Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: Fasting on the Day of 'Arafa (at 'Arafat))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1658.
حضرت ام فضل ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ عرفہ کے دن لوگوں کو نبی کریم ﷺ کے روزے کے متعلق شک ہوا تو میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک مشروب بھیجا۔ آپ نے اسے نوش جاں فرمایا۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر انہی الفاظ کے ساتھ کتاب الصوم میں عنوان قائم کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الصوم، حدیث:1988) (2) ایک روایت میں تفصیل ہے کہ حضرت ام فضل ؓ کے پاس لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے روزے کے متعلق اختلاف کیا، کچھ کہنے لگے کہ آج آپ نے روزہ رکھا ہوا ہے اور کچھ کا خیال تھا کہ آپ روزے سے نہیں ہیں۔ حضرت ام فضل ؓ نے حقیقت معلوم کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں دودھ کا پیالہ بھیجا تو آپ نے اونٹ پر بیٹھے بیٹھے اسے پی لیا۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1661) (3) صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ عرفہ کے دن روزہ رکھنے سے دو سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2746(1162)) تاہم حاجی کے لیے بہتر ہے کہ وہ عرفہ کے دن روزہ نہ رکھے۔ (4) ابن بطال نے کہا ہے کہ عرفہ کے دن روزے کے متعلق علمائے امت کا اختلاف ہے: حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ، حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان ؓ نے یہ روزہ نہیں رکھا اور میں بھی نہیں رکھتا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا کہ جو شخص عرفہ کا روزہ رکھنا چاہے وہ ہمارا ساتھی نہ بنے کیونکہ یہ دن اللہ کی کبریائی بیان کرنے اور کھانے پینے کا ہے۔ حضرت عطاء نے کہا کہ جو شخص عرفہ کا روزہ نہ رکھے تاکہ حج کے اعمال ادا کرنے میں اور اذکار وغیرہ کی ادائیگی میں کمزوری نہ ہو اسے روزے دار جیسا ثواب ملتا ہے۔ حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ جب دعا کرنے میں کمزوری نہ ہو تو یوم عرفہ کا روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ حج کرنے والا روزہ نہ رکھے، البتہ دوسروں کے لیے میں یہ پسند کرتا ہوں کہ وہ روزہ رکھیں۔ (عمدةالقاري:248/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1612
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1658
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1658
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1658
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت ام فضل ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ عرفہ کے دن لوگوں کو نبی کریم ﷺ کے روزے کے متعلق شک ہوا تو میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک مشروب بھیجا۔ آپ نے اسے نوش جاں فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر انہی الفاظ کے ساتھ کتاب الصوم میں عنوان قائم کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الصوم، حدیث:1988) (2) ایک روایت میں تفصیل ہے کہ حضرت ام فضل ؓ کے پاس لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے روزے کے متعلق اختلاف کیا، کچھ کہنے لگے کہ آج آپ نے روزہ رکھا ہوا ہے اور کچھ کا خیال تھا کہ آپ روزے سے نہیں ہیں۔ حضرت ام فضل ؓ نے حقیقت معلوم کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں دودھ کا پیالہ بھیجا تو آپ نے اونٹ پر بیٹھے بیٹھے اسے پی لیا۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1661) (3) صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ عرفہ کے دن روزہ رکھنے سے دو سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2746(1162)) تاہم حاجی کے لیے بہتر ہے کہ وہ عرفہ کے دن روزہ نہ رکھے۔ (4) ابن بطال نے کہا ہے کہ عرفہ کے دن روزے کے متعلق علمائے امت کا اختلاف ہے: حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ، حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان ؓ نے یہ روزہ نہیں رکھا اور میں بھی نہیں رکھتا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا کہ جو شخص عرفہ کا روزہ رکھنا چاہے وہ ہمارا ساتھی نہ بنے کیونکہ یہ دن اللہ کی کبریائی بیان کرنے اور کھانے پینے کا ہے۔ حضرت عطاء نے کہا کہ جو شخص عرفہ کا روزہ نہ رکھے تاکہ حج کے اعمال ادا کرنے میں اور اذکار وغیرہ کی ادائیگی میں کمزوری نہ ہو اسے روزے دار جیسا ثواب ملتا ہے۔ حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ جب دعا کرنے میں کمزوری نہ ہو تو یوم عرفہ کا روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ حج کرنے والا روزہ نہ رکھے، البتہ دوسروں کے لیے میں یہ پسند کرتا ہوں کہ وہ روزہ رکھیں۔ (عمدةالقاري:248/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے زہری سے بیان کیا اور ان سے سالم ابوالنصر نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ام فضل کے غلام عمیر سے سنا، انہوں نے ام فضل ؓ سے کہ عرفہ کے دن لوگوں کو رسول اللہ ﷺ کے روزے کے متعلق شک ہوا، اس لیے میں نے آپ کے پینے کو کچھ بھیجا جسے آپ نے پی لیا۔
حدیث حاشیہ:
عرفہ کا روزہ بہت ہی بڑا وسیله ثواب ہے دوسری احادیث میں اس کے فضائل مذکور ہیں۔ حدیث مذکور ام الفضل کے ذیل شیخ الحدیث حضرت مولانا عبید اللہ مبارکپوری مدظلہ فرماتے ہیں:قال الحافظ: قوله "في صيام رسول الله - صلى الله عليه وسلم - " هذا يشعر بأن صوم يوم عرفة كان معروفاً عندهم معتاداً لهم في الحضر، وكان من جزم بأنه صائم استند إلى ما ألفه من العبادة، ومن جزم بأنه غير صائم قامت عنده قرينة كونه مسافر أو قد عرف نهيه عن صوم الفرض في السفر فضلاً عن النفل۔(مرعاة)لوگوںمیں رسول کریم ﷺ کے روزہ کے متعلق اختلاف ہوا۔ اس سے ظاہر ہے کہ یوم عرفہ کا روزہ ان دنوں ان کے ہاں معروف تھا اور حضر میں اسے بطور عادت سب رکھا کرتے تھے، اس لیے جن لوگوں کو آپ کے روزہ دار ہونے کا یقین ہوا وہ اس بنا پر کہ وہ آنحضرت ﷺ کی عبادت گزاری کی الفت سے واقف تھے اور جن کو نہ رکھنے کا خیال ہوا وہ اس بنا پر کہ آپ مسافر تھے اور یہ بھی مشہور تھا کہ آپ نے سفر میں ایک دفعہ فرض روزہ ہی سے منع فرما دیا تھا تو نفل کا تو ذکر ہی کیا ہے۔ اس روایت میں دودھ بھیجنے والی حضرت ام الفضل بتلائی گئی ہیں مگر مسلم شریف کی روایت میں حضرت میمونہ کا ذکر ہے کہ دودھ انہوں نے بھیجا تھا۔ اس پر حضرت مولانا شیخ الحدیث مدظلہ فرماتے ہیں:فيحتمل التعدد، ويحتمل أنهما أرسلنا معاً، فنسب ذلك إلى كل منهما، لأنهما كانتا أختين، وتكون ميمونة أرسلت بسؤال أم الفضل لها في ذلك لكشف الحال في ذلك، ويحتمل العكس۔(مرعاة)یعنی احتمال ہے کہ دو نے الگ الگ دودھ بھیجا ہو اور یہ ہر ایک کی طرف منسوب ہو گیا اس لیے بھی کہ وہ دونوں بہن تھیں اور میمونہ نے اس وقت بھیجا ہو جب کہ ام الفضل نے ان سے تحقیق حال کا سوال کیا اور اس کا عکس بھی محتمل ہے۔ اور دودھ اس لیے بھیجا گیا کہ یہ غذا اور پانی ہر دو کا کام دیتا ہے، اسی لیے کھانا کھانے پر آپ ﷺ یہ دعا پڑھا کرتے تھے : اللهمَّ بارِكْ لي فيه ، وأَطعِمْني خيرًا منه(یا اللہ ! مجھ کو اس میں برکت بخش اور اس سے بھی بہتر کھلائیو) اور دودھ پی کر آپ ﷺ یہ دعا پڑھا کرتے تھے : اللهمَّ بارِكْ لي فيه ، وزِدْنا منهُ(یا اللہ ! مجھے اس میں برکت عطا فرما اور مجھے زیادہ نصیب فرمائیو۔) ابوقتادہ کی حدیث جسے مسلم نے روایت کیا ہے اس میں مذکور ہے کہ عرفہ کا روزہ اگلے اور پچھلے سالوں کے گناہ معاف کرا دیتا ہے۔ ہر دو احادیث میں یہ تطبیق دی گئی ہے کہ یہ روزہ عرفات میں حاجیوں کے لیے رکھنا منع ہے تاکہ ان میں وقوف عرفہ کے لیے ضعف پیدا نہ ہو جو حج کا اصل مقصد ہے اور غیر حاجیوں کے لیے یہ روزہ مستحب اور باعث ثواب مذکور ہے، وقال ابن قدامة(ص 176)أکثر أهل العلم یستحبون الفطر یوم عرفة بعرفة و کانت عائشة و ابن الزبیر یصومانه و قال قتادة لا بأس به إذا لم یضعف عن الدعاءالخ(مرعاة)یعنی اکثر اہل علم نے اسی کو مستحب قرار دیا ہے کہ عرفات میں یہ روزہ نہ رکھا جائے اور حضرت عائشہ ؓ اور ابن زبیر ؓ یہ روزہ وہاں بھی رکھا کرتے تھے، اور قتادہ نے کہا کہ اگر دعا میں کمزوری کا خطرہ نہ ہو تو پھر روزہ رکھنے میں حاجی کے لیے بھی کوئی حرج نہیں ہے، مگر افضل نہ رکھنا ہی ہے۔ حدیث ام فضل کو حضرت امام بخاری ؓ نے حج اور صیام اور اشربہ میں بھی ذکر فرما کر اس سے متعدد مسائل کو ثابت فرمایا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Um Al-Fadl (RA): The people doubted whether the Prophet (ﷺ) was observing the fast on the Day of 'Arafat, so I sent something for him to drink and he drank it.