Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: Tawaf of Al-Qarin)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1638.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ہم حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ کے ہمرا ہ نکلے اور عمرے کا احرام باندھا۔ پھر آپ نے فرمایا : ’’جس کے پاس قربانی ہے وہ حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھے، پھر وہ احرام کی پابندی سے آزاد نہیں ہو گا تاآنکہ وہ انھیں پورا کرے۔‘‘ میں جب مکہ مکرمہ آئی تو حالت حیض میں تھی۔ جب ہم نے حج مکمل کر لیا تو آپ نے مجھے عبد الرحمٰن ؓ کے ہمراہ تنعیم بھیجا۔ وہاں سے میں نے عمرہ مکمل کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ تمھارے پہلے عمرے کا بدل ہے۔‘‘ جن لوگوں نے عمرے کا احرام باندھا تھا انھوں نے طواف کیا اور احرام کی پابندی سے آزاد ہو گئے، پھر انھوں نے منیٰ سے واپس آنے کے بعد ایک اور طواف کیا۔ اور جن لوگوں نے حج اور عمرہ دونوں کا اکٹھا احرام باندھا تھا انھوں نے صرف ایک ہی طواف کیا۔
تشریح:
امام بخاری ؒ نے "طواف القارن" کے الفاظ سے عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں انہوں نے جزم اور وثوق کے ساتھ فیصلہ نہیں کیا کہ قارن کو دو طواف اور دو سعی کرنے چاہئیں یا ایک طواف اور ایک سعی ہی کافی ہے، البتہ اس سلسلے میں جن احادیث کا انتخاب کیا ہے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ قارن کے لیے ایک طواف اور ایک سعی کافی خیال کرتے ہیں، چنانچہ اس حدیث کے آخر میں صراحت ہے کہ جن لوگوں نے حج اور عمرہ دونوں کا اکٹھا احرام باندھا تھا انہوں نے صرف ایک طواف کیا۔ اس سلسلے میں حضرت علی ؓ سے ایک روایت پیش کی جاتی ہے کہ انہوں نے حج اور عمرے کو جمع کیا تو ان کے لیے دو طواف اور دو سعی کیں، پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے، لیکن اس روایت کے تمام طرق ضعیف اور ناقابل حجت ہیں۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ایک حدیث پیش کی جاتی ہے، اس کی سند صحیح نہیں، نیز حضرت ابن عمر ؓ سے مروی حدیث میں حسن بن عمارہ راوی متروک ہے۔ (فتح الباري:625/3) حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ؓ نے صفا اور مروہ کے درمیان صرف ایک ہی طواف (سعی) کیا۔ (مسندأحمد:317/3) اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قارن کے لیے حج اور عمرہ دونوں کا ایک ہی طواف اور ایک ہی سعی کافی ہے۔ مسند امام احمد میں حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ انہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تمہیں حج اور عمرے کے لیے ایک ہی طواف کافی ہو جائے گا۔‘‘ (مسندأحمد:124/6)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1594
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1638
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1638
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1638
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ حج کی تین اقسام ہیں: (1) حج افراد (2) حج قران (3) حج تمتع۔ حض قران میں حج اور عمرہ دونوں کی نیت کی جاتی ہے۔ مکہ پہنچنے کے بعد عمرہ کر کے احرام نہیں کھولا جاتا بلکہ حج مکمل کر کے احرام اتارا جاتا ہے۔ حج قران کرنے والے پر قربانی واجب ہے۔ اگر قربانی کی طاقت نہ ہو تو دس دن کے روزے رکھے جائیں۔ حج قران کی نیت ہو تو قربانی ساتھ لے جانا مسنون ہے۔ اس میں تین طواف ہوتے ہیں: طواف قدوم، طواف افاضہ اور طواف وداع اور دو سعی، یعنی عمرہ اور حج کی الگ الگ سعی کرنا ہوتی ہے۔ لیکن اگر کوئی عمرے کا طواف اور سعی کیے بغیر سیدھا منیٰ چلا جائے اور ایک طواف اور ایک سعی کر کے احرام کھول دے تو بھی جائز ہے، البتہ احناف کا کہنا ہے کہ اس میں دو طواف اور دو سعی کرنی ضروری ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان میں اسی اختلاف کے متعلق اپنا رجحان بیان کیا ہے اور احادیث سے ثابت کیا ہے کہ حج قران کرنے والے کے لیے ایک طواف اور ایک سعی بھی کافی ہے۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ہم حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ کے ہمرا ہ نکلے اور عمرے کا احرام باندھا۔ پھر آپ نے فرمایا : ’’جس کے پاس قربانی ہے وہ حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھے، پھر وہ احرام کی پابندی سے آزاد نہیں ہو گا تاآنکہ وہ انھیں پورا کرے۔‘‘ میں جب مکہ مکرمہ آئی تو حالت حیض میں تھی۔ جب ہم نے حج مکمل کر لیا تو آپ نے مجھے عبد الرحمٰن ؓ کے ہمراہ تنعیم بھیجا۔ وہاں سے میں نے عمرہ مکمل کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ تمھارے پہلے عمرے کا بدل ہے۔‘‘ جن لوگوں نے عمرے کا احرام باندھا تھا انھوں نے طواف کیا اور احرام کی پابندی سے آزاد ہو گئے، پھر انھوں نے منیٰ سے واپس آنے کے بعد ایک اور طواف کیا۔ اور جن لوگوں نے حج اور عمرہ دونوں کا اکٹھا احرام باندھا تھا انھوں نے صرف ایک ہی طواف کیا۔
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے "طواف القارن" کے الفاظ سے عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں انہوں نے جزم اور وثوق کے ساتھ فیصلہ نہیں کیا کہ قارن کو دو طواف اور دو سعی کرنے چاہئیں یا ایک طواف اور ایک سعی ہی کافی ہے، البتہ اس سلسلے میں جن احادیث کا انتخاب کیا ہے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ قارن کے لیے ایک طواف اور ایک سعی کافی خیال کرتے ہیں، چنانچہ اس حدیث کے آخر میں صراحت ہے کہ جن لوگوں نے حج اور عمرہ دونوں کا اکٹھا احرام باندھا تھا انہوں نے صرف ایک طواف کیا۔ اس سلسلے میں حضرت علی ؓ سے ایک روایت پیش کی جاتی ہے کہ انہوں نے حج اور عمرے کو جمع کیا تو ان کے لیے دو طواف اور دو سعی کیں، پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے، لیکن اس روایت کے تمام طرق ضعیف اور ناقابل حجت ہیں۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ایک حدیث پیش کی جاتی ہے، اس کی سند صحیح نہیں، نیز حضرت ابن عمر ؓ سے مروی حدیث میں حسن بن عمارہ راوی متروک ہے۔ (فتح الباري:625/3) حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ؓ نے صفا اور مروہ کے درمیان صرف ایک ہی طواف (سعی) کیا۔ (مسندأحمد:317/3) اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قارن کے لیے حج اور عمرہ دونوں کا ایک ہی طواف اور ایک ہی سعی کافی ہے۔ مسند امام احمد میں حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ انہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تمہیں حج اور عمرے کے لیے ایک ہی طواف کافی ہو جائے گا۔‘‘ (مسندأحمد:124/6)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک ؓ نے ابن شہاب سے خبردی، انہیں عروہ نے اور ان سے عائشہ ؓ نے کہا کہ حجتہ الوداع میں ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ( مدینہ سے ) نکلے اور ہم نے عمرہ کا احرام باندھا۔ پھر آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ جس کے ساتھ قربانی کا جانور ہو وہ حج اور عمرہ دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھے۔ ایسے لوگ دونوں کے احرام سے ایک ساتھ حلال ہوں گے۔ میں بھی مکہ آئی تھی لیکن مجھے حیض آگیا تھا۔ اس لیے جب ہم نے حج کے کام پورے کرلیے تو آنحضور ﷺ نے مجھے عبدالرحمن کے ساتھ تنعیم کی طرف بھیجا۔ میں نے وہاں سے عمرہ کا احرام باندھا۔ آنحضور ﷺ نے فرمایا یہ تمہارے اس عمرہ کے بدلہ میں ہے ( جسے تم نے حیض کی وجہ سے چھوڑ دیا تھا ) جن لوگوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا انہوں نے سعی کے بعد احرام کھول دیا اور دوسرا طواف منٰی سے واپسی پر کیا لیکن جن لوگوں نے حج اور عمرہ کا احرام ایک ساتھ باندھا تھا انہوں نے صرف ایک طواف کیا۔
حدیث حاشیہ:
تنعیم ایک مشہور مقام ہے جو مکہ سے تین میل دور ہے۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کی تطییب خاطر کے لیے وہاں بھیج کر عمرہ کا احرام باندھنے کے لیے فرمایا تھا۔ آخر حدیث میں ذکر ہے کہ جن لوگوں نے حج اور عمرہ کا ایک ہی احرام باندھا تھا۔ انہوں نے بھی ایک ہی طواف کیا اور ایک ہی سعی کی۔ جمہور علماء اور اہلحدیث کا یہی قول ہے کہ قارن کے لیے ایک ہی طواف اور ایک ہی سعی حج اور عمرہ دونوں کی طرف سے کافی ہے اورحضرت امام ابوحنیفہ ؓ نے دو طواف اور دو سعی لازم رکھے ہیں اور جن روایتوں سے دلیل لی ہے، وہ سب ضعیف ہیں ( وحیدی )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): We set out with Allah's Apostle (ﷺ) in the year of his Last Hajj and we mended (the Ihram) for 'Umra. Then the Prophet (ﷺ) said, "Whoever has a Hadi with him should assume Ihram for both Hajj and 'Umra, and should not finish it till he performs both of the them (Hajj and 'Umra)." When we reached Makkah, I had my menses. When we had performed our Hajj, the Prophet (ﷺ) sent me with 'Abdur-Rahman to Tan'im and I performed the 'Umra. The Prophet (ﷺ) said, "This is in lieu of your missed 'Umra." Those who had assumed Ihram for 'Umra performed Tawaf (between Safa and Marwa) and then finished their Ihram. And then they performed another Tawaf (between Safa and Marwa) after returning from Mina. And those who had assumed lhram for Hajj and 'Umra to get her ( Hajj-Qiran) performed only one Tawaf (between Safa and Marwa). ________