفوعا بیان کرتے ہیں کہ قیامت کے دن حجراسود کی زبان اور دو ہونٹ ہوں گے اور جس نے اخلاص نیت سے اسے بوسہ دیا ہو گا، اس کے متعلق یہ پتھر حق پر ہونے کی گواہی دے گا۔ (صحیح ابن خزیمة:220/4) حدیث میں ہے کہ حجراسود جنت کا پتھر ہے۔ یہ برف سے زیادہ سفید تھا لیکن ابن آدم کی خطاؤوں نے اسے سیاہ کر دیا ہے۔ (صحیح ابن خزیمة:220/4، والصحیحة للألباني، حدیث:2618) محب طبری نے کہا ہے کہ اس سے لوگوں کو عبرت لینی چاہیے کہ اگر انسانوں کے گناہ ایک پتھر کو سیاہ کر سکتے ہیں تو اس کے دل کو سیاہ کیوں نہیں کر سکتے، لہذا لوگوں کو اللہ کی نافرمانی سے بچنا چاہیے۔ (فتح الباري:584/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں سفیان ثوری نے خبردی، انہیں اعمش نے، انہیں ابراہیم نے، انہیں عابس نے، انہیں ربیعہ نے کہ حضرت عمر ؓ حجر اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دیا اور فرمایا میں خوب جانتا ہوں کہ تو صرف ایک پتھر ہے، نہ کسی کو نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع۔ اگر رسول اللہ ﷺ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے میں نہ دیکھتا تو میں بھی کبھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔
حدیث حاشیہ:
حجر اسود وہ کالا پتھر ہے جو کعبہ کے مشرقی کونے میں لگا ہوا ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ حجر اسود جنت کا پتھر ہے۔ پہلے وہ دودھ سے بھی زیادہ سفید تھا پھر لوگوں کے گناہوں نے اس کو کالا کردیا۔ حاکم کی روایت میں ہے کہ حضرت عمر ؓ کی یہ بات سن کر علی ؓ نے فرمایا تھا اے امیرالمؤمنین! یہ پتھر بگاڑ اور فائدہ کرسکتا ہے، قیامت کے دن اس کی آنکھیں ہوں گی اور زبان اور ہونٹ اور وہ گواہی دے گا۔ حضرت عمر ؓ نے یہ سن کر فرمایا: ابوالحسن! جہاں تم نہ ہو وہاں اللہ مجھ کو نہ رکھے۔ ذہبی نے کہا کہ حاکم کی روایت ساقط ہے۔ خود مرفوع حدیث میں آنحضرت ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ نے بھی حجر اسود کو بوسہ دیتے وقت ایسا ہی فرمایا تھا۔ اور حضرت ابوبکر ؓ نے بھی ایسا ہی کہا۔ أخرجه ابن أبي شیبة اس کا مطلب یہ کہ تیرا چومنا محض آنحضرت ﷺ کی اتباع کی نیت سے ہے۔ اس روایت سے صاف یہ نکلا کہ قبروں کی چوکھٹ چومنایا قبروں کی زمین چومنا یا خود قبر کو چومنا یہ سب ناجائز کام ہیں۔ بلکہ بدعات سيئہ ہیں۔ کیونکہ حضرت عمر نے حجر اسود کو صرف اس لیے چوما کہ آنحضرت ﷺ نے اسے چوما تھا اور آنحضرت ﷺ یا صحابہ سے کہیں منقول نہیں ہے کہ انہوں نے قبر کا بوسہ لیا ہو۔ یہ سب کام جاہلوں نے نکالے ہیں اور شرک ہیں کیونکہ جن کی قبروں کو چومتے ہیں ان کو اپنے نفع نقصان کا مالک گردانتے ہیں اور ان کی دہائی دیتے اور ان سے مرادیں مانگتے ہیں۔ لہٰذا شرک ہونے میں کیا کلام ہے۔ کوئی خالص محبت سے چومے تو یہ بھی غلط اور بدعت ہوگا اس لیے کہ آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ ؓ سے کہیں کسی قبر کو چومنے کا ثبوت نہیں ہے۔ علامہ حافظ ابن حجر ؓ فرماتے ہیں:قال الطبري إنما قال ذلك عمر لأن الناس كانوا حديثي عهد بعبادة الأصنام فخشي عمر أن يظن الجهال أن استلام الحجر من باب تعظيم بعض الأحجار كما كانت العرب تفعل في الجاهلية فأراد عمر أن يعلم الناس أن استلامه اتباع لفعل رسول الله صلى الله عليه وسلم لا لأن الحجر ينفع ويضر بذاته كما كانت الجاهلية تعتقده في الأوثان۔(فتح الباري) یہ وہ تاریخی پتھر ہے جسے حضرت ابراہیم ؑ اور آپ کے بیٹے حضرت اسمعیل ؑ کے مبارک جسموں سے مس ہونے کا شرف حاصل ہے۔ جس وقت خانہ کعبہ کی عمارت بن چکی تو حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت اسمٰعیل ؑ سے کہا کہ ایک پتھر لاؤ تاکہ اس کو ایسے مقام پر لگادوں جہاں سے طواف شروع کیا جائے۔ تاریخ مکہ میں ہے: فقال إبراهیم لإسمعیل علیهما السلام یا إسماعیل ایتني بحجر أضعه حتی یکون علما للناس یبتدون منه الطواف۔یعنی حضرت ابراہیم نے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے کہا کہ ایک پتھر لاؤ تاکہ میں ایسی جگہ نصب کر دوں جہاں سے لوگ طواف شروع کریں۔ بعض روایات کی بناپر اس پتھر کی تاریخ حضرت آدم ؑ کے جنت سے ہبوط کے ساتھ ساتھ شروع ہوتی ہے۔ چنانچہ طوفان نوح کے وقت یہ پتھر بہہ کر کوہ ابوقبیس پر چلا گیا تھا۔ اس موقع پر کوہ ابو قبیس سے صدا بلند ہوئی کہ اے ابراہیم! یہ امانت ایک مدت سے میرے سپرد ہے۔ آپ نے وہاں سے اس پتھر کو حاصل کرکے کعبہ کے ایک کونہ میں نصب کردیا اور کعبہ شریف کا طواف کرنے کے لیے اس کو شروع کرنے اور ختم کرنے کا مقام ٹھہرایا۔ حاجیوں کے لیے حجر اسود کو بوسہ دینا یا ہاتھ لگانا یہ کام مسنون اور کار ثواب ہیں۔ قیامت کے دن یہ پتھر ان لوگوں کی گواہی دے گا جو اللہ کے گھر کی زیارت کے لیے آتے ہیں اور اس کو ہاتھ لگا کر حج یا عمرہ کی شہادت ثبت کراتے ہیں۔ بعض روایات کی بناپر عہد ابراہیمی میں پیمان لینے کا یہ عام دستور تھا ایک پتھر رکھ دیا جاتا جس پر لوگ آکر ہاتھ مارتے۔ اس کے معنے یہ ہوتے کہ جس عہد کے لیے وہ پتھر گاڑا گیا ہے اس کو انہوں نے تسلیم کرلیا۔ بلکہ اپنے دلوں میں اس پتھر کی طرح مضبوط گاڑلیا۔ اسی دستور کے موافق حضرت ابراہیم ؑ نے مقتدی قوموں کے لیے یہ پتھر نصب کیا تاکہ جو شخص بیت اللہ شریف میں داخل ہو اس پتھر پر ہاتھ رکھے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے توحید الٰہی کے بیان کو قبول کرلیا۔ اگر جان بھی دینی پڑے گی تو اس سے منحرف نہ ہوگا۔ گویا حجر اسود کا استلام اللہ تعالیٰ سے بیعت کرنا ہے۔ اس تمثیل کی تصریح ایک حدیث میں یوں آئی ہے: عن ابن عباس مرفوعا الْحَجَرُ الْأَسْوَدُ یمینُ اللہِ فی أرضهِ یُصافحُ بهِ خَلقَهُ(طبراني) حضرت ابن عباس ؓ مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ حجر اسود زمین میں گویا اللہ کا دایاں ہاتھ ہے۔ جس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے مصافحہ فرماتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ کی دوسری روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں «نَزَلَ الحَجَرُ الأَسْوَدُ مِنَ الجَنَّةِ، وَهُوَ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ فَسَوَّدَتْهُ خَطَايَا بَنِي آدَمَ»(رواہ أحمد والترمذي) یعنی حجر اسود جنت سے نازل ہوا تو دودھ سے بھی زیادہ سفید تھا مگر انسانوں کی خطا کاریوں نے اس کو سیاہ کردیا۔ اس سے حجر اسود کی شرافت وبزرگی مراد ہے۔ ایک روایت میں یوں آیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس تاریخی پتھر کو نطق اور بصارت سے سرفراز کرے گا۔ جن لوگوں نے حقانیت کے ساتھ توحید الٰہی کا عہد کرتے ہوئے اس کو چوما ہے، ان پر یہ گواہی دے گا۔ ان فضائل کے باوجود کسی مسلمان کا یہ عقیدہ نہیں کہ یہ پتھر معبود ہے اس کے اختیار میں نفع وضرر ہے۔ ایک دفعہ حضرت فاروق اعظم ؓ نے حجر اسود کو بوسہ دیتے ہوئے صاف اعلان فرمایا کہ«إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ، لاَ تَضُرُّ وَلاَ تَنْفَعُ، وَلَوْلاَ أَنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ مَا قَبَّلْتُكَ» (رواہ الستة وأحمد)یعنی میں خوب جانتا ہوں کہ تو صرف ایک پتھر ہے، تیرے قبضے میں نہ کسی کا نفع ہے نہ نقصان اور اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بھی بوسہ نہ دیتا۔ علامہ طبری مرحوم لکھتے ہیں: قال الطبري إنما قال ذلك عمر لأن الناس كانوا حديثي عهد بعبادة الأصنام فخشي عمر أن يظن الجهال أن استلام الحجر من باب تعظيم بعض الأحجار كما كانت العرب تفعل في الجاهلية فأراد عمر أن يعلم الناس أن استلامه اتباع لفعل رسول الله صلى الله عليه وسلم لا لأن الحجر ينفع ويضر بذاته كما كانت الجاهلية تعتقده في الأوثان۔یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ اعلان اس لیے کیا کہ اکثر لوگ بت پرستی سے نکل کر قریبی زمانہ میں اسلام کے اندر داخل ہوئے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس خطرے کو محسوس کرلیا کہ جاہل لوگ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ زمانہ جاہلیت کے دستور کے مطابق پتھروں کی تعظیم ہے۔ اس لیے آپ نے لوگوں کو آگاہ کیا کہ حجر اسود کا استلام صرف اللہ کے رسول کی اتباع میں کیا جاتا ہے ورنہ حجر اسود اپنی ذات میں نفع یا نقصان پہنچانے کی کوئی طاقت نہیں رکھتا، جیساگ عہد جاہلیت کے لوگ بتوں کے بارے میں اعتقاد رکھتے تھے۔ ابن ابی شیبہ اور دار قطنی نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے بھی یہی الفاظ نقل کئے ہیں کہ آپ نے بھی حجر اسود کے استلام کے وقت یوں فرمایا ”میں جانتا ہوں کہ تیری حقیقت ایک پتھر سے زیادہ کچھ نہیں۔ نفع یا نقصان کی کوئی طاقت تیرے اندر نہیں ہے۔ اگر میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں بھی تجھ کو بوسہ نہ دیتا۔“ بعض محدثین نے خود نبی کریم ﷺ کے بھی یہ الفاظ نقل فرمائے ہیں کہ آپ ﷺ نے حجر اسود کو بوسہ دیتے ہوئے فرمایا: ”میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے جس میں نفع ونقصان کی تاثیر نہیں ہے۔ اگر مجھے میرے رب کا حکم نہ ہوتاتو میں تجھے بوسہ نہ دیتا۔“ اسلامی روایات کی روشنی میں حجر اسود کی حیثیت ایک تاریخی پتھر کی ہے جس کو اللہ کے خلیل ابراہیم ؑ نے خانہ خدا کی تعمیر کے وقت ایک ”بنیادی پتھر“ کی حیثیت سے نصب کیا۔ اس لحاظ سے دین حنیف کی ہزارہا سالہ تاریخ اس پتھر کے ساتھ وابستہ ہوجاتی ہے۔ اہل اسلام اس کی جو بھی تعظیم استلام وغیرہ کی شکل میں کرتے ہیں وہ سب کچھ صرف اسی بنا پر ہے۔ ملت ابراہیمی کا اللہ کے ہاں مقبول ہونا اور مذہب اسلام کی حقانیت پر بھی یہ پتھر ایک تاریخی شاہد عادل کی حیثیت سے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ جس کو ہزارہا سال کے بے شمار انقلابات فنا نہ کرسکے۔ وہ جس طرح ہزاروں برس پہلے نصب کیا گیا تھا آج بھی اسی شکل میں اسی جگہ تمام دنیا کے حوادثات وانقلابات کا مقابلہ کرتے ہوئے موجود ہے۔ اس کو دیکھنے سے اس کو چومنے سے ایک سچے مسلمان موحد کی نظروں کے سامنے دین حنیف کے چار ہزار سالہ تاریخی اوراق یکے بعد دیگرے الٹنے لگ جاتے ہیں۔ حضرت خلیل اللہ اور حضرت ذبیح اللہ ؑ کی پاک زندگیاں سامنے آکر معرفت حق کی نئی نئی راہیں دماغوں کے سامنے کھول دیتی ہیں۔ روحانیت وجد میں آجاتی ہے۔ توحید پرستی کا جذبہ جوش مارنے لگتا ہے۔ حجر اسود بنائے توحید کا ایک بنیادی پتھر ہے ”دعائے خلیل ونوید مسیحا“ حضرت سیدالانبیاء ﷺ کی صداقت کے اظہار کے لیے ایک غیر فانی یادگار ہے۔ اس مختصر سے تبصرہ کے بعد کتاب اللہ وسنت رسول اللہ ﷺ کی روشنی میں اس حقیقت کو اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ مصنوعات الٰہیہ میں جو چیز بھی محترم ہے وہ بالذات محترم نہیں ہے بلکہ پیغمبر اسلام کی تعلیم وارشاد کی وجہ سے محترم ہے۔ اسی کلیہ کے تحت خانہ کعبہ، حجر اسود، صفا مروہ وغیرہ وغیرہ محترم قرار پائے۔ اسی لیے اسلام کا کوئی فعل بھی جس کو وہ عبادت یا لائق عظمت قرار دیتا ہو، ایسا نہیں ہے جس کی سند سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے واسطے سے حق تعالیٰ تک نہ پہنچتی ہو۔ اگر کوئی مسلمان ایسا فعل ایجاد کرے جس کی سند پیغمبر ؑ تک نہ پہنچتی ہوتو وہ فعل نظروں میں کیسا بھی پیارا اور عقل کے نزدیک کتنا ہی مستحسن کیوں نہ ہو، اسلام فوراً اس پر بدعت ہونے کا حکم لگا دیتا ہے اور صرف اس لیے اس کو نظروں سے گرادیتا ہے کہ اس کی سند حضرت رسول خدا تک نہیں پہنچتی بلکہ وہ ایک غیر ملہم انسان کا ایجاد کیا ہوا فعل ہے۔ اسی پاک تعلیم کا اثر ہے کہ سارا کعبہ باوجود یکہ ایک گھر ہے حجر اسود اور رکن یمانی وملتزم پر پیغمبراسلام ؑ نے جو طریق استلام یا چمٹنے کا بتلایا ہے مسلمان اس سے انچ بھر آگے نہیں بڑھتے۔ نہ دوسری دیواروں کے پتھروں کو چومتے ہیں۔ کیونکہ مسلمان مخلوقات الٰہیہ کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں پیغمبر ﷺ کے ارشاد وعمل کے تابع ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abis bin Rabia (RA): 'Umar came near the Black Stone and kissed it and said "No doubt, I know that you are a stone and can neither benefit anyone nor harm anyone. Had I not seen Allah's Apostle (ﷺ) kissing you I would not have kissed you."