Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: As-Salat at Mina)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1657.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں منیٰ میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ دو رکعتیں پڑھیں، حضرت ابو بکر ؓ کے ساتھ دو ہی رکعتیں ادا کیں، پھر حضرت عمرفاروق ؓ کے ساتھ بھی دو رکعتیں پڑھیں۔ پھر تمہارے طریقے مختلف ہوگئے۔ کاش!چار رکعات کے بجائے مجھے ایسی دو رکعتیں ہی نصیب ہوجائیں جنھیں اللہ کے ہاں شرف پذیرائی حاصل ہو۔
تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت عثمان ؓ نے منیٰ میں نماز پوری پڑھنا شروع کی تو کسی نے حضرت ابن مسعود ؓ کے پاس اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے إنا لله وإنا إليه راجعون پڑھا اور مذکورہ وضاحت فرمائی۔ (صحیح البخاري، التقصیر، حدیث:1084) ایک روایت میں ہے کہ سائل نے ان سے کہا: آپ ان کی اقتدا میں چار کیوں ادا کرتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ فتنے اور اختلاف سے بچنے کی خاطر ایسا کرتا ہوں، مبادا میری وجہ سے کوئی فساد پیدا ہو جائے۔ اس کے باوجود آپ ڈرتے تھے کہ خلافِ سنت ہونے کی وجہ سے شاید یہ عمل کبھی اللہ کے ہاں قبول نہ ہو۔ کاش! ان چار رکعات میں سے میری دو ہی قبول ہو جائیں۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: آپ نے اپنا عمل اللہ کے حوالے فرمایا کیونکہ آپ کو غیب پر اطلاع نہ تھی، اس لیے تمنا فرمائی کہ کاش! اللہ تعالیٰ میری ان چار رکعات میں سے دو ہی کو قبول کرے، زائد دو رکعات قبول نہ کرے۔ (فتح الباري:643/3) (2) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فروعی اختلاف کی وجہ سے امام کی متابعت اور اقتدا ترک کر دینا دانشمندی نہیں، چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے کہا گیا کہ آپ حضرت عثمان ؓ کی حرف گیری کرتے ہیں اور ان کے پیچھے چار رکعات پڑھتے ہیں؟ اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ میرے نزدیک ایسے مسائل میں اختلاف کی وجہ سے پیچھے رہنا شر کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہے۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:1960) امام ابوداود ؒ نے حضرت عثمان ؓ کے متعلق چند وجوہات ذکر کی ہیں جن کی بنا پر وہ منیٰ میں حج کے دوران نماز پوری پڑھتے تھے۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:1964،1963،1961) ہم ان وجوہات کی تفصیل اور ان کے جوابات کتاب تقصیر الصلاة میں بیان کر آئے ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1611
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1657
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1657
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1657
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
اس باب کا مطلب یہ ہے کہ حجاج کرام کو منیٰ میں نماز قصر پڑھنی چاہیے یا پوری؟ اگر قصر پڑھنی ہے تو سفر کی وجہ سے ہے یا مناسک حج کی وجہ سے؟ اگر سفر کی وجہ سے ہے تو مکہ اور اس کے گردونواح کے لوگوں کو نماز پوری پڑھنی ہو گی۔ اگر مناسک حج کی وجہ سے ہے تو اہل مکہ اور اس کے آس پاس سے آنے والے حجاج کرام بھی قصر پڑھیں گے۔ ہمارے نزدیک یہ مناسک حج سے ہے۔ منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں حج کے دوران میں نماز قصر ہی پڑھی جائے گی۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں منیٰ میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ دو رکعتیں پڑھیں، حضرت ابو بکر ؓ کے ساتھ دو ہی رکعتیں ادا کیں، پھر حضرت عمرفاروق ؓ کے ساتھ بھی دو رکعتیں پڑھیں۔ پھر تمہارے طریقے مختلف ہوگئے۔ کاش!چار رکعات کے بجائے مجھے ایسی دو رکعتیں ہی نصیب ہوجائیں جنھیں اللہ کے ہاں شرف پذیرائی حاصل ہو۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت عثمان ؓ نے منیٰ میں نماز پوری پڑھنا شروع کی تو کسی نے حضرت ابن مسعود ؓ کے پاس اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے إنا لله وإنا إليه راجعون پڑھا اور مذکورہ وضاحت فرمائی۔ (صحیح البخاري، التقصیر، حدیث:1084) ایک روایت میں ہے کہ سائل نے ان سے کہا: آپ ان کی اقتدا میں چار کیوں ادا کرتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ فتنے اور اختلاف سے بچنے کی خاطر ایسا کرتا ہوں، مبادا میری وجہ سے کوئی فساد پیدا ہو جائے۔ اس کے باوجود آپ ڈرتے تھے کہ خلافِ سنت ہونے کی وجہ سے شاید یہ عمل کبھی اللہ کے ہاں قبول نہ ہو۔ کاش! ان چار رکعات میں سے میری دو ہی قبول ہو جائیں۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: آپ نے اپنا عمل اللہ کے حوالے فرمایا کیونکہ آپ کو غیب پر اطلاع نہ تھی، اس لیے تمنا فرمائی کہ کاش! اللہ تعالیٰ میری ان چار رکعات میں سے دو ہی کو قبول کرے، زائد دو رکعات قبول نہ کرے۔ (فتح الباري:643/3) (2) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فروعی اختلاف کی وجہ سے امام کی متابعت اور اقتدا ترک کر دینا دانشمندی نہیں، چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے کہا گیا کہ آپ حضرت عثمان ؓ کی حرف گیری کرتے ہیں اور ان کے پیچھے چار رکعات پڑھتے ہیں؟ اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ میرے نزدیک ایسے مسائل میں اختلاف کی وجہ سے پیچھے رہنا شر کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہے۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:1960) امام ابوداود ؒ نے حضرت عثمان ؓ کے متعلق چند وجوہات ذکر کی ہیں جن کی بنا پر وہ منیٰ میں حج کے دوران نماز پوری پڑھتے تھے۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:1964،1963،1961) ہم ان وجوہات کی تفصیل اور ان کے جوابات کتاب تقصیر الصلاة میں بیان کر آئے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے عبدالرحمن بن یزید نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیاکہ میں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ منیٰ میں دو رکعت نماز پڑھی اور ابوبکر ؓ کے ساتھ بھی دو ہی رکعت پڑھی اور عمر ؓ کے ساتھ بھی دو ہی رکعت، لیکن پھر ان کے بعد تم میں اختلاف ہوگیا تو کاش ان چار رکعتوں کے بدلے مجھ کو دو رکعات ہی نصیب ہوتیں جو (اللہ کے ہاں ) قبول ہو جائیں۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے بطور اظہار ناراضگی فرمایا کہ کاش میری دو رکعات ہی اللہ کے ہاں قبول ہو جائیں۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کے فروعی اور اجتہادی اختلاف کی بنا پر کسی کو بھی مورد طعن نہیں بنایا جاسکتا۔ حضرت عثمان ؓ کے سامنے کچھ مصالح ہوں گے جن کی بنا پر انہوں نے ایسا کیا ورنہ شروع خلافت میں وہ بھی قصر ہی کیا کرتے تھے۔ قصر کرنا بہرحال اولی ہے کہ یہ رسول کریم ﷺ کی سنت ہے، آپ کی سنت ہر حال میں مقدم ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے ارشاد کے:فَيَا لَيْتَ حَظِّي مِنْ أَرْبَعٍ رَكْعَتَانِ مُتَقَبَّلَتَانِ کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:والذي يظهر أنه قال ذلك على سبيل التفويض إلى الله لعدم اطلاعه على الغيب وهل يقبل الله صلاته أم لا فتمنى أن يقبل منه من الأربع التي يصليها ركعتان ولو لم يقبل الزائد وهو يشعر بأن المسافر عنده مخير بين القصر والإتمام والركعتان لا بد منهما ومع ذلك فكان يخاف أن لا يقبل منه شيء فحاصله أنه قال إنما أتم متابعة لعثمان وليت الله قبل مني ركعتين من الأربع۔یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے جو فرمایا یہ آپ نے اپنا عمل اللہ کو سونپا اس لیے کہ آپ کو غیب پر اطلاع نہ تھی کہ اللہ پاک آپ کی نماز قبول کرتا ہے یا نہیں، اس لیے تمنا فرمائی کہ کاش اللہ میری چار کعات میں سے دو رکعات کو قبول فرمالے اگرچہ وہ زائد رکعات کوقبول نہ فرمائے اور یہ اس لیے بھی کہ مسافر کو نماز پوری کرنے اورقصر کرنے کا آپ کے نزدیک اختیار تھا۔ اور دورکعات کے بغیر تو گزارہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود وہ ڈرتے تھے کہ شاید کچھ بھی قبول نہ ہو، پس حاصل بحث یہ ہے کہ آپ نے حضرت عثمان ؓ کی متابعت میں نماز کو پورا فرمایا اور یہ کہا کہ کاش اللہ پاک ان چار رکعات میں سے میری دو رکعات ہی کو قبول فرما لے۔ اللہ والوں کی یہی شان ہے کہ وہ کچھ بھی نیکی کریں، کتنے ہی تقوی شعار ہوں مگر پھر بھی ان کو یہی خطرہ لاحق رہتا ہے کہ ان کی نیکیاں دربار الٰہی میں قبول ہوتی ہیں یا رد ہو جاتی ہیں۔ ایسے اللہ والے آج کل عنقاءہیں جب کہ اکثریت ریاکاروں بظاہر تقویٰ شعاروں و بباطن دنیا داروں کی رہ گئی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Masud (RA): I offered (only a) two Rakat prayer with the Prophet (ﷺ) (at Mina), and similarly with Abu Bakr (RA) and with 'Umar, and then you d offered in opinions. Wish that I would be lucky enough to have two of the four Rakat accepted (by Allah).