باب: نبی کریم ﷺکا طواف کے ساتھ چکروں کے بعد دو رکعتیں پڑھنا
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: Two Rak'a prayer after Tawaf)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نافع نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر ؓ ہر سات چکروں پر دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔ اسماعیل بن امیہ نے کہا کہ میں نے زہری سے پوچھا کہ عطاء کہتے تھے کہ طواف کی نماز دو رکعت فرض نماز سے بھی ادا ہو جاتی ہے تو انہوں نے فرمایا کہ سنت پر عمل زیادہ بہتر ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ رسول اللہ ﷺنے سات چکر پورے کئے ہوں اور دو رکعت نماز نہ پڑھی ہو
1624.
حضرت عمرو بن دینار نے کہا: میں نے حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے (یہی) سوال کیا تو انھوں نے فرمایا: صفا و مروہ کے درمیان سعی سے پہلے اپنی بیوی سے جماع نہ کرے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1581.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1624
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1624
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1624
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
مسئلہ یہ ہے کہ جس طرح فرض نماز ادا کرنے سے تحیۃ المسجد کی دو رکعات ساقط ہو جاتی ہیں اسی طرح طواف مکمل کرنے کے بعد دو رکعت الگ ادا کرنا ہوں گی یا فرض نماز کی ادائیگی ہی ان کی جگہ کافی ہو گی؟ امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ طواف کی دو رکعتیں ایک مستقل عبادت ہے، اسے ادا کرنا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل یہی ہے کہ آپ طواف کے ہر سات چکروں کے بعد دو رکعتیں ادا کرتے تھے۔ اسی سلسلے میں آپ نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے عمل کا بھی حوالہ دیا ہے جسے امام عبدالرزاق نے متصل سند کے ساتھ اپنی کتاب المصنف (5/64) میں بیان کیا ہے، نیز بیان کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہر طواف کی دو رکعتیں الگ سے ادا کرتے تھے، چند ایک طواف جمع نہیں کرتے تھے۔ اس کے بعد امام بخاری نے امام زہری کے متعلق لکھا ہے کہ ان کے نزدیک بھی افضل یہ ہے کہ سنت پر عمل کرتے ہوئے ہر طواف کی دو رکعت ادا کی جائیں۔ فرض نماز کی ادائیگی کافی نہیں ہو گی۔ اس اثر کو مصنف عبدالرزاق (5/59) میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے۔ آئندہ آنے والی احادیث سے مسئلہ مزید واضح ہو جاتا ہے۔
اور نافع نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر ؓ ہر سات چکروں پر دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔ اسماعیل بن امیہ نے کہا کہ میں نے زہری سے پوچھا کہ عطاء کہتے تھے کہ طواف کی نماز دو رکعت فرض نماز سے بھی ادا ہو جاتی ہے تو انہوں نے فرمایا کہ سنت پر عمل زیادہ بہتر ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ رسول اللہ ﷺنے سات چکر پورے کئے ہوں اور دو رکعت نماز نہ پڑھی ہو
حدیث ترجمہ:
حضرت عمرو بن دینار نے کہا: میں نے حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے (یہی) سوال کیا تو انھوں نے فرمایا: صفا و مروہ کے درمیان سعی سے پہلے اپنی بیوی سے جماع نہ کرے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حضرت نافع نے کہا کہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓطواف کے ہر سات چکروں کے بعد دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔ اسماعیل بن امیہ نے کہا: میں نے امام زہری سے عرض کیا کہ عطاء بن ابی رباح فرماتے ہیں: طواف کی دو رکعتوں سے فرض نماز کفایت کر جاتی ہے۔ انھوں نے جواب دیا: سنت پر عمل کرنا افضل ہے کیونکہ نبی ﷺجب بھی طواف کے سات چکر لگاتے تو اس کے بعد دورکعتیں پڑھتے تھے۔
حدیث ترجمہ:
عمرو نے کہا کہ پھر میں نے جابر بن عبداللہ ؓ سے اس کے متعلق معلوم کیا تو انہوں نے بتایا کہ صفا مروہ کی سعی سے پہلے اپنی بیوی کے قریب بھی نہ جائے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
And I asked Jabir bin Abdullah (RA) (the same question), and he replied, "You should not go near your wives (have sexual relations) till you have finished Tawaf between Safa and Marwa. "