Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: How (the legality of) the Ramal started)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1602.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جب مکہ تشریف لائے تو مشرکین نے یہ کہنا شروع کردیا کہ تمھارے پاس ایک ایسا وفد آیا ہے جسے یثرب (مدینہ) کے بخار نے کمزورکردیا ہے۔ اس پر نبی ﷺ نے اپنے صحابہ کرام ؓ کو حکم دیا کہ طواف کے پہلے تین چکروں میں تیز تیز اور اکڑ کر چلیں اور دونوں رکنوں کے درمیان معمول کی چال چلیں۔ آپ کو یہ حکم دینےمیں کہ وہ سات چکروں میں اکڑ کر چلیں لوگوں پر آسانی کے علاوہ کوئی امر مانع نہ تھا۔
تشریح:
(1) صلح حدیبیہ کے بعد جب عمرہ قضا کے لیے رسول اللہ ﷺ نے مکہ آنے کا پروگرام بنایا تو کفار قریش نے پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ مدینہ منورہ کی آب و ہوا نے انہیں کمزور کر دیا ہے اس بنا پر وہ بہت لاغر ہو چکے ہیں۔ بزعم خود وہ صحابہ کرام ؓ کی لاغری اور دبلا پن دیکھنے کے لیے میزابِ رحمت کے سامنے پہاڑ پر بیٹھ گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے دفاعی نقطہ نظر سے اپنے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ احرام باندھ کر پہلوانوں کی طرح کندھے ہلا کر چلو تا کہ قریش پر تمہاری طاقت ظاہر ہو اور انہیں پتہ چل جائے کہ ہم کمزور نہیں ہیں، چنانچہ صحابہ کرام ؓ نے احرام کی چادریں دائیں بغلوں کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھوں پر ڈال لیں اور پہلوانوں کی طرح کندھوں کو ہلا ہلا کر بیت اللہ کا طواف کرنے لگے۔ جب رکن یمانی کے پاس آتے تو حجراسود تک آہستہ آہستہ چلتے۔ جب قریش کے سامنے آتے تو تیز تیز چلتے۔ صرف پہلے تین چکروں میں رمل کیا جاتا ہے۔ (2) عورتوں کو رمل کرنے کی اجازت نہیں۔ (3) رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کی یہ ادا اللہ کو اس قدر پسند آئی کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ہمیشہ کے لیے سنت قرار دے دیا، حالانکہ اکڑ کر چلنا تکبر کی علامت ہے لیکن اس وقت کافروں پر رعب ڈالنا مقصود تھا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اب رمل کرنے کا سبب ختم ہو چکا ہے، لہذا اب رمل کرنا مسنون نہیں لیکن ان کا یہ موقف محل نظر ہے۔ بہرحال اب بھی یادگار کے طور پر رمل کرنا چاہیے تاکہ اسلام کے عروج کی تاریخ تازہ رہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1561
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1602
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1602
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1602
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جب مکہ تشریف لائے تو مشرکین نے یہ کہنا شروع کردیا کہ تمھارے پاس ایک ایسا وفد آیا ہے جسے یثرب (مدینہ) کے بخار نے کمزورکردیا ہے۔ اس پر نبی ﷺ نے اپنے صحابہ کرام ؓ کو حکم دیا کہ طواف کے پہلے تین چکروں میں تیز تیز اور اکڑ کر چلیں اور دونوں رکنوں کے درمیان معمول کی چال چلیں۔ آپ کو یہ حکم دینےمیں کہ وہ سات چکروں میں اکڑ کر چلیں لوگوں پر آسانی کے علاوہ کوئی امر مانع نہ تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) صلح حدیبیہ کے بعد جب عمرہ قضا کے لیے رسول اللہ ﷺ نے مکہ آنے کا پروگرام بنایا تو کفار قریش نے پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ مدینہ منورہ کی آب و ہوا نے انہیں کمزور کر دیا ہے اس بنا پر وہ بہت لاغر ہو چکے ہیں۔ بزعم خود وہ صحابہ کرام ؓ کی لاغری اور دبلا پن دیکھنے کے لیے میزابِ رحمت کے سامنے پہاڑ پر بیٹھ گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے دفاعی نقطہ نظر سے اپنے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ احرام باندھ کر پہلوانوں کی طرح کندھے ہلا کر چلو تا کہ قریش پر تمہاری طاقت ظاہر ہو اور انہیں پتہ چل جائے کہ ہم کمزور نہیں ہیں، چنانچہ صحابہ کرام ؓ نے احرام کی چادریں دائیں بغلوں کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھوں پر ڈال لیں اور پہلوانوں کی طرح کندھوں کو ہلا ہلا کر بیت اللہ کا طواف کرنے لگے۔ جب رکن یمانی کے پاس آتے تو حجراسود تک آہستہ آہستہ چلتے۔ جب قریش کے سامنے آتے تو تیز تیز چلتے۔ صرف پہلے تین چکروں میں رمل کیا جاتا ہے۔ (2) عورتوں کو رمل کرنے کی اجازت نہیں۔ (3) رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کی یہ ادا اللہ کو اس قدر پسند آئی کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ہمیشہ کے لیے سنت قرار دے دیا، حالانکہ اکڑ کر چلنا تکبر کی علامت ہے لیکن اس وقت کافروں پر رعب ڈالنا مقصود تھا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اب رمل کرنے کا سبب ختم ہو چکا ہے، لہذا اب رمل کرنا مسنون نہیں لیکن ان کا یہ موقف محل نظر ہے۔ بہرحال اب بھی یادگار کے طور پر رمل کرنا چاہیے تاکہ اسلام کے عروج کی تاریخ تازہ رہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ ( عمرۃ القضاء ٧ھ میں ) جب رسول اللہ ﷺ ( مکہ ) تشریف لائے تو مشرکوں نے کہا کہ محمد ﷺ آئے ہیں، ان کے ساتھ ایسے لوگ آئے ہیں جنہیں یثرب ( مدینہ منورہ ) کے بخار نے کمزور کردیا ہے۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل ( تیز چلنا جس سے اظہار قوت ہو ) کریں اور دونوں یمانی رکنوں کے درمیان حسب معمول چلیں اور آپ نے یہ حکم نہیں دیا کہ سب پھیروں میں رمل کریں اس لیے کہ ان پر آسانی ہو۔
حدیث حاشیہ:
رمل کا سبب حدیث بالا میں خود ذکر ہے۔ مشرکین نے سمجھا تھا کہ مسلمان مدینہ کی مرطوب آب و ہوا سے بالکل کمزور ہو چکے ہیں۔ اس لیے آنحضرت ﷺ نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ طواف کے پہلے تین چکروں میں ذرا اکڑ کر تیز چال چلیں، مونڈھوں کو ہلاتے ہوئے تاکہ کفار مکہ دیکھیں اور اپنے غلط خیال کو واپس لے لیں۔ بعد میں یہ عمل بطور سنت رسول جاری رہا اور اب بھی جاری ہے۔ اب یادگار کے طورپر رمل کرنا چاہیے تاکہ اسلام کے عروج کی تاریخ یاد رہے۔ اس وقت کفار مکہ دونوں شامی رکنوں کی طرف جمع ہوا کرتے تھے، اس لیے اسی حصہ میں رمل سنت قرار پایا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA): When Allah's Apostle (ﷺ) and his companions came to Makkah, the pagans circulated the news that a group of people were coming to them and they had been weakened by the Fever of Yathrib (Medina). So the Prophet (ﷺ) ordered his companions to do Ramal in the first three rounds of Tawaf of the Ka’bah and to walk between the two corners (The Black Stone and Yemenite corner). The Prophet (ﷺ) did not order them to do Ramal in all the rounds of Tawaf out of pity for them. ________