Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: Sa'i between As-Safa and Al-Marwa)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابن عمرؓنے فرمایا کہ بنی عباد کے گھروں سے لے کر بنی ابی حسین کی گلی تک دوڑ کر چلے (باقی راہ میں معمولی چال سے)۔
1647.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ مکہ مکرمہ تشریف لائے، بیت اللہ کا طواف کیا، پھر(طواف کی) دو رکعتیں پڑھیں، اس کے بعد صفا ومروہ کے درمیان سعی کی۔ بعد ازاں حضرت ابن عمر ؓ نے یہ آیت تلاوت کی: ’’یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ( ﷺ کی ذات گرامی) میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘
تشریح:
(1) ان روایات کا مدلول یہ ہے کہ عمرے کے لیے تین کاموں کا اہتمام ضروری ہے: ٭ بیت اللہ کا طواف جس میں پہلے تین چکر دوڑ کر باقی چار معمول کی رفتار سے پورے کیے جائیں۔ ٭ طواف کے بعد مقام ابراہیم کے پیچھے یا اس کے آس پاس دو رکعت پڑھی جائیں۔ ٭ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی جائے۔ سبز بتیوں (Tube Lights) کے درمیان ذرا تیز دوڑنا چاہیے۔ ان تینوں کاموں کو مکمل کر کے احرام کھولا جائے۔ (2) واضح رہے کہ صفا اور مروہ تک ایک چکر، پھر مروہ سے صفا تک دوسرا چکر پورا ہو جائے گا، اس طرح سات چکر لگائے جائیں۔ اس کا آغاز صفا سے اور اختتام مروہ پر ہو گا۔ صفا کی طرف سے بیت اللہ نظر آتا ہے لیکن مروہ کی طرف سے بیت اللہ نظر نہیں آتا کیونکہ مروہ اور بیت اللہ کے درمیان مسجد حرام کی عمارت آ چکی ہے۔ (3) اگر طواف اور سعی کرتے وقت جماعت کھڑی ہو جائے تو فورا نماز میں شامل ہو جانا چاہیے۔ نماز سے فراغت کے بعد طواف اور سعی کو مکمل کر لیا جائے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1601
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1647
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1647
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1647
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
اس اثر کو فاکہی نے متصل سند سے بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: "حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ صفا سے اترے، جب بنو عباد کے دروازے کے سامنے آئے تو ذرا تیز چلے اور بنو ابی الحسین کی گلی تک اسی طرح چلتے رہے۔" اب وہاں دو سبز لائٹیں لگی ہیں۔ ان کے درمیان ذرا تیز رفتار کے ساتھ اور اس کے بعد عام رفتار سے چلنا ہوتا ہے۔ حضرت ہاجرہ پانی کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑتی تھیں، صفا اور مروہ کے درمیان سعی ام اسماعیل کی یادگار ہے۔ (فتح الباری: 3/634)
اور ابن عمرؓنے فرمایا کہ بنی عباد کے گھروں سے لے کر بنی ابی حسین کی گلی تک دوڑ کر چلے (باقی راہ میں معمولی چال سے)۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ مکہ مکرمہ تشریف لائے، بیت اللہ کا طواف کیا، پھر(طواف کی) دو رکعتیں پڑھیں، اس کے بعد صفا ومروہ کے درمیان سعی کی۔ بعد ازاں حضرت ابن عمر ؓ نے یہ آیت تلاوت کی: ’’یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ( ﷺ کی ذات گرامی) میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) ان روایات کا مدلول یہ ہے کہ عمرے کے لیے تین کاموں کا اہتمام ضروری ہے: ٭ بیت اللہ کا طواف جس میں پہلے تین چکر دوڑ کر باقی چار معمول کی رفتار سے پورے کیے جائیں۔ ٭ طواف کے بعد مقام ابراہیم کے پیچھے یا اس کے آس پاس دو رکعت پڑھی جائیں۔ ٭ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی جائے۔ سبز بتیوں (Tube Lights) کے درمیان ذرا تیز دوڑنا چاہیے۔ ان تینوں کاموں کو مکمل کر کے احرام کھولا جائے۔ (2) واضح رہے کہ صفا اور مروہ تک ایک چکر، پھر مروہ سے صفا تک دوسرا چکر پورا ہو جائے گا، اس طرح سات چکر لگائے جائیں۔ اس کا آغاز صفا سے اور اختتام مروہ پر ہو گا۔ صفا کی طرف سے بیت اللہ نظر آتا ہے لیکن مروہ کی طرف سے بیت اللہ نظر نہیں آتا کیونکہ مروہ اور بیت اللہ کے درمیان مسجد حرام کی عمارت آ چکی ہے۔ (3) اگر طواف اور سعی کرتے وقت جماعت کھڑی ہو جائے تو فورا نماز میں شامل ہو جانا چاہیے۔ نماز سے فراغت کے بعد طواف اور سعی کو مکمل کر لیا جائے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عمرؓفرماتے ہیں کہ سعی بنو عباد کے گھروں سے بنو ابی حسین کی گلی تک ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیاکہ مجھے عمروبن دینار نے خبردی، کہا کہ میں نے عبداللہ بن عمر ؓ سے سنا، آپ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ جب مکہ تشریف لائے تو آپ نے بیت اللہ کا طواف کیا اور دورکعت نماز پڑھی پھر صفا اور مروہ کی سعی کی۔ اس کے بعد عبداللہ ؓ نے یہ آیت اللہ تلاو ت کی ”تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Amr bin Dinar (RA): I heard Ibn 'Umar (RA) saying, "The Prophet (ﷺ) arrived at Makkah and performed Tawaf of the Ka’bah and then offered a two-Rakat prayer and then performed Tawaf between Safa and Marwa." Ibn 'Umar (RA) then recited (the verse): "Verily! In Allah's Apostle (ﷺ) you have a good example. " ________