Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: Providing the pilgrims with water to drink)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1635.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سبیل کے پاس تشریف لا کر پانی طلب فرمایا تو حضرت عباس ؓ نے اپنے بیٹے حضرت فضل ؓ سے کہا کہ اپنی ماں کے پاس جاؤ اور رسول اللہ ﷺ کے لیے مشروب لاؤ۔ آپ نے فرمایا: ’’مجھے یہی پانی پلاؤ۔‘‘ حضرت عباس ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! لوگ اس میں ہاتھ ڈالتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’تم مجھے اسی میں سے پلاؤ‘‘ چنانچہ آپ نے اس میں سے پیا، پھر آپ چشمہ زمزم کے پاس آئے، وہاں لوگ پانی پلانےکا کام کر رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: ’’اپنے کام میں مصروف رہو، تم اچھا کام کر رہے ہو۔‘‘ پھر فرمایا: ’’اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم مغلوب ہوجاؤ گے تو یقیناً میں سواری سے اتر کر رسی اپنے یہاں (کندھےپر) رکھ لیتا۔‘‘ آپ نے اپنے کندھے کی طرف اشارہ کیا۔
تشریح:
(1) قریش نے بیت اللہ سے متعلقہ خدمات کو تقسیم کر رکھا تھا: پانی پلانے کا انتظام، کھانا کھلانے کا اہتمام، صفائی اور روشنی وغیرہ کا بندوبست، اسی طرح کلید برداری اور نگرانی وغیرہ۔ یہ خدمات مختلف لوگوں کے سپرد تھیں۔ ان میں سے حجاج کرام کو پانی پلانے کا انتظام عبدالمطلب کے بیٹے حضرت عباس ؓ کے ذمے تھا۔ رسول الله ﷺ نے دور جاہلیت کے اس نظام کو برقرار رکھا اور چاہِ زمزم کا اہتمام حضرت عباس ؓ ہی کے پاس رہنے دیا۔ وہ زمزم کے پانی میں کشمش بھگوتے اور نبیذ بنا کر حجاج کو پلاتے۔ زمزم کا خالص پانی بھی پلایا جاتا۔ (2) حج کے دنوں میں ذوالحجہ کی گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں رات منیٰ میں گزارنی ہوتی ہے، اس لیے حضرت عباس ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ مجھے اور میری اولاد کو منیٰ میں رات گزارنے کی پابندی سے مستثنیٰ قرار دیا جائے کیونکہ ہم نے حجاج کرام کو پانی پلانے کے انتظامات کرنے ہوتے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے انہیں اجازت دی کہ تم یہ راتیں مکہ میں گزار سکتے ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی معقول عذر کی وجہ سے یہ راتیں منیٰ سے باہر گزارنے کی اجازت ہے۔ امام بخاری ؒ کی پیش کردہ دوسری حدیث میں اس نظام سقایہ کی مزید تفصیل ہے۔ طبری کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب بیت اللہ کا طواف کر کے زمزم کا پانی نوش کرنے کے لیے چاہ زمزم پر آئے اور حضرت عباس ؓ سے پانی طلب کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ پانی تو گدلا ہے۔ ہم آپ کو اپنے گھر سے پانی لا کر پلاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: مجھے اسی پانی سے پلاؤ۔ جب آپ کو وہ پانی دیا گیا تو اس میں کشمش کے اثرات کچھ زیادہ تھے اور اس میں ترشی پیدا ہو چکی تھی۔ آپ نے اس میں خالص پانی ملا کر اس کی ترشی کو کم کیا اور اسے نوش فرمایا۔ (عمدةالقاري:215/7) (3) بکر بن عبداللہ مزنی کہتے ہیں کہ میں کعبے کے پاس حضرت ابن عباس ؓ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ ایک اعرابی آیا اور ان سے کہنے لگا کہ تمہارے چچا زاد بھائیوں نے دودھ اور شہد کی سبیلیں لگا رکھی ہیں، تم صرف نبیذ پلا رہے ہو، ایسا غربت کی وجہ سے ہے یا بخل دامن گیر ہے؟ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: ہمارے ہاں بھوک ہے نہ بخل، اصل بات یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو ہم نے نبیذ پلایا تھا اور آپ نے ہماری تحسین فرمائی تھی اور اسے جاری رکھنے کی تلقین کی تھی، اس لیے ہم تو آپ ﷺ کے حکم کے مطابق اسی عمل کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:3179(1316))
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1591
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1635
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1635
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1635
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سبیل کے پاس تشریف لا کر پانی طلب فرمایا تو حضرت عباس ؓ نے اپنے بیٹے حضرت فضل ؓ سے کہا کہ اپنی ماں کے پاس جاؤ اور رسول اللہ ﷺ کے لیے مشروب لاؤ۔ آپ نے فرمایا: ’’مجھے یہی پانی پلاؤ۔‘‘ حضرت عباس ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! لوگ اس میں ہاتھ ڈالتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’تم مجھے اسی میں سے پلاؤ‘‘ چنانچہ آپ نے اس میں سے پیا، پھر آپ چشمہ زمزم کے پاس آئے، وہاں لوگ پانی پلانےکا کام کر رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: ’’اپنے کام میں مصروف رہو، تم اچھا کام کر رہے ہو۔‘‘ پھر فرمایا: ’’اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم مغلوب ہوجاؤ گے تو یقیناً میں سواری سے اتر کر رسی اپنے یہاں (کندھےپر) رکھ لیتا۔‘‘ آپ نے اپنے کندھے کی طرف اشارہ کیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) قریش نے بیت اللہ سے متعلقہ خدمات کو تقسیم کر رکھا تھا: پانی پلانے کا انتظام، کھانا کھلانے کا اہتمام، صفائی اور روشنی وغیرہ کا بندوبست، اسی طرح کلید برداری اور نگرانی وغیرہ۔ یہ خدمات مختلف لوگوں کے سپرد تھیں۔ ان میں سے حجاج کرام کو پانی پلانے کا انتظام عبدالمطلب کے بیٹے حضرت عباس ؓ کے ذمے تھا۔ رسول الله ﷺ نے دور جاہلیت کے اس نظام کو برقرار رکھا اور چاہِ زمزم کا اہتمام حضرت عباس ؓ ہی کے پاس رہنے دیا۔ وہ زمزم کے پانی میں کشمش بھگوتے اور نبیذ بنا کر حجاج کو پلاتے۔ زمزم کا خالص پانی بھی پلایا جاتا۔ (2) حج کے دنوں میں ذوالحجہ کی گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں رات منیٰ میں گزارنی ہوتی ہے، اس لیے حضرت عباس ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ مجھے اور میری اولاد کو منیٰ میں رات گزارنے کی پابندی سے مستثنیٰ قرار دیا جائے کیونکہ ہم نے حجاج کرام کو پانی پلانے کے انتظامات کرنے ہوتے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے انہیں اجازت دی کہ تم یہ راتیں مکہ میں گزار سکتے ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی معقول عذر کی وجہ سے یہ راتیں منیٰ سے باہر گزارنے کی اجازت ہے۔ امام بخاری ؒ کی پیش کردہ دوسری حدیث میں اس نظام سقایہ کی مزید تفصیل ہے۔ طبری کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب بیت اللہ کا طواف کر کے زمزم کا پانی نوش کرنے کے لیے چاہ زمزم پر آئے اور حضرت عباس ؓ سے پانی طلب کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ پانی تو گدلا ہے۔ ہم آپ کو اپنے گھر سے پانی لا کر پلاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: مجھے اسی پانی سے پلاؤ۔ جب آپ کو وہ پانی دیا گیا تو اس میں کشمش کے اثرات کچھ زیادہ تھے اور اس میں ترشی پیدا ہو چکی تھی۔ آپ نے اس میں خالص پانی ملا کر اس کی ترشی کو کم کیا اور اسے نوش فرمایا۔ (عمدةالقاري:215/7) (3) بکر بن عبداللہ مزنی کہتے ہیں کہ میں کعبے کے پاس حضرت ابن عباس ؓ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ ایک اعرابی آیا اور ان سے کہنے لگا کہ تمہارے چچا زاد بھائیوں نے دودھ اور شہد کی سبیلیں لگا رکھی ہیں، تم صرف نبیذ پلا رہے ہو، ایسا غربت کی وجہ سے ہے یا بخل دامن گیر ہے؟ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: ہمارے ہاں بھوک ہے نہ بخل، اصل بات یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو ہم نے نبیذ پلایا تھا اور آپ نے ہماری تحسین فرمائی تھی اور اسے جاری رکھنے کی تلقین کی تھی، اس لیے ہم تو آپ ﷺ کے حکم کے مطابق اسی عمل کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:3179(1316))
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق بن شاہین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد طحان نے خالد حذاء سے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے، ان سے ابن عباس ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ پانی پلانے کی جگہ ( زمزم کے پاس ) تشریف لائے اور پانی مانگا ( حج کے موقع پر ) عباس ؓ نے کہا کہ فضل ! اپنی ماں کے یہاں جا اور ان کے یہاں سے کھجور کا شربت لا۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے ( یہی ) پانی پلاو۔ عباس ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! ہر شخص اپنا ہاتھ اس میں ڈال دیتا ہے۔ اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ یہی کہتے رہے کہ مجھے ( یہی ) پانی پلاو۔ چنانچہ آپ نے پانی پیاپھر زمزم کے قریب آئے۔ لوگ کنویں سے پانی کھینچ رہے تھے اور کام کررہے تھے۔ آپ نے ( انہیں دیکھ کر ) فرمایا کام کرتے جاؤ کہ ایک اچھے کام پر لگے ہوئے ہو۔ پھر فرمایا ( اگر یہ خیال نہ ہو تاکہ آئندہ لوگ ) تمہیں پریشان کردیں گے تو میں بھی اترتا اور رسی اپنے اس پر رکھ لیتا۔ مراد آپ کی شانہ سے تھی۔ آپ نے اس کی طرف اشارہ کرکے کہا تھا۔
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ اگر میں اتر کر خود پانی کھینچوں گا تو صدہا آدمی مجھ کو دیکھ کر پانی کھینچنے کے لیے دوڑ پڑیں گے اور تم کو تکلیف ہوگی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA): Allah's Apostle (ﷺ) came to the drinking place and asked for water. Al-Abbas said, "O Fadl! Go to your mother and bring water from her for Allah's Apostle (ﷺ) ." Allah's Apostle (ﷺ) said, "Give me water to drink." Al-Abbas said, "O Allahs Apostle (ﷺ) ! The people put their hands in it." Allah's Apostle (ﷺ) again said, 'Give me water to drink. So, he drank from that water and then went to the Zam-zam (well) and there the people were offering water to the others and working at it (drawing water from the well). The Prophet (ﷺ) then said to them, "Carry on! You are doing a good deed." Then he said, "Were I not afraid that other people would compete with you (in drawing water from Zam-zam), I would certainly take the rope and put it over this (i.e. his shoulder) (to draw water)." On saying that the Prophet (ﷺ) pointed to his shoulder. ________