Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: Touching the Black Stone with a stick)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1607.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے حجۃالوداع میں اپنے اونٹ پر سوار ہو کر طواف کیا۔ آپ چھڑی سے حجراسود کا استلام فرماتے۔ عبد العزیز دراوردی نے زہری سے روایت کرنے میں یونس کی متابعت کی ہے۔
تشریح:
(1) حجراسود کے استلام کے متعلق سنت یہ ہے کہ اسے بوسہ دیا جائے۔ اگر بھیڑ کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو تو اسے ہاتھ لگا کر ہاتھ کو چوم لیا جائے جیسا کہ عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید خدری، ابن عمر اور جابر ؓ کو دیکھا، وہ حجراسود کو چھو کر ہاتھ چومتے تھے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو حجراسود کو چھڑی وغیرہ سے چھو کر اسے چوم لیا جائے جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ چھڑی سے حجراسود کا استلام کرتے پھر اسے چوم لیتے۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:3077(1275)) اگر چھڑی وغیرہ سے استلام نہ ہو سکے تو دور سے اشارہ کر دے۔ اشارہ کرنے کی صورت میں ہاتھ وغیرہ کو چومنے کی ضرورت نہیں۔ (فتح الباري:597/3) (2) یہ روایت جب لیث، اسامہ بن زید اور زمعہ بن صالح نے زہری سے بیان کی تو زہری اور ابن عباس ؓ کے درمیان واسطہ حذف کر دیا۔ امام بخاری ؒ نے مذکورہ روایت کی تقویت کے لیے دراوردی کی متابعت ذکر کی ہے جسے علامہ اسماعیلی نے اپنی مستخرج میں بیان کیا ہے۔ اگرچہ اس متابعت میں حجۃ الوداع اور اونٹ پر سوار ہونے کے الفاظ نہیں ہیں، تاہم اصل روایت کی تائید ہو سکتی ہے۔ (فتح الباري:596/3) رسول اللہ ﷺ نے اونٹ پر سوار ہو کر اس لیے طواف کیا تاکہ لوگ آپ کے طریقہ حج کو بچشم خود دیکھ لیں اور مسائل معلوم نہ ہونے کی صورت میں آپ سے دریافت کر سکیں۔ حجۃ الوداع کے موقع پر اگر آپ سوار نہ ہوتے تو ہجوم کی وجہ سے حج کے بہت سے مسائل مخفی رہنے کا اندیشہ تھا۔ اس مقصد کے پیش نظر طواف کے لیے سواری استعمال کی۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1566
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1607
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1607
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1607
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے حجۃالوداع میں اپنے اونٹ پر سوار ہو کر طواف کیا۔ آپ چھڑی سے حجراسود کا استلام فرماتے۔ عبد العزیز دراوردی نے زہری سے روایت کرنے میں یونس کی متابعت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حجراسود کے استلام کے متعلق سنت یہ ہے کہ اسے بوسہ دیا جائے۔ اگر بھیڑ کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو تو اسے ہاتھ لگا کر ہاتھ کو چوم لیا جائے جیسا کہ عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید خدری، ابن عمر اور جابر ؓ کو دیکھا، وہ حجراسود کو چھو کر ہاتھ چومتے تھے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو حجراسود کو چھڑی وغیرہ سے چھو کر اسے چوم لیا جائے جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ چھڑی سے حجراسود کا استلام کرتے پھر اسے چوم لیتے۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:3077(1275)) اگر چھڑی وغیرہ سے استلام نہ ہو سکے تو دور سے اشارہ کر دے۔ اشارہ کرنے کی صورت میں ہاتھ وغیرہ کو چومنے کی ضرورت نہیں۔ (فتح الباري:597/3) (2) یہ روایت جب لیث، اسامہ بن زید اور زمعہ بن صالح نے زہری سے بیان کی تو زہری اور ابن عباس ؓ کے درمیان واسطہ حذف کر دیا۔ امام بخاری ؒ نے مذکورہ روایت کی تقویت کے لیے دراوردی کی متابعت ذکر کی ہے جسے علامہ اسماعیلی نے اپنی مستخرج میں بیان کیا ہے۔ اگرچہ اس متابعت میں حجۃ الوداع اور اونٹ پر سوار ہونے کے الفاظ نہیں ہیں، تاہم اصل روایت کی تائید ہو سکتی ہے۔ (فتح الباري:596/3) رسول اللہ ﷺ نے اونٹ پر سوار ہو کر اس لیے طواف کیا تاکہ لوگ آپ کے طریقہ حج کو بچشم خود دیکھ لیں اور مسائل معلوم نہ ہونے کی صورت میں آپ سے دریافت کر سکیں۔ حجۃ الوداع کے موقع پر اگر آپ سوار نہ ہوتے تو ہجوم کی وجہ سے حج کے بہت سے مسائل مخفی رہنے کا اندیشہ تھا۔ اس مقصد کے پیش نظر طواف کے لیے سواری استعمال کی۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن صالح اور یحٰ بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں یونس نے ابن شہاب سے خبردی، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے حجتہ الوداع کے موقع پر اپنی اونٹنی پر طواف کیا تھا اور آپ حجر اسود کا استلام ایک چھڑی کے ذریعہ کررہے تھے او راس چھڑی کو چومتے تھے۔ اور یونس کے ساتھ اس حدیث کو دراوردی نے زہری کے بھتیجے سے روایت کیا اور انہو ں نے اپنے چچا ( زہری ) سے۔
حدیث حاشیہ:
جمہور علماء کا یہ قول ہے کہ حجر اسود کو منہ لگا کر چومنا چاہیے۔ اگر یہ نہ ہوسکے تو ہاتھ لگاکر ہاتھ کو چوم لے، اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو لکڑی لگا کر اس کو چوم لے۔ اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو جب حجر اسود کے سامنے پہنچے ہاتھ سے اس کی طرف اشارہ کرکے اس کو چوم لے۔ جب ہاتھ یا لکڑی سے دور سے اشارہ کیا جائے جو حجر اسود کو لگ نہ سکے تو اسے چومنا نہیں چاہیے۔ ( رشید )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA) .: In his Last Hajj the Prophet (ﷺ) performed Tawaf of the Ka’bah riding a camel and pointed a bent-headed stick towards the Corner (Black Stone).